کسی کی پشت پناہی نہیں کر رہے شفاف الیکشن چاہتے ہیں آرمی چیف
فوج نے آئین کے مطابق جمہوری عمل کا ساتھ دیا، غیر جانبدارانہ انتخابات کا میرا خواب تعبیر کو پہنچنے والا ہے
آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ آزادانہ ، منصفانہ ، شفاف اور غیر جانب دارانہ انتخابات میرا خواب ہیں۔
خوشی ہے کہ ہم اس خواب کی تعبیر کے قریب آگئے ہیں۔ مدت ملازمت کے5 برس آئین کے الفاظ اور روح کے عین مطابق جمہوری عمل کا ساتھ دیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان سمیت پورے ملک میں ایک ساتھ ایسے انتخابات ہوں جن پر سب کو یقین ہواور نتائج سب تسلیم کرلیں۔ الیکشن کمشنر کو فوج کی مکمل مدد اور تعاون کا یقین دلایا ہے۔ عوام جن کا انتخاب کرتے ہیں وہ اچھے ہیں یا برے، اس سے فوج کا کوئی کام نہیں۔ فوج کی آئینی ذمے داری یہ ہے کہ جو بھی حکومت بنے اس کا ساتھ دے۔ دوبارہ کسی صورت مدت ملازمت میں توسیع (extension) نہیں لوں گا۔
حکومت کوئٹہ اور بلوچستان میں فوجی آپریشن کی خواہاں ہے تو فوج اس کیلیے تیار ہے۔ فوج کے بارے میں بے تحاشہ شکوک و شبہات پیدا کیے گئے۔ قوم نے دیکھا، نہ تو ہم نے کسی کی پشت پناہی کی اور نہ ہی ہم ملک میں کوئی لمبی مدت کا ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ چاہتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے منگل کو اپنی رہائش گاہ پر ایڈیٹرز اور سینئر صحافیوں کے ایک گروپ سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے کیا۔گفتگو کے دوران جنرل اشفاق پرویزکیانی نے کھل کر ملک کی موجودہ سیاسی اور امن و امان کی صورتحال، آئندہ انتخابات،شدت پسندی، کوئٹہ کی صورتحال، افغانستان میں جاری جنگ اور لاپتہ افراد سمیت دیگر امور پر بات چیت کی۔ذرائع کے مطابق آرمی چیف نے کہا کہ انھوں نے 2007 میں یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ یہ اسمبلیاں اور حکومت اپنی مدت پوری کریں گی، اسی لیے5 سال میں سسٹم کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا۔
جنرل کیانی نے اس بات کو تسلیم کیا کہ حکومت کی غلطیوں اور نالائقیوں کی وجہ سے کئی بار ڈیڈ لاک پیدا ہوا تاہم فوج نے سسٹم کوسپورٹ کرکے حکومت کو بحران سے نکلنے کا موقعہ دیا۔ آرمی چیف سے جب آنے والے انتخابات کے منصفانہ اور شفاف ہونے بارے سوالات کئے گئے تو انھوں نے کہا کہ ان کی نہ صرف یہ خواہش بلکہ پوری کوشش بھی ہوگی کہ الیکشن مکمل طور پر آزاد اور غیر جانبدار ہوں اور فوج اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کی مکمل معاونت کرے گی۔ آرمی چیف نے مدت ملازمت میں دوسری بار توسیع کے بارے میں واضح اور دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ وہ نومبر 2013ء میں وردی اتار کر ریٹائرمنٹ کی زندگی گزاریں گے۔ جنرل کیانی کا کہنا تھا کہ کوئٹہ اور بلوچستان میں کسی جگہ آپریشن نہیں ہورہا۔
