کائنات کے اسرار حصہ اول
اب اس بارے میں کوئی شک نہیں رہ گیا تھا کہ ہماری گلیکسی کے علاوہ بھی کئی گلیکسیز اس کائنات میں پائی جاتی ہیں۔
شہر کی فضائی آلودگیوں سے دور کسی صحرا یا وادی میں آپ کا قیام ہوا ہوگا تو آپ یقیناً کئی دلچسپ نظاروں اور تجربوں سے گزرے ہوں گے۔ انھی نظاروں میں سے ایک آپ کے سر پر پھیلا ہوا آسمان ہے۔ کسی بغیر چاند کی رات کو آسمان کی طرف دیکھا جائے تو وہاں بے شمار ستارے نظر آئیں گے جو آسمان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلے ہوئے ہوں گے، ستاروں کے یہ جھرمٹ (کہکشاں) کہلاتے ہیں۔
اگر کسی تاریک ترین رات کو شمالی نصف کرہ سے آسمان کی طرف بغیر کسی دوربین کی مدد کے دیکھا جائے تو ہمیں اپنی ہی گلیکسی کا ایک حصہ نظر آئے گا۔ تاریخی شواہد کے مطابق اور حیرت انگیز طور پر حالیہ تجربات کے مطابق یہی ہماری کائنات ہے۔
ہمیں معلوم ہے کہ اس کائنات کو بہت بڑے پیمانے پر بنایا گیا ہے۔ کہکشاں ہزاروں لاکھوں کہکشاؤں کا حصہ ہے اور کہکشائیں مل کر گلیکسی کو بناتی ہیں، کچھ کہکشائیں تو ہماری اپنی کہکشاؤں سے کئی گنا بڑی ہیں۔ کہکشاؤں کی سائنس تقریباً 90 برس پرانی ہے اور آج کل تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔
آج کل محققین کے پاس آسمانوں اور کائنات کی سیاہی اور ان پر تحقیق کے لیے جدید ترین آلات ہیں، جیسے دوربین جوکہ خلاؤں کی گہرائیوں تک دیکھ سکتی ہیں، انفراریڈ (INFRARED) اور ریڈیو آلات جوکہ گرد و غبار کے پیچیدہ بادلوں کے پار دیکھ سکتے ہیں، ایسی مائیکرو ویوز جوکہ پیچیدہ تعاملات جیسے مالیکیولی بادل جن میں فارمل ڈی ہائیڈ (FORMALDEHYDE) اور ایتھائیل الکحل (ETHYL ALBOHOL) پائے جاتے ہیں، کو دیکھ سکتی ہیں، ایسی سپیکٹروسکوپس (SPECTROSCOPES) اور ریڈیو انٹر فیرو میٹرز (RADIO INTERFEROMETIERS) جوکہ مقناطیسی میدانوں کے جھکاؤ اور سمت کا تعین کرسکتی ہیں۔ ان کا مقصد ہماری اپنی گلیکسی کا مشاہدہ بھی ہے۔ ان کے تعین کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ دوربینوں تک پہنچنے والی روشنی نے اپنی گلیکسی کو تقریباً 15000 ملین سال پہلے چھوڑا تھا۔
یہ سیاہ سوراخوں اور سیاہ مادے کی دنیا ہے۔ یہ بڑے بڑے ستاروں کی دنیا ہے جہاں سیکڑوں ہزاروں سورج اپنی اپنی جگہ بنانے کے لیے ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہیں، اس میں ناقابل تصور فاصلے اور قوانین بھی پائے جاتے ہیں۔ اس میں بڑی بڑی ساختیں مل کر مزید بڑی ساختیں تشکیل دے دیتی ہیں، پھر یہ سائنسی انداز میں ایک دوسرے سے مل کر اس کائنات کو بناتی ہیں۔
