جمہوریت سے کمٹمنٹ کا عندیہ
سفینہ جمہوریت پسندوں کو یقین ہے کہ ساحل مراد پالے گا
کسی سیاسی مفکر کا قول ہے کہ سیاست واہموں سے بالاتر آرٹ ہے مگر حقائق اور مسائل سے سائنسی طریقوں سے نمٹنا اصل جمہوریت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ملکی جمہوری سفینہ حالات کے رحم و کرم پر ہے اور حوادث سیاست سے نبرد آزما ہوتے ہوئے اپنی طے شدہ منزل یعنی 2018 کے انتخابی ٹارگٹ کو پانے میں گرم سفر ہے، ہچکولے کھاتا ہوا سفینہ جمہوریت پسندوں کو یقین ہے کہ ساحل مراد پالے گا۔
امید پرستوں کا کہنا ہے کہ ملک مارشل لاء کے مائنڈ سیٹ سے بہت بلند ہوچکا، جب کہ عسکری قیادت جمہوریت کی مکمل حمایت کا اعادہ کر چکی ہے، تاہم جب کبھی سیاسی ، معاشی یا عالمی ایشوز پر کوئی بیان آتا ہے تو بدمزگی کا ماحول سیاسی ٹمپریچر بڑھا دیتا ہے، مثال کے طور پر وزیر داخلہ و منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آرکو معیشت پر بیانات اور تبصروں سے گریز کرنا چاہیے،آرمی چیف نے البتہ متوازن بات کی تھی، پاکستان کی معیشت مستحکم ہے، غیرذمہ دارانہ بیانات پاکستان کی عالمی ساکھ متاثرکرسکتے ہیں، 2013 کے مقابلے میں معیشت بہت بہتر ہے۔
دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ اپنی سیاست کے لیے ملک کی معیشت کے ساتھ کھیلا جائے تاہم اپوزیشن جماعتوں کا خیال ہے کہ سیاسی و معاشی موضوعات پر ایک عام شہری بھی اظہار خیال کرسکتا ہے، اسی تناظر میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کاگزشتہ روز پشاور کے جلسہ میں یہ کہنا کہ کٹھ پتلی جمہوریت جاتی ہے تو جائے جمہوریت جانے نہیں دیں گے ، ایک واشگاف عندیہ ہے، مبصرین کی رائے ہے کہ مزاحمتی ، بلند آہنگ سیاسی ، انتخابی مہم عمران کی ماہرانہ سیاسی چابکدستی کی غماز ہے وہ پریشر بلڈ اپ کیے ہوئے ہیں، بعض سیاسی پنڈتوں کے مطابق نواز شریف کا سٹبلشمنٹ مخالف بیانیہ اور جارحانہ سیاست ن لیگ کو سمیٹ کر رکھنے کی معروضیت پر مبنی حکمت عملی ہے اور ن لیگ اسی سوچ کے ساتھ عدالتی، ریاستی اور اپوزیشن محاذوں پر چومکھی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملکی سیاست میں داخلی تپش کے سامنے جمہوری انداز کے فیئر پلے پر کوئی فریق آمادہ نہیں اور خطرہ اسی بات کا ہے کہ ایک دوسرے کو روند ڈالنے کی روش پر نظرثانی نہ کی گئی تو خود سیاسی جماعتوں کو بعد میں پچھتانا نہ پڑ جائے، اگر ایسا ہوا تو اسے سیاسی ہارا کاری کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکے گا۔
بد قسمتی سے جمہوریت میں ییلو اور ریڈ کارڈ دکھانے کا میکنزم نہیں لہذا فہمیدہ حلقے سیاسی صورتحال پر قدرے افسردہ ہیں اور سیاسی حالات پر ان کی افسردگی فطری ہے، کیونکہ کون ہے جسے خطے کے بڑھتے خطرات سے آگاہی نہیں ہے، مادر وطن کو عالمی برادری میں ایک باوقار جمہوری ملک کے حوالہ سے اپنا امیج بحال کرنے میں بریک تھرو مل رہا ہے تو صورتحال کی اصلاح ناگزیر ہے، سیاست دانوں اور عسکری قیادت کے باہمی مشاورت اور ہم آہنگی سے سیاسی و اسٹریٹجیکل میدان میں ملک آگے بڑھ سکتا ہے اور دنیا ہماری دہشتگردی کے خلاف جنگ میں خدمات اور کردار کو آخر کار تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائے گی لیکن اگر ملک میں جمہوریت ہی سوالیہ نشان بنی تو پھر باقی کیا رہ جائے گا، چنانچہ سیاست دانوں کو اپنی سیاسی جدوجہد میں ریڈ لائن کو عبور کرنے سے پہلے دس بار سوچنا چاہیے۔
