ڈاکٹر ویتو سلیرنو
اٹلی میں اردو کے حوالے سے پروفیسر بائوسانی کا نام ایک سند کی حیثیت رکھتا ہے
برادرم طارق ضمیر (سابق قونصل جنرل، میلان ۔ اٹلی) کا ایک مختصر سا SMS ملا
''ڈاکٹر ویتو سلیرنو آج صبح میلان میں انتقال کرگئے''
یہ خبر اگرچہ ڈاکٹر ویتو کی صحت کے بارے میں ملنے والی حالیہ اطلاعات کے حوالے سے بہت زیادہ غیر متوقع نہیں تھی لیکن پھر بھی دل کو ایک دھچکا سا لگا اور دو برس قبل ڈاکٹر ویتو سے میلان میں ہونے والی تینوں ملاقاتیں نظروں میں گھوم سی گئیں اور ان کی میٹھی اور محبت بھری آواز کانوں میں گونجنے لگی، ان کی اردو میری اور انور مسعود کی انگریزی جیسی تھی جب کہ طارق ضمیر دونوںزبانوں پر اچھی اور برابر کی دسترس رکھتے تھے۔ سو مکالمے کا مزا دوبالا ہوگیا۔ پہلی نظر میں ڈاکٹر ویتو مجھے مرحوم پروفیسر محمد عثمان جیسے لگے، درمیانہ سے کچھ قد چھوٹا، سفید بال اور 80 برس سے زیادہ کی عمر کے باوجود چست و چالاک خوش گفتار متحرک اور ہمہ وقت تبسم، ذہانت ان کی آنکھوں اور گفتگو دونوں سے چھلکی پڑ رہی تھی۔
اٹلی میں اردو کے حوالے سے پروفیسر بائوسانی کا نام ایک سند کی حیثیت رکھتا ہے، آپ انھیں اٹلی کا رالف رسل بھی کہہ سکتے ہیں، ڈاکٹر ویتو انھی پروفیسر بائوسانی کے شاگرد خاص تھے۔ یوں انھیں رسل کے شاگرد ڈیوڈ میتھیوز سے بھی تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ اشفاق احمد مرحوم کی تحریروں سے پروفیسر بائوسانی کے کام اور شخصیت کے بارے میں جو معلومات ہم تک پہنچی تھیں انھوں نے ایک پل کا سا کام کیا اور ڈاکٹر ویتو اور ہم دس منٹ کے اندر اندر یوں گھل مل گئے جیسے برسوں کے ملاقاتی ہوں۔ میں نے اپنی نظموں کے انگریزی تراجم کا مجموعہ Shifting Sands انھیں پیش کیا تو بے حد خوش ہوئے۔ اسٹیج پر ان کی نشست مجھ سے کچھ فاصلے پر تھی لیکن انھوں نے میرے ساتھ بیٹھنے پر اصرار کیا اور مسلسل مجھ سے مترجم اور تراجم کے بارے میں استفسار کرتے رہے۔اگلے دن صبح صبح طارق ضمیر صاحب کا فون آیا کہ شام کو ڈاکٹر ویتو نے ہمیں اپنے گھر پر چائے پر مدعو کیا ہے اور ان کے پاس ہمارے لیے ایک خوشگوار حیرت Pleasant Surprise بھی ہے۔
ڈاکٹر ویتو سلیرنو کے نام کا تعارف تو آپ سے ہوگیا اب آگے بڑھنے سے پہلے میں ان کے کام اور مقام کے بارے میں کچھ بنیادی نوعیت کی معلومات آپ سے شیئر کرتا چلوں تاکہ آپ مرحوم کی شخصیت کے ان پہلوئوں سے بھی آگاہ ہو سکیں جو زبان،ملک اور فاصلے کی دوری کی وجہ سے کم از کم پاکستانی قارئین کی نظروں سے اوجھل ہیں جیسا کہ میں نے شروع میں آپ کو بتایا کہ وہ اٹلی کے مشہور مستشرق اور اردو زبان و ادب کے عالمی شہرت یافتہ نقاد اور محقق پروفیسر بائوسانی کے شاگرد خاص اور ان کی قائم کردہ روایت کے امین تھے اور اس سے آگے کی تفصیلات چونکہ میرے ذہن میں نامکمل اور غیر مرتب شکل میں تھیں اس لیے میں نے طارق ضمیر صاحب سے ان کے سوانحی خاکے کی فرمائش کی جو اپنی میلان میں تقرری کے دوران نہ صرف ان سے بہت قریب رہے بلکہ اردو اور پاکستان سے متعلق ان کو مطلوبہ معلومات اور کتابیں بھی مہیا کرتے رہے۔ آئیے پہلے ان کے بھجوائے ہوئے ڈاکٹر ویتو کے سوانحی خاکے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
