بس دو نسلیں ہی تو اور چاہئیں
پاکستان میں خواتین اور مردوں کے مابین چار بنیادی شعبوں میں صنفی عدم مساوات کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔
گذشتہ مضمون میں یہ جائزہ لیا گیا کہ تمام تر نیک خواہشات اور نعرے بازی کے باوجود دنیا کی آدھی آبادی یعنی خواتین معاشی ، سماجی ، اقتصادی و سیاسی اعتبار سے 2017 ء میں بھی مردوں سے بہت پیچھے کیوں ہیں اور عالمی سطح پر پارلیمان میں ان کی نمایندگی اوسطاً 19 فیصد اور کابینہ کی سطح پر نمایندگی 18 فیصد سے آگے کیوں نہ بڑھ پائی؟ نیز جب تک فیصلہ سازی کے اعلیٰ اداروں میں ان کی نمایندگی نہیں بڑھے گی تب تک خواتین کو آگے بڑھانے کی قانون سازی کے پیچھے قوتِ نافذہ کیوں کر پیدا ہو گی اور جب قوتِ نافذہ ہی کمزور ہوگی تو وہ مردوں کی جانب سے احسانیہ حوصلہ افزائی کے رویے کے چکر سے کیسے آزاد ہو پائیں گی ؟
اس تناظر میں آج ہمارا فوکس جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان اور بھارت کے قانون ساز و پالیسی ساز اداروں میں خواتین کی نمایندگی اور ان کے اثرات کا تقابلی جائزہ ہے۔
اگر ورلڈ اکنامک فورم کی صنفی مساوات سے متعلق سالانہ عالمی رپورٹ کو معیار مانا جائے تو تعلیم و صحت کی سہولتوں تک رسائی اور آگے بڑھنے کے اقتصادی مواقع اور سیاسی خود مختاری کی کسوٹی پر دنیا کے ایک سو چوالیس ممالک کی فہرست میں جنوبی ایشیا خاصا پیچھے ہے۔بنگلہ دیش کی رینکنگ بہتر،بھارت کی ستاسی،سری لنکا کی سوویں،نیپال کی ایک سو دسویں،مالدیپ کی ایک سو پندھرویں اور بھوٹان کی ایک سو اکیسویں ہے۔
مگر صنفی مساوات کی عالمی فہرست میں پاکستان کی رینکنگ مسلسل زوال پذیر ہے۔ دو ہزار چھ میں صنفی مساوات سے متعلق ورلڈ اکنامک فورم کی پہلی تقابلی رپورٹ شایع ہوئی تو پاکستان کی رینکنگ ایک سو بارہویں نمبر پر تھی۔دو ہزار بارہ میں یہ گرتی گرتی ایک سو تینتیسویں، دو ہزار تیرہ میں ایک سو پینتیسویں ، دو ہزار چودہ میں مزید گھٹ کر ایک سو اکتالیسیویں اور دو ہزار پندرہ اور سولہ میں ایک سو چوالیس ممالک میں ایک سو تینتالیسویں درجے تک پہنچ گئی۔گویا پاکستان میں خواتین اور مردوں کے مابین چار بنیادی شعبوں میں صنفی عدم مساوات کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔
حالانکہ خواتین کی سیاسی نمایندگی کے چارٹ میں پاکستان جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک سے بہتر اور آگے ہے۔مثلاً عالمی پارلیمانی یونین کی تازہ رینکنگ کے اعتبار سے ایک سو نوے ممالک کی فہرست میں سری لنکا سب سے خواندہ جنوبی ایشیائی ملک ہونے کے باوجود اپنی خواتین کو پارلیمنٹ اور کابینہ کی سطح پر محض پونے چھ فیصد تک نمایندگی دے پایا۔یوں ایک سو نوے ممالک کی پارلیمانی فہرست میں سری لنکا انتہائی نچلے یعنی ایک سو اسی ویں پائدان پر ہے۔مالدیپ کی رینکنگ ایک سو اٹہتر،بھوٹان کی ایک سو اکہتر،بھارت کی ایک سو انچاس،بنگلہ دیش کی چورانوے، پاکستان کی بانوے اور سب سے بہتر رینکنگ نیپال کی ہے جہاں پسماندگی کے باوجود پارلیمنٹ میں خواتین کی نمایندگی کے اعتبار سے نیپال اڑتالیسویں نمبر پر ہے۔