بیسویں صدی کی ابتدا میں ماہرین فلکیات ہماری گلیکسی کے سائز اور شکل اور ہم اس میں کہاں واقع ہیں کے بارے میں مبہم خیالات رکھتے تھے۔ ہماری گلیکسی کے علاوہ دوسری گلیکسیز کی موجودگی کے بارے میں وہ نظریاتی طور پر یقین رکھتے تھے لیکن عملی طور پر انھیں ابھی کوئی شواہد نہ مل سکے تھے۔ جن کا نام انھوں نے نبیولی (NABULAE) رکھا، (یہ ایک لاطینی لفظ ہے جس کا مطلب ہے کہر یا دھند) وہ دراصل گیس کے بڑے بڑے چمکتے ہوئے بادل تھے، ان میں یہ چمک دراصل ان کے اندر موجود نوخیز گرم ستاروں کی وجہ سے تھی۔
یہ نبیولی واضح طور پر کہکشاں کے اندر واقع تھے، اب ہمارا یہ خیال ہے کہ نبیولی کہکشاں کے ایسے حصے ہیں جہاں نوخیز ستارے چمک رہے ہیں، جوکہ ستاروں کے درمیان موجود گیس اور گرد سے بنتے ہیں۔ طاقتور ترین دوربین سے تحقیق کرنے کے بعد یہ نتائج سامنے آئے ہیں کہ کئی ایک نبیولی ابھی بھی روشنی کے دھندلے دھندلے دھبوں کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ ماہرین فلکیات کے خیالات میں یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ روشنی کے یہ دھبے ہماری اپنی گلیکسی کے علاوہ کوئی دوسری گلیکسی ہیں۔اس اختلاف رائے کا اس وقت تک کوئی حل نہیں نکل سکتا جب تک یہ معلوم نہ ہوجائے کہ گلیکسی خلا میں کس حد تک پھیلی ہوئی ہے۔ کیونکہ فاصلے اتنے زیادہ ہیں کہ یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہے، یہ گلیکسی آسمان میں کس جسم تک پھیلی ہوئی ہے۔
اس چیز کا اندازہ لگانا بھی بہت مشکل ہے کہ کیا سارے فاصلے کی کمی کی وجہ سے چمکدار ہیں کہ فاصلے کی زیادتی کے باوجود وہ چمکدار نظر آتے ہیں۔ گزشتہ صدی کے اوائل میں ہارورڈ یونیورسٹی کی ماہر فلکیات ہنریٹالیوٹ (HENRIETTALEAVITT) نے ان سوالوں کے جوابات ڈھونڈے، اس نے متغیر ستاروں کی تلاش میں جنوبی آسمان کی فوٹوگرافک پلیٹوں اور ہزاروں گھنٹوں تک تحقیق کی۔ متغیر ستارے وہ ستارے ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید چمکدار اور یا مزید مدھم ہوجاتے ہیں۔ جن جگہوں پر اس نے تحقیق کی ان میں سے ایک میگنک (MEGENNANIC) بادل ہے جوکہ دراصل دھوئیں کے دو چھوٹے چھوٹے مڑے تڑے دھبے ہیں جن کو ہم سیٹلائٹ گلیکسیز بھی کہتے ہیں۔
متغیر ستاروں کے ایک گروہ کو سیفائیڈ (CEPHEID) متغیرات کہتے ہیں۔ ان کی روشنی باقاعدگی سے چمکتی اور مدھم ہوتی ہے، ان ستاروں کی چمک اور دھیماپن مہینوں، ہفتوں اور بعض مرتبہ دنوں کی تبدیلی پر منحصر ہوتے ہیں۔ لیوٹ نے ان ستاروں کی حقیقی روشنی اور چمک و دھندلاہٹ کے دورانیے کے درمیان براہ راست تعلق معلوم کیا۔ ایک سیفائیڈ ستارہ ہمیشہ ایک مہینہ مدت کے لیے حقیقی روشنی خارج کرتا ہے۔
اچانک ہی ماہرین فلکیات نے یارڈ اسٹک (YARDSTICK) کا استعمال شروع کیا۔ انھیں سیفائیڈ جہاں بھی نظر آتا تھا وہ اس کی گردش کی مدد سے اس کی اوسط حقیقی چمک معلوم کرلیتے تھے۔ پھر اس کا ظاہری چمک سے موازنہ کرکے وہ ہماری گلیکسی سے اس کا صحیح فاصلہ معلوم کرلیتے تھے۔ 1915 کے اوائل میں ہالوشیپلے نے سیفائیڈ ستاروں جیسے ستارے استعمال کرکے ہماری گلیکسی کے مرکز میں پائے جانے والے ستاروں کے گول گول گروہوں کا فاصلہ معلوم کیا۔ اس نے اس تجربے کے بعد یہ ثابت کیا کہ ستاروں کے ان گول گول گروہوں کا مرکز دراصل ہماری اپنی گلیکسی کا مرکز ہے۔
