کوئلے کی غیرقانونی ڈمپنگ

کراچی کے شہریوں کی صحت پر مضر اثرات، ثقافتی ورثے کو خطرہ

کُھلے میدانوں میں پَڑے کوئلے کے ذخائر انسانی زندگی اور ماحول سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ فوٹو: فائل

لاہور:
پچھلے دنوں ہاکس بے کی جانب جانے کا اتفاق ہوا جہاں ہماری منزل مبارک ولیج تھا۔ راستے سے گزرتے ہوئے یہ دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی کہ ٹنوں کی مقدار میں کوئلے کے ذخائر کھلے عام ڈمپ کیے ہوئے ہیں۔

مجھے کیماڑی کے رہائشی یاد آگئے جو کچھ عرصہ پہلے کوئلے کے ان ذخائر کے کھلے عام رکھنے پر احتجاج کررہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئلہ ہوا میں اُڑ کر صحت اور ماحول دونوں کو متاثر کر رہا ہے۔ یہ کوئلہ اُڑ کر ہوا کے ساتھ سانسوں میں چلا جاتا ہے جس سے گلے، پھیپھڑوں، جلد اور آنکھوں کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ ایک دو نہیں بل کہ ان مکینوں نے کئی بار احتجاج کیا، مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔

کیماڑی کی UC نمبر 34 کے چیئرمین اور ایم پی اے کے کوآرڈینیٹرمحمد آصف صاحب کا کہنا ہے کہ یہ کوئلہ کھلے عام جزیرہ بابا بھٹ، کیماڑی اور مچھر کالونی میں ڈمپ کیا جاتا ہے جو صحت کے مسائل پیدا کررہا ہے۔ ان علاقوں میں آنکھ، گلے، جلد اور پھیپھڑوں کی بیماریاں عام ہیں۔ جزیرہ بابا بھٹ پر موجود ماہی گیر صحت کے شدید مسائل سے دوچار ہیں۔ ہم نے کئی بار احتجاج کیا مگر ہر بار ہمارے احتجاج کو یہ کہہ کر ارباب اختیار رد کردیتے ہیں کہ ملک میں بجلی کی کمی ہے کوئلے کا استعمال تو ہوگا۔

سن1999ء سے قبل کوئلے کے جہاز پورٹ قاسم پر لنگر انداز ہوتے تھے۔کراچی کی بندرگاہ پر زیادہ ڈرافٹ کی برتھیں بننے کے سبب 1999ء کے آخر میں یہاں بھی جہاز لنگر انداز ہونا شروع ہوئے۔ تاہم ان کی تعداد کم تھی اور یہ ارد گرد کی آبادی کے لیے مسائل کا باعث بھی نہیں بن رہے تھے۔ سن 2008ء میں شدید بارشوں کے بعد تین برتھیں ٹوٹ گئی اور پھر ان تین برتھوں کے ساتھ مزید چار برتھیں ازسر نو زیادہ گہرائی کی تعمیر کی گئی اور اس طرح کوئلے کے جہاز کیماڑی کی برتھوں پر لنگرانداز ہونا شروع ہوئے۔



ان کوئلے کی امپورٹر زیادہ تر سیمنٹ فیکٹریاں ہیں۔ جہازوں سے کوئلہ ڈسچارج ہونے کے بعد اسے شیریں جناح کالونی کی طرف کے پی ٹی کے علاقے میں واقع '' گروئنی گارگو کمپلکس '' میں کھلے آسمان تلے ڈمپ کیا جاتا تھا۔ یہاں سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر بلاول ہاؤس ہے۔ کوئلے کی ان برتھوں سے نصف کلو میٹر کے فاصلے پر واقع تین اسپتال کاروان حیات (ذہنی مریضوں کا اسپتال)، ضیاء الدین اسپتال اور کراچی پورٹ ٹرسٹ اسپتال واقع ہیں، جہاں کے مریضوں کے لیے بھی کوئلے کی یہ آلودگی خطرناک ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ترسیل کے دوران ڈمپر کو فل لوڈ کیا جاتا ہے اور دوران ٹرانسپورٹ کوئلے کی کافی مقدار پورٹ کے اندر اور باہر گرتی ہے جو بعد میں پاؤڈر کی شکل میں ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہے۔

چوںکہ یہ برتھیں عالمی بینک کی فنڈنگ سے تعمیر ہوئی ہیں اس لیے کیماڑی کی ایک تنظیم ''گرین کیماڑی'' نے عالمی بینک کو بھی لکھا کہ آپ کی تعمیر کردہ برتھیں ہمارے لیے صحت کے مسائل پیدا کررہی ہیں۔ تاہم کوئی جواب نہیں آیا۔

مقامی ڈاکٹر جمیل عثمانی کے مطابق کوئلے کے سبب سانس کے مریض ان کے پاس زیادہ آتے ہیں خود ڈاکٹر جمیل عثمانی کا کہنا ہے کہ صبح ان کے ناک سے خارج ہونے والے مواد میں کوئلہ شامل ہوتا ہے۔

