پرنم آنکھیں…سچی کہانی
آج وہ شخص سبزی منڈی سے دس یا بیس کلو سبزیاں خریدتا ہے
ISLAMABAD:
دیکھا ایک شخص جس کی قمیص پھاڑ دی ہے اور سارے لوگ اس کو مار پیٹ کر رہے ہیں۔ اپنے واقفوں سے میں مخاطب ہوا، بتایا وہ سامنے بیکری سے ڈبل روٹی لے کر بھاگ رہا تھا اس کو پکڑ لیا یہ سب اس کو مار رہے ہیں۔ میں ہمت کر کے آگے بڑھا مخاطب ہوا اور کہا آپ لوگ جس طرح اسے مار رہے ہیں معلوم ہے اس مار کے ذریعے اس کی موت واقع ہوسکتی ہے۔ ایسا ظلم نہ کریں۔
ایک شخص نے کرخت لہجے میں کہا ''آپ کون ہیں جو حمایت کر رہے ہیں۔'' میرے واقف لوگ بولے''یہ خان صاحب اچھے انسان ہیں، ہم سب کے دوست ہیں لوگوں کے کام آتے ہیں۔ اگر یہ بات جو کہہ رہے ہیں درست ہے اگر مزید اس کی پٹائی لگائی تو حقیقتاً اس کی موت واقع ہوسکتی ہے۔'' مارنے والوں نے ہاتھ روک لیا۔ میں نے ڈبل روٹی چور کو کھڑا کیا اور اس سے پہلا سوال کیا ''تم کیا کرتے ہو۔'' بولا ''جناب! میں بیروزگار ہوں والدہ صاحبہ دمہ کی مریضہ ہیں والد صاحب کو ٹی بی ہے تین چھوٹی بہنیں ہیں اور دو بڑے بھائی جو سبزی کے ٹھیلے لگاتے ہیں شادی شدہ ہیں، بچوں کو پالنا بیوی کو دیکھنا والدین کا خیال اور ہم سب بہن بھائی کا خیال رکھنا ان کی ذمے داری ہے۔
والد صاحب جب ذرا شفا یاب ہوتے ہیں تو دوا چھوڑ دیتے ہیں لیکن چند ہفتے بعد پھر کھانسی شروع ہوجاتی ہے۔ سندھ اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ والدہ کا علاج بھی سپتال میں ہوتا ہے البتہ دوا بڑا بھائی میڈیکل اسٹور سے ایک ہفتے کی خرید لاتا ہے۔ ہفتہ گزرتا ہے دوا ختم ہوجاتی ہے لیکن والدین شرم کی وجہ سے بتاتے نہیں کہ دوا نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ان کو بتاتے کیوں نہیں۔ بولتے ہیں برخوردار اس کے بھی بیوی بچے ہیں ان کے بھی تو اخراجات ہیں، دوسرا لڑکا نااہل ہے اس کی بیوی کبھی نہیں چاہتی وہ دوا خرید سکیں۔''
مجھے ایسا محسوس ہوا لڑکا پڑھا لکھا ہے اس نے سارے معمولات بتا دیے بار بار پوچھنا نہیں پڑا۔ البتہ میں نے کہا تم کہیں نوکری کیوں نہیں کرلیتے بولا ''جناب! میں نے بارہ جماعتیں پاس کی ہیں لیکن کہیں نوکری نہیں ملتی۔ میں ایک میسن کے ساتھ جاتا تھا اس کے ساتھ سارا مزدوری کا کام کرتا تھا وہ میسن جس کو تعمیراتی مستری کہتے ہیں ان کو ایک ایسا مزدور مل گیا جو مجھ سے کم رقم لیتا ہے چونکہ وہ مزدور تنہا ہے اس لیے کم اجرت میں گزارا کرسکتا ہے جو میرے لیے ناممکن ہے۔