اپنے نظریات کو ثابت کرنے کے لیے اس نے ہماری گلیکسی کے مرکز کو برج قوس میں پائے جانے والے ستاروں کے بادلوں کے مرکز میں رکھا، اس سے زمین نے اپنے آپ کو دوسری تمام چیزوں کے مرکز سے ہٹا ہوا پایا۔ بالکل ایسے جیسے 1543 میں کوپرسیکس نے یہ ثابت کیا تھا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ شیپلے نے یہ ظاہر کیا کہ ہماری زمین گلیکسی کے مرکز کے قریب نہیں پائی جاتی۔ اس سے بھی زیادہ بدترین نتائج آیندہ چند سال میں سانے آنے والے تھے۔
بعدازاں یہ ثابت ہوا کہ شیپلے نے فلکی (یا فلکیاتی) اجسام کے درمیان پائے جانے والے فاصلوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا، مثلاً اس نے کہا کہ ہماری گلیکسی زمین سے 300000 نوری یا لائٹ ایئرز (LIGHT YEARS) کے فاصلے پر ہے جوکہ نئے تجربات کے نتائج کے مطابق تین گنا زیادہ کرکے بتایا گیا تھا۔ اگرچہ اس نے دوسری گلیکسیز کی موجودگی کو تسلیم کیا لیکن اس نے کہا کہ ان کی حقیقت چھوٹے سیاروں یعنی سیٹلائٹس سے زیادہ نہیں ہے۔
شیپلے کے لیے اینڈون حبل (ENDWINHUBBLE) نے 1924 میں عظیم اینڈرومیڈ (ANDROMEDA) نبیولی میں پائے جانے والے سیفائیڈ کی دریافت کے بارے میں اعلان کیا۔ اس نے اس نبیولی کے فاصلے کا اندازہ تقریباً 900000 نوری سال لگایا (جوکہ اس کے حقیقی فاصلے کے آدھے سے کم ہے)۔ بل نے دوسری نبیولی میں بھی سیفائیڈ کی دریافت کیے ( جنھیں آج کل گلیکسیز کہتے ہیں) جوکہ ہماری گلیکسی سے کافی زیادہ فاصلے پر ہیں۔ اب اس بارے میں کوئی شک نہیں رہ گیا تھا کہ ہماری گلیکسی کے علاوہ بھی کئی گلیکسیز اس کائنات میں پائی جاتی ہیں۔
یہ کائنات تصور سے زیادہ بڑی ہے۔ حبل نے فلکی اجسام اور گلیکسیز کے علوم کے تعارف میں بتایا کہ گلیکسیز دراصل 14 اقسام کی ہیں۔ موجودہ دور میں کی جانے والی گروہ بندیوں کی بنیاد حبل کی تحقیقات پر مبنی ہے۔ غیر مستقل گلیکسیز کو اس نے بے قاعدہ گلیکسیز کا نام دیا۔ باقی تین جوکہ (باقاعدہ گلیکسیز ) ہیں اور ان کی الگ شناختی خصوصیات ہیں کے نام یہ ہیں بیضوی گلیکسیز، عام پیچیدہ گلیکسیز، اور بارڈ (BARRED) پٹیوں والی پیچدار گلیکسیز۔ بیضوی گلیکسیز کی سب سے اہم اور ظاہری خصوصیات یہ ہیں کہ وہ گول ہیں (یہ دراصل گول سے تبدیل ہوکر چپٹی بیضوی شکل اختیار کرتی ہیں) اور یہ سلسلہ وار چمکتی ہیں۔
