کیا صحافت اپنے اصل مقصد سے محروم ہوچکی ہے
کیا یہ درست ہے کہ ٹاک شوز کے میزبان ذاتی پسند ناپسند اپنے ناظرین پر بھی مسلط کرنے لگیں؟
ابلاغ عامہ کو کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے اور اس اکیسویں صدی میں ابلاغ عامہ کی ترقی کے سبب فاصلوں نے سکڑ سمٹ ساری دنیا کو ایک ''گلوبل ولیج'' بنادیا ہے۔ صحافت کسی بھی ملک کےلیے ستون کا درجہ رکھتی ہے۔ ملک میں اتتشاری کیفیت کو پروان چڑھانا ہو یا کسی بھی فرد کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچانا مقصود ہو، کسی کو بلندی سے پستی میں گرانا ہو یا کسی کے جذبات کو قابو کرنا ہو، صحافت کا استعمال بے دریغ کیا جارہا ہے۔ اپنے ذاتی مقصد کےلیے استعمال ہونے والی صحافت کی اس قسم کو لفافہ صحافت کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ لفافہ صحافت کا یہ فارمولا جدید دور کا ہے کہ جہاں ایک طرف تو انسان نے چاند پر قدم رکھ دیئے ہیں جبکہ دوسری طرف انسان اس پستی سے باہر نہیں نکل پایا۔
برصغیر پاک و ہند پر انگریزوں نے حملہ کیا اور ہندوستان پر قابض ہوگئے جس کے باعث یہاں کے لوگ ہر طرح سے انگریز سرکار کے غلام ہو گئے اور انگریزوں نے یہاں کے لوگوں پر تعلیم کے دروازے بند کردیئے۔ انگریزوں کے اس ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانے کی غرض سے اس وقت کے پڑھے لکھے اور باشعور لوگوں نے ایک ایسے شعبے کا انتخاب کیا جو عوام میں شعور بیدار کرسکے؛ اور یہ شعبہ بلاشبہ صحافت کا تھا۔ لوگوں کو غلامی کے اندھیروں سے نکالنے کےلیے صحافت کا شعبہ کارگر ثابت ہوا کیونکہ اس کا مقصد ہی لوگوں کی تاریکی زدہ زندگیوں میں روشنی کی کرن لانا، حقوق و فرائض سے آشنا کروانا، ان کے اندر ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنے کی ہمت پیدا کرنا اور ملک کے غداروں کا چہرہ عوام کے سامنے لانا ہی صحافت ہے۔
انتہائی افسوسناک صورتحال یہ بن چکی ہے کہ قائداعظم کے پاکستان میں صحافت کے معنی و مفہوم تبدیل کردیئے گئے ہیں۔ فرض شناسی کی جگہ فیورٹ ازم نے لے لی ہے۔ حق کی آواز دبانے کےلیے اصل صحافت کی جگہ لفافہ صحافت نے لی ہے۔ ملک کے تمام صحافتی ادارے غیر جانبداری کے اصول کو پس پشت ڈال چکے ہیں اور جدید صحافت کا کام چاپلوسی رہ گیا ہے۔ پاکستان میں صحافت اب پیسہ بنانے کی مشین کی شکل اختیار کرچکی ہے اور اس مشین سے صرف اور صرف میڈیا مالکان فیضیاب ہورہے ہیں۔ کوئی ٹی وی چینل ہو یا اخبار، فیورٹ ازم کو عوام کے ذہنوں پر مسلط کرنے کی جنگ میں پیش پیش دکھائی دیتا ہے۔ صحافتی ادارے اخلاقی معاونت کے نام پر ایک دوسرے پر خوب کیچڑ اچھالتے دکھائی دیتے ہیں۔ نہ انداز اصولی ہے نہ رویہ مناسب، اور چلے ہیں ملک میں شعور بیدار کرنے! افسوس ہے ایسے لفافہ صحافیوں پر۔
