محنت میں عظمت ہے
عوام کے یہ نام نہاد نمایندے لوٹ کھسوٹ کرتے ہیں، کمیشن، ٹھیکے اور کرپشن کے ذریعے مال بناتے ہیں
( 28 فروری متحدہ لیبر ڈویژن کے یومِ تاسیس کی مناسبت سے تحریر کیا گیا مضمون)
پاکستان میں فرسودہ جاگیردارانہ نظام اور موروثی سیاست کے باعث عام انتخابات میں وہی شخص حصہ لے سکتا ہے جو کہ سیاست میں خاندانی پس منظر رکھتا ہو، دولت مند ہو، جاگیردار وڈیرہ ہو اور یا کوئی بڑا سرمایہ دار ہو۔ اس دو فیصد مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد انتخابات میں کروڑوں روپے خرچ کر کے اسمبلیوں یا اقتدار کے ایوانوں میں آتے ہیں اور پھر عوام کی خدمت کے بجائے انتخابات میں لگائے گئے کروڑوں روپے سود سمیت وصول کرنے کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں۔
عوام کے یہ نام نہاد نمایندے لوٹ کھسوٹ کرتے ہیں، کمیشن، ٹھیکے اور کرپشن کے ذریعے مال بناتے ہیں یا سیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر قومی خزانے سے بھاری قرضے لیکر معاف کراتے ہیں، پانچ سال کی مدت میں سے بیشتر حصہ مال بنانے میں صرف ہو جاتا ہے اور پھر اس دوران یا تو اسمبلیاں معطل کر دی جاتی ہیں اور نئے انتخابات کا اعلان کر دیا جاتا ہے یا پھر ملک میں آمریت آ جاتی ہے۔ عام انتخابات کی صورت میں یہ جاگیردار اور وڈیرہ طبقہ چہرے بدل کر دوبارہ مسند اقتدار پر فائز ہو جاتا ہے اور اقتدار کی میوزیکل چیئرز کا کھیل اسی طرح جاری رہتا ہے۔
بھلا اس معاشرے میں غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا کوئی تعلیم یافتہ اور باصلاحیت فرد کس طرح عام انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے؟ حصہ لینا تو درکنار وہ اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر عام انتخابات میں قرعہ فال انھی جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے نام نکلتا رہا، دو فیصد مراعات یافتہ طبقہ باری باری عوام پر حکمرانی اور قومی دولت کی لوٹ مار کرتا رہا اور پاکستان کے 98 فیصد عوام نہ تو جمہوریت کا مزہ چکھ سکے اور نہ ان کے بنیادی مسائل حل ہو سکے۔
پاکستان میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتیں کام کر رہی ہیں اور ان میں بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں کی عمریں40 سال سے 60 سال کے درمیان ہیں یعنی یہ جماعتیں گزشتہ کئی دہائیوں سے میدان سیاست میں موجود ہیں۔ سیاسی جماعتیں پاکستان میں جمہوریت کے فروغ، قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالا دستی کے دعوے بھی کرتی ہیں اور پاکستان کے غریب عوام کی خدمت کے وعدے بھی کرتی ہیں۔ ان جماعتوں کے بلند و بانگ دعوؤں اور وعدوں میں آ کر پاکستان کے عوام ان کے نمایندوں پر اعتماد کرتے رہے ہیں اور عام انتخابات میں ووٹ دیکر اپنی نمایندگی کا حق دیتے رہے ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ان جماعتوں نے پاکستان کے غریب عوام کو بھوک، افلاس، غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور کھوکھلے نعروں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اگر پاکستان کے غریب عوام نے اس روشن حقیقت کو اب بھی نہ سمجھا تو غربت و افلاس ان کا مقدر بنی رہے گی اور قومی دولت لوٹ کر بیرون ملک جاگیریں اور جائیداد بنانے والے ہمیشہ ان کے سروں پر مسلط رہیں گے۔
27، برس قبل جامعہ کراچی کے طالب علموں نے قائد تحریک جناب الطاف حسین کی قیادت میں ایم کیو ایم کی بنیاد رکھی اور یہ جماعت سیاست برائے خدمت کے فکر و فلسفے کے ساتھ میدان سیاست آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر کے استحصال زدہ غریب و متوسط طبقے کے عوام کی نمایندہ جماعت بن گئی۔ متحدہ قومی موومنٹ نے سب سے پہلے سیاست برائے خدمت کے فکر و فلسفے کو عملی جامہ پہنایا، پاکستان کے غریب و متوسط طبقے کے عوام میں یہ شعور بیدار کیا کہ اگر انھیں ملک و قوم کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنا ہے، ملک کو کرپشن کی لعنت سے پاک کرنا ہے اور اپنے بنیادی مسائل کا حل تلاش کرنا ہے تو انھیں جاگیرداروں اور وڈیروں کی جانب دیکھنے کے بجائے اپنی صفوں سے تعلیم یافتہ اور ایماندار قیادت نکال کر ایوانوں میں بھیجنی ہو گی۔
