جھوٹے ہیں سب چراغ

غریب کو ان امیروں کی لڑائیوں سے کیا لینا دینا، اسے کیا پتا پاناما کیا ہے، منی ٹریل کسے کہتے ہیں، اقامہ کیا ہوتا ہے

غریب کے حالات نہیں بدل رہے، یہ امیر لوگ آپس میں لڑ رہے ہیں، یہ لڑتے رہیں، غریب کا اس امیری لڑائی جھگڑے سے کیا تعلق، واسطہ۔ غریب کو یہ تک نہیں پتا کہ آج تاریخ کیا ہے، دن کون سا ہے، غریب و غربت کے سائے میں پیدا ہوتا ہے اور وہیں مر کھپ جاتا ہے۔ غریب کے دن رات سے یہ امیر لڑائی جھگڑے والے خوب واقف ہیں، مگر سب کچھ جانتے بوجھتے بھی یہ غریب کے لیے روٹی کا ایک نوالہ دینے پر تیار نہیں ہیں۔ یہ امیر اپنے لڑائی جھگڑے پر کروڑوں خرچ کردیتے ہیں۔ الیکشن ہو تو کروڑوں لگادیتے ہیں، مگر ان کو غریب کا ذرہ برابر احساس نہیں۔

میں سندھ میں رہتا ہوں، یہاں کے غریب کا حال ہی بیان کروںگا۔ اندرون سندھ چلے جائیں، گہرے نیلے اور زرد رنگ کے کپڑے، پیلے، کالے رنگ، کچے گھر، گھاس پھوس کے جھونپڑے، جانور اور غریب ایک ہی جوہڑ کا پانی پینے پر مجبور۔ یہ ہے غریب کا حال۔ اس کا ماضی بھی یہی تھا اور مستقبل بھی یہی ہوگا۔ پورے پاکستان میں غریب کا یہی حال ہے، پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان، غریب کا یہی حال ہے۔ بلوچستان سب سے زیادہ مظلوم صوبہ ہے۔ غریب بلوچ بھی یہ نہیں جانتا کہ وہ کون ہے؟ کیا ہے؟ اور کیوں ہے؟

بس وہ جئے جارہا ہے اور مرے جارہا ہے۔ ان حالات میں پاناما، لندن کے فلیٹ، حدیبیہ مل، بنی گالا، جمائما منی ٹریل، اقامے، امریکی صدر ٹرمپ کی دھمکیاں، ہمارے وزیروں کی امریکی حاضریاں، صفائی کے بیانات، مسئلہ کشمیر، سازشی انگریز کا جاتے جاتے کشمیر کا مسئلہ پیدا کرجانا، انگریزوں کے سامنے گردنیں جھکائے ایمان فروش، دین فروش طبقوں کا زمینوں پر قبضہ حاصل کرنا، پاکستان 70 سال سے اس دلدل میں پھنسا ہوا ہے، امیر لوگ اس دلدل سے نکلنا نہیں چاہتے، اسی دلدل سے امیر لوگوں کے وارے نیارے قائم ہیں۔ غریب سسک سسک کر مرتا ہے اور غریب کا سسکنا ہی امیروں کی راحت، چین اور اطمینان کا سامان ہے۔

مانسہرہ کا چودہ پندرہ سال کا لڑکا مجھے نہیں بھولتا، میں ایبٹ آباد گیا ہوا تھا، صبح اپنے ہوٹل سے ناشتے کے لیے باہر نکلا وہ پٹھان غریب لڑکا سڑک کنارے کھڑا تھا، میں موبائل پر اپنے گھر والوں سے کراچی بات کررہاتھا، وہ پٹھان لڑکا مجھے دیکھ رہا تھا، میں نے اس کی آنکھوں میں بہت سے سوالات پڑھ لیے۔ میں اس کے پاس گیا وہ اپنی مادری زبان پشتو میں بول سکتا تھا، غریب کی بھی اپنی زبان ہوتی ہے، یہ آنکھوں آنکھوں میں ہی بولی اور سمجھی جاتی ہے، میں نے اسے ساتھ لیا، سڑک کنارے گرم گرم پراٹھے بن رہے تھے، میں نے اس نوعمر جوان لڑکے کو اپنے ساتھ بٹھایا، اب ہم دونوں چائے پراٹھا کا ناشتہ کررہے تھے، ناشتے کے بعد اس نے میرے موبائل کی طرف اشارہ کرکے کچھ کہا، یقیناً موبائل فون اس کی پہنچ سے دور کی چیز تھا۔

