مرغیاں کینسر کے خلاف نیا ہتھیار
سرطان کے علاج میں استعمال ہونے والی دوا سے بھرپور انڈے دینے لگیں
مرغیوں کے انڈے تو سبھی کھاتے ہیں۔ یہ پروٹین سے بھرپور ہوتے ہیں۔ اب ان کا استعمال سرطان اور ہیپاٹائٹس جیسے مہلک امراض سے بچائو کے لیے بھی کیا جائے گا۔ جی نہیں، آپ غلط سمجھے، انڈوں میں قدرتی طور پر موجود پروٹین ان خطرناک بیماریوں سے بچائو میں کوئی کردار ادا نہیں کرتی، یہ انٹرفیرون نامی پروٹین ہے جو کینسر اور ہیپاٹائٹس کے علاوہ نسیجوں کی سختی اور جلدی سرطان کے علاج میں استعمال کی جاتی ہے۔ قصہ دراصل یہ ہے کہ جاپانی سائنس دانوں نے جینیاتی ٹیکنالوجی سے کام لیتے ہوئے مرغیوں کو اس قابل بنادیا ہے کہ وہ انٹرفیرون سے بھرپور انڈے دے سکیں۔
انٹرفیرون پروٹین کینسر کے علاج میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سرطان کے مریض کو ہفتے میں تین بار اس پروٹین کا انجکشن لگانے سے کینسر کے خلیے جسم میں سرایت نہیں کرتے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ پروٹین ٹیومر کے خلاف جنگ کرنے والے ٹی خلیات کی پیداوار بھی بڑھاتی ہے، مگر یہ علاج بہت مہنگا ہے۔ چند مائیکروگرام انٹرفیرون کی تیاری پر ڈھائی سو سے لے کر نوسو ڈالر تک لاگت آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنا مہنگا علاج کروانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
اسی بات کے پیش نظر اوساکا میں واقع نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانسڈ انڈسٹریل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ( اے آئی ایس ٹی)، اباراکی میں قائم نیشنل ایگری کلچر اینڈ فوڈ ریسرچ آرگنائزیشن نے ایک ادویہ ساز کمپنی کے تعاون سے اس منصوبے پر کام شروع کیا کہ سرطان کا علاج سستا کیسے ہوسکتا ہے۔ اس منصوبے کے تحت مرغی کے انڈے میں موجود قدرتی پروٹین کو جینیاتی تغیرات سے گزارنے اور ایسی مرغیاں پیدا کرنے پر تحقیق کا آغاز کیا گیا جو انٹرفیرون سے بھرپور انڈے دیں۔
سائنس دانوں نے اعلان کیا ہے کہ ابتدائی تجربات کام یاب ثابت ہوئے ہیں اورجیناتی تغیر سے پید اہونے والی مرغیاں مطلوبہ انڈے دے رہی ہیں۔ محققین کے مطابق ہر مرغی ایک سے دو دن کے بعد ایک انڈا دیتی ہے۔ سائنس داں پُرامید ہیں کہ آئندہ برس کے اوائل میں ان انڈوں کی مدد سے سرطان کے خلاف لڑنے والی دوا تیار کرنے کی تیکنیک وضع کرلی جائے گی۔ ان انڈوں کے ذریعے انٹرفیرون کی دوا کی شکل میں تیاری پر آنے والی لاگت موجودہ سے نصف ہوجائے گی۔ ممکنہ ہے کہ لاگت اس سے بھی کم ہوکر محض دس فی صد پر آجائے۔
سرطان اور ہیپاٹائٹس جیسے مہلک امراض کے علاج کے ضمن میں یہ تحقیق انقلابی ثابت ہوسکتی ہے۔ خاص طور سے سرطان کا علاج بہت مہنگا ہے۔ اس ضمن میں گذشتہ برس ایک تحقیق کی گئی تھی۔ اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ہر پانچ میں سے ایک مریض خرید کی سکت نہ رکھنے کے باعث جان بچانے والی اس دوا کا استعمال ترک کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ سرطان کا علاج کتنا مہنگا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا میں کینسر کی صرف ایک دوا پر آنے والی سالانہ لاگت تین لاکھ ڈالر ( تین کروڑ روپے تقریباً) ہے۔
انٹرفیرون پروٹین کینسر کے علاج میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سرطان کے مریض کو ہفتے میں تین بار اس پروٹین کا انجکشن لگانے سے کینسر کے خلیے جسم میں سرایت نہیں کرتے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ پروٹین ٹیومر کے خلاف جنگ کرنے والے ٹی خلیات کی پیداوار بھی بڑھاتی ہے، مگر یہ علاج بہت مہنگا ہے۔ چند مائیکروگرام انٹرفیرون کی تیاری پر ڈھائی سو سے لے کر نوسو ڈالر تک لاگت آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنا مہنگا علاج کروانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
اسی بات کے پیش نظر اوساکا میں واقع نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانسڈ انڈسٹریل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ( اے آئی ایس ٹی)، اباراکی میں قائم نیشنل ایگری کلچر اینڈ فوڈ ریسرچ آرگنائزیشن نے ایک ادویہ ساز کمپنی کے تعاون سے اس منصوبے پر کام شروع کیا کہ سرطان کا علاج سستا کیسے ہوسکتا ہے۔ اس منصوبے کے تحت مرغی کے انڈے میں موجود قدرتی پروٹین کو جینیاتی تغیرات سے گزارنے اور ایسی مرغیاں پیدا کرنے پر تحقیق کا آغاز کیا گیا جو انٹرفیرون سے بھرپور انڈے دیں۔
سائنس دانوں نے اعلان کیا ہے کہ ابتدائی تجربات کام یاب ثابت ہوئے ہیں اورجیناتی تغیر سے پید اہونے والی مرغیاں مطلوبہ انڈے دے رہی ہیں۔ محققین کے مطابق ہر مرغی ایک سے دو دن کے بعد ایک انڈا دیتی ہے۔ سائنس داں پُرامید ہیں کہ آئندہ برس کے اوائل میں ان انڈوں کی مدد سے سرطان کے خلاف لڑنے والی دوا تیار کرنے کی تیکنیک وضع کرلی جائے گی۔ ان انڈوں کے ذریعے انٹرفیرون کی دوا کی شکل میں تیاری پر آنے والی لاگت موجودہ سے نصف ہوجائے گی۔ ممکنہ ہے کہ لاگت اس سے بھی کم ہوکر محض دس فی صد پر آجائے۔
سرطان اور ہیپاٹائٹس جیسے مہلک امراض کے علاج کے ضمن میں یہ تحقیق انقلابی ثابت ہوسکتی ہے۔ خاص طور سے سرطان کا علاج بہت مہنگا ہے۔ اس ضمن میں گذشتہ برس ایک تحقیق کی گئی تھی۔ اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ہر پانچ میں سے ایک مریض خرید کی سکت نہ رکھنے کے باعث جان بچانے والی اس دوا کا استعمال ترک کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ سرطان کا علاج کتنا مہنگا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا میں کینسر کی صرف ایک دوا پر آنے والی سالانہ لاگت تین لاکھ ڈالر ( تین کروڑ روپے تقریباً) ہے۔