بات چل نکلی ہے۔۔۔
ہمیں ایسی بیکار اور لایعنی قصہ کہانیوں کی بجائے اپنے بچوں کو فُلاں فُلاں مضامین کی اعلیٰ تعلیم دینی چاہیے
ع : آج کچھ درد مِرے دل میں سِوا ہوتا ہے
جی........میں بحمداللہ، دل کا مریض نہیں، اس لیے کچھ اور نہ سمجھ لیجے گا........کیوں کہ بے چارے کم فہم قاری یا سامع کسی بھی شعر یا مصرع کی فوری تفہیم یا تشریح یہی سمجھتے ہیں کہ شاید شاعر نے یہی کہا ہوگا جو مَیں سمجھا ہوں....اس سلسلے میں بہت سے لطائف نقل کیے جاسکتے ہیں، مگر آج جی نہیں چاہ رہا (آسان الفاظ میں کہیے نا Moodنہیں ہے....ہاہاہا)۔ (لفظ 'مصرعہ' درست نہیں)۔
بس ایک عجیب اضطراری کیفیت ہے کہ کیا لکھوں کیا نہ لکھوں اور کیاکیا لکھوں۔ یہاں ضمنی وضاحت کرتا چلوں کہ ہمارے یہاں بعض الفاظ اور کلمات غلط لکھنے کا رواج اس قدر عام ہے کہ اہل قلم، طالب علم، عالم، صحافی، غرضیکہ ہر شعبے سے منسلک افراد، بلاامتیاز، بغیر سوچے سمجھے نقل درنقل کرتے چلے جاتے ہیں۔ سلام کی مثال بہت پہلے اپنے ایک کالم میں دے چکا ہوں۔ یہاں یہ کہنا ہے کہ الحمد للہ کے ہجے پر غور فرمائیں....عموماً لوگ اسے 'الحمداللہ' لکھ کر کسی بات کا آغاز کرتے ہیں جو غلط ہے۔ اگر آپ اپنی بات کی ابتداء خدائے بزرگ وبرتر کی مطلق حمد سے کرنا چاہتے ہیں تو دو طریقے ہیں:
(ا)۔ الحمد للہ! (تعریف اللہ کے لیے ہے) آج بندہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوگیا۔ (ب) بِحَمدِاللہ (یعنی اللہ کی حمد کے ساتھ) آج بندہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوگیا۔ (بِحَمدِاللہ: بے کے نیچے زیر، حے کے اوپر زبر اور دال کے نیچے زیر)۔ اسی طرح دیگر مثالیں بھی ہیں، اغلاط ِعامہ کی، مگر فی الحال کچھ اور۔ اِن دنوں ایک ٹی وی ڈراما چل رہا ہے، 'الف اللہ اور انسان' ....ڈراما تو ٹھیک سے دیکھا نہیں، مگر اس کا عنوان معنی خیز ہے اور چونکانے والا بھی۔ رب سے بندے کا تعلق 'الف' کی طرح سیدھا سا ہے جو گم راہ یا گم کردہ راہ لوگ سمجھنا نہیں چاہتے۔ ایسے موقع پر ہی تو کہا جاتا ہے:
اللہ اگر توفیق نہ دے، انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان ِ محبت عام سہی، عرفان ِ محبت عام نہیں
جگر ؔ مرادآبادی کی یہ منفرد غزل پوری کی پوری ہی اس قابل ہے کہ اس پر غوروفکر کیا جائے ۔ آن لائن بھی دستیاب ہے:
https://rekhta.org/ghazals/allaah-agar-taufiiq-na-de-insaan-ke-
bas-kaa-kaam-nahiin-jigar-moradabadi-ghazals?lang=ur
اور عربی کلمہ استعمال کرنا چاہیں تو کہتے ہیں: وما توفیقی اِلّا باللہ۔ 'الف' کی بات کی جائے تو تفکر و تدبر کا سلسلہ طویل ہوسکتا ہے۔ کسی بھی زبان کے حروف تہجی دیکھیں، ابتداء 'الف' یا اس کی کسی متغیر (تبدیل شدہ) شکل سے ہوتی ہے۔ گنتی اور خونی رشتوں کا معاملہ بھی کم و بیش یکساں ہے۔ گنتی کی بات ہوتو یہ نکتہ ہرگز فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ عربی زبان میں ایک ہزار کے عدد کے لیے 'اَلف' رائج ہے (الف لام اور فے: جزم کے ساتھ ALF)۔ مشہور زمانہ داستان کا نام ہے: 'الف لیلہ ولیلہ' یعنی ایک ہزار اور ایک -1001-راتوں کے قصص/کہانیاں جن سے مل کر ایک طویل داستان بنی۔ اس داستان کا یہ انوکھا امتیاز بھی یاد رہنا چاہیے کہ اس کی ترتیب وتشکیل اور تحریر میں متعدد اقوام کے اَن گنت، نامعلوم افراد کا حصہ ہے۔
ایک طویل مدت سے انگریزی ادب کے منفی اثرات کے طفیل اور جدید سائنسی ترقی کا مغرب میں دوردورہ دیکھ کر غیرضروری طور پر مرعوب ہونے کی وجہ سے ہمارے اہل قلم نے یہ بات شَدّومَدّ سے کہنا شروع کی تھی کہ ہمیں ایسی بیکار اور لایعنی قصہ کہانیوں کی بجائے اپنے بچوں کو فُلاں فُلاں مضامین کی اعلیٰ تعلیم دینی چاہیے اور اِن چیزوں کو لاحاصل قراردے کر ترک کرنا چاہیے.....اب جب کہ J. K. Rowlingنے Harry Potterجیسا پُرتخیل سلسلہ قصص شروع کرکے دنیا بھر میں دھوم مچادی ہے اور اس سے قبل اور بعد میں تاحال سائنس فکشن کے نام پر فلموں، خاص طور پر Animated یا کارٹون فلموں کا ایک سلسلہ چل نکلا جو شاید مزید کچھ عشروں تک جاری رہے۔
