کرپشن روکنے والوں نے بڑھائی کرپشن
کرپشن کے معاملات میں سپریم کورٹ ہی نہیں بلکہ ہائیکورٹ بھی سخت ریمارکس دیتی آرہی ہیں مگر حکومت پر کوئی اثر ہو رہا ہے
سندھ میں سستے دنوں کی ایک کہاوت ہے کہ دودھ آٹھ آنے کا سیر تھا اور ایک وڈیرا اپنے ملازم کو روزانہ آٹھ آنے دے کر بازار سے دودھ منگواتا تھا مگر اس کا ملازم چھ آنے کا دودھ لاکر پانی ملاکر دودھ وڈیرے کو پلادیتا اور دو آنے بچا لیتا۔ وڈیرے کو شک ہوا تو اس نے ایک اور ملازم پہلے ملازم کے ساتھ رکھ دیا کہ دونوں کی وجہ سے خالص دودھ مل جائے گا دونوں ملازموں نے ملی بھگت سے چار آنے کا دودھ لے کر اس میں پانی بڑھا کر چار آنے بچانے شروع کردیے۔
دودھ پتلا دیکھ کر وڈیرے نے تیسرا ملازم ان پر نظر رکھنے اور اچھا دودھ لانے کے لیے ساتھ کردیا اور مطمئن ہو گیا کہ تینوں ملازموں کی وجہ سے اسے اچھا دودھ پینے کو مل سکے گا۔ وڈیرے کے تینوں ملازموں نے باہمی ملی بھگت سے دو دو آنے اپنی جیب میں ڈالے اور بازار سے دو آنے کی ملائی منگوا کر رکھ لی اور رات کو وڈیرے کی دودھ ملنے کے انتظار میں آنکھ لگ گئی تو موقع دیکھتے ہی ملازموں نے دودھ کی ملائی وڈیرے کی مونچھوں پر لگادی۔
سوئے ہوئے وڈیرے نے بعد میں آنکھ کھلنے پر ملازموں سے دودھ مانگا تو انھوں نے جواب دیا کہ سائیں دودھ تو آپ نے پی لیا تھا۔ جس پر وڈیرے نے دودھ ناپنے کا کہا تو تینوں نے عرض کیا کہ پیے جانے والے دودھ کا ثبوت آپ کی مونچھ پر لگی ملائی ہے اور مزید ثبوت کے لیے شیشہ وڈیرے کے آگے کردیا، جس نے دیکھا تو مونچھ پر واقعی ملائی لگی تھی جس کے گواہ اس کے تین ملازم بھی تھے تو وڈیرہ سمجھا کہ ملازم درست کہہ رہے ہیں، جس کا ثبوت ملائی ہے اور پھر وہ مطمئن ہوکر سو گیا۔
یہ بات سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس دوست محمد خان کے ان ریمارکس پر پوری اترتی ہے کہ جب کرپشن روکنے کی ذمے داری ریگولر پولیس کی تھی تو مقدمات صرف سو تھے۔ اینٹی کرپشن پولیس آنے کے بعد مقدمات ہزاروں اور مزید ادارے بننے کے بعد کرپشن مقدمات کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے اور انسداد بدعنوانی کے جتنے بھی ادارے بنائے گئے اتنا ہی بدعنوانی میں اضافہ ہوا، سمجھ نہیں آتا کہ کیا معاملہ ہے۔
فاضل جج نے یہ ریمارکس سندھ کے محکمہ ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی میں غیر قانونی بھرتیوں کے کیس کی سماعت کے دوران دیے اور تحقیقاتی ادارے پر برہمی کا اظہار کیا کہ اس نے بھرتی ہونے والوں کو تو ملزم بنالیا لیکن جن ملزم افراد کو جن افسروں نے بھرتی کیا تھا انھیں مقدمے میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔
تحقیقاتی ادارے نے سب سے بڑی کوتاہی اس وقت کی جب سندھ ہائی کورٹ نے ایک ملزم کو ضمانت دی اور تحقیقاتی ادارے نے ضمانت منسوخ کرانے کے اقدامات نہیں کیے۔ جسٹس دوست محمد خان کا یہ کہنا درست ہے کہ متحدہ پاکستان میں ریگولر پولیس کے وقت کرپشن کے مقدمات ایک سو ہوتے تھے جنھیں روکنے کے لیے اینٹی کرپشن پولیس بنی تو بدعنوانی کے واقعات کم ہونے کے بجائے بڑھ کر ایک ہزار ہوگئے اور کرپشن روکنے کے لیے ایک تحقیقاتی ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا تو ملک میں کرپشن کے مقدمات لاکھوں تک پہنچ گئے ہیں۔