احتجاج سے حالات میں بہتری پیدا نہ ہوئی تو شیریںجناح کالونی کی ایک سوشل تنظیم ''اصلاح معاشرہ'' نے عدالت میں کوئلے کی کھلے عام ڈمپنگ کے خلاف کیس کیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کو ہدایات دیں کہ وہ معاملے کا جائزہ لیں اور رپورٹ پیش کریں۔ سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی سے وابستہ عمران نبی نے ہمیں تفصیلات سے آگاہ کیا۔

ای پی اے کی ٹیم نے بغور تمام معاملے کا جائزہ لیا۔ کے پی ٹی کے گروئنی گراؤنڈ میں تقریباً 9 لاکھ 50,000 ٹن کوئلہ موجود تھا۔ ہائی کورٹ نے ای پی اے سے تجاویز بھی مانگیں۔ ای پی اے نے کہا کہ اس گراؤنڈ میں 2 لاکھ ٹن سے زیادہ کوئلہ نہیں رکھا جاسکتا۔ موجودہ کوئلے کی اونچائی 20 سے 22 میٹر بلند تھی۔ اسی لیے یہ تیز ہوا کے ساتھ چاروں طرف اڑ کر ہر شے کو آلودہ کررہا تھا۔ کیماڑی، شیریں جناح کالونی اور کلفٹن نمبر ایک اور دو کے علاقے زیادہ متاثر تھے۔ اگر ذخیرہ کیا جانے والا کوئلہ 2 لاکھ ٹن سے کم ہوگا تو اس کی اونچائی 3 سے 4 میٹر تک ہوگی تو اس کا اردگرد کے علاقے پر اتنا اثر نہیں ہوگا۔

عمران نبی نے کہا کہ عرصہ دراز سے کے پی ٹی ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی کررہی ہے۔ بڑا ادارہ ہے، ان کے پاس اسٹیٹ آف آرٹ سہولیات موجود ہونا چاہییں۔ ای پی اے کی رپورٹ کی بنیاد پر ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ کے پی ٹی جدید ترین ٹرمینل جیٹی بنائیں اور کوئی امپورٹر 50 ہزار ٹن سے زیادہ کوئلہ نہیں رکھ سکتا اور وہ بھی صرف 20 دن تک۔ عدالت کے فیصلے کے بعد کچھ دن تو معاملہ ٹھیک چلتا رہا مگر پھر وہی رفتار بے ڈھنگی کے مترادف یہ کوئلہ محمدی کالونی، مبارک ولیج، وزیر مینشن کے قریب اور مچھر کالونی میں ڈمپ کیا جانے لگا۔




کوئلے کو کراچی پورٹ پر منگوانے والے امپورٹرز کی تعداد 22 ہے ۔ ای پی اے نے 2016 میں ان سب کو نوٹس دیا تھا کہ کوئلہ اٹھالیں ورنہ ہمیں مجبوراً عدالت جانا پڑے گا تو ان سب کا یہی کہنا تھا کہ ریلوے کا قصور ہے۔ وہ کئی کئی دن تک کوئلہ نہیں اٹھاتے، ان کی مال گاڑی آتی ہی نہیں۔

جب ریلوے سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ہمارے حالات خراب ہیں، لیکن ہم جلد ہی کوئی انتظام کرلیں گے۔ اب زیادہ تر کوئلہ ریلوے کی زمینوں پر موجود ہے۔ اگر آپ آئی سی آئی پل پر سے گزریں تو یہ آپ کو نظر آئے گا۔

حال ہی میں جب ای پی اے نے کے پی ٹی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ان دو سالوں میں صرف فزیبلیٹی رپورٹ تیار ہوئی ہے۔ اگر دو سالوں میں صرف فزیبیلیٹی رپورٹ بنی ہے تو ٹرمینل جیٹی کی تعمیر کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ آخری اقدام کے طور پر ای پی اے نے جب کوئلے کے امپورٹرز سے کہا کہ کوئلہ اٹھالیں ورنہ یہ کوئلہ ضبط کرلیا جائے گا تو امپورٹرز کا کہنا تھا کہ ان کا کوئلہ کہیں موجود نہیں ہے۔ اگر کہیں نظر آجائے تو اٹھالیں گے۔ جب ہم نے توجہ مبارک ولیج کے قریب موجود کوئلے کے ذخائر کی طرف دلائی تو ای پی اے کا کہنا تھا کہ یہ لاوارث کوئلہ ہے، اس کا کوئی وارث سامنے نہیں آرہا ہے۔ ای پی اے کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی باقاعدہ مانیٹرنگ چل رہی ہے اور جب تک ہم کوئلے کو ضبط نہیں کریں گے معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے۔ اس کام کے لیے ہم مقامی حکومت کی مدد لے سکتے ہیں۔

سندھ ماحولیاتی قوانین برائے 2014کے تحت اس طرح کھلے عام کوئلے کی ڈمپنگ ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی جرم ہے اور ان امپورٹرز پر سیکشن 11کے تحت 2 لاکھ سے 50 تک جرمانہ بھی عائد کیا جاسکتا ہے۔

