سندھ کا ووٹر اور سیاسی جماعتیں
ممتاز بھٹو شاید نواز شریف صاحب کے لیے اس دور کے جام صادق علی بننا چاہیں گے۔
پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر تبصرہ فروشی کرنے والے میرے جیسے صحافی بہت خوش اور مطمئن ہیں۔ ہمارے پڑھنے اور دیکھنے والوں کی اکثریت نے ہمارا یہ دعویٰ مان لیا ہے کہ ایک اور انتخاب کے قریب پہنچ کر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے سے جدا ہونے کا ناٹک رچایا ہے۔ حکومت سے الگ ہو جانے کے بعد ایم کیو ایم اپنے کسی نمایندے کو اب سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنوائے گی تا کہ اس صوبے میں انتخاب کی نگرانی کے لیے بنائی جانے والی حکومت اور اس کے سربراہ کے قیام اور تقرر کے ضمن میں اپنا کردار ادا کر سکے۔
انتخابی عمل مکمل ہو جانے کے بعد برسر ِزمین حقائق ایک بار پھر ان دونوں کو ایک مشترکہ حکومت قائم کرنے پر مجبور کر دیں گے۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی طرف سے بڑی سوچ بچار کے بعد لکھے گئے کسی اسکرپٹ کے عین مطابق ایک دوسرے سے وقتی طور پر جدا ہوجانے کا ناٹک بے نقاب کرتے ہوئے میرے جیسے صحافی اس اعتماد کو قطعی نظر انداز کیے بیٹھے ہیں جو ان دونوں جماعتوں کے اصل کرتا دھرتائوں کو یہ اطمینان دیتا ہے کہ وہ جو چاہے ڈرامے لگاتے رہیں، آیندہ کے انتخابات کے دوران سندھ میں رائے دہندگان کی اکثریت ان ہی کے نامزد کردہ امیدوارں کو مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے منتخب کرے گی۔ کسی بھی جاندار جمہوری معاشرے میں ایسا اطمینان سیاسی جماعتوں کو بڑی مشکل سے نصیب ہوتا ہے۔
گزشتہ پانچ سالوں میں ہماری ٹیلی وژن اسکرینوں پر سندھ اور خاص طور پر کراچی کے حوالے سے سرخ پٹیوں کے ساتھ بھتہ خوری،ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ وارانہ فسادات والی خبروں کے سیلاب کے پسِ منظر میں دونوں جماعتوں کا یہ اطمینان تو ضرورت سے زیادہ سفاکانہ نظر آتا ہے۔ صحافیوں کا بنیادی کام تو مگر خبر دینا ہے اور اس خبر پر اپنی عقل و فہم کے مطابق تبصرہ آرائی۔ اس کے بعد اور پہلے والے کام تو سیاستدانوں نے کرنا ہوتے ہیں۔ یہ بات کہنے کے بعد میں یہ پوچھنے پر مجبور ہوں کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ڈراموں اور مک مکا پر حقارت آمیز تبصرہ آرائی کے علاوہ پاکستان کی دوسری جماعتوں نے سندھ میں اپنی جگہ بنانے کے لیے کونسے اقدامات اٹھائے ہیں۔
نواز شریف صاحب دو مرتبہ اس ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ پاکستان کے بہت سارے لوگ اب طے کر بیٹھے ہیں کہ آیندہ انتخابات دراصل انھیں تیسری باری دینے کے لیے منعقد ہوں گے۔ اگر یہ بات سچ ثابت ہو جائے تو ذاتی طور پر مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں۔ نواز شریف صاحب کی دو حکومتیں بھگتائی ہیں۔ تیسری بھی دیکھ لیں گے۔ سو بسم اللہ۔ لیکن سندھ اور بالخصوص کراچی کا تذکرہ کرتے ہوئے میں ابھی تک پاکستان مسلم لیگ ن کے ان لوگوں کے نام گننا بہت مشکل پا رہا ہوں جنہوں نے گزشتہ پانچ سال پورے انہماک کے ساتھ اس صوبے کے معاملات پر نظر رکھتے ہوئے کوئی تیسری راہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ نواز شریف صاحب کو اپنی دونوں حکومتوں کے دوران ایم کیو ایم سے شدید مشکلات اور شکایات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اس جماعت کا اب نام سننے کو بھی تیار نہیں۔
