دم اور چونج کا مقابلہ
مسلسل اشتعال انگیزی کے باوجود پیپلزپارٹی نے (ن) لیگ یا عمران خان پر وہ جوابی الزامات لگانے سے اجتناب کیا
KARACHI:
چند ہفتے پہلے ملتان کے حلقہ 151 کے ضمنی انتخاب میں ''سونامی کے چھوٹے بھائی'' کی شکست نے پیپلزپارٹی کے مخالف سیاستدانوں' ٹی وی اینکروں اور کالم نگاروں کو سنجیدگی سے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے ملزم ٹھہرانے اور سزا یافتہ قرار پانے کے باوجود عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو ہرانے کے لیے نہ صرف ن لیگ بلکہ تحریک انصاف سمیت دائیں بازو کی تمام پارٹیوں کو مل کر الیکشن لڑنا پڑے گا۔ انتخابی پوسٹروں پر عمران خان' نواز شریف بلکہ سپریم کورٹ کے ججوںکی تصویریں بھی لگانی ہوں گی۔
جنھوں نے یوسف رضا گیلانی کو آئین اور جمہوریت میں ایک ایسی مثال بنا دیا جو پیپلز پارٹی کے بعد کسی حکومت کے خلاف دہرائی نہیں جاسکے گی۔ ملتان میں بڑے کمال کا ضمنی الیکشن ہوا۔ تمام سیاسی جماعتوں نے زور لگایا لیکن عبدالقادر گیلانی جیت گئے۔ اس الیکشن کو شفاف بنانے کے لیے سابق قائمقام الیکشن کمشنر جسٹس شاکر اﷲ جان آفریدی خود موقع پر پہنچ کر انھیں شفاف بنانے میں لگے رہے۔ہارنے کے بعد پیپلز پارٹی کے مخالف اتحادیوںنے خجالت محسوس کی لیکن یہ کہانی آگے نہیں چلی، پھر یار لوگوں نے یہ منطق نکال کر دل کی تسلی کر لی کہ عبدالقادر گیلانی صرف چار ہزار ووٹوں سے جیتا ہے۔
اگرچہ ساری خدائی ایک طرف تھی اور یوسف رضا گیلانی اپنے بیٹے کی حمایت میں اتنے اکیلے تھے کہ پارٹی کا کوئی اہم لیڈر ان کی مدد کے لیے نہیں آیا ۔اندر کی اطلاع یہ ہے کہ صدر زرداری نے اپنے سابق وزیر اعظم کو تن تنہا سبق آموز الیکشن لڑنے کی ہدایت کر رکھی تھی۔ شکست کا ایک جواز یہ ڈھونڈا گیاکہ میاں نواز شریف اور عمران خان انتخابی مہم کے لیے خود حلقے میں نہیں گئے تھے اور صرف پوسٹروں سے عوام کا دل نہیں بہل سکا۔ دونوں وہاں چلے جاتے تو ''چار ہزاری'' بن سکتے تھے۔
ن لیگ اور تحریک انصاف کے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی تھیوری ابھی تک زیر بحث ہے لیکن گذشتہ روز دونوں جماعتوں میں اچانک طبل جنگ بج گیا۔یہ سچ بھی ہو تو میں یہ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں کہ چوہدری نثار علی کے جواب میں عمران نے میاں نواز شریف پر کرپشن کے 11 سوال داغ دیے۔سیاست اور عدلیہ نے بے چاری پیپلزپارٹی کو کرپشن کے درجہ اول میں بٹھارکھا ہے ۔اس لیے وہ فریق نہیں ہے۔ ن لیگ نے عمران خان پر شوکت خانم ٹرسٹ کی رقم کسی کاروبار میں لگانے کا الزام عائد کیا اور عمران خان نے 417 ملین کی کرپشن نواز شریف پر ڈال دی۔ کوئی زمانہ تھا کہ میاں نواز شریف اور عمران خان مل کر پیپلزپارٹی کو واحد کرپٹ جماعت کہتے تھے۔
