پاکستان گندم میں خود کفیل مگر
ملک کی اکثریت آبادی پوری طرح سے خوراک کے حصول سے محروم ہے مطلب یہ کہ پوری غذا نہیں ملتی۔
اعدادوشمار تو یہ ہیں کہ ملک میں ایک برس میں دو سو ساٹھ لاکھ ٹن گندم پیدا ہوتی ہے، جب کہ ہماری سالانہ گندم کی کھپت ہے دو سو تیس لاکھ ٹن مطلب یہ کہ سالانہ تیس لاکھ ٹن گندم ہمارے ملک میں وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہے یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ملک نہ صرف گندم کے معاملے میں خود کفیل ہے بلکہ تیس لاکھ ٹن اضافی گندم پیدا کررہا ہے۔
گندم میں خود کفیل ہونا یا اضافی گندم پیدا کرنے میں ہمارا ملک دنیا کا واحد ملک نہیں ہے بلکہ دنیا کے اکثر ممالک جن میں نام نہاد ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں ایک گندم ہی کیا تقریباً تمام ہی خوردنی اشیا کی پیداوار اس قدر کثرت سے ہوتی ہے کہ بیان کیا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں اس قدر خوردنی اشیا پیدا ہوتی ہیں کہ دس ارب انسانوں کی ضروریات کے لیے کافی ہیں۔ جب کہ دنیا کی آبادی ہے 7 ارب۔ یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ دنیا بھر کی کم سے کم نصف آبادی ایسی ہے جسے پوری طرح سے خوراک میسر نہیں ہے یہ کیفیت فقط ایشیائی، افریقی یا دیگر ممالک تک نہیں ہے بلکہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک امریکا تک ہے کہ لاکھوں امریکی خیراتی اداروں میں جاکر کھانا کھانے پر مجبور ہیں۔
ایسے امریکی شہری بھی لاکھوں کی تعداد میں ہیں کہ جن کے آمدنی کے ذرایع اس قدر محدود ہیں کہ وہ امریکی شہری جس روز کسی معمولی سے مرض میں بھی مبتلا ہوجائیں تو اس روز انھیں ایک وقت کا کھانا ترک کرنا پڑتا ہے۔ تاکہ کھانے سے بچائی گئی رقم سے وہ ڈاکٹر سے دوا لے سکیں یہ وہ امریکی شہری ہیں جن کی خود داری آڑے آجاتی ہے کہ وہ خیراتی ادارے میں جاکر کھانا کھانا پسند نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ کہ نہایت معمولی کھانا کھالیا یا خالی پیٹ سوگئے۔
صنعتی ترقی میں اہم ترین نام جاپان کا بھی ہے مگر ایک جاپانی نے یہ کہہ کر ہمیں حیرت زدہ کردیا کہ انسانی ضرورت سے بہت ہی کم چاول وچٹنی جیسا سالن عام جاپانی کی خوراک ہے ۔ ہم نے سوال کیا وہ جو جاپان کے صنعتی ترقی کے دعوے ہیں وہ کیا ہوئے؟ جواب ملا بلاشبہ صنعتی ترقی میں جاپان کا نام لیا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جاپان کی صنعتی ترقی کے ثمرات سے جاپان کی کثیر آبادی محروم ہے اور ایک قلیل سی تعداد میں ایسے سرمایہ دار ہیں جوکہ اس صنعتی ترقی کے ثمرات سے فیض یاب ہورہے ہیں اور جاپان کے تمام قسم کے وسائل پر قابض ہورہے ہیں۔
