نئے بلدیاتی نظام کی منسوخی سے سیاسی ہلچل
نیا بلدیاتی قانون منسوخ ہونے ک بعد ایم کیو ایم کے پاس سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف جماعتوں سے اتحاد کا آپشن آگیا ہے۔
MELBOURNE:
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی حکومت سے علیحدگی کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں نیا بلدیاتی نظام ختم کرکے 1979ء والا پرانا بلدیاتی نظام بحال کردیا ۔
اس ضمن میں سندھ اسمبلی نے ایم کیو ایم کے زبردست احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے دوران سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ (ایس پی ایل جی اے) 2012ء کی منسوخی اور سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979ء کی بحالی کا بل کثرت رائے سے منظور کرلیا ۔ اس طرح پیپلز پارٹی نے عام انتخابات سے پہلے اس بلدیاتی نظام سے جان چھڑالی جس کی وجہ سے سندھ بھر میں پیپلز پارٹی کے خلاف عوامی سطح پر زبردست غم و غصہ پایا جاتا تھا اور جس کے بارے میں قوم پرست جماعتوں کے رہنماؤں نے پیپلز پارٹی مخالف محاذ بنالیا تھا اور یہ موقف اختیار کیا تھا کہ پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کو خوش کرنے کے لیے ایسا بلدیاتی نظام نافذ کیا جس کی وجہ سے سندھ تقسیم ہوگیا ہے ۔ سندھ میں نئے بلدیاتی نظام کے خاتمے کے بل کی منظوری کے بعد پیپلز پارٹی مخالف محاذ کے پاس بھی سندھ میں سیاست کرنے کا کوئی بڑا ایشو نہیں رہا ہے۔ اس طرح سندھ اسمبلی میں اچانک منظور ہونے والے بل نے صوبے کی سیاست میں مکمل کایا پلٹ دی ہے اور نئی سیاسی صف بندی کی راہیں کھول دی ہیں۔
مسلم لیگ (فنکشنل) ، نیشنل پیپلز پارٹی (این پی پی) ، مسلم لیگ (ہم خیال) اور سندھ بچاؤ کمیٹی میں شامل دیگر سیاسی اور قوم پرست جماعتوں کے قائدین کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کا اپوزیشن میں آنا ایک منصوبہ بندی کا حصہ ہے تاکہ دونوں مل کر صوبے میں اپنی مرضی کی نگراں حکومت قائم کرسکیں ۔ پیر پگارا کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی مک مکا کی پالیسی پر عمل کرکے الیکشن میں دھاندلی کرنا چاہتی ہے لیکن ہم ایسا نہیں کرنے دیں گے ۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف بھی اسی طرح کی رائے رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ نگراں حکومت بنتے ہی پیپلز پارٹی ایم کیو ایم ڈرامے کا پردہ چاک ہوجائے گا اور یہ ڈرامہ نگراں وزیراعلیٰ لانے کے لیے رچایا گیا ہے ۔
بعض اپوزیشن رہنما یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ نئے بلدیاتی قانون کی منسوخی پر ایم کیو ایم نے جس رد عمل کا اظہار کیا ہے اس سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سب کچھ منصوبہ بندی کے تحت ہوا ہے ۔ سندھ اسمبلی سے بل منظور ہونے کے بعد ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان رخصت پر چلے گئے اور ان کی غیر موجودگی میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے قائم مقام گورنر اور اسپیکر سندھ اسمبلی نثار احمد کھوڑو نے بل کی توثیق کردی ۔ گورنر سندھ نے ابھی تک استعفیٰ نہیں دیا ہے۔ ایم کیو ایم کے وزراء اور مشیروں کے استعفے ابھی منظور نہیں ہوئے ہیں اور تادم تحریر ایم کیو ایم کو سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کی نشستیں بھی الاٹ نہیں ہوئی ہیں ۔ اپوزیشن کی یہ باتیں کسی حد تک منطقی معلوم ہوتی ہیں ۔