کرپشن کے معاملات میں سپریم کورٹ ہی نہیں بلکہ ہائیکورٹ بھی سخت ریمارکس دیتی آرہی ہیں مگر حکومت پر کوئی اثر ہو رہا ہے نہ کرپشن روکنے کے ذمے داروں کے خلاف حکومت کارروائی کرتی ہے اور حیرت تو یہ ہے کہ اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث افراد علاج کے بہانے ملک سے جانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور تحقیقاتی ادارے کا ملزم کو روکنے میں کردار کمزور ثابت ہوتا ہے۔ عدالتوں سے ہی بڑھتی ہوئی کرپشن پر تنقید اور کرپشن روکنے کے ذمے دار اداروں پر اظہار برہمی بھی ہو رہا ہے اور بااثر سیاسی لوگ ریلیف بھی حاصل کر رہے ہیں۔
سابق صدر آصف علی زرداری ملک کی واحد سیاسی شخصیت ہیںجو طویل اسیری بھی کاٹ چکے مگر ان پر کرپشن ثابت نہ کی جاسکی اور وہ غیر قانونی اثاثے بنانے کے آخری مقدمے میں بھی بری ہوگئے جس پرتحقیقاتی ادارے کا موقف ہے کہ مقدمے کو سنے بغیر ہی بری کردیا گیا۔
اس سلسلے میں عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل بھی کی جاچکی ہے اور معاملہ اب اعلیٰ عدالتوں تک جانا ہے اور وقت بتائے گا کہ کون نااہل ہے اور بااثر میڈیا کے مطابق عدالتیں کرپشن مقدمات میں ثبوت طلب کرتی ہیں جو سرکاری متعلقہ ادارے فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ تحقیقاتی عمل پر بڑی بڑی رقمیں خرچ کردی جاتی ہیں مگر ملزموں کے خلاف کرپشن کے ثبوت عدالتوں میں پیش نہیں کیے جاتے اور شک کا فائدہ ہمیشہ ہی ملزموں کو ملتا ہے اور عدالتی برہمی سرکاری اداروں کے حصے میں آتی ہے۔
کرپشن میں ہمیشہ دو فریق باہمی رضامندی سے ملوث ہوتے ہیں اور تیسرے فریق کو ہوا نہیں لگنے دی جاتی۔ غلط کام کرنے اور کرانے والے دو ایسے فریق ہیں جن کے ایک دوسرے سے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ ایک غیر قانونی کام کے لیے اپنی خوشی سے رشوت دیتا ہے اور دوسرا رشوت لے کر اسے قانون تحفظ کرتا ہے اور جب دونوں کے مفاد خاموشی سے پورے ہوجائیں اور غیر قانونی کام کو قانونی بنوانے والوں کو بھی گھر بیٹھے حصہ مل جائے تو ایسا پاگل تو کوئی نہیں ہوگا جو اپنے اپنے حاصل مفاد کو نقصان پہنچائے۔
فاضل جج کا یہ کہنا درست ہے کہ متعدد سرکاری محکموں کے قیام کے بعد بھی کرپشن رکی نہیں بلکہ بڑھی ہے تو کرپشن بڑھنے کا ذمے دار کون ہے۔ حکومتیں یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جاتی ہیں کہ اس نے کرپشن روکنے کے لیے ادارے بنا رکھے ہیں اور یہی ادارے کرپشن روکنے کے بجائے کرپشن بڑھنے کے ذمے دار بھی ہیں۔ ان اداروں کے لوگ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں وہ آسمان سے نہیں اترے کہ وہ خود کرپشن سے محفوظ ہوں۔
اینٹی کرپشن کے افسران کا تعلق ریگولر پولیس سے ہی ہوتا ہے جن کا کام صوبائی اداروں میں کرپشن روکنا ہے مگر ہر سرکاری ادارے سے انھیں ہر ماہ مالی و دیگر مفادات حاصل ہوتے ہیں اور اپنا وجود دکھانے کے لیے وہ دکھاوے کی کارکردگی دکھاتے ہیں مگر ان کے مقدمات میں پکڑے گئے ملزموں میں بہت کم کو سزا ہوتی ہے اور اکثر واضح ثبوت نہ ہونے پر چھوٹ جاتے ہیں کیونکہ ہر سرکاری ادارے میں یہ اصول رائج ہے کہ لے کر رشوت پھنس گیا ہے دے کر رشوت چھوٹ جا۔
