سیاسی بساط پر نئی چالیں متوقع
انتخابی سرگرمیوں میں اضافہ، گٹھ جوڑ کے لیے ملاقاتوں میں تیزی
عام انتخابات اور نگراں سیٹ اپ سے قبل مقامی سیاست میں الزامات لگانے، سخت بیانات دینے اور مختلف معاملات پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
دوسری طرف امن و امان کی خراب صورت حال، دہشت گردی، خصوصاً کراچی میں سیاسی جماعتوں اور مذہبی تنظیموں کے عہدے داروں اور کارکنان کی ٹارگیٹ کلنگ کی وجہ سے پُرامن طریقے سے انتخابات کا انعقاد ممکن نظر نہیں آرہا۔ باشعور حلقوں کاکہنا ہے کہ سیاسی نمایندوں کا چناؤ کرنے کی غرض سے الیکشن کے دن عوام کو پولنگ اسٹیشنوں تک لانے کے لیے ان کا خوف اور خدشات دور کرنا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں حکومت اور عوام کی نمایندگی کی دعوے دار تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اس طرف بھی توجہ دینا ہو گی۔
پچھلے دنوں حکومت سے متحدہ قومی موومنٹ کی علیحدگی سیاسی اور عوامی حلقوں میں زیرِ بحث تھی کہ سندھ کی اسمبلی میں1979 کا گورنمنٹ آرڈیننس منظور کر لیا گیا، جس کی وجہ سے سیاسی حدت میں اضافہ ہوا۔2001 کے بلدیاتی نظام کی حامی ایم کیو ایم سے پی پی پی نے اتحاد کے دوران اس پر عرصے تک مذاکرات جاری رکھے اور پھر اسے قانون بنا دیا گیا۔ حکومت اور پی پی پی کے مخالفین کا کہنا تھاکہ اتحادیوں کو خوش کرنے کی غرض سے پی پی پی نے سندھ کو تقسیم کر دیا اور یہ مخالفین اسی معاملے پر عوام کی توجہ حاصل کرنے اور پی پی پی کے لیے ان میں غم و غصہ اور نفرت پیدا کرنے میں خاصے کام یاب نظر آئے۔ سندھ میں پی پی پی کے خلاف گرینڈ الائنس کی راہ بھی اسی قانون نے ہم وار کی۔ تاہم اب سیاسی منظر تبدیل ہو چکا ہے۔ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979 پچھلے دنوں منظور ہوچکا ہے اور متنازع بلدیاتی نظام کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ پی پی پی کی طرف سے اسے عوام کی خواہشات کا احترام بتایا جارہا ہے، جس کے بعد عوام سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان کے درمیان جانے میں پی پی پی کو کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہو گی، جب کہ ایم کیو ایم نے اس پر احتجاج کیا ہے۔
پچھلے دنوں سینئر صوبائی وزیر تعلیم پیر مظہرالحق کے حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام سے متعلق ایک بیان پر تنازع کھڑا ہو گیا اور ایم کیو ایم کی طرف سے اس پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ سندھ کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اسی سلسلے میں اتوار کے دن کراچی میں پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر فاروق ستار نے پیر مظہرالحق پر کڑی تنقید کی اور ان کے بیان کو تعلیم دشمن روش قرار دیا۔ اس مظاہرے میں متحدہ کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، ذمے داران اور کارکنان کی بڑی تعداد شریک تھی۔ دوسری طرف وزیر تعلیم کاکہنا ہے کہ ان کے بیان کو توڑ موڑ کر پیش کیا گیا ہے۔