پاکستان میں پارلیمانی سطح پر خواتین کی نمایندگی کسی جمہوری حکومت نے نہیں بلکہ مشرف آمریت کے دور میں بہتر ہوئی۔قومی اسمبلی میں خواتین کی محضوص نشستوں کی تعداد بڑھا کر ساٹھ کی گئی اور سینیٹ میں سترہ فیصد نشستیں مخصوص کی گئیں جب کہ بلدیاتی اداروں میں خواتین کی نمایندگی بڑھا کر تینتیس فیصد تک کر دی گئی۔
لیکن جمہوریت اور مساوات کا راگ الاپنے والی تمام سیاسی جماعتیں مخصوص نشستوں پر تو خوشی خوشی خواتین کو نامزد کر دیتی ہیں مگر جنرل سیٹوں پر براہِ راست مقابلے کے لیے خواتین کو ٹکٹ دینے کی بات آتی ہے تو ہر سیاسی جماعت خواتین کو مردانہ وار اپنا سماجی مقام یاد دلانے کی کوشش کرتی ہیں۔یہ رجحان پچھلے تین عام انتخابات سے جوں کا توں ہے۔
مثلاً قومی اسمبلی کی تین سو بیالیس نشستوں میں سے دو سو بہتر جنرل نشستوں پر براہِ راست انتخاب ہوتا ہے۔دو ہزار دو میں صرف اڑتیس ، دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں چونتیس اور دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں محض چھتیس خواتین نے کسی بھی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر براہ راست انتخاب لڑا۔
پیپلز پارٹی نے دو ہزار دو میں دس ، دو ہزار آٹھ میں پندرہ اور دو ہزار تیرہ میں گیارہ خواتین کو جنرل سیٹ پر براہ راست الیکشن لڑنے کے قابل سمجھا۔ان گیارہ میں سے پانچ جیت گئیں۔مسلم لیگ ن نے دو ہزار دو میں چار،دو ہزار آٹھ میں چھ اور دو ہزار تیرہ میں سات خواتین امیدواروں کو جنرل سیٹ کا ٹکٹ دیا۔ان سات میں سے چار جیت گئیں اور پانچویں بیگم کلثوم نواز حال ہی میں حلقہ این اے ایک سو بیس لاہور سے جیتی ہیں۔یعنی اس وقت قومی اسمبلی میں جو دس خواتین جنرل نشستوں پر کامیاب ہوئیں ان میں سے پانچ مسلم لیگ ن اور پانچ پیپلز پارٹی کی ہیں۔
مسلم لیگ ق نے دو ہزار دو اور آٹھ کے انتخابات میں جنرل سیٹس پر آٹھ اور دو ہزار تیرہ میں چار خواتین کو ٹکٹ دیا۔جب کہ نئی نسل میں سب سے زیادہ مقبولیت کی دعویدار تحریکِ انصاف نے دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں دو سو ستائیس جنرل سیٹوں پر انتخاب لڑا۔ان میں صرف چار نشستوں پر خواتین امیدوار تھیں۔جماعتِ اسلامی اور جمیعت علماِ اسلام ( فضل ) نے دو ہزار دو سے دو ہزار تیرہ تک ہونے والے تینوں عام انتخابات میں ایک خاتون کو بھی براہِ راست الیکشن لڑنے کے قابل نہیں سمجھا۔
اگر دیگر جماعتوں کا جائزہ لیا جائے تو ایم کیو ایم نے دو ہزار دو میں جنرل سیٹس پر چار،دو ہزار آٹھ میں پانچ اور دو ہزار تیرہ میں سات خواتین کو ٹکٹ دیا۔مگر اس میں باریک کام یہ ہوا کہ سات میں سے چھ ٹکٹ پنجاب میں دیے گئے جہاں ایم کیو ایم کی سیاسی جڑیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔جب کہ ایک ٹکٹ اپنے سیاسی گڑھ کراچی میں خوش بخت شجاعت کو دیا اور وہ جیت گئیں۔قومی اسمبلی میں اگرچہ خواتین کے بارے میں پچھلے دس برس میں قابِل ذکر قانون سازی ہوئی مگر اکتیس اسٹینڈنگ کمیٹیوں میں سے صرف ایک کی سربراہ خاتون ہیں۔