یہ الگ بحث ہے کہ ہم ٹی وی ڈرامے اور فلم کے ذریعے پوری 'الف لیلہ ولیلہ' تو کُجا 'بچوں کی الف لیلہ' جیسے تفریحی ڈرامے کو بھی دنیا بھر میں قابل دید اور لائق داد بنانے کے قابل نہیں ہوسکے....جب کہ اگر سنجیدگی سے کوشش کی جائے تو 'الف لیلہ ولیلہ' سمیت مختلف داستانوں، قصوں اور ہر طرح کی مشہور وغیرمشہور کہانیوں کی عکس بندی اس عمدگی سے کرسکتے ہیں کہ دنیا بھر سے ناصرف سرمایہ حاصل ہوسکتا ہے، بلکہ ملک وقوم کی شہرت و نیک نامی میں بھی اضافہ کرسکتے ہیں۔ راقم کا ایک دیرینہ خیال یا آرزو ہے کہ ٹیلی وژن کارٹون کے ذریعے بچوں کی اصلا ح کی جائے اور اس ضمن میں آغاز کیا جائے اپنے ہردل عزیز پالتو بِلّے 'بِلّو' کے سچے واقعات پر مبنی سلسلہ تحریر کرکے کارٹون سازی کا ڈول ڈالا جائے۔ خدائے ذوالجلال کی اس حسین اور پیاری مخلوق کے متعلق جاننے کے لیے ملاحظہ فرمائیے:
https://www.express.pk/story/896845/
https://www.facebook.com/notes/10155221731093183/
تو ہے کوئی ٹیلی وژن کے لیے Animationکرنے والا صاحب ذوق اور صاحب حیثیت جو میری صدا پر لبیک کہے اور ہم یہ مقصدی مہم شروع کرسکیں؟
الف سے شروع ہونے والے اسمائے حسنیٰ میں سب سے نمایاں 'اَلاَحَد'[Al-Ahad]ہے یعنی یکتا، واحد، یکہ و تنہا، منفرد۔ پھر الف ہی سے اسم باری تعالیٰ ہے، 'الاول' اور الف ہی سے 'الآخر' ہے...وہی 'ازل ' ہے، وہی 'ابد' ہے۔ پھر حرف 'ب' کی بات کریں تو رب ِ ذوالجلال کے اسمائے حسنیٰ میں 'الباقی'،'الباری'، 'الباسط'، 'الباعث'، 'البُدّوح' اور 'البدیع' شامل ہیں، جن کا وِرد اور وظیفہ مفید ہے۔ انسانی ناموں میں یوں تو فہرست بہت طویل ہوسکتی ہے، لیکن سر ِ دست یہ خیال ذہن میں آیا ہے کہ غالباً ناصرف برصغیر پاک وہند میں، بلکہ شاید پورے ایشیاء میں سب سے مقبول مردانہ نام ہے: بابر۔ اس ترکی الاصل نام کا ترکی اور اُزبِک زبان میں تلفظ ہے: با۔بُر[Ba-bur]، مگر ہمارے یہاں رائج ہے: با۔بَر[Ba-bar]۔ یہ وہی لفظ ہے جو فارسی میں 'بَبُر' اور پھر اردو میں 'بَبَر' ہوگیا۔ ہاں البتہ ہم اردو میں لفظ 'ببر' تنہا استعمال کرنے کی بجائے 'ببر شیر' کی ترکیب استعمال کرتے ہیں جسے انگریزی میں Lionکہتے ہیں اور وہی اصل میں جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے۔
سادہ شیر بھی اپنی ہیبت میں اپنی مثال آپ ہے، مگر ببر شیر کی شان نرالی ہے۔ (یہ الگ بات ہے کہ شیر کوئی سا بھی ہو، جنگل میں یا چڑیا گھر میں اُس کی کتنی ہی دھاک ہو...........شیرنی کے آگے بالکل 'بھیگی بلی' بن جاتا ہے۔ اس کے اپنے گھر میں شیرنی کا راج ہوتا ہے)۔ سادہ شیر کو انگریزی میں Tigerکہتے ہیں، مگر بہت سے پاکستانیوں بشمول آکسفرڈ سے تعلیم یافتہ، کرکٹر اور سیاست داں جناب عمران خان کا خیال ہے کہ چیتے کو Tigerکہتے ہیں۔ یہ بات وہ کئی مرتبہ اپنے عوامی خطاب میں کرچکے ہیں۔ (لفظ Oxfordکا تلفظ 'آکسفورڈ' غلط رائج ہے)۔ (بابر کی مادری زبان ترکی کی شاخ چغتائی تھی جس سے موجود ہ اُزبِک /اُزبیک زبان کا بنیادی رشتہ ہے۔
