فکری مغالطے اور سیاست
پاکستان میں عوامی سیاست صرف اس وقت تک ہوئی جب تک بنگالی عوام ہمارے ساتھ رہے
یہ سمجھنا کہ موجودہ انتشار محض وقتی انتخابات کی آمدکی وجہ سے ہے،درست نہیں ہے۔بلکہ معاشرے میںکئی دہائیوں سے بلاروک ٹوک پروان چڑھنے والے فکری، سیاسی اور سماجی انتشارکا مظہر ہے۔یہ سمجھنا بھی ایک فکری مغالطہ ہے کہ فرقہ وارانہ اور لسانی آویزش کا موجودہ رجحان صرف ایک مخصوص سطح تک محدود ہے۔درحقیقت یہ تقسیم انتہائی خاموشی کے ساتھ معاشرے کی نچلی ترین سطح تک منتقل ہوچکی ہے،جو کسی بھی وقت خانہ جنگی کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔جس کا اندازہ ان مختصر پیغامات) (sms اورسوشل میڈیا پر موجود اشتعال انگیز تحاریر سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت سب سے بڑی عفریت ملک میں تیزی کے ساتھ پھیلتی فرقہ واریت ہے،جو شدت پسندی کے بعد ہزاروںافراد کو لقمہ اجل بنا چکی ہے۔ دوسری طرف معاشی بحران اس مقام تک پہنچ گیا ہے کہ ملک کسی بھی وقت دیوالیہ ہوسکتا ہے۔گذشتہ اتوار اور پیر کی شب جس طرح پورا ملک تاریکی میں ڈوب گیا،جوپیشہ وارانہ نااہلی اور بدانتظامی اور حکومتی اداروں کی ناکامی کی ایک بھیانک مثال ہے۔اس کے علاوہ خواندگی کی سطح تشویشناک حد تک کم ہے۔لیکن جو تعلیم دی جا رہی ہے اس کا معیار اس قدر پست ہے کہ اس کے ذریعے عالمی سطح پر مسابقت کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ صحت اور سماجی ترقی کے شعبے اس سے بھی بدتر صورتحال کا شکار ہیں۔
پاکستان کے سیاسی اور سماجی ڈھانچے پر نظر رکھنے والے اہل دانش اور متوشش شہری اس بات پر متفق ہیں کہ ملک کو درپیش درج بالا مختلف نوعیت کے بحرانوںکا بنیادی سبب نظم حکمرانی کا بحران ہے۔ نظم حکمرانی میں خرابیِ بسیارکا سبب وہ مخصوص ذہنیت یعنی Mindset ہے،جو صرف فوجی آمروں ہی کا خاصہ نہیں ہے،بلکہ سیاسی جماعتیں بھی اس کا شکار ہیں۔جس کی وجہ سے ملک گزشتہ 65برس سے ایڈہاک ازم کا شکار ہے۔اس کے علاوہ ماضی کے اچھے اور برے فیصلے بھی حال اور مستقبل پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
پاکستان میں عوامی سیاست صرف اس وقت تک ہوئی جب تک بنگالی عوام ہمارے ساتھ رہے اور سقوط ڈھاکا کے ساتھ ہی سیاست کا وہ انداز بھی ختم ہوگیا۔ اس وقت جو سیاست ہے، اسے سیاست کہنا سیاست کی توہین ہے۔ یہ چند گھرانوں کی باندی ہے اور ان کے مخصوص مفاد کی نگہبان بنی ہوئی ہے۔جب کہ مذہبی جماعتیں بظاہر جمہوری عمل کا حصہ ہیں، مگرساتھ ہی ان شدت پسند قوتوں کے لیے نرم گوشہ بھی رکھتی ہیں،جو آئین اور جمہوری عمل پر یقین نہیں رکھتیں۔یہ دہری حکمت عملی بھی سیاسی عمل کے تسلسل کے ساتھ آگے بڑھنے میں رکاوٹ ہیں۔اس کے علاوہ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ 32 برس کی براہ راست فوجی آمریت اور باقی عرصہ میں اسٹبلشمنٹ کی منصوبہ سازی کے عمل میں بالواسطہ مداخلت نے بھی سیاسی جماعتوں سے اعتماد چھین لیا ہے اور وہ سیاسی عزم و بصیرت کے ساتھ فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہیں۔نتیجتاً ان میں عوامی مسائل کا ادراک کرنے، انھیں حل کرنے کی حکمت عملیاں مرتب کرنے کی اہلیت موجود نہیں ہے۔