فرنٹیئر کور وفاقی حکومت کے ماتحت ہے، اس کے تمام فیصلے وزارت داخلہ کرتی ہے اور اس کے پاس صرف گرفتاری کے اختیارات ہیں۔ ایف سی مکمل طور پر سول ایڈمنسٹریشن کی پابند ہے تاہم یہ بات ضرور ہے کہ سول ادارے اس سے کام نہیں لے رہے۔ ایک اور سوال پر انھوں نے واضح کیا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ فوجی آپریشن بلوچستان کے مسئلے کا حل نہیں کیو نکہ فوج آپریشن کے بعد ملزموں کو پولیس اور عدالتوں کے حوالے ہی کرے گی، اس لیے آپریشن کے بعد مسئلہ جوں کا توں ہی رہے گا۔ بلوچستان کے مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور تمام فریقین مل کر کوئی جامع پالیسی بنائیں۔جنرل کیانی نے توقع ظاہر کی کہ جلد بلوچستان میں گورنر راج ختم ہوجائے گا اورنواب اسلم رئیسانی کی حکومت بحال ہوجائے گی۔
نئے اپوزیشن لیڈر کا تعین ہوگا اور یہ دونوں مل کر نگراں وزیراعلیٰ کا فیصلہ کریںگے ۔ جنرل کیانی نے اس یقین کا اظہار کیا کہ آئندہ حکومت کے دورمیںکوئی ایسا سسٹم بنایا جائے گا جس سے دہشت گردی اور شدت پسندی کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلیے حل ہوجائے۔ ایک سوال پر مسلح افواج کے سپہ سالار نے کہا کہ اگلی حکومت ایسی ہونی چاہیے جس پر قوم اعتماد کا اظہار کرے ۔ قوم جس پارٹی یاشخص کو ووٹ دے، تمام اداروں اورگروپوں کو اس کے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے ۔ سوات آپریشن کے بارے میں سوالات کے جواب میں جنرل کیانی نے تسلیم کیا کہ وہ مسئلے کے حل کیلیے اسفند یارولی کو ساتھ لے کر صدر آصف علی زرداری کے پاس بھی گئے اور انھوں نے ہی صدر کوصوفی محمد کے ساتھ معاہدے کے لیے تیار کیا کیونکہ ان کی خواہش تھی اگر معاہدے کے ذریعے سوات میں امن ہوجائے تو ہم فوجی آپریشن سے بچ جائیں گے تاہم صوفی محمد اور اس کے حواریوں نے یہ معاہدہ توڑ دیا جس کی وجہ سے فوجی آپریشن کی راہ ہموار ہوئی۔
جنرل کیانی نے کہا کہ ہمیں فخرالدین جی ابراہیم کی ذہانت، ایمانداری اور استقامت پر اعتماد ہے، وہ شاندار انسان ہیں اور مجھے ان پر پورا یقین ہے کہ وہ غیر جانبدار اور آزاد الیکشن کرائیں گے ۔ بات چیت کے دوران جنرل کیانی نے دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے ملکی عدالتی سسٹم کی وجہ سے رہا ہوجانے پر بھی اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ فوج نے حکومتی ہدایت کے بعد سوات سے مشکوک افراد، شدت پسند اور دہشت گرد گرفتار کیے لیکن قانون نہ ہونے، پولیس میں اہلیت کی کمی اور گواہ نہ ہونے کی وجہ سے انھیں پولیس اور عدالتوں کے حوالے نہیں کیا جارہا۔ فوج پریشان ہے کہ ان لوگوں کا کیا کرے کیونکہ اگر انھیں چھوڑ دیا گیا تو یہ دوبارہ مسائل پیدا کریں گے، اور اگر فوج انھیں مزید اپنے پاس رکھتی ہے تو یہ خلاف قانون ہوگا۔
فوج حکومت سے مسلسل درخواست کرتی رہی کہ ان لوگوں کے لیے مناسب قانون بنائے تاکہ انھیں سزادی جاسکے مگر حکومت تاخیر سے کام لیتی رہی ۔ انھوں نے سوالات کے دوران تسلیم کیا کہ پارلیمنٹ سے پاس ہونے والے انسداد دہشت گردی کے بل کی تیاری میں فوج نے بھی حکومت کی بھرپور معاونت کی۔ اس بل کی تیاری کیلیے لا فرم کابندوبست کیاگیا، مہینوں بل پر بحث ہوئی، وزرائے اعلیٰ کو بھی بلوایا گیا ۔ ان سے بھی ملاقاتیں ہوئیں اوربل تیارکرنے کے بعدوزارت قانون کے حوالے کردیا گیا اور یوں حکومت نے20 فروری کو یہ بل پاس کرایا۔ جنرل کیانی نے فوج کے انٹیلی جنس اداروں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے بارے میں متعدد سوالات پر کہا کہ آئی ایس آئی کا کام بیرونی دشمنوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا ہے اور ایم آئی صرف اور صرف اس وقت کام کرتی ہے جب کسی جگہ فوجی آپریشن ہورہا ہو۔