آج میں دو دن سے بھوکا تھا، والدین بھی بھوکے صرف میرا بڑا بھائی اور بھابی نے اپنا کھانا تیار کیا ہم گھر تینوں افراد بھوکے رہے۔ ہم نے کسی کو کچھ نہیں کہا میں گھر سے خاموشی سے نکلا میری جیب میں ایک چونی بھی نہ تھی، بیکری والا ادھار نہیں دیتا۔ زندگی میں پہلی دفعہ والدین کی محبت میں اس کے شو روم کی میز سے یہ بڑی ڈبل روٹی اٹھالی اور وہاں سے چل دیا۔ اس نے آواز دی کے اس کے پیسے دیں میں نے سنی ان سنی کردی، اس نے اپنے دونوں ملازمین کو میرے پیچھے بھیجا تو میں وہاں سے بھاگنے لگا لیکن آگے جاکر ان دونوں نے پکڑ لیا۔ ڈبل روٹی مجھ سے چھین لی اور مارنا پیٹنا شروع کردیا۔ مزید لوگ آئے انھوں نے بھی مارنا شروع کیا اس میں میری قمیص پھٹ گئی۔
اگر آپ نہ آتے تو یہ مارتے رہتے آپ کی مہربانی بچا لیا لیکن بیکری والے کے ملازمین کہہ رہے ہیں کہ مالک نے کہا ہے کہ اس کو پولیس کے حوالے کردیں۔'' میں نے ان دونوں سے کہا یہ تو مجبور آدمی ہے اس کے پاس کھانے کو نہیں یہ ڈبل روٹی تیس روپے کی ہے۔ آپ کی بیکری کا مالک اس قدر مال دار ہے وہ کسی کو بھوک میں ڈبل روٹی نہیں دے سکتا۔ کارندوں نے کہا جیسا اس نے ہم کو حکم دیا ہے وہ ہمیں کرنا ہے۔ میں نے کہا چلو سامنے بیکری کے مالک سے میں ملتا ہوں میں اس کے پاس گیا میرے ساتھ ملزم اور اہلکار تھے۔ میں نے بیکری کے مالک سے کہا اتفاق سے وہ مجھ کو جانتا تھا۔ یہ بھوک سے نڈھال ہے والدین بھی بھوکے ہیں انھوں نے ڈبل روٹی پانی کے ساتھ کھائیں گے جب کہ یہ عادی مجرم نہیں سیدھا شریف لڑکا ہے مجبوری کے ہاتھوں بے بس ہے لہٰذا میں آپ کو ڈبل روٹی کی رقم دے دیتا ہوں، ساتھ میں مکھن اور ایک درجن انڈے بھی دے دیں۔
ایک ڈبل روٹی کے علاوہ دو ڈبل روٹی دے دیں۔ ساتھ میں پاپے بھی ایک کلو دے دیں تاکہ چند روز یہ کچھ کھا سکیں۔ بیکری کے مالک نے ایسا ہی کیا میں نے ساری رقم ادا کی اس نے ملزم کو کہا اب سیدھے گھر جاؤ اپنے والدین کو ڈبل روٹی پر مکھن لگا کر انڈے تل کر ناشتہ کرائیں۔ آگے میرے ساتھ چلیں ایک ہوٹل والا ہے مجھے جانتا ہے اس کو میں کہہ دوں گا کہ جب آپ کو کھانے کے لیے روٹی چاہیے ہو تو وہ آپ کو دے دے گا رقم بعد میں، میں ادا کردوں گا۔ فکر نہ کریں۔ والدین کا علاج پابندی سے کرائیں آگے جو میڈیکل اسٹور والا ہے وہ مجھے جانتا ہے آپ اس سے دوا لے لیا کریں رقم میں دے دوں گا۔ میں نے ہوٹل والے سے سامنا کرایا اور میڈیکل اسٹور والے کو بتا دیا جب کوئی دوا چاہیے اس کو دے دیا کریں رقوم میں ادا کروں گا۔
