وطن کی پکار

یہ کیسا جمہوریت کا انتقام ہے کہ غریب عوام ہی تیر کے نشانے پر ہیں، کچلے ہوئے عوام ہی شیر کا لقمہ بنے ہوئے ہیں؟

shabbirarman@yahoo.com

ہمارے وطن عزیز پاکستان کی 70سالہ تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ جمہوریت یا آمریت ہرایک میں چند سو خاندان ہی سرد کمروں میں میوزیکل چیئر گیم کھیلا کرتے آرہے ہیں، یعنی ایک بھائی اقتدار میں تو دوسرا بھائی اپوزیشن میں ، ایک رشتے دار حزب اقتدار میں تو دوسرا حزب اختلاف میں اور اسی تناسب میں سرکاری عہدے آپس میں تقسیم کیے جاتے رہے ہیں ۔

ہر صورت میں اقتدار کی اتھارٹی اسٹامپ مہرگھرکی میز پر رہی ہے ، ( لڑاؤ اور حکومت کرو ) یہی ہمارا سیاسی فلسفہ رہا ہے ، اس کھیل تماشے میں کچلے ہوئے غریب عوام ڈگڈگی کی آواز پر تالیاں بجاتے رہے اور کھیل کھیل میں ملک دولخت ہوگیا اور آہ بھی بلند نہ ہوئی ۔ ملک و قوم کے نام پر حاصل کی گئی دولت غلط سمت میں استعمال ہوتی رہی جس کے نتیجے میں وطن کا ہر نومولود بھی مقروض وگروی ہوگیا ، معیشت و اقتصادیات کی ابتری و زبوں حالی ، سرائیت کرتی ہوئی کرپشن ، مہنگائی و بے روزگاری سے جنم لینے والے جرائم و خودکشیاں درحقیقت فرسودہ ناکام نظام حکومت و متعصبانہ سیاست کا شاخسانہ ہیں ۔

ہماری معیشت قرضوں پر مبنی ہے ، ہماری آنے والی پانچ نسلیں بیرونی ممالک کے بینکوں میں گروی ہیں ، بظاہر ہمارا ملک غریب ہے جس کے کچلے ہوئے عوام روز جیتے اور روز مرتے ہیں لیکن حکمران اورحکمران خاندان امیر و کبیر ہیں، دیگر مراعات وشاہ خرچیاں اور اوپر کی کمائی الگ ہے،ایسے میں معیشت کیسے مستحکم ہوسکتی ہے ؟ وہ کون سی جادو کی چھڑی ہے جسے گماکر قوم کی ناگفتہ بہ حالت سدھاری جاسکتی ہے ؟ مفلس بد حال غریب عوام ہر دور حکومت میں قربانیاں دیتی آرہی ہے اور کڑوی گولی نگلتی رہی ہے کچھ تو خوف خدا کرو اے حکمرانو! روندے گئے کروڑوں انسان کل کی طرح آج بھی غربت کے ہاتھوں تنگ آکر اپنی جانیں آپ لے رہی ہیں۔

یہ کیسا جمہوریت کا انتقام ہے کہ غریب عوام ہی تیر کے نشانے پر ہیں، کچلے ہوئے عوام ہی شیر کا لقمہ بنے ہوئے ہیں ؟ عوام کو مجبور نہ بناؤ کہ زندگی بوجھ بن جائے ، وقت کا تقاضا اور وطن کی پکار ہے کہ لوٹی گئی قومی دولت کو قومی خزانے میں واپس لوٹا دیا جائے ، جدی پشتی اور سرمایہ دارانہ حکمرانی کر نے والوں کا یہ قومی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی دولت ملک میں واپس لائیں اور ڈوبتی ہوئی معیشت کو بحال کرنے میں اپنا قومی فرض نبھائیں ۔ قوم کے ساتھ میوزیکل چیئر گیم بہت ہوگیا ، بار بار ایک ہی کہانی کی چربہ سازی سے عوام بور ہوچکی ہے ، وہی پرانے چہرے صرف کردار بدلتے رہتے ہیں ، کچھ سوچیں ! جب ہال میں تماشائی نہ ہوں گے تو ایسی کہانی کا اسٹیج کرنے کا فائدہ کیا ہے ؟

( نیا سورج سکھ چین کا پیام لے کر طلوع ہوگا ، وہ وقت دور نہیں ہے جب ہر طرف خوشحالی و شادمانی کے ترانے بجیں گے ، نہ کوئی غریب ہوگا نہ کوئی امیر ہوگا ، مساوات پرمبنی معاشرے میں سب کے حقوق برابر ہوں گے ، سب برابر ہوں گے ،نہ کوئی چھوٹا ہوگا اور نہ کوئی بڑا ہوگا ، یہ مشکلات و مصائب ورثے میں ملے ہیں جنھیں عوام کی طاقت اور قربانیوں سے کنٹرول کیا جائے گا ، یہ آخری موقع ہے قوم اپنی ذمے داریوں کاا حساس کرے ، قربانی دیے بغیر راحت مل نہیں سکتی ، وغیرہ وغیرہ ۔ ) گھسے پٹے یہ خوش کن قومی مکالمے سننے والوں کے کانوں میں رس تو گھولتے رہے لیکن لیڈران قوم ، عوام کی توقعات پر پورا نہ اتر سکیں اور نہ ہی انھیں اجتماعی قومی خود کشی سے بچا یا جاسکا ہے ۔