ان کی ذات کے حوالے سے یہ تلخی سمجھی جا سکتی ہے۔ مگر کب، کتنی بار اور کس انداز میں انھوں نے کراچی کے شہریوں سے براہِ راست مکالمہ کیا؟ ان کے دلوں اور گھروں تک پہنچنے کی کوشش کی۔ اس پیغام کے ساتھ کہ مندرجہ ذیل حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے وہ کراچی کی رونقیں واپس لا کر اسے پاکستان کی معیشت کو رواں کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنے پر تیار کر سکتے ہیں۔ ذرا غور سے دیکھیے تو گزشتہ پانچ سالوں میں نواز شریف صاحب نے اپنی پوری توجہ تو صرف اندرونِ سندھ پر مرکوز رکھی ہے۔ یہ توجہ بھی زیادہ تر ان لوگوں سے رشتے بنانے میں صرف ہو گئی جو اپنے اپنے حلقوں میں طاقتور سمجھے جاتے ہیں اور 1988 اور اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو مشکلوں سے دو چار کرتے رہے ہیں۔ لیاقت جتوئی سے پیر پگاڑا تک نواز شریف کا سارا انحصار ایسے ہی لوگوں پر ہے۔
ممتاز بھٹو اور لیاقت جتوئی جیسے لوگوں کے نخرے اٹھاتے نواز شریف صاحب اس امر سے بالکل بے خبر دِکھ رہے ہیں کہ سندھ میں کراچی اور حیدر آباد کے علاوہ دوسرے شہر بھی ہیں۔ سندھی بولنے والا متوسط طبقہ ان شہروں میں گزشتہ دس سالوں میں بڑی تیزی سے پھیلا ہے۔ یہ طبقہ پڑھا لکھا محنتی اور سیاسی طور پر بہت باشعور ہے۔ وہ اس تاثر کی نفی کرنا چاہتا ہے کہ سندھ کے عوام آنکھیں بند کر کے اپنے وڈیرے یا پیر کے حکم پر ووٹ دیتے ہیں۔ 1988کے انتخابات میں بھی سندھیوں نے پیر پگاڑا اور غلام مصطفیٰ جتوئی کو ووٹ نہیں دیے تھے۔ ظلم ان کے ساتھ مگر یہ ہوا کہ جتوئی صاحب اپنے آبائی حلقے سے ہارے تو ''پنجاب والوں'' نے غلام مصطفیٰ کھر کی مدد سے انھیں کوٹ ادو سے منتخب کروانے کے بعد اس وقت کی قومی اسمبلی میں تمام اپوزیشن جماعتوں کا قائد بنوا دیا۔
پھر بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت برطرف کر دی گئی۔ جتوئی صاحب عبوری وزیراعظم تو بنائے گئے۔ مگر انتخابات کے بعد لاہور کے نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی پہلی حکومت کے دنوں سے اسلام آباد سندھ سے ہمیشہ کسی جام صادق علی کو ڈھونڈتا رہتاہے۔ وڈیرہ سیاست کے تمام دائو پیچ آزماتے ہوئے ایسا شخص اپنے ارد گرد چند سندھی بولنے والے معتبر اکٹھا کر لیتا ہے تو ایم کیو ایم کی مدد سے وزیر اعلیٰ بنا دیا جاتا ہے۔ ممتاز بھٹو شاید نواز شریف صاحب کے لیے اس دور کے جام صادق علی بننا چاہیں گے۔
ایسا سوچتے ہوئے وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اب ایسا کام کرنے کے لیے آیندہ انتخابات کے بعد انھیں ایم کیو ایم کو وہ کچھ دینا ہو گا جو آصف علی زرداری نے ان پانچ سالوں میں نہیں دیا۔ پیر پگاڑا جس کے سر پر دستِ شفقت رکھیں گے کرنا اس وزیراعلیٰ کو بھی یہی پڑے گا۔ ''سودا'' ارباب رحیم کے پاس بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ اس طرح کی صورتحال میں سندھ کے زیادہ تر ووٹر پیپلز پارٹی کے ساتھ ''اسی تنخواہ'' پر گزارہ نہ کریں تو اور کیا کریں۔ سندھ کے لوگوں کو کسی ایسے لیڈر اور سیاسی جماعت کی بے چینی سے تلاش ہے جو شدت کے ساتھ یہ پیغام دے سکے کہ اُردو اور سندھی کے نام پر ابھی تک جو سیاست ہوئی ہے اس نے عوام کی زندگیوں کو مشکل سے مشکل تر بنا دیا ہے۔ اب ایک نئے Narrative کی ضرورت ہے جو لیاقت آباد اور جام جو گوٹھ میں پیدا ہو کر بڑے ہو جانے والے نوجوان کو اپنے نسلی اور لسانی تعصبات سے باہر نکال کر ایک جدید ریاست کا حقوق رکھنے والا شہری بنا سکے۔ بدقسمتی سے نواز شریف یا عمران خان نے ایسا کوئی Narrative نہ سوچا نہ بنایا ہے۔