بقیہ دونوں پیچدار گلیکسیز چپٹی قسم کی ہوتی ہیں، اگر ان کو ایک سائیڈ سے دیکھا جائے ایک محقق کے مطابق ان کی شکل بالکل ایسے ہے جیسے دو تلے ہوئے انڈوں کو پیچھے سے جوڑ دیا جائے۔ ان کے سب سے زیادہ چمکدار حصے ان کے مرکز یا نیوکلس ہیں پھر ان کے بازو ہیں جوکہ عام پیچیدار گلیکسیز میں خمدار یا جھکاؤ دار لائنوں کی شکل میں نیوکلس سے نکلتے ہیں اور (بارڈ یا پٹی دار گلیکسیز) میں روشنی نیوکلس سے نکلنے والی پٹیوں سے خارج ہوتی ہے اور اس میں سے ہی اس کے بازو نکلتے ہیں۔
(جاری ہے)
اگر کسی تاریک ترین رات کو شمالی نصف کرہ سے آسمان کی طرف بغیر کسی دوربین کی مدد کے دیکھا جائے تو ہمیں اپنی ہی گلیکسی کا ایک حصہ نظر آئے گا۔ تاریخی شواہد کے مطابق اور حیرت انگیز طور پر حالیہ تجربات کے مطابق یہی ہماری کائنات ہے۔
ہمیں معلوم ہے کہ اس کائنات کو بہت بڑے پیمانے پر بنایا گیا ہے۔ کہکشاں ہزاروں لاکھوں کہکشاؤں کا حصہ ہے اور کہکشائیں مل کر گلیکسی کو بناتی ہیں، کچھ کہکشائیں تو ہماری اپنی کہکشاؤں سے کئی گنا بڑی ہیں۔ کہکشاؤں کی سائنس تقریباً 90 برس پرانی ہے اور آج کل تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔
آج کل محققین کے پاس آسمانوں اور کائنات کی سیاہی اور ان پر تحقیق کے لیے جدید ترین آلات ہیں، جیسے دوربین جوکہ خلاؤں کی گہرائیوں تک دیکھ سکتی ہیں، انفراریڈ (INFRARED) اور ریڈیو آلات جوکہ گرد و غبار کے پیچیدہ بادلوں کے پار دیکھ سکتے ہیں، ایسی مائیکرو ویوز جوکہ پیچیدہ تعاملات جیسے مالیکیولی بادل جن میں فارمل ڈی ہائیڈ (FORMALDEHYDE) اور ایتھائیل الکحل (ETHYL ALBOHOL) پائے جاتے ہیں، کو دیکھ سکتی ہیں، ایسی سپیکٹروسکوپس (SPECTROSCOPES) اور ریڈیو انٹر فیرو میٹرز (RADIO INTERFEROMETIERS) جوکہ مقناطیسی میدانوں کے جھکاؤ اور سمت کا تعین کرسکتی ہیں۔ ان کا مقصد ہماری اپنی گلیکسی کا مشاہدہ بھی ہے۔ ان کے تعین کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ دوربینوں تک پہنچنے والی روشنی نے اپنی گلیکسی کو تقریباً 15000 ملین سال پہلے چھوڑا تھا۔
یہ سیاہ سوراخوں اور سیاہ مادے کی دنیا ہے۔ یہ بڑے بڑے ستاروں کی دنیا ہے جہاں سیکڑوں ہزاروں سورج اپنی اپنی جگہ بنانے کے لیے ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہیں، اس میں ناقابل تصور فاصلے اور قوانین بھی پائے جاتے ہیں۔ اس میں بڑی بڑی ساختیں مل کر مزید بڑی ساختیں تشکیل دے دیتی ہیں، پھر یہ سائنسی انداز میں ایک دوسرے سے مل کر اس کائنات کو بناتی ہیں۔
بیسویں صدی کی ابتدا میں ماہرین فلکیات ہماری گلیکسی کے سائز اور شکل اور ہم اس میں کہاں واقع ہیں کے بارے میں مبہم خیالات رکھتے تھے۔ ہماری گلیکسی کے علاوہ دوسری گلیکسیز کی موجودگی کے بارے میں وہ نظریاتی طور پر یقین رکھتے تھے لیکن عملی طور پر انھیں ابھی کوئی شواہد نہ مل سکے تھے۔ جن کا نام انھوں نے نبیولی (NABULAE) رکھا، (یہ ایک لاطینی لفظ ہے جس کا مطلب ہے کہر یا دھند) وہ دراصل گیس کے بڑے بڑے چمکتے ہوئے بادل تھے، ان میں یہ چمک دراصل ان کے اندر موجود نوخیز گرم ستاروں کی وجہ سے تھی۔