سرکاری اداروں میں ڈویژن اور ضلع کی سطح پر اینٹی کرپشن کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں جہاں رشوت کی شکایات واضح ہونے پر تفتیش کے معاملات متعلقہ اداروں کو بھیجے جاتے ہیں جن میں بہت کم عدالتوں تک پہنچتے ہیں اور عدالتوں کو واضح ثبوت نہیں دیے جاتے اور رشوت میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے بھی اکثر عدم ثبوت پر بری ہوجاتے ہیں۔
ریگولر پولیس کا کام کرپشن روکنا نہیں بلکہ کرپشن کرنا ہے۔ کرپشن روکنا اینٹی کرپشن پولیس کی ذمے داری ہے جو کرپشن خود بڑھا رہی ہے۔ کرپشن روکنے کے لیے کم اور مخالفین کو پھنسانے کے لیے ہر حکومت ادارے بناتی آئی ہے۔ جس کا اصل مقصد سیاسی مفاد رہا ہے اور کرپشن روکنے میں اب تک کوئی ایک حکومت بھی مخلص نہیں رہی جس کی وجہ سے کرپشن سیاسی اور عوامی سطح پر اس مقام تک پہنچ گئی ہے جہاں اس کا سدباب ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ ہر سیاسی پارٹی کرپشن کی بظاہر مخالفت تو کرتی ہے مگر کرپشن کے قانون کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرتی آئی ہے۔
سیاستدان خود کرپشن اور لاقانونیت میں ملوث ہوں اور سرکاری اداروں کو اپنے مفاد کے لیے خود کرپشن میں ملوث کرتے آرہے ہوں تو کرپشن کیسے روکی جاسکتی ہے، اس کے حقائق تو خود سب جانتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ اینٹی کرپشن پولیس اہم اداروں کی کرپشن پر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتی ہے۔ رشوت کے لیے تمام ادارے فریقوں سے مل جاتے ہیں۔ رشوت روکنے والے خود رشوت لیتے ہوں تو رشوت کیسے رک سکتی ہے یہ بات متعلقہ ادارے ہی نہیں عوام سب سے بہتر جانتے ہیں۔
دودھ پتلا دیکھ کر وڈیرے نے تیسرا ملازم ان پر نظر رکھنے اور اچھا دودھ لانے کے لیے ساتھ کردیا اور مطمئن ہو گیا کہ تینوں ملازموں کی وجہ سے اسے اچھا دودھ پینے کو مل سکے گا۔ وڈیرے کے تینوں ملازموں نے باہمی ملی بھگت سے دو دو آنے اپنی جیب میں ڈالے اور بازار سے دو آنے کی ملائی منگوا کر رکھ لی اور رات کو وڈیرے کی دودھ ملنے کے انتظار میں آنکھ لگ گئی تو موقع دیکھتے ہی ملازموں نے دودھ کی ملائی وڈیرے کی مونچھوں پر لگادی۔
سوئے ہوئے وڈیرے نے بعد میں آنکھ کھلنے پر ملازموں سے دودھ مانگا تو انھوں نے جواب دیا کہ سائیں دودھ تو آپ نے پی لیا تھا۔ جس پر وڈیرے نے دودھ ناپنے کا کہا تو تینوں نے عرض کیا کہ پیے جانے والے دودھ کا ثبوت آپ کی مونچھ پر لگی ملائی ہے اور مزید ثبوت کے لیے شیشہ وڈیرے کے آگے کردیا، جس نے دیکھا تو مونچھ پر واقعی ملائی لگی تھی جس کے گواہ اس کے تین ملازم بھی تھے تو وڈیرہ سمجھا کہ ملازم درست کہہ رہے ہیں، جس کا ثبوت ملائی ہے اور پھر وہ مطمئن ہوکر سو گیا۔