اب جب انھوں نے ایک دوسرے کی دولت کے تخمینے جاری کیے ہیں تو پیپلزپارٹی کی سوئس کرپشن اچانک ماند پڑ گئی ہے ۔ چوہدری نثار علی نے اس مبینہ اسکینڈل کا حل یہ نکالا ہے کہ ن لیگ اور عمران خان اپنی صفائی کے لیے ثبوت لے کر چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس جائیں یا پشاور اور سندھ ہائیکورٹوں کے چیف جسٹسوں سے انصاف کروا لیں، مسئلے کا یہ حل بہت آسان ہے۔ لیکن ہماری آزاد عدلیہ کو ابھی تک پیپلزپارٹی سے فرصت نہیں ملی کہ جس نے عدلیہ کی تحریک میں 20 سے زائد کارکن شہید کروانے کے بعد عدلیہ کی بحالی کا سہرا نواز شریف اور عمران کے سر پر باندھ دیا۔ نواز شریف گوجرانوالہ میں بھی سرخرو ہوگئے ۔البتہ عمران خان کی کارروائی چرالی گئی حالانکہ وہ میاں صاحب سے پہلے اسلام آباد پہنچ چکے تھے ۔
مسلم لیگ ن ہو یا تحریک انصاف دیانتداری کے معاملے میں ہم پلہ اور ہم وزن سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے ایک دوسرے کو کرپٹ کہنے کے باوجود عدلیہ کو قائل نہیں کرسکیں گے۔یہ معاملہ اٹارنی جنرل عرفان قادر کے سپرد کردیا جائے تو ممکن ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے صاحبزادے ارسلان افتخار جیسا کوئی درمیانی راستہ نکال کر معاملہ نمٹ جائے اور مونس الٰہی کی طرح ریلیف لیٹ نہ ہو ۔
مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف ملک کے معاشی مسائل حل کرنے اور غریبوں کو ریلیف دینے کے لیے سوئٹزر لینڈ اور دوسرے غیر ملکوں میں جمع کی ہوئی دولت واپس لانے میں بہت سنجیدہ ہیں کیونکہ یہ دولت مقدمے بازی میں اٹک گئی ہے۔ گویا فوری حل یہ ہوسکتا ہے کہ قومی مفاد کا تقاضا سامنے رکھتے ہوئے دونوں اپنی اپنی مبینہ دولت واپس لے آئیں اور ملک ''سنوارنے'' پر صرف کر دیں۔واضح رہے کہ شریف خاندان کی دولت تو ویسے ہی حلال ہے اور ان پر شک وشبہ کرنا بھی گناہ ہے ۔
2008ء میں میاں نواز شریف اور پھر عمران خان نے این آر او اور آصف زرداری کے سوئس اکائونٹس کی گیتوں بھری کہانی اس وقت اٹھائی جب وہ صدر منتخب ہو چکے تھے، اب تک یہ پکا راگ تانیں بدل بدل کر اتنا مقبول ہو چکا ہے کہ بعض استادوں نے اس صنف کا نام سوئس بھیرو ی رکھ دیا ہے ۔(ن)لیگ کی یہ حکمت عملی کامیاب رہی اور پیپلز پارٹی کو کرپشن کی واحد علامت بنا کر رکھ دیا لیکن کل کے افسوسناک ''حادثے '' نے بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا ۔