یہ نبیولی واضح طور پر کہکشاں کے اندر واقع تھے، اب ہمارا یہ خیال ہے کہ نبیولی کہکشاں کے ایسے حصے ہیں جہاں نوخیز ستارے چمک رہے ہیں، جوکہ ستاروں کے درمیان موجود گیس اور گرد سے بنتے ہیں۔ طاقتور ترین دوربین سے تحقیق کرنے کے بعد یہ نتائج سامنے آئے ہیں کہ کئی ایک نبیولی ابھی بھی روشنی کے دھندلے دھندلے دھبوں کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ ماہرین فلکیات کے خیالات میں یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ روشنی کے یہ دھبے ہماری اپنی گلیکسی کے علاوہ کوئی دوسری گلیکسی ہیں۔اس اختلاف رائے کا اس وقت تک کوئی حل نہیں نکل سکتا جب تک یہ معلوم نہ ہوجائے کہ گلیکسی خلا میں کس حد تک پھیلی ہوئی ہے۔ کیونکہ فاصلے اتنے زیادہ ہیں کہ یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہے، یہ گلیکسی آسمان میں کس جسم تک پھیلی ہوئی ہے۔
اس چیز کا اندازہ لگانا بھی بہت مشکل ہے کہ کیا سارے فاصلے کی کمی کی وجہ سے چمکدار ہیں کہ فاصلے کی زیادتی کے باوجود وہ چمکدار نظر آتے ہیں۔ گزشتہ صدی کے اوائل میں ہارورڈ یونیورسٹی کی ماہر فلکیات ہنریٹالیوٹ (HENRIETTALEAVITT) نے ان سوالوں کے جوابات ڈھونڈے، اس نے متغیر ستاروں کی تلاش میں جنوبی آسمان کی فوٹوگرافک پلیٹوں اور ہزاروں گھنٹوں تک تحقیق کی۔ متغیر ستارے وہ ستارے ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید چمکدار اور یا مزید مدھم ہوجاتے ہیں۔ جن جگہوں پر اس نے تحقیق کی ان میں سے ایک میگنک (MEGENNANIC) بادل ہے جوکہ دراصل دھوئیں کے دو چھوٹے چھوٹے مڑے تڑے دھبے ہیں جن کو ہم سیٹلائٹ گلیکسیز بھی کہتے ہیں۔
متغیر ستاروں کے ایک گروہ کو سیفائیڈ (CEPHEID) متغیرات کہتے ہیں۔ ان کی روشنی باقاعدگی سے چمکتی اور مدھم ہوتی ہے، ان ستاروں کی چمک اور دھیماپن مہینوں، ہفتوں اور بعض مرتبہ دنوں کی تبدیلی پر منحصر ہوتے ہیں۔ لیوٹ نے ان ستاروں کی حقیقی روشنی اور چمک و دھندلاہٹ کے دورانیے کے درمیان براہ راست تعلق معلوم کیا۔ ایک سیفائیڈ ستارہ ہمیشہ ایک مہینہ مدت کے لیے حقیقی روشنی خارج کرتا ہے۔
اچانک ہی ماہرین فلکیات نے یارڈ اسٹک (YARDSTICK) کا استعمال شروع کیا۔ انھیں سیفائیڈ جہاں بھی نظر آتا تھا وہ اس کی گردش کی مدد سے اس کی اوسط حقیقی چمک معلوم کرلیتے تھے۔ پھر اس کا ظاہری چمک سے موازنہ کرکے وہ ہماری گلیکسی سے اس کا صحیح فاصلہ معلوم کرلیتے تھے۔ 1915 کے اوائل میں ہالوشیپلے نے سیفائیڈ ستاروں جیسے ستارے استعمال کرکے ہماری گلیکسی کے مرکز میں پائے جانے والے ستاروں کے گول گول گروہوں کا فاصلہ معلوم کیا۔ اس نے اس تجربے کے بعد یہ ثابت کیا کہ ستاروں کے ان گول گول گروہوں کا مرکز دراصل ہماری اپنی گلیکسی کا مرکز ہے۔