ایم کیو ایم نے ا گرچہ سندھ بھر میں حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کیے ہیں لیکن یہ احتجاج نئے بلدیاتی قانون کی منسوخی سے زیادہ سندھ کے سینئر وزیر تعلیم پیر مظہرالحق کے بیان کے خلاف تھا ، جو انہوں نے گزشتہ ہفتہ کے روز گورنمنٹ کالج حیدرآباد میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دیا ۔ پیر مظہر الحق نے اپنے اس بیان کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے یونیورسٹی بنانے کی مخالفت نہیں کی اور حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کے لیے مسودہ قانون سندھ اسمبلی سے منظور کرانے کے لیے تیار ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی گورنمنٹ کالج حیدر آباد کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کے لیے خود ہی اسمبلی میں بل لے آئے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیا بلدیاتی قانون یعنی سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2012ء منسوخ ہونے سے کس کو فائدہ ہوا ہے اور کس کو نقصان ہوا ہے اور سندھ کا آئندہ سیاسی منظر نامہ کیا ہوگا ؟ اگر نفع اور نقصان کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس سے کسی کو بھی سیاسی طور پر نقصان نہیں ہوا ہے بلکہ سب کا فائدہ ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کو یہ فائدہ ہوا ہے کہ وہ عام انتخابات سے قبل سندھ کے لوگوں کے پاس جاسکتی ہے ۔ انتخابی مہم کے دوران اپنی کارکردگی پیش کرنے سے زیادہ پیپلز پارٹی اس بات کا فخریہ تذکرہ کرسکتی ہے کہ اس نے سندھ کے عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے پرانا بلدیاتی نظام بحال کردیا ہے ۔ پیپلز پارٹی والے آج بھی اس اعتماد کے ساتھ بات کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم آئندہ بھی ان کی اتحادی رہے گی ۔
جہاں تک ایم کیو ایم کا معاملہ ہے وہ بھی اپنے ووٹرز کے سامنے یہ ایشو اٹھا سکتی ہے کہ ایک بہترین بلدیاتی نظام کو سیاسی بنیاد پر ختم کردیا گیا ہے لیکن نیا بلدیاتی قانون منسوخ ہونے سے ایم کیو ایم کو یہ فائدہ ہوا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف سیاسی جماعتیں انتخابات کے بعد حکومت بنانے کے لیے اس سے اتحاد کرسکتی ہیں ۔اس طرح ایم کیو ایم کے پاس عام انتخابات کے بعد ملک کی مجموعی صورت حال کو دیکھتے ہوئے دو آپشنز کھلے ہیں ۔ اگر مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنتی ہے تو وہ سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت بنانے کے لیے معاہدہ کرسکتی ہے اور اگر مرکز میں پیپلز پارٹی مخالف حکومت بنتی ہے تو وہ سندھ میں بھی پیپلز پارٹی مخالف قوتوں کے ساتھ بات چیت کرسکتی ہے ۔ اسی طرح مسلم لیگ (فنکشنل) کے لیے بھی کئی راستے کھل گئے ہیں ۔
نئے بلدیاتی قانون کی منسوخی سے اگرچہ اس کے پاس کوئی بڑا سیاسی نعرہ نہیں رہا لیکن وہ اب انتخابات سے پہلے بھی پیپلز پارٹی سے بات کرسکتی ہے اور بعض نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی ہوسکتی ہے اور نگران حکومت میں بھی اسے حصہ مل سکتا ہے۔ مسلم لیگ (فنکشنل) اور اس کی اتحادی جماعتوں کے پاس یہ بھی راستہ کھلا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) سے اپنے اتحاد کو مضبوط بنائیں اور عام انتخابات کے بعد ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر سندھ میں حکومت بنائیں۔ نئے بلدیاتی قانون کی منسوخی کے بعد پیپلز پارٹی بھی سب کے ساتھ سیاسی جوڑ توڑ کرسکتی ہے ۔ لہٰذا کسی کو بھی سیاسی طور پر نئے بلدیاتی نظام کی منسوخی اور پرانے بلدیاتی نظام کی بحالی سے نقصان نہیں ہوا ہے سب کے بند دروازے کھل گئے ہیں ۔
اے این پی کے ساتھ پیپلز پارٹی نے دوبارہ مزاکرات کا آغاز کرتے ہوئے حکومت میں دوبارہ شمولیت کی دعوت دے دی ہے جبکہ نیشنل پیپلز پارٹی کے سربراہ غلام مرتضیٰ جتوئی کے ساتھ بھی قریبی دوستوں کے ذریعے رابطے کیے جا رہے ہیں ، اب سندھ میں سیاسی طور پر اس کا پلہ بھاری ہوگا جو سب سے زیادہ سیاسی جوڑ توڑ کرسکتا ہے اور سب اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ صدر آصف علی زرداری مفاہمت کی سیاست میں بہت زیرک ہیں ۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی حکومت سے علیحدگی کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں نیا بلدیاتی نظام ختم کرکے 1979ء والا پرانا بلدیاتی نظام بحال کردیا ۔