مزید میں نے کہا کل صبح 7 بجے میرے پاس آنا جو پتہ میں دے رہا ہوں۔ سبزی منڈی میرے ساتھ چلیں وہاں آڑھتیوں سے بات کروں گا وہ آپ کو سارا سامان ادھار دے دیں گے جب فروخت کرلیں تو ان کو واپس کردیں۔ اس لیے آپ باقاعدہ کاروبار میں شامل ہوجائیں گے۔ وہ اس قدر خوش ہوا اس خوشی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے بھیگی نگاہوں میں بہت شکریہ ادا کیا۔ مزید مجھ سے کہا میری خواہش ہے میرے گھر چلیں میرے والدین سے ملاقات کریں اور گھر کے حالات دیکھ لیں۔ میں اس کے ساتھ گھر گیا سرکنڈے کی جھونپڑی بنی ہوئی تھی ان پر ٹین پڑے تھے۔ دروازہ پرانی لکڑیوں سے شاید خود بنایا ہوا تھا اور لنگڑے قبضوں سے لگایا تھا۔ اس نے دروازہ کھولا اور اپنے گھر میں لے گیا۔ والدین سے ملا تو دیکھ کر میری چشم تر ہوگئیں، سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیا بات کروں۔ ایک صندوق میرے پاس رکھا کہ آپ اس پر بیٹھیں۔ ان کے ہاں ایک کرسی میز تک نہ تھی اس قدر غربت دیکھ کر بے حد مایوس ہوا۔
یہ ایک شخص اس کے گھر والوں کی بات ہے یقین کریں بہت سے گھر اس سے زیادہ خستہ حالت میں ہوں گے۔ ان کی خودی اور شرافت اس امر کی اجازت نہیں دیتی وہ کسی کو اپنے حالات بتا کر مدد حاصل کریں۔ قدرت نے اس غریب لڑکے کے ساتھ بڑی مدد کی جو پولیس کے ہاتھوں بچا، اگر میں وہاں نہ جاتا تو یقینی طور پر وہاں کے لوگ مارپیٹ کر پولیس کے حوالے کردیتے۔ یہ بھوکا غریب لڑکا جیل چلا جاتا جس کی شاید ضمانت تک نہ ہوسکتی۔ جرم ایک ڈبل روٹی چوری کا بنتا اور پولیس یہ ثابت کرتی کہ یہ عادی مجرم ہے اس لیے کہ اس میں پولیس کی کارروائی کو ان کے آفیسر سراہتے۔
آج وہ شخص سبزی منڈی سے دس یا بیس کلو سبزیاں خریدتا ہے ایک دکان کرلی ہے پہلے کی نسبت خوشحال ہے۔ اکثر میں جاتا ہوں دیکھتا ہوں والدین کی دوا علاج باقاعدگی سے ہو رہا ہے۔ ٹی بی جو دوسرے اسٹیج پر تھی اب صرف 9 ماہ مسلسل علاج پر ختم ہوجائے گی۔ والدہ صاحبہ کا دمہ کا مرض دوا سے دبا ہوا ہے اس کو ایک ایسا ٹیوب دیا ہے جس کو وہ حلق میں ڈالتا ہے اس کی گیس کی وجہ سے دمہ رک جاتا ہے۔ یہ لوگ مجھے اس قدر دعائیں دیتے ہیں شاید ان لوگوں کی دعا کی بدولت آج میں اس اسٹیج پر ہوں ورنہ میری کیا حقیقت۔ اگر ہر ایک شخص زیادہ نہیں معمولی مدد کرے تو مجھے یقین ہے جرائم ختم ہوں گے لیکن وہ غریب نادار لوگ بھوکے نہیں رہیں گے۔ یہ حکومت کا اولین فرض ہے عوام کا خاص خیال رکھا جائے لیکن سربراہان تو صرف اپنے لیے برسر اقتدار آتے ہیں ان کو اپنی ضروریات اغراض و مقاصد پورے کرنے ہوتے ہیں۔ عوام سے شاید ووٹ تک کا تعلق رکھتے ہیں اس کے بعد پھر یہ اپنی خودسری، عیش، اقربا پروری، چوری، ڈاکہ، رشوت، کمیشن، منی لانڈرنگ میں مصروف کار ہوجاتے ہیں۔
