اقلیتوں کے خلاف تشدد پسندی آخری حصہ

عوام کو تشدد کے جوابی اقدام کے سلسلے میں مذہبی تعصب کے متعلق بتایا جائے۔

1984 میں ہی احمدیہ گروپ کے خلاف ایک اور قانون پاس ہوا جس کے تحت ان پر اپنی مذہبی و سماجی سرگرمیوں پر پابندی عائد ہو گئی اور اب وہ اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کا نام نہیں دے سکتے تھے۔ 1985میں پاکستان کی اقلیتوں کے خلاف ایک اور حربہ ان کو ملکی الیکشن کے بنیادی حق سے علیحدہ کرنا تھا۔ (گرچہ اس قسم کا تفریقی قانون 1956 میں منسوخ ہو چکا تھا) جس کے تحت غیر مسلم علیحدہ ووٹرز قرار دیے گئے اور وہ اسمبلیوں کے لیے محض غیر مسلم امیدوار کو ہی منتخب کر سکتے تھے۔ اس طرح انھیں عام الیکشن میں حق رائے دہی سے محروم کر دیا گیا۔ 1986 میں ہی توہین ناموس رسالت کا قانون پاس ہوا۔ جس کی وجہ سے غریب اور محکوم اقلیتوں پر بہتان لگانے والوں میں اضافہ ہوا اور غلط سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔ واضح ہو کہ یہ تمام کیسز شریعت کورٹ میں پیش ہوئے اور فیصلے بھی وہیں صادر ہوئے، ایک ایسے ملک میں جہاں کی خواندگی کی شرح 2012 میں 58 فی صد ہے اور غربت عروج پر۔

جنرل ضیاء الحق کا دس سالہ دور حکومت:- 1988 میں فضائی حادثے میں ختم ہونے والے ضیاء الحق کی حکومت کے متعلق تاریخ دان متفق ہیں کہ اس دوران پاکستان میں تنگ نظری، اقلیتوں کے خلاف مذہبی تعصب، افغانستان سے غیر قانونی نشہ آور ڈرگ اور تشدد پسند مسلح جہادیوں کے گروپ کے کلچر نے فروغ پایا۔ 1980کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف لڑی جانے والی افغان جنگ میں کہ جس میں افغانستان کا ساتھ پاکستان اور امریکا نے بھرپور انداز میں دیا، مسلح جہادی گروپوں نے اہم کردار ادا کیا۔ ان گروپس کی تعداد اس دوران مشروموں کی طرح بڑھ چکی تھی اور ان کی فنڈنگ کا ایک اہم ذریعہ سعودی حکومت تھی۔ ان جماعتوں کا گزشتہ تین دہائیوں میں پاکستان کے سیاسی اور سماجی نظام میں بھرپور عمل دخل رہا ہے اور ہر سطح پر اپنے قدم جمانے کا کام بہت منظم انداز میں کیا گیا ہے۔ مثلاً تعلیمی نظام میں نصاب کے ذریعے اقلیتوں کے خلاف خاص تعصب اور تفرقہ پیدا کرنا کہ جو ایک اہم ترین ہتھیار ثابت ہوا اور تحقیق نے ثابت کیا کہ پہلی جماعت سے کالج کی سطح کے نصاب نے ہماری نسلوں میں کس قدر تعصب اور نفرت کا زہر گھولا۔ پاکستان کا حالیہ مذہبی تشدد جو اقلیتوں بالخصوص شیعوں کے خلاف روا ہے، اس کا متقاضی ہے کہ ان جہادی تنظیموں کی تفصیل بیان کی جائے جو قتل و غارت گری میں ملوث ہیں۔

پاکستان کے جارحانہ پر تشدد اسلامی گروپ پر مشہور تحقیق دان ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا 4 فروری 2013 کو ایک تفصیلی مقالہ چھپا ہے۔ سینٹر فار انٹرنیشنل اینڈ اسٹرٹیجک انالیسس (Center for International Strategic Analysis) یعنی SISA کے تحت چھپنے والی اس تحقیق میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے جنوبی، شمالی اور وسطی علاقوں میں مسلح جارحیت کا جائزہ لیا ہے اور پنجاب کے جہادی گروپس کی تفصیل لکھی گئی ہے۔ مصنفہ کے مطابق 1980کی افغان جنگ اور افغان طالبان کے ساتھ لڑنے والے پنجابی جہادیوں کی جنگ پرانی ہے۔ جو اس جنگ کے بعد انڈیا، کشمیر، بوسنیا، چیچنیا اور دوسرے مقامات پر لڑنے چلے گئے۔

1992 کے وسط یا اختتام پر 72 جہادی تنظیمیں پنجاب میں کام کر رہی تھیں۔ تاہم بعد میں بالخصوص نائن الیون کے بعد ان تنظیموں نے بڑی تنظیم کی صورت اختیار کر لی۔ اس طرح اس وقت چھ یا سات بڑی تنظیمیں کام کر رہی ہیں جو مختلف اسلامی مکاتب فکر سے تعلق رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے اپنے مقالے میں بتایا ہے کہ کس طرح یہ جہادی تنظیمیں سماجی اور سیاسی نظام میں عمل دخل رکھتی ہیں۔ ان کا یہ طریقہ کار مرحلہ وار ہوتا ہے۔