ایوانِ بالا سینیٹ کا حال اور دگرگوں ہے۔ایک سو چار کے ایوان میں خواتین کے لیے مخصوص سترہ نشستیں تو بھری ہوئی ہیں لیکن صوبوں کے لیے مختص چھیاسٹھ جنرل سیٹس میں سے صرف ایک سیٹ کسی خاتون کے پاس ہے۔تاہم ماضی سے تقابل کیا جائے تو آج کی سینیٹ میں خواتین کی نمایندگی خاصی بہتر ہے۔
جب انیس سو تہتر کے آئین کے تحت پہلی پینتالیس رکنی سینیٹ وجود میں آئی تو اس وقت خواتین کے لیے الگ سے کوئی کوٹہ نہیں تھا۔واحد خاتون سینیٹر گجرات سے صائمہ عثمان تھیں اور چار برس بعد ان کی جگہ جھنگ کی آصفہ فاروقی نے لی۔انیس سو ستتر میں سینیٹ کی نشستیں پینتالیس سے تریسٹھ اور انیس سو پچاسی میں تریسٹھ سے ستاسی ہو گئیں مگر اس عرصے میں ایک بھی عورت سینیٹر نہیں تھی۔
انیس سو اٹھاسی سے چورانوے کی سنیٹ میں نور جہاں پانیزئی بلوچستان سے منتخب ہوئیں اور پہلی خاتون ڈپٹی چیئرپرسن بھی بنیں۔چورانوے سے دو ہزار تک کی سینیٹ میں دو خواتین تھیں۔فضا جونیجو اور نسرین جلیل۔پھر جنرل مشرف نے سینیٹ کے ارکان کی تعداد ستاسی سے ایک سو چار کر دی اور پہلی بار خواتین کے لیے سترہ فیصد کوٹہ مقرر ہوا۔تاہم موجودہ سینیٹ کی پندرہ اسٹینڈنگ کمیٹیوں میں سے دو کی سربراہ خواتین ہیں۔
اب رہی وفاقی و صوبائی کابیناؤں میں خواتین کی نمایندگی۔تو صورتِ احوال یہ ہے کہ تینتالیس رکنی وفاقی کابینہ میں ایک خاتون وفاقی وزیر اور دو وزرائے مملکت ہیں۔پنجاب کی اڑتالیس رکنی کابینہ میں چار خواتین وزیر ہیں۔وزیرِ اعلی کے آٹھ مشیروں اور چار خصوصی معاونین میں کوئی خاتون نہیں۔سندھ کی اٹھائیس رکنی کابینہ میں کوئی خاتون وزیر نہیں۔البتہ ایک خاتون مشیر اور نو میں سے دو خصوصی معاون خواتین ہیں۔البتہ صوبائی اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر خاتون ہیں ( شہلا رضا )۔
خیبر پختون خواہ میں تحریکِ انصاف کی مخلوط حکومت کی اکیس رکنی کابینہ میں ایک بھی خاتون نہیں۔البتہ اٹھارہ پارلیمانی سیکریٹریوں میں سے سات خواتین ہیں اور صوبائی اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر بھی خاتون ہیں (ڈاکٹر مہر تاج )۔ بلوچستان اسمبلی کی اسپیکر خاتون ہیں ( راحیلہ درانی )۔تاہم سترہ رکنی صوبائی کابینہ میں کوئی خاتون نہیں۔
خواتین کے لیے قانونی سفارشات پیش کرنے میں اسلامی نظریاتی کونسل خاصی پیش پیش ہے۔تاہم دس رکنی کونسل میں صرف ایک خاتون ہیں ( سمیعہ راحیل قاضی )۔