یہی سبب ہے کہ پاکستان میں اُزبکستان کے سابق سفیر اور اردو کے بے لوـ ث خادم، محترم تاش میرزا نے یہ نکتہ اُٹھایا تھا کہ آپ لوگ جنھیں مغل کہتے ہیں، وہ درحقیقت 'تُرک' ہیں اور اس عظیم شاہی سلسلے یا خاندان سے قبل اس خطے پر پورے دبدبے، شان و شوکت سے حکومت کرنے والے اکثر خاندان 'ترک ' ہی تھے۔ یہ بات تاریخی لحاظ سے بالکل درست ہے)۔ یہ نام ہمیں ایک عظیم فاتح اور بانی سلطنت مغلیہ، میرزا ظہیرالدین محمد کی یاد دلاتا ہے جو 'بابر' کے نام سے زیادہ معروف ہیں۔ (لفظ ابتداء میں تھا: امیر زادہ جو تبدیل ہوکر میرزادہ ، پھر میرزا ہوا اور اردو میں آتے آتے اِملاء بدلا تو 'مِرزا' لکھا جانے لگا، لیکن آج بھی کئی خاندانی 'میرزا' ایسے مل جائیں گے جو 'مرزا' لکھا ہوا دیکھ لیں تو برامانیں گے)۔ بادشاہ بابر کی ہر بات آج کے دور کے حکمراں، فوجی اور عام آدمی کے لیے قابل تقلید ہے۔ پوری تاریخ دُہرائے بغیر صرف چند باتیں دیکھئے:
ا)۔ بابر کے والد عمر شیخ میرزا کا اچانک انتقال ہوا تو انھیں اپنے ہی چچاؤں کی ریاست 'فرغانہ' پر یلغار کا سامنا کرنا پڑا۔ (فرغانہ آج کل وسطِ ایشیاء کے ملک اُزبکستان کا ایک شہر ہے)۔ بابر اُس وقت صرف گیارہ سال کے تھے، مگر انھوں نے بے جگری سے مقابلہ کیا اور وقفے وقفے سے کبھی وہ غالب آئے تو کبھی مغلوب ہوئے، یہاں تک کہ ایک مرتبہ انھیں کسی بزرگ خاتون نے ایک جگہ تنہا اور اداس بیٹھے دیکھا تو استفسار کیا اور پھر اُن کے جد امجد امیر تِیمور[Amir Timur/Tamerlane in English]کا ایک واقعہ سنا کر ہمت دلائی اور پھر بابر نے ایک چھوٹی ریاست میں اقتدار کے لیے جاری رَسّہ کَشی چھوڑکر، پہلے کابل (افغانستان) اور پھر ہندوستان کا رُخ کیا اور پورے برصغیر پر اپنی بادشاہت کا سکہ جمادیا۔
ب)۔ جب بابر کا مقابلہ جنگ کنواہہ/کھنواہہ[Khanwa (also spelt Khanua)] میں زبردست جنگجو راجپوت رانا سانگا سے ہوا تو انھوں نے ابتدائی مقابلے میں ناکامی ہوتے دیکھ کر اپنا احتساب کیا اور یہ جان لیا کہ تمام اوصاف سے قطع نظر ایک لَت ہے جس نے ناصرف اُن کے، بلکہ تمام اہل لشکر کے کردار کو مذموم (قابل مذمت) بنادیا ہے اور وہ ہے شراب نوشی۔ پس انھوں نے رات کو اپنے رب سے گڑگڑاکر دعا کرنے کے ساتھ ساتھ، شراب کے استعمال میں آنے والے تمام برتن توڑڈالے اور سچی توبہ ناصرف خود کی، بلکہ تمام لشکر کو اسی کی تلقین کی اور اُن سب نے لبیک کہا۔
پھر جو اگلے دن گھمسان کا رَن پڑا تو راجپوت شکست کھاگئے، ورنہ ہند میں (سن پندرہ سو چھبیس 1526میں ) نئی نئی قایم ہونے والی مغلیہ سلطنت چند روزہ مہمان ثابت ہوتی۔ یہ واقعہ سترہ مارچ سن پندرہ سو ستائیس (17 March 1527) کو پیش آیا۔ یہ مقام جنگ، ان دنوں آگرہ (ہندوستان) سے مغرب میں ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع، ریاست راجستھان کے ضلع بھَرَت پور کا گاؤں ہے۔ آج لوگ بابر کی علمی و شعری عظمت کا احوال جانے بغیر، یہ جانے بغیر کہ وہ ترکی زبان کے دوسرے بڑے سخنور (علی شیر نوائی کے بعد)...نیز فارسی کے اچھے شاعر ہوگزرے ہیں، اُن کا فارسی مصرع خوب نقل کرتے ہیں:
؎ بابُر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست (بابر عیش کرتا رہ کہ یہ دنیا پھر نہیں ملے گی)۔
ج)۔ بابر اپنی نجی زندگی میں تمام پریشانیوں اور مسلسل جدوجہد کے باوجود اس قدر دین دار تھے کہ ہر سال، قرآن مجید کے دو نسخے اپنی عمدہ خطاطی میں رقم کرکے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ارسال کیا کرتے تھے۔
د)۔ بہت دُبلے پتلے ہونے کے باوجود، بابر اس قدر جسمانی طاقت کے حامل تھے کہ آگرہ کے قلعے کی دیوار پر دو آدمیوں کو اپنی بغل میں دبا کر دوڑا کرتے تھے۔