انتخابی عمل مکمل ہو جانے کے بعد برسر ِزمین حقائق ایک بار پھر ان دونوں کو ایک مشترکہ حکومت قائم کرنے پر مجبور کر دیں گے۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی طرف سے بڑی سوچ بچار کے بعد لکھے گئے کسی اسکرپٹ کے عین مطابق ایک دوسرے سے وقتی طور پر جدا ہوجانے کا ناٹک بے نقاب کرتے ہوئے میرے جیسے صحافی اس اعتماد کو قطعی نظر انداز کیے بیٹھے ہیں جو ان دونوں جماعتوں کے اصل کرتا دھرتائوں کو یہ اطمینان دیتا ہے کہ وہ جو چاہے ڈرامے لگاتے رہیں، آیندہ کے انتخابات کے دوران سندھ میں رائے دہندگان کی اکثریت ان ہی کے نامزد کردہ امیدوارں کو مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے منتخب کرے گی۔ کسی بھی جاندار جمہوری معاشرے میں ایسا اطمینان سیاسی جماعتوں کو بڑی مشکل سے نصیب ہوتا ہے۔
گزشتہ پانچ سالوں میں ہماری ٹیلی وژن اسکرینوں پر سندھ اور خاص طور پر کراچی کے حوالے سے سرخ پٹیوں کے ساتھ بھتہ خوری،ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ وارانہ فسادات والی خبروں کے سیلاب کے پسِ منظر میں دونوں جماعتوں کا یہ اطمینان تو ضرورت سے زیادہ سفاکانہ نظر آتا ہے۔ صحافیوں کا بنیادی کام تو مگر خبر دینا ہے اور اس خبر پر اپنی عقل و فہم کے مطابق تبصرہ آرائی۔ اس کے بعد اور پہلے والے کام تو سیاستدانوں نے کرنا ہوتے ہیں۔ یہ بات کہنے کے بعد میں یہ پوچھنے پر مجبور ہوں کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ڈراموں اور مک مکا پر حقارت آمیز تبصرہ آرائی کے علاوہ پاکستان کی دوسری جماعتوں نے سندھ میں اپنی جگہ بنانے کے لیے کونسے اقدامات اٹھائے ہیں۔
نواز شریف صاحب دو مرتبہ اس ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ پاکستان کے بہت سارے لوگ اب طے کر بیٹھے ہیں کہ آیندہ انتخابات دراصل انھیں تیسری باری دینے کے لیے منعقد ہوں گے۔ اگر یہ بات سچ ثابت ہو جائے تو ذاتی طور پر مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں۔ نواز شریف صاحب کی دو حکومتیں بھگتائی ہیں۔ تیسری بھی دیکھ لیں گے۔ سو بسم اللہ۔ لیکن سندھ اور بالخصوص کراچی کا تذکرہ کرتے ہوئے میں ابھی تک پاکستان مسلم لیگ ن کے ان لوگوں کے نام گننا بہت مشکل پا رہا ہوں جنہوں نے گزشتہ پانچ سال پورے انہماک کے ساتھ اس صوبے کے معاملات پر نظر رکھتے ہوئے کوئی تیسری راہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ نواز شریف صاحب کو اپنی دونوں حکومتوں کے دوران ایم کیو ایم سے شدید مشکلات اور شکایات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اس جماعت کا اب نام سننے کو بھی تیار نہیں۔
