پنجاب بڑی پارٹیوں کی سیاست کا محورو مرکز
جیسے جیسے الیکشن نزدیک آرہے ہیں، وفاداریاں تیزی سے بدلنا شروع ہوگئی ہیں اور پارٹیاں تبدیل ہورہی ہیں۔
انتخابات کے قریب آتے ہی ملک بھر کی طرح پنجاب میں سیاسی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔
قومی اسمبلی کی 272میں سے 148 نشستوں اور اگر اسلام آباد کو شامل کیا جائے تو 150نشستوں کا تعلق پنجاب سے ہے اور یہی 150نشستیں آئندہ حکومت کا تعین کریں گی، اس لئے پیپلزپارٹی اور ن لیگ پنجاب میں زیادہ نشستوں کے حصول کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے لاہور میں میٹرو بس سروس جیسے مہنگے منصوبے کا افتتاح کیا اور اس کے بعد وہ اٹک جاپہنچے اور ملالہ یوسف زئی کے نام پر دانش سکول کا افتتاح بھی کیا۔ دوسری طرف صدر آصف زرداری ، بلاول بھٹو اور فریال تالپور کراچی اور اسلام آباد چھوڑ کر لاہور آن ٹھہرے وہ سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف رہے اور پچھلی دفعہ کے انتخابی نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے متوقع امیدواروں پر مشاورت کی۔
پنجاب میں اپنے حلقوں میں مضبوط پوزیشن رکھنے والے افراد پیپلزپارٹی میں شامل ہورہے ہیں، بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے ۔ جیسے جیسے الیکشن نزدیک آرہے ہیں، وفاداریاں تیزی سے بدلنا شروع ہوگئی ہیں اور پارٹیاں تبدیل ہورہی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ تاثر تھا کہ پیپلزپارٹی اپنی اہمیت کھو بیٹھی ہے اور مسلم لیگ (ن) حکومت بنانے جارہی ہے جس پر لوگ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونا شروع ہوگئے تھے۔ سندھ میں بھی تبدیلی کی ہوا آئی ہے۔ وہاں پیپلزپارٹی میں ڈینٹ ڈالنے کی کوشش ناکام ہوگئی ہے۔ پنجاب میں ٹیم ورک کی کمی تھی جس پر فریال تالپور زیادہ سرگرم ہیں اورانہوں نے پیپلزپارٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو سنبھالا دیا ہے، پنجاب میں حالیہ تبدیلی صرف فریال تالپورکی وجہ سے آرہی ہے کیونکہ پارٹی میں آنے والی مضبوط شخصیات انہی پر اعتماد کرتی ہیں۔
اب تبدیلی کی لہر چل پڑی ہے اور وسطی پنجاب میں بھی مقابلے کا رجحان شروع ہوگیا ہے ۔ وہاں سے مسلم لیگ(ن) مسلم لیگ(ق) اور تحریک انصاف کے لوگ بھی پیپلزپارٹی میں شامل ہورہے ہیں۔ مسلم لیگ (ق) سٹی فیصل آباد کے صدر ممتاز چیمہ اور ان کے بھائی سابق وفاقی وزیر چوہدری مشتاق علی چیمہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں اور انہوں نے شمولیت کا اعلان فریال تالپور سے ملاقات میں کیا۔ فیصل آباد سے ہی چودھری نذیر کے خاندان کی بھی پیپلزپارٹی کی قیادت سے بات چیت چل رہی ہے جبکہ جھنگ سے وفاقی وزیر شیخ وقاص اکرم ، سردارزادہ طاہر شاہ ، محمد علی شاہ بھی پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کرنے والے ہیں اور صاحبزادہ نذیر سلطان سے بھی پیپلزپارٹی کے معاملات طے ہو رہے ہیں۔
ریاض فتیانہ ایک قومی اور تین صوبائی اسمبلی کی نشستوں کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر پیپلزپارٹی انہیں صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں دینے کیلئے رضا مند نہیں ہورہی۔ ڈیرہ غازی خاں سے مسلم لیگ(ن) کے رکن پنجاب اسمبلی میر بادشاہ قیصرانی بھی فریال تالپور سے ملاقات کر کے پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔ ضلع بہاولنگر میں مسلم لیگ( ن )کے ضلعی صدر ڈاکٹر اختر لالیکا اور متعدد دیگر بااثر دھڑے اور یونین ناظمین بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔ سابق سینٹر عالم علی لالیکا بھی پیپلزپارٹی کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ بہاولپور سے سابق وفاقی وزیر تسنیم نواز گردیزی، سابق ایم پی اے عرفان گردیزی ، سابق ایم پی اے سلمان گردیزی اور سابق صوبائی وزیر سجاد حسین بخاری بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔
سجاد حسین بخاری تحریک انصاف کی طرف سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ ان سیاسی شخصیات کی پیپلز پارٹی میں شمولیت سے ضلع بہاولپور میں پیپلز پارٹی پہلے سے بہتر پوزیشن میں آگئی ہے۔ لیہ سے سید فضل حسین شاہ سمیت دیگر کئی سیاسی لوگ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔ احمد محمود کے گورنر بننے سے وہاں منظوراحمد وٹو سے امیدیں کم ہوگئی ہیں۔ منظور وٹو نے بڑے بڑے دعوے کئے تھے مگر وہ کوئی اہم سیاسی شخصیت پارٹی میں نہیں لاسکے۔ انہوں نے صوبائی تنظیم میں ایسے لوگ بھی شامل کئے ہیں جن کا پیپلزپارٹی سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ اس وقت نظریاتی کارکن تنہائی محسوس کررہے ہیں تاہم بلاول سے انہیں توقعات ہیں۔ تنظیم ہمیشہ نظریاتی بنیاد پر ہوتی ہے مگر موجودہ تنظیم آئندہ انتخابی سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائی گئی ہے اور یہ تجربہ بے نظیر شہید کے دور میں ناکام ہوچکا ہے۔
پنجاب کی سیاست میں تیسرا اہم کردار مسلم لیگ(ق) اور چوہدری برادران کا ہے جن کا زور اس بات پر ہے کہ پیپلزپارٹی سے زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کی جائیں۔ صدرآصف علی زرداری نے ایک طرف منظور وٹو کو پنجاب کی قیادت سونپی اور دوسری طرف چوہدری پرویزالٰہی کو بھی مایوس نہیں کیا۔ یوں لگتا ہے کہ صدر زرداری چاہتے ہیں کہ پرویزالٰہی منظور وٹو پر نظر رکھیں اور منظور وٹو پرویز الٰہی کو دیکھتے رہیں۔ البتہ جنوبی پنجاب میں صدر آصف زرداری کی حکمت عملی کامیاب نظر آتی ہے جہاں نئے گورنر مخدوم احمد محمود بہاولپور ڈویژن اور سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی ملتان سے خانیوال اور مظفر گڑھ کے اضلاع میں کافی مؤثر کردار ادا کررہے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ(ن) بہت پریشان ہے یہی وجہ ہے کہ ن لیگ مخدوم احمد محمود کے چکر میں سارے گورنر تبدیل کرنے کا مطالبہ کررہی ہے۔
اس مطالبے کی اصل وجہ صرف احمد محمود ہیں تاہم آئین کے تحت اس مطالبے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بہرحال وسطی پنجاب میں فریال تالپور کی بھر پور سرگرمیوں نے سیاسی میدان گرم کردیا ہے، مسلم لیگ ن کی پریشانی بلاوجہ نہیں ہے، جس میدان کو وہ اپنا سمجھ رہی تھی، اب انہیں پیپلز پارٹی بھی اس میں پوری قوت سے داخل ہوتی نظر آرہی ہے۔ نظر یہی آتا ہے کہ پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب سے تو لازمی جیتے گی لیکن وسطی پنجاب میں بھی سب کو حیران کرسکتی ہے۔n
قومی اسمبلی کی 272میں سے 148 نشستوں اور اگر اسلام آباد کو شامل کیا جائے تو 150نشستوں کا تعلق پنجاب سے ہے اور یہی 150نشستیں آئندہ حکومت کا تعین کریں گی، اس لئے پیپلزپارٹی اور ن لیگ پنجاب میں زیادہ نشستوں کے حصول کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے لاہور میں میٹرو بس سروس جیسے مہنگے منصوبے کا افتتاح کیا اور اس کے بعد وہ اٹک جاپہنچے اور ملالہ یوسف زئی کے نام پر دانش سکول کا افتتاح بھی کیا۔ دوسری طرف صدر آصف زرداری ، بلاول بھٹو اور فریال تالپور کراچی اور اسلام آباد چھوڑ کر لاہور آن ٹھہرے وہ سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف رہے اور پچھلی دفعہ کے انتخابی نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے متوقع امیدواروں پر مشاورت کی۔
پنجاب میں اپنے حلقوں میں مضبوط پوزیشن رکھنے والے افراد پیپلزپارٹی میں شامل ہورہے ہیں، بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے ۔ جیسے جیسے الیکشن نزدیک آرہے ہیں، وفاداریاں تیزی سے بدلنا شروع ہوگئی ہیں اور پارٹیاں تبدیل ہورہی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ تاثر تھا کہ پیپلزپارٹی اپنی اہمیت کھو بیٹھی ہے اور مسلم لیگ (ن) حکومت بنانے جارہی ہے جس پر لوگ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونا شروع ہوگئے تھے۔ سندھ میں بھی تبدیلی کی ہوا آئی ہے۔ وہاں پیپلزپارٹی میں ڈینٹ ڈالنے کی کوشش ناکام ہوگئی ہے۔ پنجاب میں ٹیم ورک کی کمی تھی جس پر فریال تالپور زیادہ سرگرم ہیں اورانہوں نے پیپلزپارٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو سنبھالا دیا ہے، پنجاب میں حالیہ تبدیلی صرف فریال تالپورکی وجہ سے آرہی ہے کیونکہ پارٹی میں آنے والی مضبوط شخصیات انہی پر اعتماد کرتی ہیں۔