جیسا کہ اوپر تذکرہ ہوا کہ صنفی مساوات کی عالمی رینکنگ میں بھارت پاکستان سے کہیں آگے مگر پارلیمانی نمایندگی کے اعتبار سے پاکستان بھارت سے خاصا آگے ہے۔بھارت میں صرف بلدیاتی و پنچائتی سطح پر خواتین کا نمایندگی کوٹہ تینتیس فیصد ہے۔تاہم صوبائی اور وفاقی پارلیمان میں تمام سیاسی جماعتیں زبانی جمع خرچ ہی کرتی آئی ہیں۔ موجودہ لوک سبھا میں خواتین کی نمایندگی گیارہ اعشاریہ اٹھ فیصد اور ایوانِ بالا راجیہ سبھا میں گیارہ فیصد ہے تاہم پچھلے ستر برس میں خواتین کے حقوق اور تحفظ کے بارے میں بھارت میں بہتر قانون سازی ہوئی ہے اور اعلی پارلیمانی و انتظامی عہدوں پر بھی تقرریوں میں نمایاں بہتری ہوئی ہے۔
پاکستان میں فہمیدہ مرزا قومی اسمبلی کی اب تک کی پہلی خاتون اسپیکر رہی ہیں مگر بھارت میں دو خواتین ( میرا کمار اور سومیترا مہاجن ) لوک سبھا کی اسپیکر بنیں۔نجمہ ہیپت اللہ راجیہ سبھا کی چار بار ڈپٹی چیر پرسن بنیں اور پراتھیبا پاٹیل ایک بار ڈپٹی چیئر پرسن اور پھر بھارت کی پہلی خاتون صدر بھی بنیں۔بھارت میں اندرا گاندھی تین بار اور پاکستان میں بے نظیر بھٹو دو بار وزیرِ اعظم بنیں ، بی بی حیات ہوتیں تو تیسری بار بھی وزیرِ اعظم بننے کے مضبوط امکانات تھے۔عجب ستم ظریفی ہے کہ دونوں خواتین تشدد کا نوالہ بنیں۔
بھارت کی موجودہ پچھتر رکنی کابینہ میں اگرچہ نو خواتین ہیں۔مگر ان میں سے سات خاصے اہم عہدوں پر ہیں۔جیسے سوشما سوراج وزیرِ خارجہ ، نرملا متھارمن وزیرِ دفاع ، سمرتی ایرانی انفارمیشن اینڈ ٹیکسٹائیل ، رادھا موہن سنگھ زراعت ، ہرسمرت کور بادل فوڈ پروسیسنگ انڈسٹریز ، اوما بھارتی صاف پانی و صفائی اور مینکا گاندھی ویمن اینڈ چائلڈ ڈویلپمنٹ کا قلمدان دیکھ رہی ہیں۔
ثابت یہ ہوا کہ خواتین کو مردوں کی حوصلہ افزائی نہیں مواقع درکار ہیں ، خواتین پر بھروسہ کیا جائے تو وہ بھی مردوں کی طرح الیکٹ ایبل ہیں اور ہر وزارتی قلمدان و آئینی عہدہ پر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔اگرچہ آج حالات کل کے مقابلے میں بہتر ہیں مگر روائیتی ذہن بدلنے کی رفتار اتنی سست ہے کہ شائد اگلی دو نسلوں تک ہی آدھی مسافت طے ہو پائے گی۔۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)
اس تناظر میں آج ہمارا فوکس جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان اور بھارت کے قانون ساز و پالیسی ساز اداروں میں خواتین کی نمایندگی اور ان کے اثرات کا تقابلی جائزہ ہے۔
اگر ورلڈ اکنامک فورم کی صنفی مساوات سے متعلق سالانہ عالمی رپورٹ کو معیار مانا جائے تو تعلیم و صحت کی سہولتوں تک رسائی اور آگے بڑھنے کے اقتصادی مواقع اور سیاسی خود مختاری کی کسوٹی پر دنیا کے ایک سو چوالیس ممالک کی فہرست میں جنوبی ایشیا خاصا پیچھے ہے۔بنگلہ دیش کی رینکنگ بہتر،بھارت کی ستاسی،سری لنکا کی سوویں،نیپال کی ایک سو دسویں،مالدیپ کی ایک سو پندھرویں اور بھوٹان کی ایک سو اکیسویں ہے۔