1۔ ایسی فضا کی تشکیل کہ جو کسی ایک نظریے کو بڑھاتی ہیں اور سماج کے مختلف مذاہب کے مل جل کر رہنے کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں، اس پہلے مرحلے کو ابتدائی یا Pre Radicalism Stage کہتے ہیں۔ اس میں مذہب کو سماجی اور سیاسی نظاموں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
2۔ لوگوں کو خانوں میں تقسیم کر دینا۔ اس مرحلے میں لوگوں کا پر تشدد ہونا ضروری نہیں۔ لیکن ان کا لوگوں کے لیے تصور بدلنے لگتا ہے۔ وہ مذہبی تفریق کی وجہ سے دوسروں کو رد کرنے لگتے ہیں اور نفسیاتی طور پر لوگوں کے خلاف رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ یہ رکاوٹیں کسی فرد، معاشرے، گروپ یا قوم کے خلاف ہو سکتی ہیں۔ اس مرحلے کو مخفی جارحیت یا Latant Radicalsim کہا جاتا ہے۔
3۔تیسرا مرحلہ ایکٹو جارحیت ہے جس میں افراد، گروپ، باقاعدہ گفتگو یا مناظرے میں دلائل دیتے ہیں اور دوسروں کو نشانہ بناتے ہیں، یہی وہ اسٹیج ہے کہ کسی خاص گروپ کے خلاف تشدد کی فضا ہموار ہوتی ہے اور اپنا بنیادی کردار ادا کیا جاتا ہے۔

تشدد کے طریقہ کار کو پنپنے میں جو عوامل بنیادی کردار ادا کرتے ہیں اس میں غربت، حکومتی اداروں کی نااہلی، ناقص نظام تعلیم، ذرایع کی نامنصفانہ تقسیم وغیرہ ہیں جو منفی نظریات کی پرورش کرتے ہیں۔ لیکن سیاسی اور جغرافیائی حالات اس عمل کی رفتار کو تیز تر کر دیتے ہیں۔


یہاں یہ بات بھی تحقیق کا حصہ ہے کہ کس طرح افغانستان جا کر لڑنے والے طالبان نے جنگ کے بعد اپنی خدمات پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس کو پیش کیں جو ملٹری انٹیلی جنس اور جہادیوں کے مشترکہ مفادات کے سبب اچھی گٹھ جوڑ ثابت ہوئی ہیں۔ اس طرح یہ جہادی گروپ کی جارحیت اب محض سیاسی ہی نہیں بلکہ مادی حصول کا ذریعہ بھی ہے کہ نئی سرمایہ دار، بزنس برادری بھی ان سے تعاون کر رہی ہے۔ حتیٰ کہ اغوا اور تاوان جیسے کاموں میں بھی جہادی ملوث ہیں اور ان کے مدرسے بھی تجارتی اداروں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔

جارحیت کو روکنے کے لیے تجاویز:-
ریاستی سطح پر کام، ریاست کا کردار اہم ہے۔ اس کو چلانے والے ادارے سوچ میں بنیادی تبدیلی کا کام انجام دے سکتے ہیں، مثلاً
1۔ تعلیمی نصاب میں تبدیلی، جامعات خود مختار اور اس کا نصاب سائنسی بنیاد پر ہو۔
2۔ مدرسوں کو مساجد سے جدا ہو کر رجسٹرڈ کرانا ضروری ہو اور مدارس کی فنڈنگ کی جانچ پڑتال ہو۔
3۔ تمام پرائیویٹ تعلیمی ادارے بشمول مدرسوں کا محاسبہ ہو۔
4۔ پولیس اور عدلیہ کا نظام بہتر ہو۔ پولیس کا دہشت گردوں سے نمٹنے کا طریقہ کار وضع ہو اور ممکنہ دہشت گردی پر بھی نظر ہو۔
5۔ ہتھیار چھین لیے جائیں۔
6۔ عدلیہ کا ناقص نظام بہتر کرنے کے لیے بین الاقوامی کمیونٹی ان کی تربیت کرے اور ججوں کو گائیڈ کر کے اصول وضع کریں۔
7۔ شاہدین کی حفاظت کا انتظام ہو۔

سماجی طور پر اقدامات:-
1۔ عوام کو تشدد کے جوابی اقدام کے سلسلے میں مذہبی تعصب کے متعلق بتایا جائے۔
2۔ ریڈیو اور ٹی وی پر گفتگو کے پروگرام ہوں جو عوام میں اتحاد پیدا کریں۔
3۔ چھوٹے اسٹڈی سرکل تشکیل دیے جائیں جو آزاد خیال عالم اور مسلمانوں کے درمیان گفتگو کریں اور اس سلسلے میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔
Load Next Story