پنجاب کی بے نظیر

بے نظیر بھٹو اور مریم نواز میں کئی طرح کی مماثلت ہے لیکن بہت سے فرق بھی ان دونوں کے درمیان نمایاں ہیں

بے نظیر بھٹو اور مریم نواز میں کئی طرح کی مماثلت ہے لیکن بہت سے فرق بھی ان دونوں کے درمیان نمایاں ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ISLAMABAD:
نواز لیگ کے زیرک سیاستدان چوہدری نثارنے کہا تھا کہ مریم نواز کا بے نظیر بھٹو سے موازنہ کسی طور درست نہیں، مریم نواز کو پہلے عملی سیاست میں حصہ لے کر خود کو ثابت کرنا ہوگا۔ اپنی والدہ کی الیکشن مہم چلا کر وہ خود کو لیڈر ثابت نہیں کرسکتیں اور جس طرح انہوں نے لاہور میں الیکشن مہم چلائی، وہ سب کے سامنے ہے۔ اتنا پیسہ خرچ کرکے تو کوئی بھی نوعمر خاتون سیاستدان الیکشن جتواسکتی ہے۔ اور جس طرح ان کے آنے سے پہلے ماحول بنایا جاتا تھا، وہ بھی سب کے سامنے تھا۔ اس طرح کی جیت سے انہیں لیڈر نہیں مانا جاسکتا۔

مریم نواز کی پہچان پاکستانی سیاست میں صرف نواز شریف کی بیٹی ہونا ہے۔ ایسا ہی کچھ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بارے میں کہا جاتا تھا جب لوگوں نے بے نظیر کو صرف وزیر اعظم کی بیٹی کے طور پر اپنے باپ کے ساتھ غیر ملکی دوروں یا فیملی یا سرکاری تقریبات کی تصویروں میں دیکھا تھا۔ اسی دور میں ''بھٹو کی تصویر بے نظیر'' کا نعرہ وجود میں آیا۔

کیا مریم نواز بھی بے نظیر بھٹو کی طرح اپنا مقام بنا پائیں گی؟

پنجاب سے اٹھنے والا نعرہ ''پنجاب کی بے نظیر مریم'' اب دوسرے صوبوں میں بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ چوہدری نثار کے مخالفین مریم نواز کو سائیڈ لائن کرنے پر شدید ناراض ہیں اور مریم کو عملی سیاست میں دور رکھنے پر اپنے تحفظات میاں صاحب تک پہنچارہے ہیں۔ مریم نواز کو بھی بے نظیر بھٹو کی طرح فیملی کرائسس کے باعث اچانک سیاست میں آنا پڑا۔ پاناما نے ان کی ساکھ ضرور خراب کی لیکن سپریم کورٹ اور پھر نیب کی جانب سے کلین چٹ نے ان کی سیاست کو مکمل تباہی سے بچالیا۔

تاہم اگر بے نظیر بھٹو سے موازنہ کیا جائے تو جب ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تو بے نظیر میدان میں آئیں جبکہ نواز شر یف کو نااہلی کی سزا سنائی جانے پر مریم نواز کو میدان میں آنا پڑا۔ بے نظیر کے دونوں بھائی قتل ہوئے جبکہ مریم نواز کے دونوں بھائیوں کے خلاف نیب ریفرنس دائر کیے گئے۔ بے نظیر بھٹو کی والدہ نصرت بھٹو شدید علالت کا شکار ہوئیں جبکہ مریم نواز کی والدہ کلثوم نواز بھی ان دنوں شد ید علیل ہیں اور لندن میں زیر علاج ہیں۔


سب سے اہم بات یہ کہ دونوں نے اپنے شوہروں کے نام اپنے ساتھ نہیں لگائے۔ بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف زرداری ہیں لیکن سیاسی مفاد کےلیے انہوں نے اپنے نام کے ساتھ ''بھٹو'' لکھا اور مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر ہیں جو انہی کے والد کے سیکیورٹی آفیسر تھے۔ لیکن انہوں نے بھی سیاسی مفاد کےلیے اپنے والد کا نام اپنے نام کے سا تھ جوڑے رکھا ہے۔ مریم نواز نے انگریزی ادب میں جامعہ پنجاب سے ڈ گری لی جبکہ بے نظیر بھٹو نے ہارورڈ یونیورسٹی سے 1973 میں پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن کیا اور پھر آکسفورڈ یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا۔

ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کو پنجاب نے بنایا، نواز شریف کو بھی پنجا ب نے تیار کیا اور این اے 120 کے الیکشن میں مریم نواز کو پنجاب کی بے نظیر بھٹو بنانے کی کوشش کی گئی۔ وہ گرج چمک کے ساتھ تقاریر کرتی رہی ہیں اور بے نظیر کی طرح عوام سے پوچھتی ہیں کہ بولو کیا ''تم'' میرا ساتھ دو گے؟ جس پر کئی تجزیہ کاروں نے اعتراض کیا کہ مریم ''تم'' کہہ کر کیوں مخاطب کرتی ہیں۔ کیا اس جلسے میں سینیئرز یا ان سے بڑی عمر کے لوگ موجود نہیں ہوتے؟ نعرے لگوانے میں بھی انہوں نے خاصی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ لاہور کے حلقہ این اے 120 کی انتخابی مہم چلائی اور اپنی والدہ کو فتح سے ہمکنار بھی کروایا گو کہ وہ ان نتائج سے زیادہ خوش نہ تھیں کیونکہ مخالفین کا منہ بند کرنے کےلیے ان کو بڑے فرق سے جیتنا تھا مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہیں۔

مریم نواز کی قسمت بھی بے نظیر کی طرح بحرانوں سے بھری ہوئی ہے۔ بے نظیر کی طرح مریم کے بھی شوہر سے تعلقات مثالی نہیں۔ جس طرح بھٹو خاندان دو تین دھڑوں میں تقسیم ہوا، اسی طرح شریف خاندان بھی دو حصوں میں بٹ چکا ہے۔ غنوٰی بھٹو اور ممتاز بھٹو نے جس طرح بھٹو خاندان کا الگ دھڑا بنایا تھا اسی طرح شہباز شریف، حمزہ شہباز اور چوہدری نثارعلی خان بھی شریف خاندان کے خلاف تھے مگر مریم کو ایک طرف کرنے کی وجہ سے فی الوقت کوئی دھڑا سامنے نہ آسکا۔ مگر مستقبل میں مریم کو اس طرح پزیرائی ملی تو یہ لوگ غنوی بھٹو کی طرح الگ ہو سکتے ہیں۔

جس طرح بے نظیر کو پارٹی کے رہنماﺅں کی مخالفت کا سامنا تھا اسی طرح مریم نواز کے راستے میں بھی مخالفت کے اسپیڈ بریکرز ہیں۔ چوہدری نثار سیاست میں وراثت کے خلاف سب سے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ چوہدری نثا ر کو مریم نواز کا مخالف بنانے میں میاں صاحب کی پالیسیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ پہلے انہیں کچن کیبنٹ سے نکال باہر کیا گیا، پاناما کیس کو نواز پا رٹی کے حوالے کردیا گیا، سینئر وزراء کے مشورے پر بھی انہیں بلانے کی زحمت ہی نہیں کی گئی۔ آخر میں جب وزارت عظمی کا منصب سنبھالنے کا موقع آیا تو پارٹی مفاد پر کاروباری مفاد کو مقدم سمجھا گیا۔

چوہدری نثار بھی موقعے کے انتظار میں تھے اور نواز شریف کے وطن واپس آتے ہی ان سے ون ٹو ون ملاقات کی اور مریم کو سیاست سے دور رکھنے کی شرط رکھتے ہوئے نواز شریف کے ساتھ چلنے کا عندیہ دیا۔ اس طرح مریم اپنی والدہ کی دیکھ بھال کے واسطے لندن میں ہی قیام کریں گی اور پاکستان کی سیاست سے بھی دور رہ سکیں۔ اب نیب کے کیس میں انہیں ضمانت مل گئی ہے جس سے وہ مظلوم بن سکتی تھیں۔ مگر یہ موقع بھی ان کے ہاتھ سے چلا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شہباز شریف اور چوہدری نثار کی خواہش پر کب تک وہ پنجاب کی خود ساختہ بے نظیر کو سیاست سے دور رکھ سکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story