مگر صنفی مساوات کی عالمی فہرست میں پاکستان کی رینکنگ مسلسل زوال پذیر ہے۔ دو ہزار چھ میں صنفی مساوات سے متعلق ورلڈ اکنامک فورم کی پہلی تقابلی رپورٹ شایع ہوئی تو پاکستان کی رینکنگ ایک سو بارہویں نمبر پر تھی۔دو ہزار بارہ میں یہ گرتی گرتی ایک سو تینتیسویں، دو ہزار تیرہ میں ایک سو پینتیسویں ، دو ہزار چودہ میں مزید گھٹ کر ایک سو اکتالیسیویں اور دو ہزار پندرہ اور سولہ میں ایک سو چوالیس ممالک میں ایک سو تینتالیسویں درجے تک پہنچ گئی۔گویا پاکستان میں خواتین اور مردوں کے مابین چار بنیادی شعبوں میں صنفی عدم مساوات کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔
حالانکہ خواتین کی سیاسی نمایندگی کے چارٹ میں پاکستان جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک سے بہتر اور آگے ہے۔مثلاً عالمی پارلیمانی یونین کی تازہ رینکنگ کے اعتبار سے ایک سو نوے ممالک کی فہرست میں سری لنکا سب سے خواندہ جنوبی ایشیائی ملک ہونے کے باوجود اپنی خواتین کو پارلیمنٹ اور کابینہ کی سطح پر محض پونے چھ فیصد تک نمایندگی دے پایا۔یوں ایک سو نوے ممالک کی پارلیمانی فہرست میں سری لنکا انتہائی نچلے یعنی ایک سو اسی ویں پائدان پر ہے۔مالدیپ کی رینکنگ ایک سو اٹہتر،بھوٹان کی ایک سو اکہتر،بھارت کی ایک سو انچاس،بنگلہ دیش کی چورانوے، پاکستان کی بانوے اور سب سے بہتر رینکنگ نیپال کی ہے جہاں پسماندگی کے باوجود پارلیمنٹ میں خواتین کی نمایندگی کے اعتبار سے نیپال اڑتالیسویں نمبر پر ہے۔
پاکستان میں پارلیمانی سطح پر خواتین کی نمایندگی کسی جمہوری حکومت نے نہیں بلکہ مشرف آمریت کے دور میں بہتر ہوئی۔قومی اسمبلی میں خواتین کی محضوص نشستوں کی تعداد بڑھا کر ساٹھ کی گئی اور سینیٹ میں سترہ فیصد نشستیں مخصوص کی گئیں جب کہ بلدیاتی اداروں میں خواتین کی نمایندگی بڑھا کر تینتیس فیصد تک کر دی گئی۔
لیکن جمہوریت اور مساوات کا راگ الاپنے والی تمام سیاسی جماعتیں مخصوص نشستوں پر تو خوشی خوشی خواتین کو نامزد کر دیتی ہیں مگر جنرل سیٹوں پر براہِ راست مقابلے کے لیے خواتین کو ٹکٹ دینے کی بات آتی ہے تو ہر سیاسی جماعت خواتین کو مردانہ وار اپنا سماجی مقام یاد دلانے کی کوشش کرتی ہیں۔یہ رجحان پچھلے تین عام انتخابات سے جوں کا توں ہے۔
مثلاً قومی اسمبلی کی تین سو بیالیس نشستوں میں سے دو سو بہتر جنرل نشستوں پر براہِ راست انتخاب ہوتا ہے۔دو ہزار دو میں صرف اڑتیس ، دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں چونتیس اور دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں محض چھتیس خواتین نے کسی بھی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر براہ راست انتخاب لڑا۔
پیپلز پارٹی نے دو ہزار دو میں دس ، دو ہزار آٹھ میں پندرہ اور دو ہزار تیرہ میں گیارہ خواتین کو جنرل سیٹ پر براہ راست الیکشن لڑنے کے قابل سمجھا۔ان گیارہ میں سے پانچ جیت گئیں۔مسلم لیگ ن نے دو ہزار دو میں چار،دو ہزار آٹھ میں چھ اور دو ہزار تیرہ میں سات خواتین امیدواروں کو جنرل سیٹ کا ٹکٹ دیا۔ان سات میں سے چار جیت گئیں اور پانچویں بیگم کلثوم نواز حال ہی میں حلقہ این اے ایک سو بیس لاہور سے جیتی ہیں۔یعنی اس وقت قومی اسمبلی میں جو دس خواتین جنرل نشستوں پر کامیاب ہوئیں ان میں سے پانچ مسلم لیگ ن اور پانچ پیپلز پارٹی کی ہیں۔