''ڈاکٹر ویتو سلیرنو جنوبی اٹلی کے ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں اس کا تعلق ''اسلام'' سے بھی رہا ہے۔ وہ مشہور اطالوی مستشرق پروفیسر بائوسانی کے شاگرد تھے۔ اردو انھوں نے 1950ء کی دہائی میں سیکھی، ساٹھ کی دہائی کی ابتدا میں وہ اطالوی وزارت خارجہ سے وابستہ ہوگئے اور ایوب خاں کے زمانے میں کراچی کے اطالوی سفارت خانے میں کلچرل اتاشی کے طور پر کام کرتے رہے۔ پاکستان میں اپنے چار سالہ قیام کے دوران وہ بہت سی اہم شخصیات مثلاً بابائے اردو مولوی عبدالحق، بیگم نصرت بھٹو، فیض احمد فیض اور احمد علی سے بھی رابطے میں رہے۔ انھوں نے پاکستان کے طول و عرض کی خوب سیاحت کی اور پاکستانی معاشرے کو بہت نزدیک سے دیکھا اور ایک پاکستانی خاتون سے شادی بھی کی (بعد میں انھوں نے پاکستان، ود لو Pakistan with Love کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی) اسی دور میں وہ اردو ادب کی محبت میں مبتلا ہوئے۔ حکومت پاکستان نے انھیں اقبال فائونڈیشن یورپ کا سربراہ مقرر کیا ان کی تحقیق سے متعلق طبع زاد کتابوں میں مندرجہ ذیل تصنیفات شامل ہیں۔
(1 Muslims in Italy
(2 Ottoman Cavtography
(3 Islamic Calligraphy
(4 Postal History of the world
(5 Iqbal and Italy
(6 An anthology of Urdu Poetry
اردو کے حوالے سے ان کا سب سے بڑا کارنامہ مکمل کلام اقبال کا اطالوی زبان میں ترجمہ ہے جو انھوں نے 25 برس میں مکمل کیا وفات سے قبل وہ سعادت حسن منٹو کے افسانوں کو اطالوی زبان میں ڈھال رہے تھے، ان کی زیر تصنیف اور اشاعت کی منتظر کتابوں کے نام کچھ اس طرح سے ہیں۔
(1 Dictionary of Islam
(2 British and Fascism
(3 Selected Poetry of Amjad Islam Amjad
حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں 2010ء میں انھیں ستارہ قائداعظم سے نوازا، اقبال کے حوالے سے انھوں نے نہ صرف بے شمار کانفرنسوں میں شرکت کی بلکہ خود بھی کئی ایک کا اہتمام کیا جن میں سے آخری مئی 2012ء میں میلان میں منعقد ہوئی''
ان کے گھر پر ہونے والی چائے کی دعوت کے دوران انھوں نے ہمیں اپنی جمع کردہ کتابیں، خطاطی کے نمونے اور دیگر نوادرات بھی دکھائے اور بتایا کہ مولانا روم کے بارے میں دنیا بھر میں چھپنے والی تقریباً ہر کتاب ان کے پاس موجود ہے اور وہ خود بھی اس عظیم خزانے میں ایک کتاب کا اضافہ کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔
ہاں اس ''خوشگوار حیرت'' کا ذکر تو رہ ہی گیا، ہوا یوں کے انھوں نے نہ صرف میری ایک نظم کا راتوں رات اطالوی میں ترجمہ کیا بلکہ اسے ایک سرٹیفکیٹ کی طرح خود ٹائپ کرکے مجھے بطور تحفہ پیش بھی کیا۔ اٹلی سے واپسی کے چند دن بعد انھوں نے مجھے ای میل کے ذریعے مزید چودہ نظموں کے تراجم بھجوائے اور پھر یہ سلسلہ ایک پوری کتاب تک پھیل گیا جو ان کی زندگی اور نگرانی میں ہی مکمل ہوگئی تھی اور اس کے پروف بھی انھوں نے چیک کرکے بھجوا دیے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان اور میں اٹلی آکر اس کی تقریب رونمائی میں شامل ہوں مگر شائد قسمت کو یہ منظور نہ تھا۔ انشاء اللہ اب یہ کتاب ان کی یادگار کے طور پر عنقریب شایع ہوجائے گی۔ میں اس ذاتی حوالے سے بوجوہ گریز کرنا چاہتا تھا کہ چونکہ میرے ان سے تعارف اور ان کی شخصیت اور کارناموں سے آگاہی کا ذریعہ بھی یہ بنا اس لیے اس کا ذکر ناگزیر ہوگیا تھا۔
اٹلی میں مقیم اردو کی شاعرہ عزیزہ شازیہ نورین نے بتایا کہ وہاں کے اردو زبان و ادب سے متعلق حلقے ڈاکٹر ویتوسلیرنو کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کئی تقریبات کا اہتمام کررہے ہیں کہ مرحوم کا شمار ان منتخب لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے زندگی بھر اردو زبان و ادب کی بے لوث اور شاندار خدمت کی ہے۔ ڈاکٹر ویتو کی رحلت کے ساتھ اب اٹلی بلکہ پورے یورپ کی حد تک ان کے پائے کا کوئی دوسرا شخص دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔
''ڈاکٹر ویتو سلیرنو آج صبح میلان میں انتقال کرگئے''
یہ خبر اگرچہ ڈاکٹر ویتو کی صحت کے بارے میں ملنے والی حالیہ اطلاعات کے حوالے سے بہت زیادہ غیر متوقع نہیں تھی لیکن پھر بھی دل کو ایک دھچکا سا لگا اور دو برس قبل ڈاکٹر ویتو سے میلان میں ہونے والی تینوں ملاقاتیں نظروں میں گھوم سی گئیں اور ان کی میٹھی اور محبت بھری آواز کانوں میں گونجنے لگی، ان کی اردو میری اور انور مسعود کی انگریزی جیسی تھی جب کہ طارق ضمیر دونوںزبانوں پر اچھی اور برابر کی دسترس رکھتے تھے۔ سو مکالمے کا مزا دوبالا ہوگیا۔ پہلی نظر میں ڈاکٹر ویتو مجھے مرحوم پروفیسر محمد عثمان جیسے لگے، درمیانہ سے کچھ قد چھوٹا، سفید بال اور 80 برس سے زیادہ کی عمر کے باوجود چست و چالاک خوش گفتار متحرک اور ہمہ وقت تبسم، ذہانت ان کی آنکھوں اور گفتگو دونوں سے چھلکی پڑ رہی تھی۔
اٹلی میں اردو کے حوالے سے پروفیسر بائوسانی کا نام ایک سند کی حیثیت رکھتا ہے، آپ انھیں اٹلی کا رالف رسل بھی کہہ سکتے ہیں، ڈاکٹر ویتو انھی پروفیسر بائوسانی کے شاگرد خاص تھے۔ یوں انھیں رسل کے شاگرد ڈیوڈ میتھیوز سے بھی تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ اشفاق احمد مرحوم کی تحریروں سے پروفیسر بائوسانی کے کام اور شخصیت کے بارے میں جو معلومات ہم تک پہنچی تھیں انھوں نے ایک پل کا سا کام کیا اور ڈاکٹر ویتو اور ہم دس منٹ کے اندر اندر یوں گھل مل گئے جیسے برسوں کے ملاقاتی ہوں۔ میں نے اپنی نظموں کے انگریزی تراجم کا مجموعہ Shifting Sands انھیں پیش کیا تو بے حد خوش ہوئے۔ اسٹیج پر ان کی نشست مجھ سے کچھ فاصلے پر تھی لیکن انھوں نے میرے ساتھ بیٹھنے پر اصرار کیا اور مسلسل مجھ سے مترجم اور تراجم کے بارے میں استفسار کرتے رہے۔اگلے دن صبح صبح طارق ضمیر صاحب کا فون آیا کہ شام کو ڈاکٹر ویتو نے ہمیں اپنے گھر پر چائے پر مدعو کیا ہے اور ان کے پاس ہمارے لیے ایک خوشگوار حیرت Pleasant Surprise بھی ہے۔
ڈاکٹر ویتو سلیرنو کے نام کا تعارف تو آپ سے ہوگیا اب آگے بڑھنے سے پہلے میں ان کے کام اور مقام کے بارے میں کچھ بنیادی نوعیت کی معلومات آپ سے شیئر کرتا چلوں تاکہ آپ مرحوم کی شخصیت کے ان پہلوئوں سے بھی آگاہ ہو سکیں جو زبان،ملک اور فاصلے کی دوری کی وجہ سے کم از کم پاکستانی قارئین کی نظروں سے اوجھل ہیں جیسا کہ میں نے شروع میں آپ کو بتایا کہ وہ اٹلی کے مشہور مستشرق اور اردو زبان و ادب کے عالمی شہرت یافتہ نقاد اور محقق پروفیسر بائوسانی کے شاگرد خاص اور ان کی قائم کردہ روایت کے امین تھے اور اس سے آگے کی تفصیلات چونکہ میرے ذہن میں نامکمل اور غیر مرتب شکل میں تھیں اس لیے میں نے طارق ضمیر صاحب سے ان کے سوانحی خاکے کی فرمائش کی جو اپنی میلان میں تقرری کے دوران نہ صرف ان سے بہت قریب رہے بلکہ اردو اور پاکستان سے متعلق ان کو مطلوبہ معلومات اور کتابیں بھی مہیا کرتے رہے۔ آئیے پہلے ان کے بھجوائے ہوئے ڈاکٹر ویتو کے سوانحی خاکے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
''ڈاکٹر ویتو سلیرنو جنوبی اٹلی کے ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں اس کا تعلق ''اسلام'' سے بھی رہا ہے۔ وہ مشہور اطالوی مستشرق پروفیسر بائوسانی کے شاگرد تھے۔ اردو انھوں نے 1950ء کی دہائی میں سیکھی، ساٹھ کی دہائی کی ابتدا میں وہ اطالوی وزارت خارجہ سے وابستہ ہوگئے اور ایوب خاں کے زمانے میں کراچی کے اطالوی سفارت خانے میں کلچرل اتاشی کے طور پر کام کرتے رہے۔ پاکستان میں اپنے چار سالہ قیام کے دوران وہ بہت سی اہم شخصیات مثلاً بابائے اردو مولوی عبدالحق، بیگم نصرت بھٹو، فیض احمد فیض اور احمد علی سے بھی رابطے میں رہے۔ انھوں نے پاکستان کے طول و عرض کی خوب سیاحت کی اور پاکستانی معاشرے کو بہت نزدیک سے دیکھا اور ایک پاکستانی خاتون سے شادی بھی کی (بعد میں انھوں نے پاکستان، ود لو Pakistan with Love کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی) اسی دور میں وہ اردو ادب کی محبت میں مبتلا ہوئے۔ حکومت پاکستان نے انھیں اقبال فائونڈیشن یورپ کا سربراہ مقرر کیا ان کی تحقیق سے متعلق طبع زاد کتابوں میں مندرجہ ذیل تصنیفات شامل ہیں۔