مقامی سیاست میں متحدہ قومی موومنٹ نے پی پی پی سے علیحدگی کے بعد اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں، جب کہ مخالف سیاسی جماعتیں حکومت سے علیحدگی کو نگراں سیٹ اپ کے لیے سیاسی منصوبہ بندی بتا رہی ہیں۔ ان کی حریف جماعتیں اسے دونوں بڑی جماعتوں کی انتخابی حکمتِ عملی کہہ کر اسے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کی تاحال اپنے عہدے پر موجودگی سے جوڑ رہی ہیں۔ تاہم اتحاد سے الگ ہونے کے بعد متحدہ کے راہ نماؤں کے سخت بیانات اس تأثر کو زائل کررہے ہیں۔ پی پی پی کے بعض راہ نماؤں کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان سیاسی مفاہمت جاری رہے گی اور آیندہ بھی ایم کیو ایم کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ اس کے برعکس نئے بلدیاتی قانون کی منظوری اور پھر صوبائی وزیر کے بیان پر متحدہ کی طرف سے سخت ردعمل ظاہر کیا گیا ہے۔
دوسری طرف نئے بلدیاتی قانون کی منظوری کے بعد پیپلز پارٹی کے مخالفین کے ہاتھ فی الحال کسی ایشو سے خالی نظر آرہے ہیں، جو انھیں عوام کی براہِ راست توجہ حاصل کرنے کا موقع دے سکے۔ توقع ہے کہ قومی اور علاقائی سیاست میں مصروف جماعتیں جلد نئی سیاسی حکمتِ عملی اور منصوبہ بندی کے ساتھ میدان میں ہوں گی۔
کراچی شہر میں ووٹر لسٹوں کی تصدیق اور نئی حلقہ بندیوں کا معاملہ پی پی پی اور ایم کیو ایم مخالف سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں کا اہم حصّہ رہا۔ اس سلسلے میں جماعتِ اسلامی خاصی متحرک اور فعال نظر آئی۔ مقامی سطح پر جماعت کے امیر محمد حسین محنتی نے دھاندلی اور فوج کی نگرانی میں تصدیقی عمل مکمل نہ کیے جانے کی شکایت عدلیہ، چیف الیکشن کمشنر اور صوبائی الیکشن کمشنر تک پہنچائی اور فنکشنل لیگ، ن لیگ، تحریکِ انصاف، جے یو آئی، سنی تحریک، ایس ٹی پی و دیگر جماعتوں کو اکٹھاکر کے اور ان کے ساتھ مل کر احتجاجی دھرنے دیے۔ تاہم اس پر مذکورہ جماعتوں کے تحفظات تاحال برقرار ہیں۔ واضح رہے کہ اس سلسلے میں ان جماعتوں نے الیکشن کمیشن کو اپنی تجاویز بھی جمع کرائی تھیں۔
اب الیکشن کمیشن نے کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے خلاف درخواست دائرکر دی ہے۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے لسانی بنیادوں پر نئی حلقہ بندی کی تجاویز دی ہیں اور یہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے منافی ہیں۔ اس کے علاوہ نئی مردم شماری کے بغیر نئی حلقہ بندیاں نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے استدعا کی جاتی ہے کہ سپریم کورٹ کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے متعلق اپنی ہدایات پر عمل درآمد کا فیصلہ مؤخر کردے۔
ادھر پاکستان تحریک انصاف پارٹی سطح کے انتخابات کا ایک اور مرحلہ طے کرنے جارہی ہے۔ اس سلسلے میں حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ توقع ہے کہ تحریکِ انصاف تین یا دس مارچ تک مقامی عہدے داروں کا چناؤ کر لے گی۔ اس سلسلے میں شاہین پینل، نظریاتی گروپ و دیگر میدان میں ہیں۔ شاہین پینل زیادہ مضبوط نظر آرہا ہے، جس کی وجہ فیصل واوڈا اور سبحان علی ساحل جیسے راہ نما ہیں، جو پارٹی میں خاصے سرگرم اور فعال ہیں اور کارکنوں میں ان کی اچھی ساکھ ہے۔ کراچی میں شاہین پینل نے صدر کے عہدے کے لیے فیصل واوڈا اور جنرل سیکریٹری کے لیے سبحان علی ساحل کو نام زد کیا ہے۔ پچھلے دنوں ان راہ نماؤں نے ناظم آباد، پنجاب کالونی، اورنگی ٹاؤن و دیگر علاقوں میں کارکنوں سے خطاب کیا اور کارنر میٹنگز میں مصروف نظر آئے۔ اس دوران اپنے خطاب میں فیصل واوڈا نے کہاکہ پی ٹی آئی عوام کا معیارِ زندگی بلند کر کے اسے فلاحی، اسلامی اور جمہوری ریاست بنائے گی۔ انھوں نے مزید کہاکہ تحریک انصاف اپنی پارٹی میں یوسی سے لے کر مرکز تک الیکشن کا انعقاد کررہی ہے، جس میں عام کارکن اپنی قیادت کا انتخاب خود کرے گا۔