مجھے سندھ کا وہ چھوٹا سا خوانچہ فروش بھی نہیں بھولتا، ہم بس میں سوار نواب شاہ جارہے تھے، بس کا ٹائر پنکچر ہوگیا، بس رک گئی، مسافر نیچے اتر آئے، میں بھی بس سے اتر گیا، سڑک کنارے ایک چھوٹا کھوکا تھا، سگریٹ، بسکٹ، سونف سپاری، بس یہی سامان خوانچہ فروش کے کھوکے میں پڑا تھا، میں نے اس سے پوچھا گزر بسر کیسے ہوتی ہے؟

اس نے کہا سائیں سب ٹھیک ہے، ہمارا وڈیرا شہر سے آتا ہے، ہم اسے سلام کرنے اس کی حویلی میں جاتے ہیں تو وہ پانچ سو کا نوٹ ہمارے سامنے فرش پر پھینک دیتا ہے، جسے ہم اس کے پاؤں چھوکر اٹھالیتے ہیں، میں نے پوچھا لڑکے لڑکیوں کے شادی بیاہ کیسے کرتے ہو؟ وہ بڑے اطمینان سے بولا سائیں ہمارا وڈیرا جو ہمارا پیر و مرشد بھی ہے یہ درگاہ اس کے بزرگوں کی ہے وہی ہمارے بچوں کی شادیاں کرتا ہے، میں دیکھ رہا تھا، سمجھ رہا تھا کہ اس سندھی غریب نے حالات وواقعات سے سمجھوتا سا کرلیا ہے، وہ اسی سمجھوتے کے تحت زندگی گزار رہا ہے۔

مجھے لاہور کی سڑک فیروز پور روڈ کا وہ منظر بھی نہیں بھولتا کہ جہاں ایک امیر زادے کی لش پش کار سے ایک غریب زادے کی سائیکل ٹکرا گئی تھی اور امیر زادے نے کار سے اتر ٹھڈوں، مکوں سے اس غریب کی ٹھکائی شروع کردی اور غریب اپنی ٹوٹ جانے والی سائیکل کو اٹھا کر بے یار و مددگار کھڑا تھا اور امیر زادے کا یہ حال کہ وہ اپنی کار کے اسٹیئرنگ پر غصے میں ہاتھ مار رہا تھا اور غریب زادے کو گالیاں بک رہا تھا۔

غریب کو ان امیروں کی لڑائیوں سے کیا لینا دینا، اسے کیا پتا پاناما کیا ہے، منی ٹریل کسے کہتے ہیں، اقامہ کیا ہوتا ہے، لندن کے مے فیئر فلیٹ کیا ہیں۔ فیصل آباد کے شاعر نصرت صدیقی کا شعر یاد آگیا:


ایک ظلم کرتا ہے، ایک ظلم سہتا ہے
آپ کا تعلق ہے، کون سے گھرانے سے

یہ ظالم و مظلوم، یزید و حسین ابھی یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا، یہ ایک کارِ مسلسل ہے، مظلومیت کے دن تو غریب کے گھر سے بھی رخصت نہیں ہوئے، نہ سر چھپانے کو سائبان ہے، نہ عزت محفوظ ہے۔ کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں، اپنے پاس تو لکھنے کو یہی کچھ ہے، جو بزرگوں سے ورثے میں ملا ہے۔ میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا (یہ ساحر کا مصرع ہے)

جہاں کہیں اپنے من کی بات پڑھنے سننے کو ملتی ہے، یاد ہوجاتی ہے۔ معروف شاعر صہبا اختر نے فلموں کے لیے گیت بھی لکھے، ان کا ایک گیت فلم جلتے دیپ بجھتے ارمان بن نہ سکی مگر مہدی حسن صاحب کا گایا ہوا گانا برسوں ریڈیو سے نشر ہوتا رہا، اس پر اختتام کر رہا ہوں۔

تنہا تھی اور ہمیشہ سے تنہا ہے زندگی
ہے زندگی کا نام، مگر کیا ہے زندگی

یاں پھول آرزوؤں کے کھلتے نہیں کبھی
بچھڑے جو ایک بار وہ ملتے نہیں کبھی

سنسان راستوں کا تماشا ہے زندگی
سورج کو آنسوؤں کے سمندر میں پھینک دوں

جو میرا بس چلے تو ستاروں کو نوچ لوں
جھوٹے ہیں سب چراغ، اندھیرا ہے زندگی
Load Next Story