دیکھا ایک شخص جس کی قمیص پھاڑ دی ہے اور سارے لوگ اس کو مار پیٹ کر رہے ہیں۔ اپنے واقفوں سے میں مخاطب ہوا، بتایا وہ سامنے بیکری سے ڈبل روٹی لے کر بھاگ رہا تھا اس کو پکڑ لیا یہ سب اس کو مار رہے ہیں۔ میں ہمت کر کے آگے بڑھا مخاطب ہوا اور کہا آپ لوگ جس طرح اسے مار رہے ہیں معلوم ہے اس مار کے ذریعے اس کی موت واقع ہوسکتی ہے۔ ایسا ظلم نہ کریں۔
ایک شخص نے کرخت لہجے میں کہا ''آپ کون ہیں جو حمایت کر رہے ہیں۔'' میرے واقف لوگ بولے''یہ خان صاحب اچھے انسان ہیں، ہم سب کے دوست ہیں لوگوں کے کام آتے ہیں۔ اگر یہ بات جو کہہ رہے ہیں درست ہے اگر مزید اس کی پٹائی لگائی تو حقیقتاً اس کی موت واقع ہوسکتی ہے۔'' مارنے والوں نے ہاتھ روک لیا۔ میں نے ڈبل روٹی چور کو کھڑا کیا اور اس سے پہلا سوال کیا ''تم کیا کرتے ہو۔'' بولا ''جناب! میں بیروزگار ہوں والدہ صاحبہ دمہ کی مریضہ ہیں والد صاحب کو ٹی بی ہے تین چھوٹی بہنیں ہیں اور دو بڑے بھائی جو سبزی کے ٹھیلے لگاتے ہیں شادی شدہ ہیں، بچوں کو پالنا بیوی کو دیکھنا والدین کا خیال اور ہم سب بہن بھائی کا خیال رکھنا ان کی ذمے داری ہے۔
والد صاحب جب ذرا شفا یاب ہوتے ہیں تو دوا چھوڑ دیتے ہیں لیکن چند ہفتے بعد پھر کھانسی شروع ہوجاتی ہے۔ سندھ اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ والدہ کا علاج بھی سپتال میں ہوتا ہے البتہ دوا بڑا بھائی میڈیکل اسٹور سے ایک ہفتے کی خرید لاتا ہے۔ ہفتہ گزرتا ہے دوا ختم ہوجاتی ہے لیکن والدین شرم کی وجہ سے بتاتے نہیں کہ دوا نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ان کو بتاتے کیوں نہیں۔ بولتے ہیں برخوردار اس کے بھی بیوی بچے ہیں ان کے بھی تو اخراجات ہیں، دوسرا لڑکا نااہل ہے اس کی بیوی کبھی نہیں چاہتی وہ دوا خرید سکیں۔''
مجھے ایسا محسوس ہوا لڑکا پڑھا لکھا ہے اس نے سارے معمولات بتا دیے بار بار پوچھنا نہیں پڑا۔ البتہ میں نے کہا تم کہیں نوکری کیوں نہیں کرلیتے بولا ''جناب! میں نے بارہ جماعتیں پاس کی ہیں لیکن کہیں نوکری نہیں ملتی۔ میں ایک میسن کے ساتھ جاتا تھا اس کے ساتھ سارا مزدوری کا کام کرتا تھا وہ میسن جس کو تعمیراتی مستری کہتے ہیں ان کو ایک ایسا مزدور مل گیا جو مجھ سے کم رقم لیتا ہے چونکہ وہ مزدور تنہا ہے اس لیے کم اجرت میں گزارا کرسکتا ہے جو میرے لیے ناممکن ہے۔