ہمارے اپنے خطے میں بنگلادیشی وزیراعظم حسینہ واجد و انڈین وزیراعظم نریندر مودی شب و روز ترقی کے دعوے کررہے ہیں مگر ان کے تمام تر ترقی کے دعوؤں کے باوجود ان دونوں ممالک میں کیفیت یہ ہے کہ غذائی قلت کے اثرات ان لوگوں کی شکلوں ہی سے عیاں ہوتے ہیں۔، مزید غربت کے ثبوت ان لوگوں کی پوشاک سے ظاہر ہوجاتے ہیں۔ ذکر اگر ہم اپنے سماج کا کریں تو جیسے کہ ہم نے سطور بالا میں تذکرہ کیا ہے کہ ہمارا ملک بلاشبہ وافر مقدار میں گندم پیدا کررہا ہے مگر ملک کی اکثریت آبادی پوری طرح سے خوراک کے حصول سے محروم ہے مطلب یہ کہ پوری غذا نہیں ملتی۔
ستم تو یہ ہے کہ وہ خواتین جن کے جسم میں ایک اور جان پرورش پارہی ہوتی ہے وہ خواتین بھی متوازن غذا جس میں موسمی پھل، انڈے، دودھ، مرغی، مچھلی، بکرے کا گوشت، گائے کا گوشت سے محروم ہوتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ان خواتین کو زچگی کی کیفیت میں بھی عام سی خوراک دالیں و سبزیاں تک دست یاب نہیں ہوتی نتیجہ یہ کہ لا تعداد امراض نومولود اپنے ساتھ لے کر اس دنیا میں وارد ہوتے ہیں اور کثیر تعداد میں ایسے بچے اپنی پانچویں سالگرہ نہیں مناپاتے جب کہ کثیر تعداد میں خواتین حمل کے عمل کے دوران اپنی جانوں سے محروم ہوجاتی ہیں۔
اس کے باوجود حکومتی ایوان میں تشریف فرما ایک سیاسی شخصیت کی حامل خاتون رہنما بارہا نجی ٹی وی چینلز کے مختلف پروگراموں میں یہ دلیل دے چکی ہیں کہ یہ غلط ہے کہ ہمارے صوبے میں معصوم بچے غذائی قلت کے باعث وفات پارہے ہیں کیونکہ اتنے کم عمر بچے تو غذا کھاتے ہی نہیں ہم ان محترمہ کی خدمت میں فقط اتنا ہی عرض کریںگے کہ غذائی قلت کا شکار در حقیقت مائیں ہوتی ہیں کہ متوازن غذا ان کو دستیاب نہیں اب اگر ایک مال کو پوری طرح سے غذا نہیں ملتی تو وہ مال اپنی کمسن اولاد کی دودھ کی ضرورت کیسے پوری کرسکتی ہے۔
یوں اکثر معصوم بچے پوری طرح دودھ نہ ملنے کے باعث غذائی قلت کا شکار ہوکر موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ افسوس کہ آپ خاتون ہونے کے باوجود اس حقیقت سے چشم پوشی کررہی ہیں اب ہمارے سماج کے عام لوگوں کی خوراک کا ذکرکریں تو مہنگائی کے باعث یہ لوگ مرغی کا گوشت، مچھلی کا گوشت، بکرے کا گوشت و گائے کا گوشت عرصہ دراز سے ترک کرچکے ہیں بلکہ اب تو کیفیت یہ ہے کہ عام سی خوراک دالیں و سبزیاں بھی عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔
اگر آپ بازار میں جاکر سبزیوں اور دالوں کے دام معلوم کریں تو کیفیت یہ ہے کہ بھنڈی 120 روپے کلو، لوکی ،گوبھی، شلجم، بینگن، کالی توری، شملہ مرچ، گوار کی پھلی، کریلا وغیرہ یہ وہ سبزیاں ہیں جن کی فی کلو قیمت ہے کم سے کم ایک سو روپے، آلو 50 روپے کلو، پیاز 80 روپے کلو، پالک 50 روپے کلو، اگرچہ میتھی و مٹر وہ سبزیاں ہیں جنھیں فقط اہل ثروت لوگوں ہی کی خوراک کہا جاسکتا ہے ان دونوں سبزیوں کی قیمتیں بالترتیب یہ ہیں، میتھی چالیس روپے پاؤ، یعنی ایک سو ساٹھ روپے کلو، مٹر کی قیمت ہم نے ایک سبزی فروش سے