ملک کے اندرونی حالات کی انفارمیشن جمع کرنا پولیس، اسپیشل برانچ اور آئی بی کی ذمے داری ہے مگر حکومت ان اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کیلیے سخت اقدامات اٹھانے کی بجائے آئی ایس آئی اور ایم آئی کی طرف دیکھتی رہتی ہے جو کہ غلط ہے۔ آئی ایس آئی اور ایم آئی کی کا یہ کام نہیں، حکومت کو دوسرے اداروں پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ کسی بھی جگہ کسی سرکاری ادارے بشمول آئی ایس آئی کی مخالفت کا سامنا ہے تو حکومت کو اس کے خلاف نوٹس لینا چاہیے ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا کہ فوج پر بعض اوقات الزامات لگتے رہے لیکن فوج نے کسی سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کی، جو بھی حکومت بنے گی فوج اْس کا ساتھ دے گی ۔
آرمی چیف بننے کے بعد میں نے ہرممکن کوشش کی کہ انتخابات میں کسی طرح کی مداخلت نہ ہو ، پوری طرح منصفانہ انتخابات اور اقتدار کی پرامن منتقلی کی حمایت کرتے ہیں ۔ آرمی چیف نے کہا کہ اخبار نویس شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہے ، کسی نے کہا کہ فوج فلاں کی پشت پناہی کر رہی ہے ، کسی نے کہا کہ کوئی لمبی مدت کا ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ چاہتے ہیں ، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نیک نیتی بیانات سے نہیں عمل اور زمینی حقائق کی شکل میں سامنے ہے ۔
خوشی ہے کہ ہم اس خواب کی تعبیر کے قریب آگئے ہیں۔ مدت ملازمت کے5 برس آئین کے الفاظ اور روح کے عین مطابق جمہوری عمل کا ساتھ دیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان سمیت پورے ملک میں ایک ساتھ ایسے انتخابات ہوں جن پر سب کو یقین ہواور نتائج سب تسلیم کرلیں۔ الیکشن کمشنر کو فوج کی مکمل مدد اور تعاون کا یقین دلایا ہے۔ عوام جن کا انتخاب کرتے ہیں وہ اچھے ہیں یا برے، اس سے فوج کا کوئی کام نہیں۔ فوج کی آئینی ذمے داری یہ ہے کہ جو بھی حکومت بنے اس کا ساتھ دے۔ دوبارہ کسی صورت مدت ملازمت میں توسیع (extension) نہیں لوں گا۔
حکومت کوئٹہ اور بلوچستان میں فوجی آپریشن کی خواہاں ہے تو فوج اس کیلیے تیار ہے۔ فوج کے بارے میں بے تحاشہ شکوک و شبہات پیدا کیے گئے۔ قوم نے دیکھا، نہ تو ہم نے کسی کی پشت پناہی کی اور نہ ہی ہم ملک میں کوئی لمبی مدت کا ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ چاہتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے منگل کو اپنی رہائش گاہ پر ایڈیٹرز اور سینئر صحافیوں کے ایک گروپ سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے کیا۔گفتگو کے دوران جنرل اشفاق پرویزکیانی نے کھل کر ملک کی موجودہ سیاسی اور امن و امان کی صورتحال، آئندہ انتخابات،شدت پسندی، کوئٹہ کی صورتحال، افغانستان میں جاری جنگ اور لاپتہ افراد سمیت دیگر امور پر بات چیت کی۔ذرائع کے مطابق آرمی چیف نے کہا کہ انھوں نے 2007 میں یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ یہ اسمبلیاں اور حکومت اپنی مدت پوری کریں گی، اسی لیے5 سال میں سسٹم کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا۔