ہ)۔ وہ مختلف فنون لطیفہ کے دلدادہ اور فطرت کے عاشق تھے۔ انھوں نے مختلف پھل، پھول اور پکوان اپنے وطن سے لاکر برصغیر پاک وہند میں متعارف کرائے تھے، جن میں خربوزہ، گل داؤدی اور پلاؤ سرفہرست ہیں۔ انھیں یہاں کا ماحول، لوگ اور طرزتعمیر بالکل نہ بھاتا تھا۔ انھوں نے اپنے چارسالہ دور بادشاہت میں مختلف مقامات پر شاندار عمارات تعمیر کرائیں۔ اُن کی بادشاہت میں ایک حاکم [Governor]نے ایودھیا /اجودھیا میں ایک عالی شان مسجد تعمیر کرائی جو بابری مسجد کے نام سے موسوم ہوئی۔ متعصب اور انتہاپسند ہندوؤں نے ایک فسانہ گھڑ کے اس مقام کو رام کی جنم بھومی (جائے پیدائش) قراردیا اور کہا کہ یہ مسجد ایک مندِرکو ڈھاکر بنائی گئی تھی (حالانکہ ایسا کوئی واقعہ مسلمانوں کے کسی بھی عہد اقتدار میں کہیں بھی پیش نہیں آیا).... بس اسی بات پر تحریک چلی اور بے حس، بے ضمیر اور دینی غیرت و حمیت سے عاری امت مسلمہ، مسجد کو مسمار ہوتے دیکھتی رہ گئی۔
آگے بڑھنے سے قبل ایک اور ضمنی نکتہ پیش خدمت ہے۔ راقم نے جب شعبہ تشہیر [Advertising field] میں قدم رکھا تو ایک لفظ باربار سن کر بہت حیران ہوا، 'چیتا'۔ پتاچلا کہ بہت تیز، کام میں ماہر اور چُست شخص کو اس شعبے میں چیتا کہا جاتا ہے۔ پھر تو بارہا ایک سے دوسری ایجنسی میں کام کرتے ہوئے اس لفظ کی بے توقیری ہوتے دیکھی۔ بات یہ ہے کہ چیتے کی انتہائی تیزرفتار مشہور اور ضرب المثل ہے، مگر اسی کے ہم رشتہ تیندوے کی جست ضرب المثل ہے۔ اب یہاں ہر چھوٹے موٹے کام میں تھوڑی بہت صلاحیت کے اظہار پر کسی کو بھی اسی لقب یا عرفیت سے پکاراجائے تو ہوسکتا ہے ....چیتے کو برا لگ جائے، جیسا کہ بقول شخصے شیر کو آج کل بہت بُرا لگتا ہے .... ....بری بات ہے ، شیر کی بھی کوئی عزت ہے۔
ویسے غیرسیاسی بات یہ ہے کہ ایک سیاسی شخصیت کے عرصہ اقتدار میں اُن کے متعلق اور خلاف، خدا جھوٹ نہ بلوائے، کروڑوں کی تعداد میں پیغامات موبائل فون کے ذریعے ملک بھر (اور شاید دنیا بھر) میں پھیلے، پھر انٹرنیٹ پر بھی عام ہوئے ۔ ان میں سب سے منفرد وہ تھا جس میں ایک کتا اپنے لیے اُن صاحب کا نام بطور لقب استعمال کرنے پر جنگل کے جانوروں سے بہت خفا ہوا تھا۔ حد ادب ملحوظ خاطر ہے کہ یہ سلسلہ مضامین سیاسی نہیں، ورنہ اس خاکسار نے بھی اُن کی نسبت ایک پیارا سا نام تجویز کررکھا ہے۔
چلئے خاک ڈالیں اس بے وقت کی راگنی....میرا مطلب ہے ، بے تکی خامہ فرسائی پر، آگے چلتے ہیں۔ حرف 'پ' سے خواہ کچھ شروع ہوتا ہو، ہمیں سب سے زیادہ یاد رہتا ہے ، ہمارا اپنا محترم وطن پاکستان، باقی انسانی ناموں میں تو ایک نام اتنا بدنام ہے کہ ہرچند علماء اور فقہاء نے مخصوص دینی پس منظر کے سبب، کسی مسلمان کو یہ نام اپنانے سے منع کیا ہے، مگر لوگ رکھ لیتے ہیں اور پھر ہوتا وہی ہے کہ نام کی تاثیر سے ہمہ جہت تباہی، انتشار اور زوال دیکھنے کو ملتا ہے...استثناء البتہ ہوتا ہے جیسا کہ ہمارے ایک بزرگ دوست کے معاملے میں۔ احتیاطاً پیشگی لکھ دیا ہے کہ کہیں خفا نہ ہوں۔ حرف 'ت' سے شروع ہونے والا نام ہے، تو اب[Tav'vaab]، تے پر زبر، واؤ پر تشدید کے ساتھ۔ جب اللہ تعالیٰ کے اسم صفت کے طور پر کہتے ہیں 'التواب' تو اس سے مراد ہوتی ہے ، بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا جب کہ بندے کے لیے لفظ تواب استعمال ہوتو مطلب ہوگا، بہت زیادہ توبہ کرنے والا۔ صحابہ کرامؓ میں شامل ایک ہستی حضرت تمیم داری [Tamim Daari]رضی اللہ عنہ' اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ اُن کی روایت کردہ یا اُن سے مروی ایک روایت حدیث کسی اور نے نہیں، بلکہ خود نبی کریم (ﷺ) نے روایت فرمائی۔ یہ منفرد حدیث، قُرب ِ قیامت کے آثار سے متعلق ہے۔
علاوہ ازیں انھوں نے مسجد نبوی (ﷺ) میں اپنے غلام سراج (رضی اللہ عنہ') کے ذریعے تاریخ کا پہلا چراغ روشن کرایا تھا جس پر خود رسول مقبول (ﷺ) نے ان کی بہت تعریف فرما کر کہا تھا کہ (مفہوم):''اگر میری کوئی بیٹی (کنواری) ہوتی تو مَیں اِن سے بیاہ دیتا۔'' اس بات پر اسی محفل میں موجود ایک صحابی نے اپنی دختر کا نکاح اُن سے کراکے حضوراکرم(ﷺ) کی خوشنودی حاصل کی تھی۔ ہر حرف سے شروع ہونے والے کسی ایک اہم نام پر گفتگو کا سلسلہ، آیندہ بھی جاری رہے گا۔