آج میں دو دن سے بھوکا تھا، والدین بھی بھوکے صرف میرا بڑا بھائی اور بھابی نے اپنا کھانا تیار کیا ہم گھر تینوں افراد بھوکے رہے۔ ہم نے کسی کو کچھ نہیں کہا میں گھر سے خاموشی سے نکلا میری جیب میں ایک چونی بھی نہ تھی، بیکری والا ادھار نہیں دیتا۔ زندگی میں پہلی دفعہ والدین کی محبت میں اس کے شو روم کی میز سے یہ بڑی ڈبل روٹی اٹھالی اور وہاں سے چل دیا۔ اس نے آواز دی کے اس کے پیسے دیں میں نے سنی ان سنی کردی، اس نے اپنے دونوں ملازمین کو میرے پیچھے بھیجا تو میں وہاں سے بھاگنے لگا لیکن آگے جاکر ان دونوں نے پکڑ لیا۔ ڈبل روٹی مجھ سے چھین لی اور مارنا پیٹنا شروع کردیا۔ مزید لوگ آئے انھوں نے بھی مارنا شروع کیا اس میں میری قمیص پھٹ گئی۔
اگر آپ نہ آتے تو یہ مارتے رہتے آپ کی مہربانی بچا لیا لیکن بیکری والے کے ملازمین کہہ رہے ہیں کہ مالک نے کہا ہے کہ اس کو پولیس کے حوالے کردیں۔'' میں نے ان دونوں سے کہا یہ تو مجبور آدمی ہے اس کے پاس کھانے کو نہیں یہ ڈبل روٹی تیس روپے کی ہے۔ آپ کی بیکری کا مالک اس قدر مال دار ہے وہ کسی کو بھوک میں ڈبل روٹی نہیں دے سکتا۔ کارندوں نے کہا جیسا اس نے ہم کو حکم دیا ہے وہ ہمیں کرنا ہے۔ میں نے کہا چلو سامنے بیکری کے مالک سے میں ملتا ہوں میں اس کے پاس گیا میرے ساتھ ملزم اور اہلکار تھے۔ میں نے بیکری کے مالک سے کہا اتفاق سے وہ مجھ کو جانتا تھا۔ یہ بھوک سے نڈھال ہے والدین بھی بھوکے ہیں انھوں نے ڈبل روٹی پانی کے ساتھ کھائیں گے جب کہ یہ عادی مجرم نہیں سیدھا شریف لڑکا ہے مجبوری کے ہاتھوں بے بس ہے لہٰذا میں آپ کو ڈبل روٹی کی رقم دے دیتا ہوں، ساتھ میں مکھن اور ایک درجن انڈے بھی دے دیں۔
ایک ڈبل روٹی کے علاوہ دو ڈبل روٹی دے دیں۔ ساتھ میں پاپے بھی ایک کلو دے دیں تاکہ چند روز یہ کچھ کھا سکیں۔ بیکری کے مالک نے ایسا ہی کیا میں نے ساری رقم ادا کی اس نے ملزم کو کہا اب سیدھے گھر جاؤ اپنے والدین کو ڈبل روٹی پر مکھن لگا کر انڈے تل کر ناشتہ کرائیں۔ آگے میرے ساتھ چلیں ایک ہوٹل والا ہے مجھے جانتا ہے اس کو میں کہہ دوں گا کہ جب آپ کو کھانے کے لیے روٹی چاہیے ہو تو وہ آپ کو دے دے گا رقم بعد میں، میں ادا کردوں گا۔ فکر نہ کریں۔ والدین کا علاج پابندی سے کرائیں آگے جو میڈیکل اسٹور والا ہے وہ مجھے جانتا ہے آپ اس سے دوا لے لیا کریں رقم میں دے دوں گا۔ میں نے ہوٹل والے سے سامنا کرایا اور میڈیکل اسٹور والے کو بتا دیا جب کوئی دوا چاہیے اس کو دے دیا کریں رقوم میں ادا کروں گا۔