تحریک انصاف کے سینئر راہ نما سبحان علی ساحل کا کہنا تھاکہ پارٹی کارکنان اچھی اور مخلص قیادت کے انتخاب میں اپنا کردار ادا کریں اور انھیں سامنے لائیں جو چیئرمین عمران خان کے نظریے اور سوچ کو گھر گھر پہنچانے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ سبحان علی ساحل نے کہا کہ شاہین پینل کی قیادت نے مشکل حالات میں پارٹی اور کارکنوں کے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ہے اور یہ قیادت ہی کارکنوں اور عوام کی طاقت سے ملک کی تبدیلی کا راستہ ہم وار کرے گی، جو ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان کی ضمانت ہوگا۔ مرکزی راہ نما ثمر علی خان نے کہا کہ شاہین پینل باصلاحیت قیادت ہے جو ہر مشکل گھڑی میں عمران خان کا دست بازو اور کارکنوں کی ڈھال ثابت ہوگا۔
گذشتہ دنوں برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر فرانسس کیمبل نے کراچی میں جماعت اسلامی کے دفتر کا دورہ کیا، جہاں امیر جماعت اسلامی (سندھ) ڈاکٹر معرا ج الہدی صدیقی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انتخابات، ملک بالخصوص کراچی میں امن وامان کی صورت حال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر اسد اللہ بھٹو، محمد حسین محنتی، نسیم صدیقی، راجا عارف سلطان، زاہد عسکری اور دیگر بھی موجود تھے۔ بعد ازاں میڈیا سے گفت گو کرتے ہوئے فرانسس کیمبل نے کہاکہ پاکستان کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے اور حکومت برطانیہ بھی یہاں سیاسی استحکام اور مضبوط جمہوریت چاہتی ہے۔ ڈاکٹرمعراج الہدی صدیقی نے کہاکہ پاکستان میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات چاہتے ہیں، بین الاقوامی اداروں کو بھی اس کے لیے اپنا کردار اداکرنا چاہیے۔
دوسری طرف امن و امان کی خراب صورت حال، دہشت گردی، خصوصاً کراچی میں سیاسی جماعتوں اور مذہبی تنظیموں کے عہدے داروں اور کارکنان کی ٹارگیٹ کلنگ کی وجہ سے پُرامن طریقے سے انتخابات کا انعقاد ممکن نظر نہیں آرہا۔ باشعور حلقوں کاکہنا ہے کہ سیاسی نمایندوں کا چناؤ کرنے کی غرض سے الیکشن کے دن عوام کو پولنگ اسٹیشنوں تک لانے کے لیے ان کا خوف اور خدشات دور کرنا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں حکومت اور عوام کی نمایندگی کی دعوے دار تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اس طرف بھی توجہ دینا ہو گی۔
پچھلے دنوں حکومت سے متحدہ قومی موومنٹ کی علیحدگی سیاسی اور عوامی حلقوں میں زیرِ بحث تھی کہ سندھ کی اسمبلی میں1979 کا گورنمنٹ آرڈیننس منظور کر لیا گیا، جس کی وجہ سے سیاسی حدت میں اضافہ ہوا۔2001 کے بلدیاتی نظام کی حامی ایم کیو ایم سے پی پی پی نے اتحاد کے دوران اس پر عرصے تک مذاکرات جاری رکھے اور پھر اسے قانون بنا دیا گیا۔ حکومت اور پی پی پی کے مخالفین کا کہنا تھاکہ اتحادیوں کو خوش کرنے کی غرض سے پی پی پی نے سندھ کو تقسیم کر دیا اور یہ مخالفین اسی معاملے پر عوام کی توجہ حاصل کرنے اور پی پی پی کے لیے ان میں غم و غصہ اور نفرت پیدا کرنے میں خاصے کام یاب نظر آئے۔ سندھ میں پی پی پی کے خلاف گرینڈ الائنس کی راہ بھی اسی قانون نے ہم وار کی۔ تاہم اب سیاسی منظر تبدیل ہو چکا ہے۔ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979 پچھلے دنوں منظور ہوچکا ہے اور متنازع بلدیاتی نظام کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ پی پی پی کی طرف سے اسے عوام کی خواہشات کا احترام بتایا جارہا ہے، جس کے بعد عوام سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان کے درمیان جانے میں پی پی پی کو کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہو گی، جب کہ ایم کیو ایم نے اس پر احتجاج کیا ہے۔