اس ضمن میں سندھ اسمبلی نے ایم کیو ایم کے زبردست احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے دوران سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ (ایس پی ایل جی اے) 2012ء کی منسوخی اور سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979ء کی بحالی کا بل کثرت رائے سے منظور کرلیا ۔ اس طرح پیپلز پارٹی نے عام انتخابات سے پہلے اس بلدیاتی نظام سے جان چھڑالی جس کی وجہ سے سندھ بھر میں پیپلز پارٹی کے خلاف عوامی سطح پر زبردست غم و غصہ پایا جاتا تھا اور جس کے بارے میں قوم پرست جماعتوں کے رہنماؤں نے پیپلز پارٹی مخالف محاذ بنالیا تھا اور یہ موقف اختیار کیا تھا کہ پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کو خوش کرنے کے لیے ایسا بلدیاتی نظام نافذ کیا جس کی وجہ سے سندھ تقسیم ہوگیا ہے ۔ سندھ میں نئے بلدیاتی نظام کے خاتمے کے بل کی منظوری کے بعد پیپلز پارٹی مخالف محاذ کے پاس بھی سندھ میں سیاست کرنے کا کوئی بڑا ایشو نہیں رہا ہے۔ اس طرح سندھ اسمبلی میں اچانک منظور ہونے والے بل نے صوبے کی سیاست میں مکمل کایا پلٹ دی ہے اور نئی سیاسی صف بندی کی راہیں کھول دی ہیں۔
مسلم لیگ (فنکشنل) ، نیشنل پیپلز پارٹی (این پی پی) ، مسلم لیگ (ہم خیال) اور سندھ بچاؤ کمیٹی میں شامل دیگر سیاسی اور قوم پرست جماعتوں کے قائدین کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کا اپوزیشن میں آنا ایک منصوبہ بندی کا حصہ ہے تاکہ دونوں مل کر صوبے میں اپنی مرضی کی نگراں حکومت قائم کرسکیں ۔ پیر پگارا کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی مک مکا کی پالیسی پر عمل کرکے الیکشن میں دھاندلی کرنا چاہتی ہے لیکن ہم ایسا نہیں کرنے دیں گے ۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف بھی اسی طرح کی رائے رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ نگراں حکومت بنتے ہی پیپلز پارٹی ایم کیو ایم ڈرامے کا پردہ چاک ہوجائے گا اور یہ ڈرامہ نگراں وزیراعلیٰ لانے کے لیے رچایا گیا ہے ۔
بعض اپوزیشن رہنما یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ نئے بلدیاتی قانون کی منسوخی پر ایم کیو ایم نے جس رد عمل کا اظہار کیا ہے اس سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سب کچھ منصوبہ بندی کے تحت ہوا ہے ۔ سندھ اسمبلی سے بل منظور ہونے کے بعد ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان رخصت پر چلے گئے اور ان کی غیر موجودگی میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے قائم مقام گورنر اور اسپیکر سندھ اسمبلی نثار احمد کھوڑو نے بل کی توثیق کردی ۔ گورنر سندھ نے ابھی تک استعفیٰ نہیں دیا ہے۔ ایم کیو ایم کے وزراء اور مشیروں کے استعفے ابھی منظور نہیں ہوئے ہیں اور تادم تحریر ایم کیو ایم کو سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کی نشستیں بھی الاٹ نہیں ہوئی ہیں ۔ اپوزیشن کی یہ باتیں کسی حد تک منطقی معلوم ہوتی ہیں ۔