الطاف حسین کا یہ پیغام اقتدار کے ایوانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے عوام بالخصوص محنت کش طبقہ کے لیے بھی ہے۔ الطاف حسین نے ایک ایسے معاشرے میں جہاں محنت کشوں کو سیاسی مفادات کی بھٹی کا ایندھن سمجھا جاتا تھا ان محنت کشوں کو ایک متحد پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور ان کی آواز کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کے لیے ایم کیوایم میں محنت کشوں کا شعبہ، لیبر ڈویژن قائم کیا اور اس شعبے کے قیام سے غریب و متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے محنت کش اور ان کی نمایندہ تنظیمیں پاکستان کی تیسری سب سے بڑی سیاسی جماعت سے ہم آہنگ ہوگئیں اور ان کی آواز کسی مخصوص شعبے تک محدود نہ رہی۔
حق پرستی کی اس جدوجہد کو کچلنے کے لیے ایم کیوایم کے کارکنان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا، جبر و ستم کے ادوار میں جب حق پرست کارکنان کو گرفتار کر کے ماورائے عدالت قتل کیا جا رہا تھا، انھیں پابند سلاسل کر کے سرکاری عقوبت خانوں میں انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور انھیں در بدری کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جا رہا تھا تو ان حالات میں ایم کیو ایم لیبر ڈویژن کے کارکنان نے بھی بڑھ چڑھ کر قربانیاں دیں حتیٰ کہ حق پرستی کے نظریہ کی بقاء کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے تک پیش کر دیے۔
یہ الطاف حسین کی مستقل مزاجی، فہم و فراست، دور اندیشی اور ایم کیو ایم کے بے لوث کارکنان کی لازوال قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ ایم کیو ایم آج بھی نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں پھیل چکی ہے اس کے ساتھ ساتھ آج پاکستان کی تمام مزدور یونینوں میں ایم کیو ایم کی لیبر ڈویژن کو منفرد مقام حاصل ہے۔ لیبر ڈویژن کے تمام کارکنان بالخصوص حق پرستی کی تحریک میں شامل ہونے والے نوجوان محنت کشوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ آج ایم کیو ایم جس مقام پر فائز ہے، یہ مقام راتوں رات حاصل نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے کٹھن اور کڑی آزمائشوں اور قربانیوں کی ایک طویل داستان ہے، ہزاروں ماؤں نے اپنے جگر کے گوشے اس تحریک پر قربان کیے، ہزاروں بزرگوں نے اپنے بڑھاپے کے سہاروں سے بچھڑنے کا کرب برداشت کیا، ہزاروں بہنوں نے اپنے بھائیوں اور اپنے سہاگ کی قربانی دی، ہزاروں بچے یتیم ہوئے، پوری قوم نے قائد تحریک جناب الطاف حسین کے بڑے بھائی ناصر حسین اور بھتیجے عارف حسین کی المناک شہادت کا کرب برداشت کیا، ہزاروں کارکنان کو گرفتار کر کے جیل کی کال کوٹھریوں میں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، بہیمانہ تشدد کر کے انھیں زندگی بھر کے لیے معذور کر دیا گیا حتیٰ کہ خواتین اور معصوم بچوں تک کو نہیں بخشا گیا تب کہیں جا کر ایم کیو ایم اس مقام پر پہنچی ہے۔
اب یہ تحریک کے نوجوان کارکنان اور محنت کش ساتھیوں کا فرض ہے کہ وہ حق پرستی کی اس تحریک کی حفاظت کریں، قائد تحریک جناب الطاف حسین کے نظریے کے محافظ بن کر ملک بھر کے مظلوم عوام کو ظلم و ستم اور جبر و استبداد کے نظام سے نجات دلائیں۔ محنت کش ساتھیوں کو چاہیے کہ وہ محنت کی عظمت کو سمجھیں اور قائد تحریک جناب الطاف حسین کے افکار پر عمل کرتے ہوئے اپنے اپنے اداروں کی ترقی کے لیے جانفشانی اور ایمانداری سے کام کریں اور محنت کے کسی بھی کام سے ہرگز جی نہ چُرائیں۔ حدیث مبارکہ ہے کہ محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے اور تمام محنت کشوں کو اس خوشخبری پر نہ صرف فکر کرنا چاہیے بلکہ مسلسل محنت و لگن سے کام کر کے خود کو اس خوشخبری کے قابل بنائے رکھنا چاہیے اور اس با ت پر کامل یقین رکھنا چاہیے کہ محنت میں عظمت ہے۔ ایم کیو ایم لیبر ڈویژن کے سالانہ کنونشن پر ایک ایک حق پرست محنت کش کو مبارک ہو۔