جنرل کیانی نے اس بات کو تسلیم کیا کہ حکومت کی غلطیوں اور نالائقیوں کی وجہ سے کئی بار ڈیڈ لاک پیدا ہوا تاہم فوج نے سسٹم کوسپورٹ کرکے حکومت کو بحران سے نکلنے کا موقعہ دیا۔ آرمی چیف سے جب آنے والے انتخابات کے منصفانہ اور شفاف ہونے بارے سوالات کئے گئے تو انھوں نے کہا کہ ان کی نہ صرف یہ خواہش بلکہ پوری کوشش بھی ہوگی کہ الیکشن مکمل طور پر آزاد اور غیر جانبدار ہوں اور فوج اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کی مکمل معاونت کرے گی۔ آرمی چیف نے مدت ملازمت میں دوسری بار توسیع کے بارے میں واضح اور دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ وہ نومبر 2013ء میں وردی اتار کر ریٹائرمنٹ کی زندگی گزاریں گے۔ جنرل کیانی کا کہنا تھا کہ کوئٹہ اور بلوچستان میں کسی جگہ آپریشن نہیں ہورہا۔
فرنٹیئر کور وفاقی حکومت کے ماتحت ہے، اس کے تمام فیصلے وزارت داخلہ کرتی ہے اور اس کے پاس صرف گرفتاری کے اختیارات ہیں۔ ایف سی مکمل طور پر سول ایڈمنسٹریشن کی پابند ہے تاہم یہ بات ضرور ہے کہ سول ادارے اس سے کام نہیں لے رہے۔ ایک اور سوال پر انھوں نے واضح کیا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ فوجی آپریشن بلوچستان کے مسئلے کا حل نہیں کیو نکہ فوج آپریشن کے بعد ملزموں کو پولیس اور عدالتوں کے حوالے ہی کرے گی، اس لیے آپریشن کے بعد مسئلہ جوں کا توں ہی رہے گا۔ بلوچستان کے مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور تمام فریقین مل کر کوئی جامع پالیسی بنائیں۔جنرل کیانی نے توقع ظاہر کی کہ جلد بلوچستان میں گورنر راج ختم ہوجائے گا اورنواب اسلم رئیسانی کی حکومت بحال ہوجائے گی۔
نئے اپوزیشن لیڈر کا تعین ہوگا اور یہ دونوں مل کر نگراں وزیراعلیٰ کا فیصلہ کریںگے ۔ جنرل کیانی نے اس یقین کا اظہار کیا کہ آئندہ حکومت کے دورمیںکوئی ایسا سسٹم بنایا جائے گا جس سے دہشت گردی اور شدت پسندی کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلیے حل ہوجائے۔ ایک سوال پر مسلح افواج کے سپہ سالار نے کہا کہ اگلی حکومت ایسی ہونی چاہیے جس پر قوم اعتماد کا اظہار کرے ۔ قوم جس پارٹی یاشخص کو ووٹ دے، تمام اداروں اورگروپوں کو اس کے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے ۔ سوات آپریشن کے بارے میں سوالات کے جواب میں جنرل کیانی نے تسلیم کیا کہ وہ مسئلے کے حل کیلیے اسفند یارولی کو ساتھ لے کر صدر آصف علی زرداری کے پاس بھی گئے اور انھوں نے ہی صدر کوصوفی محمد کے ساتھ معاہدے کے لیے تیار کیا کیونکہ ان کی خواہش تھی اگر معاہدے کے ذریعے سوات میں امن ہوجائے تو ہم فوجی آپریشن سے بچ جائیں گے تاہم صوفی محمد اور اس کے حواریوں نے یہ معاہدہ توڑ دیا جس کی وجہ سے فوجی آپریشن کی راہ ہموار ہوئی۔