پچھلے دنوں سینئر صوبائی وزیر تعلیم پیر مظہرالحق کے حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام سے متعلق ایک بیان پر تنازع کھڑا ہو گیا اور ایم کیو ایم کی طرف سے اس پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ سندھ کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اسی سلسلے میں اتوار کے دن کراچی میں پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر فاروق ستار نے پیر مظہرالحق پر کڑی تنقید کی اور ان کے بیان کو تعلیم دشمن روش قرار دیا۔ اس مظاہرے میں متحدہ کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، ذمے داران اور کارکنان کی بڑی تعداد شریک تھی۔ دوسری طرف وزیر تعلیم کاکہنا ہے کہ ان کے بیان کو توڑ موڑ کر پیش کیا گیا ہے۔
مقامی سیاست میں متحدہ قومی موومنٹ نے پی پی پی سے علیحدگی کے بعد اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں، جب کہ مخالف سیاسی جماعتیں حکومت سے علیحدگی کو نگراں سیٹ اپ کے لیے سیاسی منصوبہ بندی بتا رہی ہیں۔ ان کی حریف جماعتیں اسے دونوں بڑی جماعتوں کی انتخابی حکمتِ عملی کہہ کر اسے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کی تاحال اپنے عہدے پر موجودگی سے جوڑ رہی ہیں۔ تاہم اتحاد سے الگ ہونے کے بعد متحدہ کے راہ نماؤں کے سخت بیانات اس تأثر کو زائل کررہے ہیں۔ پی پی پی کے بعض راہ نماؤں کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان سیاسی مفاہمت جاری رہے گی اور آیندہ بھی ایم کیو ایم کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ اس کے برعکس نئے بلدیاتی قانون کی منظوری اور پھر صوبائی وزیر کے بیان پر متحدہ کی طرف سے سخت ردعمل ظاہر کیا گیا ہے۔
دوسری طرف نئے بلدیاتی قانون کی منظوری کے بعد پیپلز پارٹی کے مخالفین کے ہاتھ فی الحال کسی ایشو سے خالی نظر آرہے ہیں، جو انھیں عوام کی براہِ راست توجہ حاصل کرنے کا موقع دے سکے۔ توقع ہے کہ قومی اور علاقائی سیاست میں مصروف جماعتیں جلد نئی سیاسی حکمتِ عملی اور منصوبہ بندی کے ساتھ میدان میں ہوں گی۔
کراچی شہر میں ووٹر لسٹوں کی تصدیق اور نئی حلقہ بندیوں کا معاملہ پی پی پی اور ایم کیو ایم مخالف سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں کا اہم حصّہ رہا۔ اس سلسلے میں جماعتِ اسلامی خاصی متحرک اور فعال نظر آئی۔ مقامی سطح پر جماعت کے امیر محمد حسین محنتی نے دھاندلی اور فوج کی نگرانی میں تصدیقی عمل مکمل نہ کیے جانے کی شکایت عدلیہ، چیف الیکشن کمشنر اور صوبائی الیکشن کمشنر تک پہنچائی اور فنکشنل لیگ، ن لیگ، تحریکِ انصاف، جے یو آئی، سنی تحریک، ایس ٹی پی و دیگر جماعتوں کو اکٹھاکر کے اور ان کے ساتھ مل کر احتجاجی دھرنے دیے۔ تاہم اس پر مذکورہ جماعتوں کے تحفظات تاحال برقرار ہیں۔ واضح رہے کہ اس سلسلے میں ان جماعتوں نے الیکشن کمیشن کو اپنی تجاویز بھی جمع کرائی تھیں۔
