سوگ منانے کیلئے بھی ڈیزائنر سوٹ چاہیے

ڈیزائنر ملبوسات بنانے والوں نے اس سال محرم الحرام کو بھی نہیں بخشا اور ’’محرم کلیکشن‘‘ لانچ کردیئے۔

ڈیزائنر ملبوسات بنانے والوں نے اس سال محرم الحرام کو بھی نہیں بخشا اور ’’محرم کلیکشن‘‘ لانچ کردیئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

CAPE TOWN:
کچھ سال پہلے ہمارے جاننے والوں میں ایک صاحبہ کے والد کا انتقال ہوا تو ہم بھی تعزیت کیلئے ان کے گھر گئے۔ وہاں جاکر جو منظر ہمارے سامنے آیا اس سے اندازہ ہوا کہ ان صاحبہ کو اپنے والد کے مرنے سے زیادہ غم اس بات کا کھائےجا رہا تھا کہ وہ اپنے والد کے جنازے اور پھر سوئم پر کپڑے کون سے پہنیں گی؟

ہم نے کہا ''ارے بی بی تمہارے والد کا انتقال ہوا ہے، کوئی عقدِ ثانی تو نہیں ہوا جو تم کپڑوں کے انتخاب میں اتنی پریشان ہو رہی ہو۔'' اس بات کے جواب میں جو کچھ اس ناچیز کے کانوں نے سنا، اسے سن کر پہلے تو یقین ہی نہیں آیا اور پھر جب یقین آیا تو اسے تسلیم کرنے کو دل نہ مانا۔ وہ جواب ذرا آپ بھی سنئے۔ ان محترمہ کے بقول ''اگر والد کے جنازے اور سوئم پر میں نے اچھے اور ڈھنگ کے کپڑے نہ پہنے تو میرے خاندان والے کیا سوچیں گے کہ میرے باپ نے مجھے کس گھر میں بیاہ دیا ہے جہاں پہننے کیلئے مجھے ڈھنگ کے کپڑے بھی میسر نہیں۔ اور پھر اپنے اسٹیٹس کا بھی تو خیال رکھنا پڑتا ہے۔'' تو جناب ان صاحبہ نے فقط ''ویل آف'' (well-off) دکھنے کیلئے نہ صرف ڈرائی کلین کی ہوئی، کلف شدہ شلوار پہنی بلکہ آس پڑوس سے مانگ کر نئے دوپٹے اور قمیض کا انتظام بھی کرلیا۔

اسی طرح مایوں کی ایک تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں لڑکی کے جہیز کے کپڑے و دیگر سامان نمائش کیلئے رکھا تھا۔ لڑکی کے جوڑوں میں ایک بہت خوبصورت سفید جوڑا بھی تھا۔ لڑکی مزے لے لے کر اپنی سہیلیوں کو بتا رہی تھی کہ وہ کون کونسا جوڑا کب کب پہنے گی۔ جب اس سفید جوڑے کی باری آئی تو وہ بولی ''یہ جوڑا تو میں نے اس لیے خاص طور پر سلوایا ہے کیونکہ شادی کے بعد اگر سسرال میں اچانک کوئی فوتگی ہوجائے تو اس میں پہن سکوں۔ اب میت والے گھر میں زرق برق کپڑے تو پہن کر نہیں جاسکتی ناں!'' یہ بات سن کر اس کی دور اندیشی پر اسے داد دینے کا دل چاہا کہ کتنی سمجھ دار بچی ہے، کتنے آگے تک کی پلاننگ کر رکھی ہے۔

مگر جناب یہ باتیں تو گئے زمانوں کی ہیں۔ اب وہ زمانے لد گئے جب سوگ اور میتوں میں پہننے کیلئے کپڑے یا تو خاص طور پر سلوانے پڑتے تھے یا پھر مانگ کر پہنے جاتے تھے۔ اب ہمارے ڈیزائنر حضرات و خواتین نے یہ مسئلہ بھی حل کردیا ہے۔ اور جہاں سال کے دوسرے تہواروں اور مواقع پر ڈیزائنر کلیکشن مارکیٹ میں متعارف ہوتا ہے، وہیں ایک نامی گرامی ڈیزائنر برانڈ نےحال ہی میں کھلم کھلا ''محرم اسپیشل'' کے نام سے اپنا کلیکشن مارکیٹ میں متعارف کروایا ہے اور اسے باقاعدہ سراہا بھی گیا ہے۔


البتہ اب بھی کچھ لوگ ہیں جن میں غیرت اور ایمان باقی ہے، سو وہ اس عمل کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

جو بات اس تحریر کے ذریعے میں ڈیزائنر لباس بنانے والوں سے کہنا چاہ رہی ہوں وہ یہ ہے کہ کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے۔ چلیے پورا سال تو آپ اسپرنگ کلیکشن، آٹم کلیکشن، عید کلیکشن، سمر کلیکشن، یہاں تک کہ جشنِ آزادی کلیکشن وغیرہ تک کے نام پر نت نئے کپڑوں کی بارش لوگوں پر کرتے ہی رہتے ہیں جن کی خریداری میں ہماری خواتین پاگل اور ان کے شوہر حضرات دیوالیہ ہوجاتے ہیں۔

اس حد تک تو بات قابلِ برداشت تھی لیکن اب محرم اسپیشل۔ تو جناب آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ محرم الحرام میں واقعہ کربلا ایک تاریخی سانحہ ہے اور تمام مسلمانان عالم کیلئے یکساں طور پر قابلِ سوگ ہے۔ یہ کوئی فیسٹیول یا تہوار نہیں جسے ''سیلیبریٹ'' کرنے (منانے کیلئے) نت نئے ڈیزائنر ملبوسات کی ضرورت پڑے۔ اگر آپ ان دنوں کا احترام اور ان مقدس ہستیوں کی لازوال قربانیوں کی عزت وتکریم نہیں کر سکتے تو برائے مہربانی اس طرح کے گھٹیا پن کا مظاہرہ کرکے ان کا مذاق تو نہ اڑایئے۔ اپنے نت نئے ملبوسات کی دیدہ زیب آرائش کی نمائش کیلئے آپ کے پاس پورا سال ہے۔

برائے خدا اس موقع کے تقدس کو پامال نہ کیجیے۔ اپنی جدت پسندی اور آزاد خیالی کو کسی اور موقعے کیلئے اٹھا رکھیے۔ سنبھل جائیے کہ اب بھی وقت ہے ورنہ یقین مانیے اگر یہی روش قائم رہی تو ہم من حیث القوم تنزلی کی اتنی گہری کھائی میں جا گریں گے کہ پھر چاہ کر بھی اس سے نہیں نکل پائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story