(1 Muslims in Italy
(2 Ottoman Cavtography
(3 Islamic Calligraphy
(4 Postal History of the world
(5 Iqbal and Italy
(6 An anthology of Urdu Poetry
اردو کے حوالے سے ان کا سب سے بڑا کارنامہ مکمل کلام اقبال کا اطالوی زبان میں ترجمہ ہے جو انھوں نے 25 برس میں مکمل کیا وفات سے قبل وہ سعادت حسن منٹو کے افسانوں کو اطالوی زبان میں ڈھال رہے تھے، ان کی زیر تصنیف اور اشاعت کی منتظر کتابوں کے نام کچھ اس طرح سے ہیں۔
(1 Dictionary of Islam
(2 British and Fascism
(3 Selected Poetry of Amjad Islam Amjad
حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں 2010ء میں انھیں ستارہ قائداعظم سے نوازا، اقبال کے حوالے سے انھوں نے نہ صرف بے شمار کانفرنسوں میں شرکت کی بلکہ خود بھی کئی ایک کا اہتمام کیا جن میں سے آخری مئی 2012ء میں میلان میں منعقد ہوئی''
ان کے گھر پر ہونے والی چائے کی دعوت کے دوران انھوں نے ہمیں اپنی جمع کردہ کتابیں، خطاطی کے نمونے اور دیگر نوادرات بھی دکھائے اور بتایا کہ مولانا روم کے بارے میں دنیا بھر میں چھپنے والی تقریباً ہر کتاب ان کے پاس موجود ہے اور وہ خود بھی اس عظیم خزانے میں ایک کتاب کا اضافہ کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔
ہاں اس ''خوشگوار حیرت'' کا ذکر تو رہ ہی گیا، ہوا یوں کے انھوں نے نہ صرف میری ایک نظم کا راتوں رات اطالوی میں ترجمہ کیا بلکہ اسے ایک سرٹیفکیٹ کی طرح خود ٹائپ کرکے مجھے بطور تحفہ پیش بھی کیا۔ اٹلی سے واپسی کے چند دن بعد انھوں نے مجھے ای میل کے ذریعے مزید چودہ نظموں کے تراجم بھجوائے اور پھر یہ سلسلہ ایک پوری کتاب تک پھیل گیا جو ان کی زندگی اور نگرانی میں ہی مکمل ہوگئی تھی اور اس کے پروف بھی انھوں نے چیک کرکے بھجوا دیے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان اور میں اٹلی آکر اس کی تقریب رونمائی میں شامل ہوں مگر شائد قسمت کو یہ منظور نہ تھا۔ انشاء اللہ اب یہ کتاب ان کی یادگار کے طور پر عنقریب شایع ہوجائے گی۔ میں اس ذاتی حوالے سے بوجوہ گریز کرنا چاہتا تھا کہ چونکہ میرے ان سے تعارف اور ان کی شخصیت اور کارناموں سے آگاہی کا ذریعہ بھی یہ بنا اس لیے اس کا ذکر ناگزیر ہوگیا تھا۔
اٹلی میں مقیم اردو کی شاعرہ عزیزہ شازیہ نورین نے بتایا کہ وہاں کے اردو زبان و ادب سے متعلق حلقے ڈاکٹر ویتوسلیرنو کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کئی تقریبات کا اہتمام کررہے ہیں کہ مرحوم کا شمار ان منتخب لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے زندگی بھر اردو زبان و ادب کی بے لوث اور شاندار خدمت کی ہے۔ ڈاکٹر ویتو کی رحلت کے ساتھ اب اٹلی بلکہ پورے یورپ کی حد تک ان کے پائے کا کوئی دوسرا شخص دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