مسلم لیگ ق نے دو ہزار دو اور آٹھ کے انتخابات میں جنرل سیٹس پر آٹھ اور دو ہزار تیرہ میں چار خواتین کو ٹکٹ دیا۔جب کہ نئی نسل میں سب سے زیادہ مقبولیت کی دعویدار تحریکِ انصاف نے دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں دو سو ستائیس جنرل سیٹوں پر انتخاب لڑا۔ان میں صرف چار نشستوں پر خواتین امیدوار تھیں۔جماعتِ اسلامی اور جمیعت علماِ اسلام ( فضل ) نے دو ہزار دو سے دو ہزار تیرہ تک ہونے والے تینوں عام انتخابات میں ایک خاتون کو بھی براہِ راست الیکشن لڑنے کے قابل نہیں سمجھا۔
اگر دیگر جماعتوں کا جائزہ لیا جائے تو ایم کیو ایم نے دو ہزار دو میں جنرل سیٹس پر چار،دو ہزار آٹھ میں پانچ اور دو ہزار تیرہ میں سات خواتین کو ٹکٹ دیا۔مگر اس میں باریک کام یہ ہوا کہ سات میں سے چھ ٹکٹ پنجاب میں دیے گئے جہاں ایم کیو ایم کی سیاسی جڑیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔جب کہ ایک ٹکٹ اپنے سیاسی گڑھ کراچی میں خوش بخت شجاعت کو دیا اور وہ جیت گئیں۔قومی اسمبلی میں اگرچہ خواتین کے بارے میں پچھلے دس برس میں قابِل ذکر قانون سازی ہوئی مگر اکتیس اسٹینڈنگ کمیٹیوں میں سے صرف ایک کی سربراہ خاتون ہیں۔
ایوانِ بالا سینیٹ کا حال اور دگرگوں ہے۔ایک سو چار کے ایوان میں خواتین کے لیے مخصوص سترہ نشستیں تو بھری ہوئی ہیں لیکن صوبوں کے لیے مختص چھیاسٹھ جنرل سیٹس میں سے صرف ایک سیٹ کسی خاتون کے پاس ہے۔تاہم ماضی سے تقابل کیا جائے تو آج کی سینیٹ میں خواتین کی نمایندگی خاصی بہتر ہے۔
جب انیس سو تہتر کے آئین کے تحت پہلی پینتالیس رکنی سینیٹ وجود میں آئی تو اس وقت خواتین کے لیے الگ سے کوئی کوٹہ نہیں تھا۔واحد خاتون سینیٹر گجرات سے صائمہ عثمان تھیں اور چار برس بعد ان کی جگہ جھنگ کی آصفہ فاروقی نے لی۔انیس سو ستتر میں سینیٹ کی نشستیں پینتالیس سے تریسٹھ اور انیس سو پچاسی میں تریسٹھ سے ستاسی ہو گئیں مگر اس عرصے میں ایک بھی عورت سینیٹر نہیں تھی۔
انیس سو اٹھاسی سے چورانوے کی سنیٹ میں نور جہاں پانیزئی بلوچستان سے منتخب ہوئیں اور پہلی خاتون ڈپٹی چیئرپرسن بھی بنیں۔چورانوے سے دو ہزار تک کی سینیٹ میں دو خواتین تھیں۔فضا جونیجو اور نسرین جلیل۔پھر جنرل مشرف نے سینیٹ کے ارکان کی تعداد ستاسی سے ایک سو چار کر دی اور پہلی بار خواتین کے لیے سترہ فیصد کوٹہ مقرر ہوا۔تاہم موجودہ سینیٹ کی پندرہ اسٹینڈنگ کمیٹیوں میں سے دو کی سربراہ خواتین ہیں۔
اب رہی وفاقی و صوبائی کابیناؤں میں خواتین کی نمایندگی۔تو صورتِ احوال یہ ہے کہ تینتالیس رکنی وفاقی کابینہ میں ایک خاتون وفاقی وزیر اور دو وزرائے مملکت ہیں۔پنجاب کی اڑتالیس رکنی کابینہ میں چار خواتین وزیر ہیں۔وزیرِ اعلی کے آٹھ مشیروں اور چار خصوصی معاونین میں کوئی خاتون نہیں۔سندھ کی اٹھائیس رکنی کابینہ میں کوئی خاتون وزیر نہیں۔البتہ ایک خاتون مشیر اور نو میں سے دو خصوصی معاون خواتین ہیں۔البتہ صوبائی اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر خاتون ہیں ( شہلا رضا )۔