جی........میں بحمداللہ، دل کا مریض نہیں، اس لیے کچھ اور نہ سمجھ لیجے گا........کیوں کہ بے چارے کم فہم قاری یا سامع کسی بھی شعر یا مصرع کی فوری تفہیم یا تشریح یہی سمجھتے ہیں کہ شاید شاعر نے یہی کہا ہوگا جو مَیں سمجھا ہوں....اس سلسلے میں بہت سے لطائف نقل کیے جاسکتے ہیں، مگر آج جی نہیں چاہ رہا (آسان الفاظ میں کہیے نا Moodنہیں ہے....ہاہاہا)۔ (لفظ 'مصرعہ' درست نہیں)۔
بس ایک عجیب اضطراری کیفیت ہے کہ کیا لکھوں کیا نہ لکھوں اور کیاکیا لکھوں۔ یہاں ضمنی وضاحت کرتا چلوں کہ ہمارے یہاں بعض الفاظ اور کلمات غلط لکھنے کا رواج اس قدر عام ہے کہ اہل قلم، طالب علم، عالم، صحافی، غرضیکہ ہر شعبے سے منسلک افراد، بلاامتیاز، بغیر سوچے سمجھے نقل درنقل کرتے چلے جاتے ہیں۔ سلام کی مثال بہت پہلے اپنے ایک کالم میں دے چکا ہوں۔ یہاں یہ کہنا ہے کہ الحمد للہ کے ہجے پر غور فرمائیں....عموماً لوگ اسے 'الحمداللہ' لکھ کر کسی بات کا آغاز کرتے ہیں جو غلط ہے۔ اگر آپ اپنی بات کی ابتداء خدائے بزرگ وبرتر کی مطلق حمد سے کرنا چاہتے ہیں تو دو طریقے ہیں:
(ا)۔ الحمد للہ! (تعریف اللہ کے لیے ہے) آج بندہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوگیا۔ (ب) بِحَمدِاللہ (یعنی اللہ کی حمد کے ساتھ) آج بندہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوگیا۔ (بِحَمدِاللہ: بے کے نیچے زیر، حے کے اوپر زبر اور دال کے نیچے زیر)۔ اسی طرح دیگر مثالیں بھی ہیں، اغلاط ِعامہ کی، مگر فی الحال کچھ اور۔ اِن دنوں ایک ٹی وی ڈراما چل رہا ہے، 'الف اللہ اور انسان' ....ڈراما تو ٹھیک سے دیکھا نہیں، مگر اس کا عنوان معنی خیز ہے اور چونکانے والا بھی۔ رب سے بندے کا تعلق 'الف' کی طرح سیدھا سا ہے جو گم راہ یا گم کردہ راہ لوگ سمجھنا نہیں چاہتے۔ ایسے موقع پر ہی تو کہا جاتا ہے:
اللہ اگر توفیق نہ دے، انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان ِ محبت عام سہی، عرفان ِ محبت عام نہیں
جگر ؔ مرادآبادی کی یہ منفرد غزل پوری کی پوری ہی اس قابل ہے کہ اس پر غوروفکر کیا جائے ۔ آن لائن بھی دستیاب ہے:
https://rekhta.org/ghazals/allaah-agar-taufiiq-na-de-insaan-ke-
bas-kaa-kaam-nahiin-jigar-moradabadi-ghazals?lang=ur
اور عربی کلمہ استعمال کرنا چاہیں تو کہتے ہیں: وما توفیقی اِلّا باللہ۔ 'الف' کی بات کی جائے تو تفکر و تدبر کا سلسلہ طویل ہوسکتا ہے۔ کسی بھی زبان کے حروف تہجی دیکھیں، ابتداء 'الف' یا اس کی کسی متغیر (تبدیل شدہ) شکل سے ہوتی ہے۔ گنتی اور خونی رشتوں کا معاملہ بھی کم و بیش یکساں ہے۔ گنتی کی بات ہوتو یہ نکتہ ہرگز فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ عربی زبان میں ایک ہزار کے عدد کے لیے 'اَلف' رائج ہے (الف لام اور فے: جزم کے ساتھ ALF)۔ مشہور زمانہ داستان کا نام ہے: 'الف لیلہ ولیلہ' یعنی ایک ہزار اور ایک -1001-راتوں کے قصص/کہانیاں جن سے مل کر ایک طویل داستان بنی۔ اس داستان کا یہ انوکھا امتیاز بھی یاد رہنا چاہیے کہ اس کی ترتیب وتشکیل اور تحریر میں متعدد اقوام کے اَن گنت، نامعلوم افراد کا حصہ ہے۔
ایک طویل مدت سے انگریزی ادب کے منفی اثرات کے طفیل اور جدید سائنسی ترقی کا مغرب میں دوردورہ دیکھ کر غیرضروری طور پر مرعوب ہونے کی وجہ سے ہمارے اہل قلم نے یہ بات شَدّومَدّ سے کہنا شروع کی تھی کہ ہمیں ایسی بیکار اور لایعنی قصہ کہانیوں کی بجائے اپنے بچوں کو فُلاں فُلاں مضامین کی اعلیٰ تعلیم دینی چاہیے اور اِن چیزوں کو لاحاصل قراردے کر ترک کرنا چاہیے.....اب جب کہ J. K. Rowlingنے Harry Potterجیسا پُرتخیل سلسلہ قصص شروع کرکے دنیا بھر میں دھوم مچادی ہے اور اس سے قبل اور بعد میں تاحال سائنس فکشن کے نام پر فلموں، خاص طور پر Animated یا کارٹون فلموں کا ایک سلسلہ چل نکلا جو شاید مزید کچھ عشروں تک جاری رہے۔