حکومت مسلسل خوف میں مبتلا ہے ۔ اسے تاریخیں بھگتنے یا بدنامی کی کالک دھونے سے ہی فرصت نہیں ملتی ۔ بجلی ہے نہ گیس، غریب مہنگائی تلے پس کر رہ گئے۔ سپریم کورٹ کی لعنت و ملامت اپنی جگہ۔کل تک عمران خان اور میاں نواز شریف نے بھی اسے تماشا بنائے رکھا تھا۔ مسلسل اشتعال انگیزی کے باوجود پیپلزپارٹی نے (ن) لیگ یا عمران خان پر وہ جوابی الزامات لگانے سے اجتناب کیا جو دونوں پارٹیوں نے خود ایک دوسرے کے لیے دریافت کیے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ پیپلزپارٹی کے مدافعانہ طرز عمل کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتی ہے کہ سیاستدان ایک دوسرے کو گندہ کریں گے تو جمہوریت ''جوہڑ'' بن جائے گی۔اور یہ کھیل کہیں ختم نہیں ہوگا۔
اب (ن) لیگ اور تحریک انصاف آپس میں ٹکرا کر ایک دوسری کا باجا بجا رہی ہیں۔ موجودہ الزام بازی کسی سیاسی اصولی اختلاف پر مبنی نہیں، یہ ایک غلیظ مہم ہے جو پاکستانی سیاست کا کلچر ہے ۔ کرپشن کا الزام لگا کر کوئی ثبوت نہیں دینا پڑتا ،اس لیے اب ہمارے سیاست دانوں نے اپنا اور ایک دوسرے کا تخلص کرپٹ رکھ دیا ہے ۔دونوں میں جھگڑا یہ ہے۔
(ن) لیگ کو خوف ہے کہ جین اور برگر کی دلدادہ نوجوان نسل عمران خان پر مرمٹ چکی ہے جبکہ تحریک انصاف کا خیال ہے کہ یوتھ کے ووٹ ''ن'' لیگ کی لیپ ٹاپ اسکیم کے ٹریپ میں آ سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کلین شیو جماعت اسلامی ہے' دوسری طرف (ن) لیگ ''ابھی تو میں جوان ہوں'' گائے چلی جا رہی ہے۔ رہی یوتھ تو اسے خود علم نہیں کہ پولنگ والے دن کونسا کیمپ ''پر کشش'' ہوگا۔ پیپلزپارٹی شانت بیٹھی ہے کیونکہ اس کا ووٹر اخبارات پڑھتا ہے نہ ٹی وی پرٹاک شو دیکھتا ہے۔
(جاری ہے)
چند ہفتے پہلے ملتان کے حلقہ 151 کے ضمنی انتخاب میں ''سونامی کے چھوٹے بھائی'' کی شکست نے پیپلزپارٹی کے مخالف سیاستدانوں' ٹی وی اینکروں اور کالم نگاروں کو سنجیدگی سے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے ملزم ٹھہرانے اور سزا یافتہ قرار پانے کے باوجود عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو ہرانے کے لیے نہ صرف ن لیگ بلکہ تحریک انصاف سمیت دائیں بازو کی تمام پارٹیوں کو مل کر الیکشن لڑنا پڑے گا۔ انتخابی پوسٹروں پر عمران خان' نواز شریف بلکہ سپریم کورٹ کے ججوںکی تصویریں بھی لگانی ہوں گی۔
جنھوں نے یوسف رضا گیلانی کو آئین اور جمہوریت میں ایک ایسی مثال بنا دیا جو پیپلز پارٹی کے بعد کسی حکومت کے خلاف دہرائی نہیں جاسکے گی۔ ملتان میں بڑے کمال کا ضمنی الیکشن ہوا۔ تمام سیاسی جماعتوں نے زور لگایا لیکن عبدالقادر گیلانی جیت گئے۔ اس الیکشن کو شفاف بنانے کے لیے سابق قائمقام الیکشن کمشنر جسٹس شاکر اﷲ جان آفریدی خود موقع پر پہنچ کر انھیں شفاف بنانے میں لگے رہے۔ہارنے کے بعد پیپلز پارٹی کے مخالف اتحادیوںنے خجالت محسوس کی لیکن یہ کہانی آگے نہیں چلی، پھر یار لوگوں نے یہ منطق نکال کر دل کی تسلی کر لی کہ عبدالقادر گیلانی صرف چار ہزار ووٹوں سے جیتا ہے۔