پاکستان میں فرسودہ جاگیردارانہ نظام اور موروثی سیاست کے باعث عام انتخابات میں وہی شخص حصہ لے سکتا ہے جو کہ سیاست میں خاندانی پس منظر رکھتا ہو، دولت مند ہو، جاگیردار وڈیرہ ہو اور یا کوئی بڑا سرمایہ دار ہو۔ اس دو فیصد مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد انتخابات میں کروڑوں روپے خرچ کر کے اسمبلیوں یا اقتدار کے ایوانوں میں آتے ہیں اور پھر عوام کی خدمت کے بجائے انتخابات میں لگائے گئے کروڑوں روپے سود سمیت وصول کرنے کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں۔
عوام کے یہ نام نہاد نمایندے لوٹ کھسوٹ کرتے ہیں، کمیشن، ٹھیکے اور کرپشن کے ذریعے مال بناتے ہیں یا سیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر قومی خزانے سے بھاری قرضے لیکر معاف کراتے ہیں، پانچ سال کی مدت میں سے بیشتر حصہ مال بنانے میں صرف ہو جاتا ہے اور پھر اس دوران یا تو اسمبلیاں معطل کر دی جاتی ہیں اور نئے انتخابات کا اعلان کر دیا جاتا ہے یا پھر ملک میں آمریت آ جاتی ہے۔ عام انتخابات کی صورت میں یہ جاگیردار اور وڈیرہ طبقہ چہرے بدل کر دوبارہ مسند اقتدار پر فائز ہو جاتا ہے اور اقتدار کی میوزیکل چیئرز کا کھیل اسی طرح جاری رہتا ہے۔
بھلا اس معاشرے میں غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا کوئی تعلیم یافتہ اور باصلاحیت فرد کس طرح عام انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے؟ حصہ لینا تو درکنار وہ اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر عام انتخابات میں قرعہ فال انھی جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے نام نکلتا رہا، دو فیصد مراعات یافتہ طبقہ باری باری عوام پر حکمرانی اور قومی دولت کی لوٹ مار کرتا رہا اور پاکستان کے 98 فیصد عوام نہ تو جمہوریت کا مزہ چکھ سکے اور نہ ان کے بنیادی مسائل حل ہو سکے۔
پاکستان میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتیں کام کر رہی ہیں اور ان میں بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں کی عمریں40 سال سے 60 سال کے درمیان ہیں یعنی یہ جماعتیں گزشتہ کئی دہائیوں سے میدان سیاست میں موجود ہیں۔ سیاسی جماعتیں پاکستان میں جمہوریت کے فروغ، قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالا دستی کے دعوے بھی کرتی ہیں اور پاکستان کے غریب عوام کی خدمت کے وعدے بھی کرتی ہیں۔ ان جماعتوں کے بلند و بانگ دعوؤں اور وعدوں میں آ کر پاکستان کے عوام ان کے نمایندوں پر اعتماد کرتے رہے ہیں اور عام انتخابات میں ووٹ دیکر اپنی نمایندگی کا حق دیتے رہے ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ان جماعتوں نے پاکستان کے غریب عوام کو بھوک، افلاس، غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور کھوکھلے نعروں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اگر پاکستان کے غریب عوام نے اس روشن حقیقت کو اب بھی نہ سمجھا تو غربت و افلاس ان کا مقدر بنی رہے گی اور قومی دولت لوٹ کر بیرون ملک جاگیریں اور جائیداد بنانے والے ہمیشہ ان کے سروں پر مسلط رہیں گے۔
27، برس قبل جامعہ کراچی کے طالب علموں نے قائد تحریک جناب الطاف حسین کی قیادت میں ایم کیو ایم کی بنیاد رکھی اور یہ جماعت سیاست برائے خدمت کے فکر و فلسفے کے ساتھ میدان سیاست آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر کے استحصال زدہ غریب و متوسط طبقے کے عوام کی نمایندہ جماعت بن گئی۔ متحدہ قومی موومنٹ نے سب سے پہلے سیاست برائے خدمت کے فکر و فلسفے کو عملی جامہ پہنایا، پاکستان کے غریب و متوسط طبقے کے عوام میں یہ شعور بیدار کیا کہ اگر انھیں ملک و قوم کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنا ہے، ملک کو کرپشن کی لعنت سے پاک کرنا ہے اور اپنے بنیادی مسائل کا حل تلاش کرنا ہے تو انھیں جاگیرداروں اور وڈیروں کی جانب دیکھنے کے بجائے اپنی صفوں سے تعلیم یافتہ اور ایماندار قیادت نکال کر ایوانوں میں بھیجنی ہو گی۔