یہ بات سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس دوست محمد خان کے ان ریمارکس پر پوری اترتی ہے کہ جب کرپشن روکنے کی ذمے داری ریگولر پولیس کی تھی تو مقدمات صرف سو تھے۔ اینٹی کرپشن پولیس آنے کے بعد مقدمات ہزاروں اور مزید ادارے بننے کے بعد کرپشن مقدمات کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے اور انسداد بدعنوانی کے جتنے بھی ادارے بنائے گئے اتنا ہی بدعنوانی میں اضافہ ہوا، سمجھ نہیں آتا کہ کیا معاملہ ہے۔
فاضل جج نے یہ ریمارکس سندھ کے محکمہ ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی میں غیر قانونی بھرتیوں کے کیس کی سماعت کے دوران دیے اور تحقیقاتی ادارے پر برہمی کا اظہار کیا کہ اس نے بھرتی ہونے والوں کو تو ملزم بنالیا لیکن جن ملزم افراد کو جن افسروں نے بھرتی کیا تھا انھیں مقدمے میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔
تحقیقاتی ادارے نے سب سے بڑی کوتاہی اس وقت کی جب سندھ ہائی کورٹ نے ایک ملزم کو ضمانت دی اور تحقیقاتی ادارے نے ضمانت منسوخ کرانے کے اقدامات نہیں کیے۔ جسٹس دوست محمد خان کا یہ کہنا درست ہے کہ متحدہ پاکستان میں ریگولر پولیس کے وقت کرپشن کے مقدمات ایک سو ہوتے تھے جنھیں روکنے کے لیے اینٹی کرپشن پولیس بنی تو بدعنوانی کے واقعات کم ہونے کے بجائے بڑھ کر ایک ہزار ہوگئے اور کرپشن روکنے کے لیے ایک تحقیقاتی ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا تو ملک میں کرپشن کے مقدمات لاکھوں تک پہنچ گئے ہیں۔
کرپشن کے معاملات میں سپریم کورٹ ہی نہیں بلکہ ہائیکورٹ بھی سخت ریمارکس دیتی آرہی ہیں مگر حکومت پر کوئی اثر ہو رہا ہے نہ کرپشن روکنے کے ذمے داروں کے خلاف حکومت کارروائی کرتی ہے اور حیرت تو یہ ہے کہ اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث افراد علاج کے بہانے ملک سے جانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور تحقیقاتی ادارے کا ملزم کو روکنے میں کردار کمزور ثابت ہوتا ہے۔ عدالتوں سے ہی بڑھتی ہوئی کرپشن پر تنقید اور کرپشن روکنے کے ذمے دار اداروں پر اظہار برہمی بھی ہو رہا ہے اور بااثر سیاسی لوگ ریلیف بھی حاصل کر رہے ہیں۔
سابق صدر آصف علی زرداری ملک کی واحد سیاسی شخصیت ہیںجو طویل اسیری بھی کاٹ چکے مگر ان پر کرپشن ثابت نہ کی جاسکی اور وہ غیر قانونی اثاثے بنانے کے آخری مقدمے میں بھی بری ہوگئے جس پرتحقیقاتی ادارے کا موقف ہے کہ مقدمے کو سنے بغیر ہی بری کردیا گیا۔
اس سلسلے میں عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل بھی کی جاچکی ہے اور معاملہ اب اعلیٰ عدالتوں تک جانا ہے اور وقت بتائے گا کہ کون نااہل ہے اور بااثر میڈیا کے مطابق عدالتیں کرپشن مقدمات میں ثبوت طلب کرتی ہیں جو سرکاری متعلقہ ادارے فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ تحقیقاتی عمل پر بڑی بڑی رقمیں خرچ کردی جاتی ہیں مگر ملزموں کے خلاف کرپشن کے ثبوت عدالتوں میں پیش نہیں کیے جاتے اور شک کا فائدہ ہمیشہ ہی ملزموں کو ملتا ہے اور عدالتی برہمی سرکاری اداروں کے حصے میں آتی ہے۔