سیاسی معاملات کا جائزہ لیتے وقت اس بات کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ1971 میں سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد باقی ماندہ پاکستان کو بکھرنے سے بچانے میں1973 کے آئین نے کلیدی کردار ادا کیا۔سیاسیات کے ایک ادنیٰ طالب علم کے طور پر یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ 1973 کا آئین مسلم دنیا میں وہ واحد آئین ہے، جس میں جدید جمہوری نظم حکمرانی کو مذہبی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کا عملی تصور کامیابی سے پیش کیا گیا۔ اس آئین کی دوسری خوبی یہ تھی کہ اس میں صوبائی خود مختاری کے دیرینہ مطالبہ کو تسلیم کرتے ہوئے 10برس بعد یعنی1983 میں مشترکہ فہرست (Concurrent List)کوختم کرکے صوبوں کو مکمل بااختیاریت دینے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔جس طرح علامہ شاہ احمد نورانی مرحوم، مفتی محمود مرحوم اور پروفیسر غفور احمدمرحوم کی سربراہی میں مذہبی جماعتوں نے آئین کو مذہبی تصورات سے ہم آہنگ کرنے میں کردار ادا کیا،اسی طرح میر غوث بخش بزنجو مرحوم نے صوبائی خود مختاری کے مسئلے کو حل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔اس لیے یہ کہناغلط نہ ہوگا کہ اگر اس آئین پر تسلسل کے ساتھ عمل کیا جاتا، تو ریاست کے مذہبی تشخص اور صوبائی خود مختاری جیسے مسائل بہت پہلے حل ہوچکے ہوتے۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ اس آئین کو بنانے والی پارلیمان میں موجود مختلف سیاسی ومذہبی جماعتیں اس کے ساتھ سنجیدہ اور مخلص نہیں تھیں۔بہت معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ چاہے لبرل جماعتیں ہوں یا مذہبی دونوں نے آئین سازی کے بعد سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔وہ معاملات جوآئین سازی کے وقت اتفاق رائے سے طے ہوگئے تھے اور جن میں مختلف آئینی ترامیم کے ذریعے مزید بہتری ممکن تھی، ان پر محض تین برس بعد عدم اعتماد کرتے ہوئے نظام مصطفیٰ کے نفاذکا نعرہ بلند کرنا متفقہ آئین کو سبوتاژکرنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش تھی۔قومی جمہوری اتحاد(PNA)میں شامل جماعتوں بالخصوص مذہبی جماعتوں نے جس انداز میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف عوام کے مذہبی جذبات برانگیختہ کیے ،اس نے جنرل ضیاء کی آمریت کی راہ ہموارکی۔لیکن بھٹو مرحوم نے بھی اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کو نقصان پہنچانے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔جوآئین کے نفاذکے چار برسوں کے اندرہونے والی سات ترامیم سے ظاہر ہوتا ہے۔
پاکستان میںجنرل ضیاء کی آمریت کے قیام اور مذہبیت(Religiosity)اور فرقہ واریت کے رجحان میں اضافے میں ان رویوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ جنرل ضیاء نے پاکستان میں مذہبیت اور فرقہ واریت کے فروغ میں جو کردار ادا کیا،اس کی بنیاد خود بھٹومرحوم نے رکھی تھی۔جنہوں نے ایک طرف 1975 میں ظاہر شاہ کا تختہ الٹ کراقتدار میں آنے والے جنرل دائود کے خلاف افغانستان کی مذہبی قوتوں کی سرپرستی کا فیصلہ کیا،جن کے پاکستان کی بعض مذہبی جماعتوں سے روابط تھے۔دوسری طرف اندرون ملک ایسے فیصلے کیے جو متفقہ آئین کی صریحاً خلاف ورزی تھے۔