معلوم کی تو جواب آیا کہ 70روپے پاؤ 280 روپے کلو اب کون سا ایسا عام محنت کش انسان ہے جوکہ 280 روپے کلو بکنے والی سبزی اپنے اہل و عیال کو کھلاسکتا ہے جب کہ دالوں کے داموں کی کیفیت یہ ہے کہ دال ماش 80 روپے پاؤ 320 روپے کلو جب کہ دیگر دالیں جن میں دال مسور، دال چنا، دال مونگ، سفید چنا، کالا چنا یہ سب بھی 200 روپے فی کلو فروخت ہورہے ہیں اب ان حالات میں گویا سبزیاں و دالیں بھی عوام کی قوت خرید سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔
اب ان حالات میں عام آدمی دالوں و سبزیوں کو کھانا ترک ہی کرنے پر مجبور ہوگا۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ لوگ ٹماٹر وغیرہ کی چٹنی سے روٹی روکھی سوکھی کھاسکے مگر دو ماہ سے ٹماٹر بھی اس قدر مہنگا ہوچکا ہے کہ گویا عام آدمی چٹنی سے بھی ہوگیا محروم۔ اب ہم پھر ذکر کریںگے گندم کا تو کیفیت یہ ہے کہ گندم سے تیار ہونے والے آٹے میں گزشتہ چند یوم میں چار روپے فی کلو کا اضافہ ہوچکا ہے۔ آٹا واحد چیز ہے جس کے بغیر گویا خوراک کا تصور بھی ناممکن ہے مگر لگتا یہی ہے کہ اب آٹا بھی عام آدم کی دسترس سے باہر ہونے جارہا ہے، ان تمام حالات کے باوجود گزشتہ 70 برس سے ترقی کی نوید سنائی جارہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ ہورہاہے یہ بد ترین تنزلی ہے جس کی جانب عوام کو دھکیلا جارہاہے بہرکیف مناسب ہوگا ہمارے حکمران حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے عوامی مسائل کے حل پر توجہ دیں۔ بصورت دیگر کوئی قوت بھی آنے والی سماجی تبدیلی کو روک نہیں سکتی۔ وہ تبدیلی ہے سماجی انقلاب جو ایک روز ضرور برپا ہوگا یوں بھی تمام مسائل کا حل بھی انقلاب میں پوشیدہ ہے۔
گندم میں خود کفیل ہونا یا اضافی گندم پیدا کرنے میں ہمارا ملک دنیا کا واحد ملک نہیں ہے بلکہ دنیا کے اکثر ممالک جن میں نام نہاد ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں ایک گندم ہی کیا تقریباً تمام ہی خوردنی اشیا کی پیداوار اس قدر کثرت سے ہوتی ہے کہ بیان کیا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں اس قدر خوردنی اشیا پیدا ہوتی ہیں کہ دس ارب انسانوں کی ضروریات کے لیے کافی ہیں۔ جب کہ دنیا کی آبادی ہے 7 ارب۔ یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ دنیا بھر کی کم سے کم نصف آبادی ایسی ہے جسے پوری طرح سے خوراک میسر نہیں ہے یہ کیفیت فقط ایشیائی، افریقی یا دیگر ممالک تک نہیں ہے بلکہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک امریکا تک ہے کہ لاکھوں امریکی خیراتی اداروں میں جاکر کھانا کھانے پر مجبور ہیں۔