یہ الگ بحث ہے کہ ہم ٹی وی ڈرامے اور فلم کے ذریعے پوری 'الف لیلہ ولیلہ' تو کُجا 'بچوں کی الف لیلہ' جیسے تفریحی ڈرامے کو بھی دنیا بھر میں قابل دید اور لائق داد بنانے کے قابل نہیں ہوسکے....جب کہ اگر سنجیدگی سے کوشش کی جائے تو 'الف لیلہ ولیلہ' سمیت مختلف داستانوں، قصوں اور ہر طرح کی مشہور وغیرمشہور کہانیوں کی عکس بندی اس عمدگی سے کرسکتے ہیں کہ دنیا بھر سے ناصرف سرمایہ حاصل ہوسکتا ہے، بلکہ ملک وقوم کی شہرت و نیک نامی میں بھی اضافہ کرسکتے ہیں۔ راقم کا ایک دیرینہ خیال یا آرزو ہے کہ ٹیلی وژن کارٹون کے ذریعے بچوں کی اصلا ح کی جائے اور اس ضمن میں آغاز کیا جائے اپنے ہردل عزیز پالتو بِلّے 'بِلّو' کے سچے واقعات پر مبنی سلسلہ تحریر کرکے کارٹون سازی کا ڈول ڈالا جائے۔ خدائے ذوالجلال کی اس حسین اور پیاری مخلوق کے متعلق جاننے کے لیے ملاحظہ فرمائیے:
https://www.express.pk/story/896845/
https://www.facebook.com/notes/10155221731093183/
تو ہے کوئی ٹیلی وژن کے لیے Animationکرنے والا صاحب ذوق اور صاحب حیثیت جو میری صدا پر لبیک کہے اور ہم یہ مقصدی مہم شروع کرسکیں؟
الف سے شروع ہونے والے اسمائے حسنیٰ میں سب سے نمایاں 'اَلاَحَد'[Al-Ahad]ہے یعنی یکتا، واحد، یکہ و تنہا، منفرد۔ پھر الف ہی سے اسم باری تعالیٰ ہے، 'الاول' اور الف ہی سے 'الآخر' ہے...وہی 'ازل ' ہے، وہی 'ابد' ہے۔ پھر حرف 'ب' کی بات کریں تو رب ِ ذوالجلال کے اسمائے حسنیٰ میں 'الباقی'،'الباری'، 'الباسط'، 'الباعث'، 'البُدّوح' اور 'البدیع' شامل ہیں، جن کا وِرد اور وظیفہ مفید ہے۔ انسانی ناموں میں یوں تو فہرست بہت طویل ہوسکتی ہے، لیکن سر ِ دست یہ خیال ذہن میں آیا ہے کہ غالباً ناصرف برصغیر پاک وہند میں، بلکہ شاید پورے ایشیاء میں سب سے مقبول مردانہ نام ہے: بابر۔ اس ترکی الاصل نام کا ترکی اور اُزبِک زبان میں تلفظ ہے: با۔بُر[Ba-bur]، مگر ہمارے یہاں رائج ہے: با۔بَر[Ba-bar]۔ یہ وہی لفظ ہے جو فارسی میں 'بَبُر' اور پھر اردو میں 'بَبَر' ہوگیا۔ ہاں البتہ ہم اردو میں لفظ 'ببر' تنہا استعمال کرنے کی بجائے 'ببر شیر' کی ترکیب استعمال کرتے ہیں جسے انگریزی میں Lionکہتے ہیں اور وہی اصل میں جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے۔
سادہ شیر بھی اپنی ہیبت میں اپنی مثال آپ ہے، مگر ببر شیر کی شان نرالی ہے۔ (یہ الگ بات ہے کہ شیر کوئی سا بھی ہو، جنگل میں یا چڑیا گھر میں اُس کی کتنی ہی دھاک ہو...........شیرنی کے آگے بالکل 'بھیگی بلی' بن جاتا ہے۔ اس کے اپنے گھر میں شیرنی کا راج ہوتا ہے)۔ سادہ شیر کو انگریزی میں Tigerکہتے ہیں، مگر بہت سے پاکستانیوں بشمول آکسفرڈ سے تعلیم یافتہ، کرکٹر اور سیاست داں جناب عمران خان کا خیال ہے کہ چیتے کو Tigerکہتے ہیں۔ یہ بات وہ کئی مرتبہ اپنے عوامی خطاب میں کرچکے ہیں۔ (لفظ Oxfordکا تلفظ 'آکسفورڈ' غلط رائج ہے)۔ (بابر کی مادری زبان ترکی کی شاخ چغتائی تھی جس سے موجود ہ اُزبِک /اُزبیک زبان کا بنیادی رشتہ ہے۔