بحیثیت ایک ادنیٰ قلم کار میں اس اینکر پرسن کے تعلیم یافتہ ہونے پر شکوک و شبہات کا شکار ہوں جس نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر کےلیے لفظ ''واویلا'' استعمال کیا۔ معلوم نہیں کہ یہ کونسی آزاد صحافت ہے جس میں روز اخلاقیات کا جنازہ نکالا جاتا ہے۔
آزادی صحافت اور آزادی نسواں میں کوئی فرق نہیں، ان دونوں کے ساتھ لفظ ''آزادی'' لگا کر انہیں بے لباس کردیا گیا ہے۔ صحافت کا مقصد ریاست اور اس کے اداروں اور حکومت کو عوام کے ساتھ جوڑنا ہے۔ حقائق پر مبنی خبر کو عوام تک پہنچانا صحافت کا اہم اصول ہے اور حکومت کی ناقص یا اچھی کارگردگی کی خبر عوام تک پہنچانا صحافت ہے۔ حکومت کی ناقص پالیسیوں پر تنقید جمہوریت اور صحافت کا حصہ ضرور ہے لیکن تنقید کرتے وقت ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔
ہر انسان کی اپنی پسند ناپسند ہوتی ہے اور عوام کی سیاسی پارٹیوں سے وابستگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بحیثیت انسان میڈیا مالکان اور صحافی برادری کی بھی اپنی پسندیدہ شخصیات ہوں گی اور وہ ان شخصیات کے نظریات سے عقیدت رکھتے ہوں گے۔ کسی بھی شخصیت سے عقیدت و محبت ان کا ذاتی فعل ہے مگر یہ صحافی ہمارے ملک میں اس ذاتی عقیدت و احترام کو ناظرین اور قارئین پر مسلط کرنے کی ناکام کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پسند ناپسند کے اس کھیل میں صحافت سے غیرجانبداری کے اصول کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
حقیقی صحافت کا خاتمہ کرکے اپنی پسندیدہ شخصیات کی محبت میں مگن صحافی حضرات اخلاقیات کا سبق بھی مکمل طور پر بھول چکے ہیں تبھی تو اینکرز ریٹنگ کے چکر میں اپنے اپنے ٹاک شوز میں سیاستدانوں کو زبان کے جوہر دکھانے پر اکساتے ہیں۔ ایسے تمام نام نہاد لفافہ صحافیوں سے میرا سوال ہے کہ صحافت کیا ہے؟ اس کے معنی و مفہوم اور مقاصد کیا ہیں؟ کیا یہ قائداعظم کی پسندیدہ صحافت ہے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
برصغیر پاک و ہند پر انگریزوں نے حملہ کیا اور ہندوستان پر قابض ہوگئے جس کے باعث یہاں کے لوگ ہر طرح سے انگریز سرکار کے غلام ہو گئے اور انگریزوں نے یہاں کے لوگوں پر تعلیم کے دروازے بند کردیئے۔ انگریزوں کے اس ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانے کی غرض سے اس وقت کے پڑھے لکھے اور باشعور لوگوں نے ایک ایسے شعبے کا انتخاب کیا جو عوام میں شعور بیدار کرسکے؛ اور یہ شعبہ بلاشبہ صحافت کا تھا۔ لوگوں کو غلامی کے اندھیروں سے نکالنے کےلیے صحافت کا شعبہ کارگر ثابت ہوا کیونکہ اس کا مقصد ہی لوگوں کی تاریکی زدہ زندگیوں میں روشنی کی کرن لانا، حقوق و فرائض سے آشنا کروانا، ان کے اندر ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنے کی ہمت پیدا کرنا اور ملک کے غداروں کا چہرہ عوام کے سامنے لانا ہی صحافت ہے۔