اپنے نظریات کو ثابت کرنے کے لیے اس نے ہماری گلیکسی کے مرکز کو برج قوس میں پائے جانے والے ستاروں کے بادلوں کے مرکز میں رکھا، اس سے زمین نے اپنے آپ کو دوسری تمام چیزوں کے مرکز سے ہٹا ہوا پایا۔ بالکل ایسے جیسے 1543 میں کوپرسیکس نے یہ ثابت کیا تھا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ شیپلے نے یہ ظاہر کیا کہ ہماری زمین گلیکسی کے مرکز کے قریب نہیں پائی جاتی۔ اس سے بھی زیادہ بدترین نتائج آیندہ چند سال میں سانے آنے والے تھے۔
بعدازاں یہ ثابت ہوا کہ شیپلے نے فلکی (یا فلکیاتی) اجسام کے درمیان پائے جانے والے فاصلوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا، مثلاً اس نے کہا کہ ہماری گلیکسی زمین سے 300000 نوری یا لائٹ ایئرز (LIGHT YEARS) کے فاصلے پر ہے جوکہ نئے تجربات کے نتائج کے مطابق تین گنا زیادہ کرکے بتایا گیا تھا۔ اگرچہ اس نے دوسری گلیکسیز کی موجودگی کو تسلیم کیا لیکن اس نے کہا کہ ان کی حقیقت چھوٹے سیاروں یعنی سیٹلائٹس سے زیادہ نہیں ہے۔
شیپلے کے لیے اینڈون حبل (ENDWINHUBBLE) نے 1924 میں عظیم اینڈرومیڈ (ANDROMEDA) نبیولی میں پائے جانے والے سیفائیڈ کی دریافت کے بارے میں اعلان کیا۔ اس نے اس نبیولی کے فاصلے کا اندازہ تقریباً 900000 نوری سال لگایا (جوکہ اس کے حقیقی فاصلے کے آدھے سے کم ہے)۔ بل نے دوسری نبیولی میں بھی سیفائیڈ کی دریافت کیے ( جنھیں آج کل گلیکسیز کہتے ہیں) جوکہ ہماری گلیکسی سے کافی زیادہ فاصلے پر ہیں۔ اب اس بارے میں کوئی شک نہیں رہ گیا تھا کہ ہماری گلیکسی کے علاوہ بھی کئی گلیکسیز اس کائنات میں پائی جاتی ہیں۔
یہ کائنات تصور سے زیادہ بڑی ہے۔ حبل نے فلکی اجسام اور گلیکسیز کے علوم کے تعارف میں بتایا کہ گلیکسیز دراصل 14 اقسام کی ہیں۔ موجودہ دور میں کی جانے والی گروہ بندیوں کی بنیاد حبل کی تحقیقات پر مبنی ہے۔ غیر مستقل گلیکسیز کو اس نے بے قاعدہ گلیکسیز کا نام دیا۔ باقی تین جوکہ (باقاعدہ گلیکسیز ) ہیں اور ان کی الگ شناختی خصوصیات ہیں کے نام یہ ہیں بیضوی گلیکسیز، عام پیچیدہ گلیکسیز، اور بارڈ (BARRED) پٹیوں والی پیچدار گلیکسیز۔ بیضوی گلیکسیز کی سب سے اہم اور ظاہری خصوصیات یہ ہیں کہ وہ گول ہیں (یہ دراصل گول سے تبدیل ہوکر چپٹی بیضوی شکل اختیار کرتی ہیں) اور یہ سلسلہ وار چمکتی ہیں۔
بقیہ دونوں پیچدار گلیکسیز چپٹی قسم کی ہوتی ہیں، اگر ان کو ایک سائیڈ سے دیکھا جائے ایک محقق کے مطابق ان کی شکل بالکل ایسے ہے جیسے دو تلے ہوئے انڈوں کو پیچھے سے جوڑ دیا جائے۔ ان کے سب سے زیادہ چمکدار حصے ان کے مرکز یا نیوکلس ہیں پھر ان کے بازو ہیں جوکہ عام پیچیدار گلیکسیز میں خمدار یا جھکاؤ دار لائنوں کی شکل میں نیوکلس سے نکلتے ہیں اور (بارڈ یا پٹی دار گلیکسیز) میں روشنی نیوکلس سے نکلنے والی پٹیوں سے خارج ہوتی ہے اور اس میں سے ہی اس کے بازو نکلتے ہیں۔
(جاری ہے)