ایسے امریکی شہری بھی لاکھوں کی تعداد میں ہیں کہ جن کے آمدنی کے ذرایع اس قدر محدود ہیں کہ وہ امریکی شہری جس روز کسی معمولی سے مرض میں بھی مبتلا ہوجائیں تو اس روز انھیں ایک وقت کا کھانا ترک کرنا پڑتا ہے۔ تاکہ کھانے سے بچائی گئی رقم سے وہ ڈاکٹر سے دوا لے سکیں یہ وہ امریکی شہری ہیں جن کی خود داری آڑے آجاتی ہے کہ وہ خیراتی ادارے میں جاکر کھانا کھانا پسند نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ کہ نہایت معمولی کھانا کھالیا یا خالی پیٹ سوگئے۔
صنعتی ترقی میں اہم ترین نام جاپان کا بھی ہے مگر ایک جاپانی نے یہ کہہ کر ہمیں حیرت زدہ کردیا کہ انسانی ضرورت سے بہت ہی کم چاول وچٹنی جیسا سالن عام جاپانی کی خوراک ہے ۔ ہم نے سوال کیا وہ جو جاپان کے صنعتی ترقی کے دعوے ہیں وہ کیا ہوئے؟ جواب ملا بلاشبہ صنعتی ترقی میں جاپان کا نام لیا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جاپان کی صنعتی ترقی کے ثمرات سے جاپان کی کثیر آبادی محروم ہے اور ایک قلیل سی تعداد میں ایسے سرمایہ دار ہیں جوکہ اس صنعتی ترقی کے ثمرات سے فیض یاب ہورہے ہیں اور جاپان کے تمام قسم کے وسائل پر قابض ہورہے ہیں۔
ہمارے اپنے خطے میں بنگلادیشی وزیراعظم حسینہ واجد و انڈین وزیراعظم نریندر مودی شب و روز ترقی کے دعوے کررہے ہیں مگر ان کے تمام تر ترقی کے دعوؤں کے باوجود ان دونوں ممالک میں کیفیت یہ ہے کہ غذائی قلت کے اثرات ان لوگوں کی شکلوں ہی سے عیاں ہوتے ہیں۔، مزید غربت کے ثبوت ان لوگوں کی پوشاک سے ظاہر ہوجاتے ہیں۔ ذکر اگر ہم اپنے سماج کا کریں تو جیسے کہ ہم نے سطور بالا میں تذکرہ کیا ہے کہ ہمارا ملک بلاشبہ وافر مقدار میں گندم پیدا کررہا ہے مگر ملک کی اکثریت آبادی پوری طرح سے خوراک کے حصول سے محروم ہے مطلب یہ کہ پوری غذا نہیں ملتی۔
ستم تو یہ ہے کہ وہ خواتین جن کے جسم میں ایک اور جان پرورش پارہی ہوتی ہے وہ خواتین بھی متوازن غذا جس میں موسمی پھل، انڈے، دودھ، مرغی، مچھلی، بکرے کا گوشت، گائے کا گوشت سے محروم ہوتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ان خواتین کو زچگی کی کیفیت میں بھی عام سی خوراک دالیں و سبزیاں تک دست یاب نہیں ہوتی نتیجہ یہ کہ لا تعداد امراض نومولود اپنے ساتھ لے کر اس دنیا میں وارد ہوتے ہیں اور کثیر تعداد میں ایسے بچے اپنی پانچویں سالگرہ نہیں مناپاتے جب کہ کثیر تعداد میں خواتین حمل کے عمل کے دوران اپنی جانوں سے محروم ہوجاتی ہیں۔
اس کے باوجود حکومتی ایوان میں تشریف فرما ایک سیاسی شخصیت کی حامل خاتون رہنما بارہا نجی ٹی وی چینلز کے مختلف پروگراموں میں یہ دلیل دے چکی ہیں کہ یہ غلط ہے کہ ہمارے صوبے میں معصوم بچے غذائی قلت کے باعث وفات پارہے ہیں کیونکہ اتنے کم عمر بچے تو غذا کھاتے ہی نہیں ہم ان محترمہ کی خدمت میں فقط اتنا ہی عرض کریںگے کہ غذائی قلت کا شکار در حقیقت مائیں ہوتی ہیں کہ متوازن غذا ان کو دستیاب نہیں اب اگر ایک مال کو پوری طرح سے غذا نہیں ملتی تو وہ مال اپنی کمسن اولاد کی دودھ کی ضرورت کیسے پوری کرسکتی ہے۔