خیبر پختون خواہ میں تحریکِ انصاف کی مخلوط حکومت کی اکیس رکنی کابینہ میں ایک بھی خاتون نہیں۔البتہ اٹھارہ پارلیمانی سیکریٹریوں میں سے سات خواتین ہیں اور صوبائی اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر بھی خاتون ہیں (ڈاکٹر مہر تاج )۔ بلوچستان اسمبلی کی اسپیکر خاتون ہیں ( راحیلہ درانی )۔تاہم سترہ رکنی صوبائی کابینہ میں کوئی خاتون نہیں۔
خواتین کے لیے قانونی سفارشات پیش کرنے میں اسلامی نظریاتی کونسل خاصی پیش پیش ہے۔تاہم دس رکنی کونسل میں صرف ایک خاتون ہیں ( سمیعہ راحیل قاضی )۔
جیسا کہ اوپر تذکرہ ہوا کہ صنفی مساوات کی عالمی رینکنگ میں بھارت پاکستان سے کہیں آگے مگر پارلیمانی نمایندگی کے اعتبار سے پاکستان بھارت سے خاصا آگے ہے۔بھارت میں صرف بلدیاتی و پنچائتی سطح پر خواتین کا نمایندگی کوٹہ تینتیس فیصد ہے۔تاہم صوبائی اور وفاقی پارلیمان میں تمام سیاسی جماعتیں زبانی جمع خرچ ہی کرتی آئی ہیں۔ موجودہ لوک سبھا میں خواتین کی نمایندگی گیارہ اعشاریہ اٹھ فیصد اور ایوانِ بالا راجیہ سبھا میں گیارہ فیصد ہے تاہم پچھلے ستر برس میں خواتین کے حقوق اور تحفظ کے بارے میں بھارت میں بہتر قانون سازی ہوئی ہے اور اعلی پارلیمانی و انتظامی عہدوں پر بھی تقرریوں میں نمایاں بہتری ہوئی ہے۔
پاکستان میں فہمیدہ مرزا قومی اسمبلی کی اب تک کی پہلی خاتون اسپیکر رہی ہیں مگر بھارت میں دو خواتین ( میرا کمار اور سومیترا مہاجن ) لوک سبھا کی اسپیکر بنیں۔نجمہ ہیپت اللہ راجیہ سبھا کی چار بار ڈپٹی چیر پرسن بنیں اور پراتھیبا پاٹیل ایک بار ڈپٹی چیئر پرسن اور پھر بھارت کی پہلی خاتون صدر بھی بنیں۔بھارت میں اندرا گاندھی تین بار اور پاکستان میں بے نظیر بھٹو دو بار وزیرِ اعظم بنیں ، بی بی حیات ہوتیں تو تیسری بار بھی وزیرِ اعظم بننے کے مضبوط امکانات تھے۔عجب ستم ظریفی ہے کہ دونوں خواتین تشدد کا نوالہ بنیں۔
بھارت کی موجودہ پچھتر رکنی کابینہ میں اگرچہ نو خواتین ہیں۔مگر ان میں سے سات خاصے اہم عہدوں پر ہیں۔جیسے سوشما سوراج وزیرِ خارجہ ، نرملا متھارمن وزیرِ دفاع ، سمرتی ایرانی انفارمیشن اینڈ ٹیکسٹائیل ، رادھا موہن سنگھ زراعت ، ہرسمرت کور بادل فوڈ پروسیسنگ انڈسٹریز ، اوما بھارتی صاف پانی و صفائی اور مینکا گاندھی ویمن اینڈ چائلڈ ڈویلپمنٹ کا قلمدان دیکھ رہی ہیں۔
ثابت یہ ہوا کہ خواتین کو مردوں کی حوصلہ افزائی نہیں مواقع درکار ہیں ، خواتین پر بھروسہ کیا جائے تو وہ بھی مردوں کی طرح الیکٹ ایبل ہیں اور ہر وزارتی قلمدان و آئینی عہدہ پر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔اگرچہ آج حالات کل کے مقابلے میں بہتر ہیں مگر روائیتی ذہن بدلنے کی رفتار اتنی سست ہے کہ شائد اگلی دو نسلوں تک ہی آدھی مسافت طے ہو پائے گی۔۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)