مزید میں نے کہا کل صبح 7 بجے میرے پاس آنا جو پتہ میں دے رہا ہوں۔ سبزی منڈی میرے ساتھ چلیں وہاں آڑھتیوں سے بات کروں گا وہ آپ کو سارا سامان ادھار دے دیں گے جب فروخت کرلیں تو ان کو واپس کردیں۔ اس لیے آپ باقاعدہ کاروبار میں شامل ہوجائیں گے۔ وہ اس قدر خوش ہوا اس خوشی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے بھیگی نگاہوں میں بہت شکریہ ادا کیا۔ مزید مجھ سے کہا میری خواہش ہے میرے گھر چلیں میرے والدین سے ملاقات کریں اور گھر کے حالات دیکھ لیں۔ میں اس کے ساتھ گھر گیا سرکنڈے کی جھونپڑی بنی ہوئی تھی ان پر ٹین پڑے تھے۔ دروازہ پرانی لکڑیوں سے شاید خود بنایا ہوا تھا اور لنگڑے قبضوں سے لگایا تھا۔ اس نے دروازہ کھولا اور اپنے گھر میں لے گیا۔ والدین سے ملا تو دیکھ کر میری چشم تر ہوگئیں، سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیا بات کروں۔ ایک صندوق میرے پاس رکھا کہ آپ اس پر بیٹھیں۔ ان کے ہاں ایک کرسی میز تک نہ تھی اس قدر غربت دیکھ کر بے حد مایوس ہوا۔
یہ ایک شخص اس کے گھر والوں کی بات ہے یقین کریں بہت سے گھر اس سے زیادہ خستہ حالت میں ہوں گے۔ ان کی خودی اور شرافت اس امر کی اجازت نہیں دیتی وہ کسی کو اپنے حالات بتا کر مدد حاصل کریں۔ قدرت نے اس غریب لڑکے کے ساتھ بڑی مدد کی جو پولیس کے ہاتھوں بچا، اگر میں وہاں نہ جاتا تو یقینی طور پر وہاں کے لوگ مارپیٹ کر پولیس کے حوالے کردیتے۔ یہ بھوکا غریب لڑکا جیل چلا جاتا جس کی شاید ضمانت تک نہ ہوسکتی۔ جرم ایک ڈبل روٹی چوری کا بنتا اور پولیس یہ ثابت کرتی کہ یہ عادی مجرم ہے اس لیے کہ اس میں پولیس کی کارروائی کو ان کے آفیسر سراہتے۔
آج وہ شخص سبزی منڈی سے دس یا بیس کلو سبزیاں خریدتا ہے ایک دکان کرلی ہے پہلے کی نسبت خوشحال ہے۔ اکثر میں جاتا ہوں دیکھتا ہوں والدین کی دوا علاج باقاعدگی سے ہو رہا ہے۔ ٹی بی جو دوسرے اسٹیج پر تھی اب صرف 9 ماہ مسلسل علاج پر ختم ہوجائے گی۔ والدہ صاحبہ کا دمہ کا مرض دوا سے دبا ہوا ہے اس کو ایک ایسا ٹیوب دیا ہے جس کو وہ حلق میں ڈالتا ہے اس کی گیس کی وجہ سے دمہ رک جاتا ہے۔ یہ لوگ مجھے اس قدر دعائیں دیتے ہیں شاید ان لوگوں کی دعا کی بدولت آج میں اس اسٹیج پر ہوں ورنہ میری کیا حقیقت۔ اگر ہر ایک شخص زیادہ نہیں معمولی مدد کرے تو مجھے یقین ہے جرائم ختم ہوں گے لیکن وہ غریب نادار لوگ بھوکے نہیں رہیں گے۔ یہ حکومت کا اولین فرض ہے عوام کا خاص خیال رکھا جائے لیکن سربراہان تو صرف اپنے لیے برسر اقتدار آتے ہیں ان کو اپنی ضروریات اغراض و مقاصد پورے کرنے ہوتے ہیں۔ عوام سے شاید ووٹ تک کا تعلق رکھتے ہیں اس کے بعد پھر یہ اپنی خودسری، عیش، اقربا پروری، چوری، ڈاکہ، رشوت، کمیشن، منی لانڈرنگ میں مصروف کار ہوجاتے ہیں۔