علاقے میں کوئلے کے ذرات کی آلودگی کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کوئلہ امپورٹ کرنے والے کو ہدایات جاری کرے کہ وہ جہازوں سے براہ راست کوئلہ کو بیگ میں پیک کریں، جس طرح ماضی میں یوریا کھاد اور حال میں ڈی اے پی کھاد بیگ میں پیک کی جاتی تھی۔ علاوہ ازیں سرسوں، گندم، پولٹری فیڈ، سویا بین، سن فلاور اور کینولا وغیرہ کو بیگ میں پیک کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ بندرگاہ میں ٹالکم پاؤڈر کی ترسیل کے دوران پھسلن کے واقعات کے بعد کراچی پورٹ ٹرسٹ کی انتظامیہ ٹرک اور ڈمپر کے ذریعے بغیر پیکنگ کے لوڈنگ پر اپنے ایک لیٹر نمبر T/ATM/ (P) / Talc.Powder /17/111 مورخہ 09-06-2017 کے تحت پابندی عائد کرچکی ہے اور پاکستان اسٹیورڈ کانفرنس کو سختی سے ہدایات جاری کرچکی ہے کہ ٹالکم پاؤڈر کو جہاز سے ڈسچارجنگ کے دوران تھیلے میں پیک کیا جائے۔

26نومبر2014 کو جنرل مینجر کراچی پورٹ نے اپنے ایک لیٹر نمبر GM(O)/PS/T-9/214 کے ذریعے پاکستان شپ ایجنٹس ایسوسی ایشن اور پاکستان اسٹیورڈ کانفرنس کو سندھ ہائی کوٹ کی پیٹیشن نمبرD-5/5130/2014مورخہ 17نومبر2014کا حوالہ دیتے ہوئے ہدایت جاری کی تھیں کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے علاقے گروئن یارڈ میں کوئلے کے ذخائر کو سات لاکھ پچاس ہزار ٹن سے کم کرکے تین لاکھ ٹن کیا جائے۔ کچھ عرصے اس ہدایت پر عمل کیا گیا تاہم کوئلے کی ڈمپنگ لیاری سے ملحق کے سب سے گنجان علاقے آئی سی آئی ( مچھر کالونی) میں ہونے لگی۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ امپورٹر کا کوئی ذمے دار کوئلے کے ترسیل کو دیکھتا تک نہیں اور نہ موجود ہوتا ہے۔

ہزاروں ٹن اشیاء کھلی ( Bulk ) میں آتی ہیں اور ان کو جہاز کے ہیچ یعنی باٹم میں لوڈ کیا جاتا ہے اور ڈسچارجنگ کے دوران پیک کیا جاتا ہے۔ مثلاً گندم، سرسوں، سورج مکھی کے بیج وغیرہ۔ ان کو جہاز سے ڈسچارجنگ کے دور ان ہی بوریوں میں پیک کرلیا جاتا ہے۔ پورٹ آف لوڈنگ سے بوریوں میں پیک کرکے لانا مشکل ہے، اس لیے کہ اتارنے کے دوران بوریاں پھٹ جاتی ہیں۔ لیکن کوئلے کو کھلے عام بغیر پیکنگ کے لوڈ اور ڈمپ کیا جاتا ہے۔

ایک اور اہم بات کیماڑی کے قریب واقع کوئلے کی وجہ سے محفوظ سو سالہ قدیم ثقافتی ورثہ میولیس مینشن بھی متاثر ہورہا ہے۔1917 میں تعمیر ہونے والے اس میولیس مینشن کی خوب صورتی کو کوئلے کی آلودگی نے متاثر کیا ہے اور اس پر کالک لگ چکی تھی مگر جون میں ہونے والی بارشوں سے اب صورت حال کچھ بہتر ہے۔

میولیس مینشن سے چند قدم کے فاصلے پر ہی ایک اور محفوظ ثقافتی ورثہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کا کلاک ٹاور ہے۔ مشہور آرکیٹیکٹ اور سماجی کارکن یاسمین لاری کی کوششوں سے اس کلاک ٹاور کو بھی ثقافتی ورثے میں شامل کیا گیا۔ یہ بھی کوئلے کے ذرات سے شدید متاثر ہے، چوںکہ یہ کے پی ٹی کی ملکیت ہے۔ اس لیے وقتاً فوقتاً کے پی ٹی کے اسنارکل سے اس کو واش کیا جاتا ہے۔ تاہم میولیس مینشن پر ایسا نہیں ہوتا۔

میولیس مینشن پر کوئلے کے اثرات اس مضمون کے ساتھ شامل تصاویر میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ پیلے پتھروں کی یہ بلڈنگ کوئلے کی وجہ سے سرمئی رنگ کی ہوچکی ہے۔ میولس مینشن کا نام کراچی پورٹ ٹرسٹ کے پہلے چیئرمین چارلس میولس کے نام پر رکھا گیا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد یہ کچھ عرصے تک نیوی کا ہیڈکوارٹر بھی تھا۔

ضرورت ہے کہ مذکورہ علاقوں کے بسنے والوں اور کراچی کے ثقافتی ورثے کو کوئلے کی ڈمپنگ سے ہونے والے مضر اثرات سے بچانے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کیے جائیں۔
Load Next Story