ان کی ذات کے حوالے سے یہ تلخی سمجھی جا سکتی ہے۔ مگر کب، کتنی بار اور کس انداز میں انھوں نے کراچی کے شہریوں سے براہِ راست مکالمہ کیا؟ ان کے دلوں اور گھروں تک پہنچنے کی کوشش کی۔ اس پیغام کے ساتھ کہ مندرجہ ذیل حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے وہ کراچی کی رونقیں واپس لا کر اسے پاکستان کی معیشت کو رواں کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنے پر تیار کر سکتے ہیں۔ ذرا غور سے دیکھیے تو گزشتہ پانچ سالوں میں نواز شریف صاحب نے اپنی پوری توجہ تو صرف اندرونِ سندھ پر مرکوز رکھی ہے۔ یہ توجہ بھی زیادہ تر ان لوگوں سے رشتے بنانے میں صرف ہو گئی جو اپنے اپنے حلقوں میں طاقتور سمجھے جاتے ہیں اور 1988 اور اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو مشکلوں سے دو چار کرتے رہے ہیں۔ لیاقت جتوئی سے پیر پگاڑا تک نواز شریف کا سارا انحصار ایسے ہی لوگوں پر ہے۔
ممتاز بھٹو اور لیاقت جتوئی جیسے لوگوں کے نخرے اٹھاتے نواز شریف صاحب اس امر سے بالکل بے خبر دِکھ رہے ہیں کہ سندھ میں کراچی اور حیدر آباد کے علاوہ دوسرے شہر بھی ہیں۔ سندھی بولنے والا متوسط طبقہ ان شہروں میں گزشتہ دس سالوں میں بڑی تیزی سے پھیلا ہے۔ یہ طبقہ پڑھا لکھا محنتی اور سیاسی طور پر بہت باشعور ہے۔ وہ اس تاثر کی نفی کرنا چاہتا ہے کہ سندھ کے عوام آنکھیں بند کر کے اپنے وڈیرے یا پیر کے حکم پر ووٹ دیتے ہیں۔ 1988کے انتخابات میں بھی سندھیوں نے پیر پگاڑا اور غلام مصطفیٰ جتوئی کو ووٹ نہیں دیے تھے۔ ظلم ان کے ساتھ مگر یہ ہوا کہ جتوئی صاحب اپنے آبائی حلقے سے ہارے تو ''پنجاب والوں'' نے غلام مصطفیٰ کھر کی مدد سے انھیں کوٹ ادو سے منتخب کروانے کے بعد اس وقت کی قومی اسمبلی میں تمام اپوزیشن جماعتوں کا قائد بنوا دیا۔
پھر بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت برطرف کر دی گئی۔ جتوئی صاحب عبوری وزیراعظم تو بنائے گئے۔ مگر انتخابات کے بعد لاہور کے نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی پہلی حکومت کے دنوں سے اسلام آباد سندھ سے ہمیشہ کسی جام صادق علی کو ڈھونڈتا رہتاہے۔ وڈیرہ سیاست کے تمام دائو پیچ آزماتے ہوئے ایسا شخص اپنے ارد گرد چند سندھی بولنے والے معتبر اکٹھا کر لیتا ہے تو ایم کیو ایم کی مدد سے وزیر اعلیٰ بنا دیا جاتا ہے۔ ممتاز بھٹو شاید نواز شریف صاحب کے لیے اس دور کے جام صادق علی بننا چاہیں گے۔
ایسا سوچتے ہوئے وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اب ایسا کام کرنے کے لیے آیندہ انتخابات کے بعد انھیں ایم کیو ایم کو وہ کچھ دینا ہو گا جو آصف علی زرداری نے ان پانچ سالوں میں نہیں دیا۔ پیر پگاڑا جس کے سر پر دستِ شفقت رکھیں گے کرنا اس وزیراعلیٰ کو بھی یہی پڑے گا۔ ''سودا'' ارباب رحیم کے پاس بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ اس طرح کی صورتحال میں سندھ کے زیادہ تر ووٹر پیپلز پارٹی کے ساتھ ''اسی تنخواہ'' پر گزارہ نہ کریں تو اور کیا کریں۔ سندھ کے لوگوں کو کسی ایسے لیڈر اور سیاسی جماعت کی بے چینی سے تلاش ہے جو شدت کے ساتھ یہ پیغام دے سکے کہ اُردو اور سندھی کے نام پر ابھی تک جو سیاست ہوئی ہے اس نے عوام کی زندگیوں کو مشکل سے مشکل تر بنا دیا ہے۔ اب ایک نئے Narrative کی ضرورت ہے جو لیاقت آباد اور جام جو گوٹھ میں پیدا ہو کر بڑے ہو جانے والے نوجوان کو اپنے نسلی اور لسانی تعصبات سے باہر نکال کر ایک جدید ریاست کا حقوق رکھنے والا شہری بنا سکے۔ بدقسمتی سے نواز شریف یا عمران خان نے ایسا کوئی Narrative نہ سوچا نہ بنایا ہے۔