یوں اکثر معصوم بچے پوری طرح دودھ نہ ملنے کے باعث غذائی قلت کا شکار ہوکر موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ افسوس کہ آپ خاتون ہونے کے باوجود اس حقیقت سے چشم پوشی کررہی ہیں اب ہمارے سماج کے عام لوگوں کی خوراک کا ذکرکریں تو مہنگائی کے باعث یہ لوگ مرغی کا گوشت، مچھلی کا گوشت، بکرے کا گوشت و گائے کا گوشت عرصہ دراز سے ترک کرچکے ہیں بلکہ اب تو کیفیت یہ ہے کہ عام سی خوراک دالیں و سبزیاں بھی عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔
اگر آپ بازار میں جاکر سبزیوں اور دالوں کے دام معلوم کریں تو کیفیت یہ ہے کہ بھنڈی 120 روپے کلو، لوکی ،گوبھی، شلجم، بینگن، کالی توری، شملہ مرچ، گوار کی پھلی، کریلا وغیرہ یہ وہ سبزیاں ہیں جن کی فی کلو قیمت ہے کم سے کم ایک سو روپے، آلو 50 روپے کلو، پیاز 80 روپے کلو، پالک 50 روپے کلو، اگرچہ میتھی و مٹر وہ سبزیاں ہیں جنھیں فقط اہل ثروت لوگوں ہی کی خوراک کہا جاسکتا ہے ان دونوں سبزیوں کی قیمتیں بالترتیب یہ ہیں، میتھی چالیس روپے پاؤ، یعنی ایک سو ساٹھ روپے کلو، مٹر کی قیمت ہم نے ایک سبزی فروش سے معلوم کی تو جواب آیا کہ 70روپے پاؤ 280 روپے کلو اب کون سا ایسا عام محنت کش انسان ہے جوکہ 280 روپے کلو بکنے والی سبزی اپنے اہل و عیال کو کھلاسکتا ہے جب کہ دالوں کے داموں کی کیفیت یہ ہے کہ دال ماش 80 روپے پاؤ 320 روپے کلو جب کہ دیگر دالیں جن میں دال مسور، دال چنا، دال مونگ، سفید چنا، کالا چنا یہ سب بھی 200 روپے فی کلو فروخت ہورہے ہیں اب ان حالات میں گویا سبزیاں و دالیں بھی عوام کی قوت خرید سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔
اب ان حالات میں عام آدمی دالوں و سبزیوں کو کھانا ترک ہی کرنے پر مجبور ہوگا۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ لوگ ٹماٹر وغیرہ کی چٹنی سے روٹی روکھی سوکھی کھاسکے مگر دو ماہ سے ٹماٹر بھی اس قدر مہنگا ہوچکا ہے کہ گویا عام آدمی چٹنی سے بھی ہوگیا محروم۔ اب ہم پھر ذکر کریںگے گندم کا تو کیفیت یہ ہے کہ گندم سے تیار ہونے والے آٹے میں گزشتہ چند یوم میں چار روپے فی کلو کا اضافہ ہوچکا ہے۔ آٹا واحد چیز ہے جس کے بغیر گویا خوراک کا تصور بھی ناممکن ہے مگر لگتا یہی ہے کہ اب آٹا بھی عام آدم کی دسترس سے باہر ہونے جارہا ہے، ان تمام حالات کے باوجود گزشتہ 70 برس سے ترقی کی نوید سنائی جارہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ ہورہاہے یہ بد ترین تنزلی ہے جس کی جانب عوام کو دھکیلا جارہاہے بہرکیف مناسب ہوگا ہمارے حکمران حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے عوامی مسائل کے حل پر توجہ دیں۔ بصورت دیگر کوئی قوت بھی آنے والی سماجی تبدیلی کو روک نہیں سکتی۔ وہ تبدیلی ہے سماجی انقلاب جو ایک روز ضرور برپا ہوگا یوں بھی تمام مسائل کا حل بھی انقلاب میں پوشیدہ ہے۔