یہی سبب ہے کہ پاکستان میں اُزبکستان کے سابق سفیر اور اردو کے بے لوـ ث خادم، محترم تاش میرزا نے یہ نکتہ اُٹھایا تھا کہ آپ لوگ جنھیں مغل کہتے ہیں، وہ درحقیقت 'تُرک' ہیں اور اس عظیم شاہی سلسلے یا خاندان سے قبل اس خطے پر پورے دبدبے، شان و شوکت سے حکومت کرنے والے اکثر خاندان 'ترک ' ہی تھے۔ یہ بات تاریخی لحاظ سے بالکل درست ہے)۔ یہ نام ہمیں ایک عظیم فاتح اور بانی سلطنت مغلیہ، میرزا ظہیرالدین محمد کی یاد دلاتا ہے جو 'بابر' کے نام سے زیادہ معروف ہیں۔ (لفظ ابتداء میں تھا: امیر زادہ جو تبدیل ہوکر میرزادہ ، پھر میرزا ہوا اور اردو میں آتے آتے اِملاء بدلا تو 'مِرزا' لکھا جانے لگا، لیکن آج بھی کئی خاندانی 'میرزا' ایسے مل جائیں گے جو 'مرزا' لکھا ہوا دیکھ لیں تو برامانیں گے)۔ بادشاہ بابر کی ہر بات آج کے دور کے حکمراں، فوجی اور عام آدمی کے لیے قابل تقلید ہے۔ پوری تاریخ دُہرائے بغیر صرف چند باتیں دیکھئے:
ا)۔ بابر کے والد عمر شیخ میرزا کا اچانک انتقال ہوا تو انھیں اپنے ہی چچاؤں کی ریاست 'فرغانہ' پر یلغار کا سامنا کرنا پڑا۔ (فرغانہ آج کل وسطِ ایشیاء کے ملک اُزبکستان کا ایک شہر ہے)۔ بابر اُس وقت صرف گیارہ سال کے تھے، مگر انھوں نے بے جگری سے مقابلہ کیا اور وقفے وقفے سے کبھی وہ غالب آئے تو کبھی مغلوب ہوئے، یہاں تک کہ ایک مرتبہ انھیں کسی بزرگ خاتون نے ایک جگہ تنہا اور اداس بیٹھے دیکھا تو استفسار کیا اور پھر اُن کے جد امجد امیر تِیمور[Amir Timur/Tamerlane in English]کا ایک واقعہ سنا کر ہمت دلائی اور پھر بابر نے ایک چھوٹی ریاست میں اقتدار کے لیے جاری رَسّہ کَشی چھوڑکر، پہلے کابل (افغانستان) اور پھر ہندوستان کا رُخ کیا اور پورے برصغیر پر اپنی بادشاہت کا سکہ جمادیا۔
ب)۔ جب بابر کا مقابلہ جنگ کنواہہ/کھنواہہ[Khanwa (also spelt Khanua)] میں زبردست جنگجو راجپوت رانا سانگا سے ہوا تو انھوں نے ابتدائی مقابلے میں ناکامی ہوتے دیکھ کر اپنا احتساب کیا اور یہ جان لیا کہ تمام اوصاف سے قطع نظر ایک لَت ہے جس نے ناصرف اُن کے، بلکہ تمام اہل لشکر کے کردار کو مذموم (قابل مذمت) بنادیا ہے اور وہ ہے شراب نوشی۔ پس انھوں نے رات کو اپنے رب سے گڑگڑاکر دعا کرنے کے ساتھ ساتھ، شراب کے استعمال میں آنے والے تمام برتن توڑڈالے اور سچی توبہ ناصرف خود کی، بلکہ تمام لشکر کو اسی کی تلقین کی اور اُن سب نے لبیک کہا۔
پھر جو اگلے دن گھمسان کا رَن پڑا تو راجپوت شکست کھاگئے، ورنہ ہند میں (سن پندرہ سو چھبیس 1526میں ) نئی نئی قایم ہونے والی مغلیہ سلطنت چند روزہ مہمان ثابت ہوتی۔ یہ واقعہ سترہ مارچ سن پندرہ سو ستائیس (17 March 1527) کو پیش آیا۔ یہ مقام جنگ، ان دنوں آگرہ (ہندوستان) سے مغرب میں ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع، ریاست راجستھان کے ضلع بھَرَت پور کا گاؤں ہے۔ آج لوگ بابر کی علمی و شعری عظمت کا احوال جانے بغیر، یہ جانے بغیر کہ وہ ترکی زبان کے دوسرے بڑے سخنور (علی شیر نوائی کے بعد)...نیز فارسی کے اچھے شاعر ہوگزرے ہیں، اُن کا فارسی مصرع خوب نقل کرتے ہیں:
؎ بابُر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست (بابر عیش کرتا رہ کہ یہ دنیا پھر نہیں ملے گی)۔
ج)۔ بابر اپنی نجی زندگی میں تمام پریشانیوں اور مسلسل جدوجہد کے باوجود اس قدر دین دار تھے کہ ہر سال، قرآن مجید کے دو نسخے اپنی عمدہ خطاطی میں رقم کرکے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ارسال کیا کرتے تھے۔
د)۔ بہت دُبلے پتلے ہونے کے باوجود، بابر اس قدر جسمانی طاقت کے حامل تھے کہ آگرہ کے قلعے کی دیوار پر دو آدمیوں کو اپنی بغل میں دبا کر دوڑا کرتے تھے۔
ہ)۔ وہ مختلف فنون لطیفہ کے دلدادہ اور فطرت کے عاشق تھے۔ انھوں نے مختلف پھل، پھول اور پکوان اپنے وطن سے لاکر برصغیر پاک وہند میں متعارف کرائے تھے، جن میں خربوزہ، گل داؤدی اور پلاؤ سرفہرست ہیں۔ انھیں یہاں کا ماحول، لوگ اور طرزتعمیر بالکل نہ بھاتا تھا۔ انھوں نے اپنے چارسالہ دور بادشاہت میں مختلف مقامات پر شاندار عمارات تعمیر کرائیں۔ اُن کی بادشاہت میں ایک حاکم [Governor]نے ایودھیا /اجودھیا میں ایک عالی شان مسجد تعمیر کرائی جو بابری مسجد کے نام سے موسوم ہوئی۔ متعصب اور انتہاپسند ہندوؤں نے ایک فسانہ گھڑ کے اس مقام کو رام کی جنم بھومی (جائے پیدائش) قراردیا اور کہا کہ یہ مسجد ایک مندِرکو ڈھاکر بنائی گئی تھی (حالانکہ ایسا کوئی واقعہ مسلمانوں کے کسی بھی عہد اقتدار میں کہیں بھی پیش نہیں آیا).... بس اسی بات پر تحریک چلی اور بے حس، بے ضمیر اور دینی غیرت و حمیت سے عاری امت مسلمہ، مسجد کو مسمار ہوتے دیکھتی رہ گئی۔