اب الیکشن کمیشن نے کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے خلاف درخواست دائرکر دی ہے۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے لسانی بنیادوں پر نئی حلقہ بندی کی تجاویز دی ہیں اور یہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے منافی ہیں۔ اس کے علاوہ نئی مردم شماری کے بغیر نئی حلقہ بندیاں نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے استدعا کی جاتی ہے کہ سپریم کورٹ کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے متعلق اپنی ہدایات پر عمل درآمد کا فیصلہ مؤخر کردے۔
ادھر پاکستان تحریک انصاف پارٹی سطح کے انتخابات کا ایک اور مرحلہ طے کرنے جارہی ہے۔ اس سلسلے میں حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ توقع ہے کہ تحریکِ انصاف تین یا دس مارچ تک مقامی عہدے داروں کا چناؤ کر لے گی۔ اس سلسلے میں شاہین پینل، نظریاتی گروپ و دیگر میدان میں ہیں۔ شاہین پینل زیادہ مضبوط نظر آرہا ہے، جس کی وجہ فیصل واوڈا اور سبحان علی ساحل جیسے راہ نما ہیں، جو پارٹی میں خاصے سرگرم اور فعال ہیں اور کارکنوں میں ان کی اچھی ساکھ ہے۔ کراچی میں شاہین پینل نے صدر کے عہدے کے لیے فیصل واوڈا اور جنرل سیکریٹری کے لیے سبحان علی ساحل کو نام زد کیا ہے۔ پچھلے دنوں ان راہ نماؤں نے ناظم آباد، پنجاب کالونی، اورنگی ٹاؤن و دیگر علاقوں میں کارکنوں سے خطاب کیا اور کارنر میٹنگز میں مصروف نظر آئے۔ اس دوران اپنے خطاب میں فیصل واوڈا نے کہاکہ پی ٹی آئی عوام کا معیارِ زندگی بلند کر کے اسے فلاحی، اسلامی اور جمہوری ریاست بنائے گی۔ انھوں نے مزید کہاکہ تحریک انصاف اپنی پارٹی میں یوسی سے لے کر مرکز تک الیکشن کا انعقاد کررہی ہے، جس میں عام کارکن اپنی قیادت کا انتخاب خود کرے گا۔
تحریک انصاف کے سینئر راہ نما سبحان علی ساحل کا کہنا تھاکہ پارٹی کارکنان اچھی اور مخلص قیادت کے انتخاب میں اپنا کردار ادا کریں اور انھیں سامنے لائیں جو چیئرمین عمران خان کے نظریے اور سوچ کو گھر گھر پہنچانے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ سبحان علی ساحل نے کہا کہ شاہین پینل کی قیادت نے مشکل حالات میں پارٹی اور کارکنوں کے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ہے اور یہ قیادت ہی کارکنوں اور عوام کی طاقت سے ملک کی تبدیلی کا راستہ ہم وار کرے گی، جو ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان کی ضمانت ہوگا۔ مرکزی راہ نما ثمر علی خان نے کہا کہ شاہین پینل باصلاحیت قیادت ہے جو ہر مشکل گھڑی میں عمران خان کا دست بازو اور کارکنوں کی ڈھال ثابت ہوگا۔
گذشتہ دنوں برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر فرانسس کیمبل نے کراچی میں جماعت اسلامی کے دفتر کا دورہ کیا، جہاں امیر جماعت اسلامی (سندھ) ڈاکٹر معرا ج الہدی صدیقی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انتخابات، ملک بالخصوص کراچی میں امن وامان کی صورت حال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر اسد اللہ بھٹو، محمد حسین محنتی، نسیم صدیقی، راجا عارف سلطان، زاہد عسکری اور دیگر بھی موجود تھے۔ بعد ازاں میڈیا سے گفت گو کرتے ہوئے فرانسس کیمبل نے کہاکہ پاکستان کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے اور حکومت برطانیہ بھی یہاں سیاسی استحکام اور مضبوط جمہوریت چاہتی ہے۔ ڈاکٹرمعراج الہدی صدیقی نے کہاکہ پاکستان میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات چاہتے ہیں، بین الاقوامی اداروں کو بھی اس کے لیے اپنا کردار اداکرنا چاہیے۔