کرپشن میں ہمیشہ دو فریق باہمی رضامندی سے ملوث ہوتے ہیں اور تیسرے فریق کو ہوا نہیں لگنے دی جاتی۔ غلط کام کرنے اور کرانے والے دو ایسے فریق ہیں جن کے ایک دوسرے سے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ ایک غیر قانونی کام کے لیے اپنی خوشی سے رشوت دیتا ہے اور دوسرا رشوت لے کر اسے قانون تحفظ کرتا ہے اور جب دونوں کے مفاد خاموشی سے پورے ہوجائیں اور غیر قانونی کام کو قانونی بنوانے والوں کو بھی گھر بیٹھے حصہ مل جائے تو ایسا پاگل تو کوئی نہیں ہوگا جو اپنے اپنے حاصل مفاد کو نقصان پہنچائے۔
فاضل جج کا یہ کہنا درست ہے کہ متعدد سرکاری محکموں کے قیام کے بعد بھی کرپشن رکی نہیں بلکہ بڑھی ہے تو کرپشن بڑھنے کا ذمے دار کون ہے۔ حکومتیں یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جاتی ہیں کہ اس نے کرپشن روکنے کے لیے ادارے بنا رکھے ہیں اور یہی ادارے کرپشن روکنے کے بجائے کرپشن بڑھنے کے ذمے دار بھی ہیں۔ ان اداروں کے لوگ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں وہ آسمان سے نہیں اترے کہ وہ خود کرپشن سے محفوظ ہوں۔
اینٹی کرپشن کے افسران کا تعلق ریگولر پولیس سے ہی ہوتا ہے جن کا کام صوبائی اداروں میں کرپشن روکنا ہے مگر ہر سرکاری ادارے سے انھیں ہر ماہ مالی و دیگر مفادات حاصل ہوتے ہیں اور اپنا وجود دکھانے کے لیے وہ دکھاوے کی کارکردگی دکھاتے ہیں مگر ان کے مقدمات میں پکڑے گئے ملزموں میں بہت کم کو سزا ہوتی ہے اور اکثر واضح ثبوت نہ ہونے پر چھوٹ جاتے ہیں کیونکہ ہر سرکاری ادارے میں یہ اصول رائج ہے کہ لے کر رشوت پھنس گیا ہے دے کر رشوت چھوٹ جا۔
سرکاری اداروں میں ڈویژن اور ضلع کی سطح پر اینٹی کرپشن کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں جہاں رشوت کی شکایات واضح ہونے پر تفتیش کے معاملات متعلقہ اداروں کو بھیجے جاتے ہیں جن میں بہت کم عدالتوں تک پہنچتے ہیں اور عدالتوں کو واضح ثبوت نہیں دیے جاتے اور رشوت میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے بھی اکثر عدم ثبوت پر بری ہوجاتے ہیں۔
ریگولر پولیس کا کام کرپشن روکنا نہیں بلکہ کرپشن کرنا ہے۔ کرپشن روکنا اینٹی کرپشن پولیس کی ذمے داری ہے جو کرپشن خود بڑھا رہی ہے۔ کرپشن روکنے کے لیے کم اور مخالفین کو پھنسانے کے لیے ہر حکومت ادارے بناتی آئی ہے۔ جس کا اصل مقصد سیاسی مفاد رہا ہے اور کرپشن روکنے میں اب تک کوئی ایک حکومت بھی مخلص نہیں رہی جس کی وجہ سے کرپشن سیاسی اور عوامی سطح پر اس مقام تک پہنچ گئی ہے جہاں اس کا سدباب ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ ہر سیاسی پارٹی کرپشن کی بظاہر مخالفت تو کرتی ہے مگر کرپشن کے قانون کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرتی آئی ہے۔
سیاستدان خود کرپشن اور لاقانونیت میں ملوث ہوں اور سرکاری اداروں کو اپنے مفاد کے لیے خود کرپشن میں ملوث کرتے آرہے ہوں تو کرپشن کیسے روکی جاسکتی ہے، اس کے حقائق تو خود سب جانتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ اینٹی کرپشن پولیس اہم اداروں کی کرپشن پر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتی ہے۔ رشوت کے لیے تمام ادارے فریقوں سے مل جاتے ہیں۔ رشوت روکنے والے خود رشوت لیتے ہوں تو رشوت کیسے رک سکتی ہے یہ بات متعلقہ ادارے ہی نہیں عوام سب سے بہتر جانتے ہیں۔