اگرچہ ساری خدائی ایک طرف تھی اور یوسف رضا گیلانی اپنے بیٹے کی حمایت میں اتنے اکیلے تھے کہ پارٹی کا کوئی اہم لیڈر ان کی مدد کے لیے نہیں آیا ۔اندر کی اطلاع یہ ہے کہ صدر زرداری نے اپنے سابق وزیر اعظم کو تن تنہا سبق آموز الیکشن لڑنے کی ہدایت کر رکھی تھی۔ شکست کا ایک جواز یہ ڈھونڈا گیاکہ میاں نواز شریف اور عمران خان انتخابی مہم کے لیے خود حلقے میں نہیں گئے تھے اور صرف پوسٹروں سے عوام کا دل نہیں بہل سکا۔ دونوں وہاں چلے جاتے تو ''چار ہزاری'' بن سکتے تھے۔
ن لیگ اور تحریک انصاف کے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی تھیوری ابھی تک زیر بحث ہے لیکن گذشتہ روز دونوں جماعتوں میں اچانک طبل جنگ بج گیا۔یہ سچ بھی ہو تو میں یہ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں کہ چوہدری نثار علی کے جواب میں عمران نے میاں نواز شریف پر کرپشن کے 11 سوال داغ دیے۔سیاست اور عدلیہ نے بے چاری پیپلزپارٹی کو کرپشن کے درجہ اول میں بٹھارکھا ہے ۔اس لیے وہ فریق نہیں ہے۔ ن لیگ نے عمران خان پر شوکت خانم ٹرسٹ کی رقم کسی کاروبار میں لگانے کا الزام عائد کیا اور عمران خان نے 417 ملین کی کرپشن نواز شریف پر ڈال دی۔ کوئی زمانہ تھا کہ میاں نواز شریف اور عمران خان مل کر پیپلزپارٹی کو واحد کرپٹ جماعت کہتے تھے۔
اب جب انھوں نے ایک دوسرے کی دولت کے تخمینے جاری کیے ہیں تو پیپلزپارٹی کی سوئس کرپشن اچانک ماند پڑ گئی ہے ۔ چوہدری نثار علی نے اس مبینہ اسکینڈل کا حل یہ نکالا ہے کہ ن لیگ اور عمران خان اپنی صفائی کے لیے ثبوت لے کر چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس جائیں یا پشاور اور سندھ ہائیکورٹوں کے چیف جسٹسوں سے انصاف کروا لیں، مسئلے کا یہ حل بہت آسان ہے۔ لیکن ہماری آزاد عدلیہ کو ابھی تک پیپلزپارٹی سے فرصت نہیں ملی کہ جس نے عدلیہ کی تحریک میں 20 سے زائد کارکن شہید کروانے کے بعد عدلیہ کی بحالی کا سہرا نواز شریف اور عمران کے سر پر باندھ دیا۔ نواز شریف گوجرانوالہ میں بھی سرخرو ہوگئے ۔البتہ عمران خان کی کارروائی چرالی گئی حالانکہ وہ میاں صاحب سے پہلے اسلام آباد پہنچ چکے تھے ۔
مسلم لیگ ن ہو یا تحریک انصاف دیانتداری کے معاملے میں ہم پلہ اور ہم وزن سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے ایک دوسرے کو کرپٹ کہنے کے باوجود عدلیہ کو قائل نہیں کرسکیں گے۔یہ معاملہ اٹارنی جنرل عرفان قادر کے سپرد کردیا جائے تو ممکن ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے صاحبزادے ارسلان افتخار جیسا کوئی درمیانی راستہ نکال کر معاملہ نمٹ جائے اور مونس الٰہی کی طرح ریلیف لیٹ نہ ہو ۔
مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف ملک کے معاشی مسائل حل کرنے اور غریبوں کو ریلیف دینے کے لیے سوئٹزر لینڈ اور دوسرے غیر ملکوں میں جمع کی ہوئی دولت واپس لانے میں بہت سنجیدہ ہیں کیونکہ یہ دولت مقدمے بازی میں اٹک گئی ہے۔ گویا فوری حل یہ ہوسکتا ہے کہ قومی مفاد کا تقاضا سامنے رکھتے ہوئے دونوں اپنی اپنی مبینہ دولت واپس لے آئیں اور ملک ''سنوارنے'' پر صرف کر دیں۔واضح رہے کہ شریف خاندان کی دولت تو ویسے ہی حلال ہے اور ان پر شک وشبہ کرنا بھی گناہ ہے ۔
2008ء میں میاں نواز شریف اور پھر عمران خان نے این آر او اور آصف زرداری کے سوئس اکائونٹس کی گیتوں بھری کہانی اس وقت اٹھائی جب وہ صدر منتخب ہو چکے تھے، اب تک یہ پکا راگ تانیں بدل بدل کر اتنا مقبول ہو چکا ہے کہ بعض استادوں نے اس صنف کا نام سوئس بھیرو ی رکھ دیا ہے ۔(ن)لیگ کی یہ حکمت عملی کامیاب رہی اور پیپلز پارٹی کو کرپشن کی واحد علامت بنا کر رکھ دیا لیکن کل کے افسوسناک ''حادثے '' نے بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا ۔
حکومت مسلسل خوف میں مبتلا ہے ۔ اسے تاریخیں بھگتنے یا بدنامی کی کالک دھونے سے ہی فرصت نہیں ملتی ۔ بجلی ہے نہ گیس، غریب مہنگائی تلے پس کر رہ گئے۔ سپریم کورٹ کی لعنت و ملامت اپنی جگہ۔کل تک عمران خان اور میاں نواز شریف نے بھی اسے تماشا بنائے رکھا تھا۔ مسلسل اشتعال انگیزی کے باوجود پیپلزپارٹی نے (ن) لیگ یا عمران خان پر وہ جوابی الزامات لگانے سے اجتناب کیا جو دونوں پارٹیوں نے خود ایک دوسرے کے لیے دریافت کیے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ پیپلزپارٹی کے مدافعانہ طرز عمل کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتی ہے کہ سیاستدان ایک دوسرے کو گندہ کریں گے تو جمہوریت ''جوہڑ'' بن جائے گی۔اور یہ کھیل کہیں ختم نہیں ہوگا۔
اب (ن) لیگ اور تحریک انصاف آپس میں ٹکرا کر ایک دوسری کا باجا بجا رہی ہیں۔ موجودہ الزام بازی کسی سیاسی اصولی اختلاف پر مبنی نہیں، یہ ایک غلیظ مہم ہے جو پاکستانی سیاست کا کلچر ہے ۔ کرپشن کا الزام لگا کر کوئی ثبوت نہیں دینا پڑتا ،اس لیے اب ہمارے سیاست دانوں نے اپنا اور ایک دوسرے کا تخلص کرپٹ رکھ دیا ہے ۔دونوں میں جھگڑا یہ ہے۔
(ن) لیگ کو خوف ہے کہ جین اور برگر کی دلدادہ نوجوان نسل عمران خان پر مرمٹ چکی ہے جبکہ تحریک انصاف کا خیال ہے کہ یوتھ کے ووٹ ''ن'' لیگ کی لیپ ٹاپ اسکیم کے ٹریپ میں آ سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کلین شیو جماعت اسلامی ہے' دوسری طرف (ن) لیگ ''ابھی تو میں جوان ہوں'' گائے چلی جا رہی ہے۔ رہی یوتھ تو اسے خود علم نہیں کہ پولنگ والے دن کونسا کیمپ ''پر کشش'' ہوگا۔ پیپلزپارٹی شانت بیٹھی ہے کیونکہ اس کا ووٹر اخبارات پڑھتا ہے نہ ٹی وی پرٹاک شو دیکھتا ہے۔
(جاری ہے)