الطاف حسین کا یہ پیغام اقتدار کے ایوانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے عوام بالخصوص محنت کش طبقہ کے لیے بھی ہے۔ الطاف حسین نے ایک ایسے معاشرے میں جہاں محنت کشوں کو سیاسی مفادات کی بھٹی کا ایندھن سمجھا جاتا تھا ان محنت کشوں کو ایک متحد پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور ان کی آواز کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کے لیے ایم کیوایم میں محنت کشوں کا شعبہ، لیبر ڈویژن قائم کیا اور اس شعبے کے قیام سے غریب و متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے محنت کش اور ان کی نمایندہ تنظیمیں پاکستان کی تیسری سب سے بڑی سیاسی جماعت سے ہم آہنگ ہوگئیں اور ان کی آواز کسی مخصوص شعبے تک محدود نہ رہی۔
حق پرستی کی اس جدوجہد کو کچلنے کے لیے ایم کیوایم کے کارکنان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا، جبر و ستم کے ادوار میں جب حق پرست کارکنان کو گرفتار کر کے ماورائے عدالت قتل کیا جا رہا تھا، انھیں پابند سلاسل کر کے سرکاری عقوبت خانوں میں انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور انھیں در بدری کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جا رہا تھا تو ان حالات میں ایم کیو ایم لیبر ڈویژن کے کارکنان نے بھی بڑھ چڑھ کر قربانیاں دیں حتیٰ کہ حق پرستی کے نظریہ کی بقاء کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے تک پیش کر دیے۔
یہ الطاف حسین کی مستقل مزاجی، فہم و فراست، دور اندیشی اور ایم کیو ایم کے بے لوث کارکنان کی لازوال قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ ایم کیو ایم آج بھی نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں پھیل چکی ہے اس کے ساتھ ساتھ آج پاکستان کی تمام مزدور یونینوں میں ایم کیو ایم کی لیبر ڈویژن کو منفرد مقام حاصل ہے۔ لیبر ڈویژن کے تمام کارکنان بالخصوص حق پرستی کی تحریک میں شامل ہونے والے نوجوان محنت کشوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ آج ایم کیو ایم جس مقام پر فائز ہے، یہ مقام راتوں رات حاصل نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے کٹھن اور کڑی آزمائشوں اور قربانیوں کی ایک طویل داستان ہے، ہزاروں ماؤں نے اپنے جگر کے گوشے اس تحریک پر قربان کیے، ہزاروں بزرگوں نے اپنے بڑھاپے کے سہاروں سے بچھڑنے کا کرب برداشت کیا، ہزاروں بہنوں نے اپنے بھائیوں اور اپنے سہاگ کی قربانی دی، ہزاروں بچے یتیم ہوئے، پوری قوم نے قائد تحریک جناب الطاف حسین کے بڑے بھائی ناصر حسین اور بھتیجے عارف حسین کی المناک شہادت کا کرب برداشت کیا، ہزاروں کارکنان کو گرفتار کر کے جیل کی کال کوٹھریوں میں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، بہیمانہ تشدد کر کے انھیں زندگی بھر کے لیے معذور کر دیا گیا حتیٰ کہ خواتین اور معصوم بچوں تک کو نہیں بخشا گیا تب کہیں جا کر ایم کیو ایم اس مقام پر پہنچی ہے۔
اب یہ تحریک کے نوجوان کارکنان اور محنت کش ساتھیوں کا فرض ہے کہ وہ حق پرستی کی اس تحریک کی حفاظت کریں، قائد تحریک جناب الطاف حسین کے نظریے کے محافظ بن کر ملک بھر کے مظلوم عوام کو ظلم و ستم اور جبر و استبداد کے نظام سے نجات دلائیں۔ محنت کش ساتھیوں کو چاہیے کہ وہ محنت کی عظمت کو سمجھیں اور قائد تحریک جناب الطاف حسین کے افکار پر عمل کرتے ہوئے اپنے اپنے اداروں کی ترقی کے لیے جانفشانی اور ایمانداری سے کام کریں اور محنت کے کسی بھی کام سے ہرگز جی نہ چُرائیں۔ حدیث مبارکہ ہے کہ محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے اور تمام محنت کشوں کو اس خوشخبری پر نہ صرف فکر کرنا چاہیے بلکہ مسلسل محنت و لگن سے کام کر کے خود کو اس خوشخبری کے قابل بنائے رکھنا چاہیے اور اس با ت پر کامل یقین رکھنا چاہیے کہ محنت میں عظمت ہے۔ ایم کیو ایم لیبر ڈویژن کے سالانہ کنونشن پر ایک ایک حق پرست محنت کش کو مبارک ہو۔