ساتھ ہی انھوں نے خلیجی ریاستوں سے امدادکے حصول اور ہنرمندافرادی قوت کو وہاں کھپانے کی خاطربھی بعض ایسے اقدامات کیے، جن کے نتیجے میںملک میں غیر جمہوری قوتوں کو پنپنے کا موقع ملا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ناقدانہ نظر ڈالنے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ملک میں قائم ہونے والی مختلف حکومتیں اگر1953 کے فسادات کے حوالے سے جسٹس منیر کمیشن کی سفارشات پر عمل کرتیں تو پاکستان میںفرقہ واریت پر بہت پہلے قابو پایا جاسکتا تھا۔دوسری بات جس کا اظہار اکثر ماہرین سیاسیات وعمرانیات کرتے ہیں کہ اگر جمہوری عمل تسلسل کے ساتھ جاری رہتا اور آئین پر سنجیدگی کے ساتھ عملدرآمد کا کلچر فروغ پاتا تو پاکستان میں مذہبی شدت پسندی اور فرقہ واریت کی حوصلہ شکنی ہوتی۔لیکن اس پورے منظر نامہ کی خرابی کا صرف جنرل ضیاء کو ذمے دار ٹھہرانا ناانصافی ہے۔جنرل ضیاء الحق نے وہی کچھ کیا جس کی بنیاد حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتوں نے رکھی تھی۔مثال کے طورپر جمعے کی ہفتہ وارچھٹی، قبہ خانوں ، میخانوں پر پابندی اور بعض ایسے اقدامات جنہوں نے مذہبیت کے رجحان کوفروغ دیا،خود بھٹو نے کیے تھے۔جب کہ اپوزیشن جماعتوں نے بھٹو کے خلاف سیاسی تحریک میں مذہب کو استعمال کرکے آئین کو متنازعہ بنانے میں کردار ادا کیا تھا ۔ جنرل ضیاء الحق نے اس صورتحال کو اپنے حق میںبھرپور استعمال کیا۔ ایک طرف انھوں نے لوگوں کے بپھرے ہوئے مذہبی جذبات کواستعمال کیا،دوسری طرف افغانستان میںامریکی جنگ کا حصہ بن کرخود کو امریکی منصوبہ سازوں کے لیے قابل قبول بنایا۔
موجودہ بحرانوں کا ماضی کے تجربات کی روشنی میں جائزہ لیا جائے،تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت جو صورتحال ہے، اس کا سبب وہی فکری مغالطے ہیں، جو پاکستان میں مختلف ادوار میں پروان چڑھتے رہے اورآج بھی سیاست میں ہیجان پیداکرنے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔یہی سبب ہے کہ آج بعض سیاسی و مذہبی جماعتیں گو کہ آئین کے اندر رہتے ہوئے جمہوری عمل کی بات ضرور کرتی ہیں، لیکن درپردہ ان گروہوں اور گروپوں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیںاوران سے ڈائیلاگ کی حامی ہیں، جو جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے۔اس طرز عمل کے نتیجے میں آئین اور جمہوری عمل کے ایک بار پھر متنازعہ بننے کے خطرات ہیں۔ اس لیے وہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیںکو، جو جمہوری عمل کے ذریعے سیاسی تبدیلی پر یقین رکھتی ہیں، متفقہ طور پر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا ان گروہوں سے مذاکرات کرنے کا کوئی منطقی جواز ہے، جو آئین کو تسلیم نہیں کرتے اور ووٹ کے بجائے طاقت کے بل پر اقتدار پر قابض ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔اس کے برعکس کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ صرف انھی گروپوں سے مذاکرات کیے جائیں گے، جو آئین کو تسلیم کرتے ہوئے جمہوری عمل کے ذریعے اپنے نظریات کو عوام کے سامنے پیش کرنے پر آمادہ ہوں۔
لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ملک کوشدت پسندی اورمتشدد فرقہ واریت سمیت مختلف بحرانوں سے چھٹکارا دلانے کی خاطر ماضی کے فکری مغالطوںسے نکلناہوگا۔آئین کی بالادستی قائم کرنے اور جمہوری عمل کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ سیاسی، نظریاتی اختلاف اپنی جگہ ،لیکن آئین کو متنازعہ بنانے سے گریز کیا جائے۔سیاسی اورمذہبی جماعتوںکو ان قوتوں سے ہر قسم کا رابطہ منقطع کرنا ہوگا، جو جمہوری عمل کے تسلسل کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں اور طاقت کے بل پر ملک کے سیاسی وسماجی Fabricکو تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت سب سے بڑی عفریت ملک میں تیزی کے ساتھ پھیلتی فرقہ واریت ہے،جو شدت پسندی کے بعد ہزاروںافراد کو لقمہ اجل بنا چکی ہے۔ دوسری طرف معاشی بحران اس مقام تک پہنچ گیا ہے کہ ملک کسی بھی وقت دیوالیہ ہوسکتا ہے۔گذشتہ اتوار اور پیر کی شب جس طرح پورا ملک تاریکی میں ڈوب گیا،جوپیشہ وارانہ نااہلی اور بدانتظامی اور حکومتی اداروں کی ناکامی کی ایک بھیانک مثال ہے۔اس کے علاوہ خواندگی کی سطح تشویشناک حد تک کم ہے۔لیکن جو تعلیم دی جا رہی ہے اس کا معیار اس قدر پست ہے کہ اس کے ذریعے عالمی سطح پر مسابقت کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ صحت اور سماجی ترقی کے شعبے اس سے بھی بدتر صورتحال کا شکار ہیں۔
پاکستان کے سیاسی اور سماجی ڈھانچے پر نظر رکھنے والے اہل دانش اور متوشش شہری اس بات پر متفق ہیں کہ ملک کو درپیش درج بالا مختلف نوعیت کے بحرانوںکا بنیادی سبب نظم حکمرانی کا بحران ہے۔ نظم حکمرانی میں خرابیِ بسیارکا سبب وہ مخصوص ذہنیت یعنی Mindset ہے،جو صرف فوجی آمروں ہی کا خاصہ نہیں ہے،بلکہ سیاسی جماعتیں بھی اس کا شکار ہیں۔جس کی وجہ سے ملک گزشتہ 65برس سے ایڈہاک ازم کا شکار ہے۔اس کے علاوہ ماضی کے اچھے اور برے فیصلے بھی حال اور مستقبل پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
پاکستان میں عوامی سیاست صرف اس وقت تک ہوئی جب تک بنگالی عوام ہمارے ساتھ رہے اور سقوط ڈھاکا کے ساتھ ہی سیاست کا وہ انداز بھی ختم ہوگیا۔ اس وقت جو سیاست ہے، اسے سیاست کہنا سیاست کی توہین ہے۔ یہ چند گھرانوں کی باندی ہے اور ان کے مخصوص مفاد کی نگہبان بنی ہوئی ہے۔جب کہ مذہبی جماعتیں بظاہر جمہوری عمل کا حصہ ہیں، مگرساتھ ہی ان شدت پسند قوتوں کے لیے نرم گوشہ بھی رکھتی ہیں،جو آئین اور جمہوری عمل پر یقین نہیں رکھتیں۔یہ دہری حکمت عملی بھی سیاسی عمل کے تسلسل کے ساتھ آگے بڑھنے میں رکاوٹ ہیں۔اس کے علاوہ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ 32 برس کی براہ راست فوجی آمریت اور باقی عرصہ میں اسٹبلشمنٹ کی منصوبہ سازی کے عمل میں بالواسطہ مداخلت نے بھی سیاسی جماعتوں سے اعتماد چھین لیا ہے اور وہ سیاسی عزم و بصیرت کے ساتھ فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہیں۔نتیجتاً ان میں عوامی مسائل کا ادراک کرنے، انھیں حل کرنے کی حکمت عملیاں مرتب کرنے کی اہلیت موجود نہیں ہے۔
سیاسی معاملات کا جائزہ لیتے وقت اس بات کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ1971 میں سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد باقی ماندہ پاکستان کو بکھرنے سے بچانے میں1973 کے آئین نے کلیدی کردار ادا کیا۔سیاسیات کے ایک ادنیٰ طالب علم کے طور پر یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ 1973 کا آئین مسلم دنیا میں وہ واحد آئین ہے، جس میں جدید جمہوری نظم حکمرانی کو مذہبی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کا عملی تصور کامیابی سے پیش کیا گیا۔ اس آئین کی دوسری خوبی یہ تھی کہ اس میں صوبائی خود مختاری کے دیرینہ مطالبہ کو تسلیم کرتے ہوئے 10برس بعد یعنی1983 میں مشترکہ فہرست (Concurrent List)کوختم کرکے صوبوں کو مکمل بااختیاریت دینے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔جس طرح علامہ شاہ احمد نورانی مرحوم، مفتی محمود مرحوم اور پروفیسر غفور احمدمرحوم کی سربراہی میں مذہبی جماعتوں نے آئین کو مذہبی تصورات سے ہم آہنگ کرنے میں کردار ادا کیا،اسی طرح میر غوث بخش بزنجو مرحوم نے صوبائی خود مختاری کے مسئلے کو حل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔اس لیے یہ کہناغلط نہ ہوگا کہ اگر اس آئین پر تسلسل کے ساتھ عمل کیا جاتا، تو ریاست کے مذہبی تشخص اور صوبائی خود مختاری جیسے مسائل بہت پہلے حل ہوچکے ہوتے۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ اس آئین کو بنانے والی پارلیمان میں موجود مختلف سیاسی ومذہبی جماعتیں اس کے ساتھ سنجیدہ اور مخلص نہیں تھیں۔بہت معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ چاہے لبرل جماعتیں ہوں یا مذہبی دونوں نے آئین سازی کے بعد سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔وہ معاملات جوآئین سازی کے وقت اتفاق رائے سے طے ہوگئے تھے اور جن میں مختلف آئینی ترامیم کے ذریعے مزید بہتری ممکن تھی، ان پر محض تین برس بعد عدم اعتماد کرتے ہوئے نظام مصطفیٰ کے نفاذکا نعرہ بلند کرنا متفقہ آئین کو سبوتاژکرنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش تھی۔قومی جمہوری اتحاد(PNA)میں شامل جماعتوں بالخصوص مذہبی جماعتوں نے جس انداز میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف عوام کے مذہبی جذبات برانگیختہ کیے ،اس نے جنرل ضیاء کی آمریت کی راہ ہموارکی۔لیکن بھٹو مرحوم نے بھی اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کو نقصان پہنچانے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔جوآئین کے نفاذکے چار برسوں کے اندرہونے والی سات ترامیم سے ظاہر ہوتا ہے۔
پاکستان میںجنرل ضیاء کی آمریت کے قیام اور مذہبیت(Religiosity)اور فرقہ واریت کے رجحان میں اضافے میں ان رویوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ جنرل ضیاء نے پاکستان میں مذہبیت اور فرقہ واریت کے فروغ میں جو کردار ادا کیا،اس کی بنیاد خود بھٹومرحوم نے رکھی تھی۔جنہوں نے ایک طرف 1975 میں ظاہر شاہ کا تختہ الٹ کراقتدار میں آنے والے جنرل دائود کے خلاف افغانستان کی مذہبی قوتوں کی سرپرستی کا فیصلہ کیا،جن کے پاکستان کی بعض مذہبی جماعتوں سے روابط تھے۔دوسری طرف اندرون ملک ایسے فیصلے کیے جو متفقہ آئین کی صریحاً خلاف ورزی تھے۔ساتھ ہی انھوں نے خلیجی ریاستوں سے امدادکے حصول اور ہنرمندافرادی قوت کو وہاں کھپانے کی خاطربھی بعض ایسے اقدامات کیے، جن کے نتیجے میںملک میں غیر جمہوری قوتوں کو پنپنے کا موقع ملا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ناقدانہ نظر ڈالنے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ملک میں قائم ہونے والی مختلف حکومتیں اگر1953 کے فسادات کے حوالے سے جسٹس منیر کمیشن کی سفارشات پر عمل کرتیں تو پاکستان میںفرقہ واریت پر بہت پہلے قابو پایا جاسکتا تھا۔