جنرل کیانی نے کہا کہ ہمیں فخرالدین جی ابراہیم کی ذہانت، ایمانداری اور استقامت پر اعتماد ہے، وہ شاندار انسان ہیں اور مجھے ان پر پورا یقین ہے کہ وہ غیر جانبدار اور آزاد الیکشن کرائیں گے ۔ بات چیت کے دوران جنرل کیانی نے دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے ملکی عدالتی سسٹم کی وجہ سے رہا ہوجانے پر بھی اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ فوج نے حکومتی ہدایت کے بعد سوات سے مشکوک افراد، شدت پسند اور دہشت گرد گرفتار کیے لیکن قانون نہ ہونے، پولیس میں اہلیت کی کمی اور گواہ نہ ہونے کی وجہ سے انھیں پولیس اور عدالتوں کے حوالے نہیں کیا جارہا۔ فوج پریشان ہے کہ ان لوگوں کا کیا کرے کیونکہ اگر انھیں چھوڑ دیا گیا تو یہ دوبارہ مسائل پیدا کریں گے، اور اگر فوج انھیں مزید اپنے پاس رکھتی ہے تو یہ خلاف قانون ہوگا۔
فوج حکومت سے مسلسل درخواست کرتی رہی کہ ان لوگوں کے لیے مناسب قانون بنائے تاکہ انھیں سزادی جاسکے مگر حکومت تاخیر سے کام لیتی رہی ۔ انھوں نے سوالات کے دوران تسلیم کیا کہ پارلیمنٹ سے پاس ہونے والے انسداد دہشت گردی کے بل کی تیاری میں فوج نے بھی حکومت کی بھرپور معاونت کی۔ اس بل کی تیاری کیلیے لا فرم کابندوبست کیاگیا، مہینوں بل پر بحث ہوئی، وزرائے اعلیٰ کو بھی بلوایا گیا ۔ ان سے بھی ملاقاتیں ہوئیں اوربل تیارکرنے کے بعدوزارت قانون کے حوالے کردیا گیا اور یوں حکومت نے20 فروری کو یہ بل پاس کرایا۔ جنرل کیانی نے فوج کے انٹیلی جنس اداروں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے بارے میں متعدد سوالات پر کہا کہ آئی ایس آئی کا کام بیرونی دشمنوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا ہے اور ایم آئی صرف اور صرف اس وقت کام کرتی ہے جب کسی جگہ فوجی آپریشن ہورہا ہو۔
ملک کے اندرونی حالات کی انفارمیشن جمع کرنا پولیس، اسپیشل برانچ اور آئی بی کی ذمے داری ہے مگر حکومت ان اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کیلیے سخت اقدامات اٹھانے کی بجائے آئی ایس آئی اور ایم آئی کی طرف دیکھتی رہتی ہے جو کہ غلط ہے۔ آئی ایس آئی اور ایم آئی کی کا یہ کام نہیں، حکومت کو دوسرے اداروں پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ کسی بھی جگہ کسی سرکاری ادارے بشمول آئی ایس آئی کی مخالفت کا سامنا ہے تو حکومت کو اس کے خلاف نوٹس لینا چاہیے ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا کہ فوج پر بعض اوقات الزامات لگتے رہے لیکن فوج نے کسی سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کی، جو بھی حکومت بنے گی فوج اْس کا ساتھ دے گی ۔
آرمی چیف بننے کے بعد میں نے ہرممکن کوشش کی کہ انتخابات میں کسی طرح کی مداخلت نہ ہو ، پوری طرح منصفانہ انتخابات اور اقتدار کی پرامن منتقلی کی حمایت کرتے ہیں ۔ آرمی چیف نے کہا کہ اخبار نویس شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہے ، کسی نے کہا کہ فوج فلاں کی پشت پناہی کر رہی ہے ، کسی نے کہا کہ کوئی لمبی مدت کا ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ چاہتے ہیں ، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نیک نیتی بیانات سے نہیں عمل اور زمینی حقائق کی شکل میں سامنے ہے ۔