آگے بڑھنے سے قبل ایک اور ضمنی نکتہ پیش خدمت ہے۔ راقم نے جب شعبہ تشہیر [Advertising field] میں قدم رکھا تو ایک لفظ باربار سن کر بہت حیران ہوا، 'چیتا'۔ پتاچلا کہ بہت تیز، کام میں ماہر اور چُست شخص کو اس شعبے میں چیتا کہا جاتا ہے۔ پھر تو بارہا ایک سے دوسری ایجنسی میں کام کرتے ہوئے اس لفظ کی بے توقیری ہوتے دیکھی۔ بات یہ ہے کہ چیتے کی انتہائی تیزرفتار مشہور اور ضرب المثل ہے، مگر اسی کے ہم رشتہ تیندوے کی جست ضرب المثل ہے۔ اب یہاں ہر چھوٹے موٹے کام میں تھوڑی بہت صلاحیت کے اظہار پر کسی کو بھی اسی لقب یا عرفیت سے پکاراجائے تو ہوسکتا ہے ....چیتے کو برا لگ جائے، جیسا کہ بقول شخصے شیر کو آج کل بہت بُرا لگتا ہے .... ....بری بات ہے ، شیر کی بھی کوئی عزت ہے۔
ویسے غیرسیاسی بات یہ ہے کہ ایک سیاسی شخصیت کے عرصہ اقتدار میں اُن کے متعلق اور خلاف، خدا جھوٹ نہ بلوائے، کروڑوں کی تعداد میں پیغامات موبائل فون کے ذریعے ملک بھر (اور شاید دنیا بھر) میں پھیلے، پھر انٹرنیٹ پر بھی عام ہوئے ۔ ان میں سب سے منفرد وہ تھا جس میں ایک کتا اپنے لیے اُن صاحب کا نام بطور لقب استعمال کرنے پر جنگل کے جانوروں سے بہت خفا ہوا تھا۔ حد ادب ملحوظ خاطر ہے کہ یہ سلسلہ مضامین سیاسی نہیں، ورنہ اس خاکسار نے بھی اُن کی نسبت ایک پیارا سا نام تجویز کررکھا ہے۔
چلئے خاک ڈالیں اس بے وقت کی راگنی....میرا مطلب ہے ، بے تکی خامہ فرسائی پر، آگے چلتے ہیں۔ حرف 'پ' سے خواہ کچھ شروع ہوتا ہو، ہمیں سب سے زیادہ یاد رہتا ہے ، ہمارا اپنا محترم وطن پاکستان، باقی انسانی ناموں میں تو ایک نام اتنا بدنام ہے کہ ہرچند علماء اور فقہاء نے مخصوص دینی پس منظر کے سبب، کسی مسلمان کو یہ نام اپنانے سے منع کیا ہے، مگر لوگ رکھ لیتے ہیں اور پھر ہوتا وہی ہے کہ نام کی تاثیر سے ہمہ جہت تباہی، انتشار اور زوال دیکھنے کو ملتا ہے...استثناء البتہ ہوتا ہے جیسا کہ ہمارے ایک بزرگ دوست کے معاملے میں۔ احتیاطاً پیشگی لکھ دیا ہے کہ کہیں خفا نہ ہوں۔ حرف 'ت' سے شروع ہونے والا نام ہے، تو اب[Tav'vaab]، تے پر زبر، واؤ پر تشدید کے ساتھ۔ جب اللہ تعالیٰ کے اسم صفت کے طور پر کہتے ہیں 'التواب' تو اس سے مراد ہوتی ہے ، بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا جب کہ بندے کے لیے لفظ تواب استعمال ہوتو مطلب ہوگا، بہت زیادہ توبہ کرنے والا۔ صحابہ کرامؓ میں شامل ایک ہستی حضرت تمیم داری [Tamim Daari]رضی اللہ عنہ' اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ اُن کی روایت کردہ یا اُن سے مروی ایک روایت حدیث کسی اور نے نہیں، بلکہ خود نبی کریم (ﷺ) نے روایت فرمائی۔ یہ منفرد حدیث، قُرب ِ قیامت کے آثار سے متعلق ہے۔
علاوہ ازیں انھوں نے مسجد نبوی (ﷺ) میں اپنے غلام سراج (رضی اللہ عنہ') کے ذریعے تاریخ کا پہلا چراغ روشن کرایا تھا جس پر خود رسول مقبول (ﷺ) نے ان کی بہت تعریف فرما کر کہا تھا کہ (مفہوم):''اگر میری کوئی بیٹی (کنواری) ہوتی تو مَیں اِن سے بیاہ دیتا۔'' اس بات پر اسی محفل میں موجود ایک صحابی نے اپنی دختر کا نکاح اُن سے کراکے حضوراکرم(ﷺ) کی خوشنودی حاصل کی تھی۔ ہر حرف سے شروع ہونے والے کسی ایک اہم نام پر گفتگو کا سلسلہ، آیندہ بھی جاری رہے گا۔