اب تبدیلی کی لہر چل پڑی ہے اور وسطی پنجاب میں بھی مقابلے کا رجحان شروع ہوگیا ہے ۔ وہاں سے مسلم لیگ(ن) مسلم لیگ(ق) اور تحریک انصاف کے لوگ بھی پیپلزپارٹی میں شامل ہورہے ہیں۔ مسلم لیگ (ق) سٹی فیصل آباد کے صدر ممتاز چیمہ اور ان کے بھائی سابق وفاقی وزیر چوہدری مشتاق علی چیمہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں اور انہوں نے شمولیت کا اعلان فریال تالپور سے ملاقات میں کیا۔ فیصل آباد سے ہی چودھری نذیر کے خاندان کی بھی پیپلزپارٹی کی قیادت سے بات چیت چل رہی ہے جبکہ جھنگ سے وفاقی وزیر شیخ وقاص اکرم ، سردارزادہ طاہر شاہ ، محمد علی شاہ بھی پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کرنے والے ہیں اور صاحبزادہ نذیر سلطان سے بھی پیپلزپارٹی کے معاملات طے ہو رہے ہیں۔
ریاض فتیانہ ایک قومی اور تین صوبائی اسمبلی کی نشستوں کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر پیپلزپارٹی انہیں صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں دینے کیلئے رضا مند نہیں ہورہی۔ ڈیرہ غازی خاں سے مسلم لیگ(ن) کے رکن پنجاب اسمبلی میر بادشاہ قیصرانی بھی فریال تالپور سے ملاقات کر کے پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔ ضلع بہاولنگر میں مسلم لیگ( ن )کے ضلعی صدر ڈاکٹر اختر لالیکا اور متعدد دیگر بااثر دھڑے اور یونین ناظمین بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔ سابق سینٹر عالم علی لالیکا بھی پیپلزپارٹی کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ بہاولپور سے سابق وفاقی وزیر تسنیم نواز گردیزی، سابق ایم پی اے عرفان گردیزی ، سابق ایم پی اے سلمان گردیزی اور سابق صوبائی وزیر سجاد حسین بخاری بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔
سجاد حسین بخاری تحریک انصاف کی طرف سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ ان سیاسی شخصیات کی پیپلز پارٹی میں شمولیت سے ضلع بہاولپور میں پیپلز پارٹی پہلے سے بہتر پوزیشن میں آگئی ہے۔ لیہ سے سید فضل حسین شاہ سمیت دیگر کئی سیاسی لوگ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔ احمد محمود کے گورنر بننے سے وہاں منظوراحمد وٹو سے امیدیں کم ہوگئی ہیں۔ منظور وٹو نے بڑے بڑے دعوے کئے تھے مگر وہ کوئی اہم سیاسی شخصیت پارٹی میں نہیں لاسکے۔ انہوں نے صوبائی تنظیم میں ایسے لوگ بھی شامل کئے ہیں جن کا پیپلزپارٹی سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ اس وقت نظریاتی کارکن تنہائی محسوس کررہے ہیں تاہم بلاول سے انہیں توقعات ہیں۔ تنظیم ہمیشہ نظریاتی بنیاد پر ہوتی ہے مگر موجودہ تنظیم آئندہ انتخابی سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائی گئی ہے اور یہ تجربہ بے نظیر شہید کے دور میں ناکام ہوچکا ہے۔
پنجاب کی سیاست میں تیسرا اہم کردار مسلم لیگ(ق) اور چوہدری برادران کا ہے جن کا زور اس بات پر ہے کہ پیپلزپارٹی سے زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کی جائیں۔ صدرآصف علی زرداری نے ایک طرف منظور وٹو کو پنجاب کی قیادت سونپی اور دوسری طرف چوہدری پرویزالٰہی کو بھی مایوس نہیں کیا۔ یوں لگتا ہے کہ صدر زرداری چاہتے ہیں کہ پرویزالٰہی منظور وٹو پر نظر رکھیں اور منظور وٹو پرویز الٰہی کو دیکھتے رہیں۔ البتہ جنوبی پنجاب میں صدر آصف زرداری کی حکمت عملی کامیاب نظر آتی ہے جہاں نئے گورنر مخدوم احمد محمود بہاولپور ڈویژن اور سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی ملتان سے خانیوال اور مظفر گڑھ کے اضلاع میں کافی مؤثر کردار ادا کررہے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ(ن) بہت پریشان ہے یہی وجہ ہے کہ ن لیگ مخدوم احمد محمود کے چکر میں سارے گورنر تبدیل کرنے کا مطالبہ کررہی ہے۔
اس مطالبے کی اصل وجہ صرف احمد محمود ہیں تاہم آئین کے تحت اس مطالبے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بہرحال وسطی پنجاب میں فریال تالپور کی بھر پور سرگرمیوں نے سیاسی میدان گرم کردیا ہے، مسلم لیگ ن کی پریشانی بلاوجہ نہیں ہے، جس میدان کو وہ اپنا سمجھ رہی تھی، اب انہیں پیپلز پارٹی بھی اس میں پوری قوت سے داخل ہوتی نظر آرہی ہے۔ نظر یہی آتا ہے کہ پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب سے تو لازمی جیتے گی لیکن وسطی پنجاب میں بھی سب کو حیران کرسکتی ہے۔n