ایم کیو ایم نے ا گرچہ سندھ بھر میں حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کیے ہیں لیکن یہ احتجاج نئے بلدیاتی قانون کی منسوخی سے زیادہ سندھ کے سینئر وزیر تعلیم پیر مظہرالحق کے بیان کے خلاف تھا ، جو انہوں نے گزشتہ ہفتہ کے روز گورنمنٹ کالج حیدرآباد میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دیا ۔ پیر مظہر الحق نے اپنے اس بیان کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے یونیورسٹی بنانے کی مخالفت نہیں کی اور حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کے لیے مسودہ قانون سندھ اسمبلی سے منظور کرانے کے لیے تیار ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی گورنمنٹ کالج حیدر آباد کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کے لیے خود ہی اسمبلی میں بل لے آئے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیا بلدیاتی قانون یعنی سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2012ء منسوخ ہونے سے کس کو فائدہ ہوا ہے اور کس کو نقصان ہوا ہے اور سندھ کا آئندہ سیاسی منظر نامہ کیا ہوگا ؟ اگر نفع اور نقصان کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس سے کسی کو بھی سیاسی طور پر نقصان نہیں ہوا ہے بلکہ سب کا فائدہ ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کو یہ فائدہ ہوا ہے کہ وہ عام انتخابات سے قبل سندھ کے لوگوں کے پاس جاسکتی ہے ۔ انتخابی مہم کے دوران اپنی کارکردگی پیش کرنے سے زیادہ پیپلز پارٹی اس بات کا فخریہ تذکرہ کرسکتی ہے کہ اس نے سندھ کے عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے پرانا بلدیاتی نظام بحال کردیا ہے ۔ پیپلز پارٹی والے آج بھی اس اعتماد کے ساتھ بات کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم آئندہ بھی ان کی اتحادی رہے گی ۔
جہاں تک ایم کیو ایم کا معاملہ ہے وہ بھی اپنے ووٹرز کے سامنے یہ ایشو اٹھا سکتی ہے کہ ایک بہترین بلدیاتی نظام کو سیاسی بنیاد پر ختم کردیا گیا ہے لیکن نیا بلدیاتی قانون منسوخ ہونے سے ایم کیو ایم کو یہ فائدہ ہوا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف سیاسی جماعتیں انتخابات کے بعد حکومت بنانے کے لیے اس سے اتحاد کرسکتی ہیں ۔اس طرح ایم کیو ایم کے پاس عام انتخابات کے بعد ملک کی مجموعی صورت حال کو دیکھتے ہوئے دو آپشنز کھلے ہیں ۔ اگر مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنتی ہے تو وہ سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت بنانے کے لیے معاہدہ کرسکتی ہے اور اگر مرکز میں پیپلز پارٹی مخالف حکومت بنتی ہے تو وہ سندھ میں بھی پیپلز پارٹی مخالف قوتوں کے ساتھ بات چیت کرسکتی ہے ۔ اسی طرح مسلم لیگ (فنکشنل) کے لیے بھی کئی راستے کھل گئے ہیں ۔
نئے بلدیاتی قانون کی منسوخی سے اگرچہ اس کے پاس کوئی بڑا سیاسی نعرہ نہیں رہا لیکن وہ اب انتخابات سے پہلے بھی پیپلز پارٹی سے بات کرسکتی ہے اور بعض نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی ہوسکتی ہے اور نگران حکومت میں بھی اسے حصہ مل سکتا ہے۔ مسلم لیگ (فنکشنل) اور اس کی اتحادی جماعتوں کے پاس یہ بھی راستہ کھلا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) سے اپنے اتحاد کو مضبوط بنائیں اور عام انتخابات کے بعد ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر سندھ میں حکومت بنائیں۔ نئے بلدیاتی قانون کی منسوخی کے بعد پیپلز پارٹی بھی سب کے ساتھ سیاسی جوڑ توڑ کرسکتی ہے ۔ لہٰذا کسی کو بھی سیاسی طور پر نئے بلدیاتی نظام کی منسوخی اور پرانے بلدیاتی نظام کی بحالی سے نقصان نہیں ہوا ہے سب کے بند دروازے کھل گئے ہیں ۔
اے این پی کے ساتھ پیپلز پارٹی نے دوبارہ مزاکرات کا آغاز کرتے ہوئے حکومت میں دوبارہ شمولیت کی دعوت دے دی ہے جبکہ نیشنل پیپلز پارٹی کے سربراہ غلام مرتضیٰ جتوئی کے ساتھ بھی قریبی دوستوں کے ذریعے رابطے کیے جا رہے ہیں ، اب سندھ میں سیاسی طور پر اس کا پلہ بھاری ہوگا جو سب سے زیادہ سیاسی جوڑ توڑ کرسکتا ہے اور سب اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ صدر آصف علی زرداری مفاہمت کی سیاست میں بہت زیرک ہیں ۔