انتہائی افسوسناک صورتحال یہ بن چکی ہے کہ قائداعظم کے پاکستان میں صحافت کے معنی و مفہوم تبدیل کردیئے گئے ہیں۔ فرض شناسی کی جگہ فیورٹ ازم نے لے لی ہے۔ حق کی آواز دبانے کےلیے اصل صحافت کی جگہ لفافہ صحافت نے لی ہے۔ ملک کے تمام صحافتی ادارے غیر جانبداری کے اصول کو پس پشت ڈال چکے ہیں اور جدید صحافت کا کام چاپلوسی رہ گیا ہے۔ پاکستان میں صحافت اب پیسہ بنانے کی مشین کی شکل اختیار کرچکی ہے اور اس مشین سے صرف اور صرف میڈیا مالکان فیضیاب ہورہے ہیں۔ کوئی ٹی وی چینل ہو یا اخبار، فیورٹ ازم کو عوام کے ذہنوں پر مسلط کرنے کی جنگ میں پیش پیش دکھائی دیتا ہے۔ صحافتی ادارے اخلاقی معاونت کے نام پر ایک دوسرے پر خوب کیچڑ اچھالتے دکھائی دیتے ہیں۔ نہ انداز اصولی ہے نہ رویہ مناسب، اور چلے ہیں ملک میں شعور بیدار کرنے! افسوس ہے ایسے لفافہ صحافیوں پر۔
بحیثیت ایک ادنیٰ قلم کار میں اس اینکر پرسن کے تعلیم یافتہ ہونے پر شکوک و شبہات کا شکار ہوں جس نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر کےلیے لفظ ''واویلا'' استعمال کیا۔ معلوم نہیں کہ یہ کونسی آزاد صحافت ہے جس میں روز اخلاقیات کا جنازہ نکالا جاتا ہے۔
آزادی صحافت اور آزادی نسواں میں کوئی فرق نہیں، ان دونوں کے ساتھ لفظ ''آزادی'' لگا کر انہیں بے لباس کردیا گیا ہے۔ صحافت کا مقصد ریاست اور اس کے اداروں اور حکومت کو عوام کے ساتھ جوڑنا ہے۔ حقائق پر مبنی خبر کو عوام تک پہنچانا صحافت کا اہم اصول ہے اور حکومت کی ناقص یا اچھی کارگردگی کی خبر عوام تک پہنچانا صحافت ہے۔ حکومت کی ناقص پالیسیوں پر تنقید جمہوریت اور صحافت کا حصہ ضرور ہے لیکن تنقید کرتے وقت ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔
ہر انسان کی اپنی پسند ناپسند ہوتی ہے اور عوام کی سیاسی پارٹیوں سے وابستگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بحیثیت انسان میڈیا مالکان اور صحافی برادری کی بھی اپنی پسندیدہ شخصیات ہوں گی اور وہ ان شخصیات کے نظریات سے عقیدت رکھتے ہوں گے۔ کسی بھی شخصیت سے عقیدت و محبت ان کا ذاتی فعل ہے مگر یہ صحافی ہمارے ملک میں اس ذاتی عقیدت و احترام کو ناظرین اور قارئین پر مسلط کرنے کی ناکام کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پسند ناپسند کے اس کھیل میں صحافت سے غیرجانبداری کے اصول کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
حقیقی صحافت کا خاتمہ کرکے اپنی پسندیدہ شخصیات کی محبت میں مگن صحافی حضرات اخلاقیات کا سبق بھی مکمل طور پر بھول چکے ہیں تبھی تو اینکرز ریٹنگ کے چکر میں اپنے اپنے ٹاک شوز میں سیاستدانوں کو زبان کے جوہر دکھانے پر اکساتے ہیں۔ ایسے تمام نام نہاد لفافہ صحافیوں سے میرا سوال ہے کہ صحافت کیا ہے؟ اس کے معنی و مفہوم اور مقاصد کیا ہیں؟ کیا یہ قائداعظم کی پسندیدہ صحافت ہے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