دوسری بات جس کا اظہار اکثر ماہرین سیاسیات وعمرانیات کرتے ہیں کہ اگر جمہوری عمل تسلسل کے ساتھ جاری رہتا اور آئین پر سنجیدگی کے ساتھ عملدرآمد کا کلچر فروغ پاتا تو پاکستان میں مذہبی شدت پسندی اور فرقہ واریت کی حوصلہ شکنی ہوتی۔لیکن اس پورے منظر نامہ کی خرابی کا صرف جنرل ضیاء کو ذمے دار ٹھہرانا ناانصافی ہے۔جنرل ضیاء الحق نے وہی کچھ کیا جس کی بنیاد حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتوں نے رکھی تھی۔مثال کے طورپر جمعے کی ہفتہ وارچھٹی، قبہ خانوں ، میخانوں پر پابندی اور بعض ایسے اقدامات جنہوں نے مذہبیت کے رجحان کوفروغ دیا،خود بھٹو نے کیے تھے۔جب کہ اپوزیشن جماعتوں نے بھٹو کے خلاف سیاسی تحریک میں مذہب کو استعمال کرکے آئین کو متنازعہ بنانے میں کردار ادا کیا تھا ۔ جنرل ضیاء الحق نے اس صورتحال کو اپنے حق میںبھرپور استعمال کیا۔ ایک طرف انھوں نے لوگوں کے بپھرے ہوئے مذہبی جذبات کواستعمال کیا،دوسری طرف افغانستان میںامریکی جنگ کا حصہ بن کرخود کو امریکی منصوبہ سازوں کے لیے قابل قبول بنایا۔
موجودہ بحرانوں کا ماضی کے تجربات کی روشنی میں جائزہ لیا جائے،تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت جو صورتحال ہے، اس کا سبب وہی فکری مغالطے ہیں، جو پاکستان میں مختلف ادوار میں پروان چڑھتے رہے اورآج بھی سیاست میں ہیجان پیداکرنے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔یہی سبب ہے کہ آج بعض سیاسی و مذہبی جماعتیں گو کہ آئین کے اندر رہتے ہوئے جمہوری عمل کی بات ضرور کرتی ہیں، لیکن درپردہ ان گروہوں اور گروپوں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیںاوران سے ڈائیلاگ کی حامی ہیں، جو جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے۔اس طرز عمل کے نتیجے میں آئین اور جمہوری عمل کے ایک بار پھر متنازعہ بننے کے خطرات ہیں۔ اس لیے وہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیںکو، جو جمہوری عمل کے ذریعے سیاسی تبدیلی پر یقین رکھتی ہیں، متفقہ طور پر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا ان گروہوں سے مذاکرات کرنے کا کوئی منطقی جواز ہے، جو آئین کو تسلیم نہیں کرتے اور ووٹ کے بجائے طاقت کے بل پر اقتدار پر قابض ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔اس کے برعکس کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ صرف انھی گروپوں سے مذاکرات کیے جائیں گے، جو آئین کو تسلیم کرتے ہوئے جمہوری عمل کے ذریعے اپنے نظریات کو عوام کے سامنے پیش کرنے پر آمادہ ہوں۔
لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ملک کوشدت پسندی اورمتشدد فرقہ واریت سمیت مختلف بحرانوں سے چھٹکارا دلانے کی خاطر ماضی کے فکری مغالطوںسے نکلناہوگا۔آئین کی بالادستی قائم کرنے اور جمہوری عمل کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ سیاسی، نظریاتی اختلاف اپنی جگہ ،لیکن آئین کو متنازعہ بنانے سے گریز کیا جائے۔سیاسی اورمذہبی جماعتوںکو ان قوتوں سے ہر قسم کا رابطہ منقطع کرنا ہوگا، جو جمہوری عمل کے تسلسل کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں اور طاقت کے بل پر ملک کے سیاسی وسماجی Fabricکو تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