یہی ناکام حکمرانوں کے لیے سوالیہ نشان ہے اور قومی المیہ ہے کہ قوم نے ہر بار انھی کو اپنا مسیحا جانا جہنوں نے انھیں بے یار و مددگار اجتماعی قومی خود کشی کرنے پر اکسایا اور ان کی سوالیہ میت پر مگر مچھ کے آنسو بہا کر ہمددردیاں حاصل کیں ، لیکن اب وقت کی صدا اور وطن عزیز کی پکار ہے کہ ان خود ساختہ بتوں کو ریزہ ریزہ کرناہوگا جن کی خواہش رہی ہے کہ ان کی پرستش کی جائے ، ان ہاتھوں کو قلم کرنا ہوگا جو گلشن کو آگ لگا دینے کے لیے اٹھا کرتے ہیں ، ان ٓانکھوں کو پھوڑنا ہوگا جو گلشن کو میلی آنکھ سے دیکھتی ہیں ، ان قدموں کو بھی کاٹنا ہوگا جو ہمقدم بن کر دشمنوں کے ہم قدم منزل ہوتے ہیں ، ان زبانوں کو گونگا کرنا ہوگا جو ترجمان بن کر دشمنوں کی زبان بولتی ہیں ، ان سروں کو قلم کرنا ہوگا جو گلشن کی بہار کو خزاں میں تبدیل کرنے کے لیے سجدہ ریز ہوتے ہیں ۔


الغرض کہ ہر اس وجود کو مٹانا ہوگا جو گلشن کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے کمر بستہ ہوتے ہیں ۔ اگر ہمیں اپنے وطن پاکستان سے محبت ہے ، اس کی آزادی سے ، خود مختاری ، سلامتی ، بقاء و استحکام عزیز ہیں تو ہمیں ہر سطح پر ، ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنا اپنا قومی فرض تمام ترتعصبات و عناد سے پاک ہوکر نھبانا ہوگا ، ہمیں ایک دوسرے کے حقوق کا پاس کرنا ہوگا ، جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنانی ہوگی ، ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا ، وسائل و اختیارات کی منصفانہ تقسیم کے فارمولے پر عمل کرنا ہوگا ، ہمیں پاکستانیت پر فخر کرنا ہوگا۔

سندھی ، بلوچی ، پنجابی ، پشتو، اردو، سرائیکی اور دیگر زبانیں بولنے والے ایک ہی چمن ( پاکستان ) کے مختلف رنگ برنگے پھول ہیں ان کی جداگانہ خوشبوئیں جب باہم مل کر ایک گلدان( مرکز) میں مہکتی ہیں تو فضا میں سحر انگیزی پیدا ہوتی ہے اور لوگ اس نایاب مہک سے مست ہوکر جیوے جیوے پاکستان کہتے ہیں ۔

ہمیں اس چمن کے گل کی حفاظت کرنا ہوگی اور سبز ہلالی پرچم کے سائے تلے ایک ہوکر یہ عہد کرنا ہوگا کہ پاک دھرتی کی استحکام کے لیے استحصالی نظام سے نجات دلائیں گے ۔ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے ، سقوط ڈھاکہ ایک ایسا المیہ ہے جو بھلایا نہیں جاسکتا ، ہمیں اپنی غلطی اور کوتائیوں پر نہ صرف ندامت و شرمندگی محسوس کرنی چاہیے بلکہ آیندہ کے لیے عہد کرنا ہوگا کہ ہم قومی یکجہتی کو کسی صورت پارہ پارہ نہیں ہونے دیں گے۔

آیئے مل کر عہد کریں کہ ہم ایک ایسا نظام رائج کریں گے جو پاکستان اور پاکستانی عوام کے حقیقی وسیع تر مفاد میں ہو ،اس کے لیے ہمیں نام نہاد فرضی کرداروں سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا اور ہر محب وطن پاکستانی شہری کو اپنا کردار ملک و قوم کے مفاد میں ادا کرنا ہوگا ۔ عوام اگر سیاسی شعور و ذہنی بالیدگی کا مظاہرہ کرکے درست عوامی نمایندوں کا چناؤ کریں تو ملک ترقی و خوشحالی کی راہوں پر گامزن ہوسکتا ہے۔

بقول اقبال :

تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
Load Next Story