بے بنیاد الزامات، کردار کشی اور اشتعال انگیز ذاتی حملے بند ہونے چاہییں۔ حکمرانوں اور اپوزیشن جماعتوں سے عوام توقع رکھتے ہیں کہ بند گلی کی سیاست سے گریز کرتے ہوئے ملکی بقا، سالمیت، جمہوری عمل میں اخلاق اور شائستگی کو ملحوظ رکھیں گے ، جمہوری قدروں کو مستحکم کر کے ہی وہ پاکستان کے عوام کو بہتر مستقبل اور مستحکم جمہوریت و خوشحالی کا تحفہ دے سکتے ہیں، ادھر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ ٹیکنوکریٹ یا غیر جمہوری حکومت مسائل حل نہیں کرسکتی ، صرف جمہوریت سے ترقی ہوگی۔
دریں اثنا ملکی سیاسی میں ناخوشگوار بھونچال احتساب عدالت کے باہر پیش آیا، ہلڑ بازی کے باعث نواز مریم اور صفدر پر فرد جرم عائد نہ ہوسکی، ادھر سپریم کورٹ میں نواز شریف نے پاناما کیس فیصلہ کے عدالتی جائزے کی درخواست دائر کردی۔ایک واضح پیش رفت کے ساتھ پاک فوج کی جانب سے امریکی انٹیلی جنس شیئرنگ کی بنیاد پر کرم ایجنسی سے بازیاب کرائے جانے والے کینڈین شخص، اس کی امریکی اہلیہ اور دوران یرغمال پیدا ہونیوالے ان کے تین بچے اسلام آباد سے لندن پہنچ گئے ہیں جہاں سے وہ اپنے ملک جائیں گے۔
کینیڈین شہری جوشوابوئل اور اس کی امریکی اہلیہ کیتلان کولمین کو 2012 میں طالبان نے افغانستان سے اغوا کیا تھا۔ بازیاب ہونیوالے کینیڈین شہری کے والدین نے ویڈیو پیغام میں پاک فوج کا شکریہ ادا کیا ہے، افغان وزارت کے ترجمان نے بتایا کہ مغویوں کی بازیابی کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں۔
دوسری جانب صدر ٹرمپ، وزیر دفاع جیمز میٹس اور دیگر نے کینیڈین شہری اور اس کے خاندان کی بازیابی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پاک فوج کی صلاحیتوں کی تعریف کی ہے۔ ٹرمپ نے کینیڈین شہری اور اس کی فیملی کی بازیابی کو مثبت لمحہ قرار دیا تھا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی سیاست داخلی استحکام کی طرف آئے اور سیاست تشددسے پاک ، خیر سگالی اور رواداری پر مبنی ہو۔
امید پرستوں کا کہنا ہے کہ ملک مارشل لاء کے مائنڈ سیٹ سے بہت بلند ہوچکا، جب کہ عسکری قیادت جمہوریت کی مکمل حمایت کا اعادہ کر چکی ہے، تاہم جب کبھی سیاسی ، معاشی یا عالمی ایشوز پر کوئی بیان آتا ہے تو بدمزگی کا ماحول سیاسی ٹمپریچر بڑھا دیتا ہے، مثال کے طور پر وزیر داخلہ و منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آرکو معیشت پر بیانات اور تبصروں سے گریز کرنا چاہیے،آرمی چیف نے البتہ متوازن بات کی تھی، پاکستان کی معیشت مستحکم ہے، غیرذمہ دارانہ بیانات پاکستان کی عالمی ساکھ متاثرکرسکتے ہیں، 2013 کے مقابلے میں معیشت بہت بہتر ہے۔
دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ اپنی سیاست کے لیے ملک کی معیشت کے ساتھ کھیلا جائے تاہم اپوزیشن جماعتوں کا خیال ہے کہ سیاسی و معاشی موضوعات پر ایک عام شہری بھی اظہار خیال کرسکتا ہے، اسی تناظر میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کاگزشتہ روز پشاور کے جلسہ میں یہ کہنا کہ کٹھ پتلی جمہوریت جاتی ہے تو جائے جمہوریت جانے نہیں دیں گے ، ایک واشگاف عندیہ ہے، مبصرین کی رائے ہے کہ مزاحمتی ، بلند آہنگ سیاسی ، انتخابی مہم عمران کی ماہرانہ سیاسی چابکدستی کی غماز ہے وہ پریشر بلڈ اپ کیے ہوئے ہیں، بعض سیاسی پنڈتوں کے مطابق نواز شریف کا سٹبلشمنٹ مخالف بیانیہ اور جارحانہ سیاست ن لیگ کو سمیٹ کر رکھنے کی معروضیت پر مبنی حکمت عملی ہے اور ن لیگ اسی سوچ کے ساتھ عدالتی، ریاستی اور اپوزیشن محاذوں پر چومکھی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملکی سیاست میں داخلی تپش کے سامنے جمہوری انداز کے فیئر پلے پر کوئی فریق آمادہ نہیں اور خطرہ اسی بات کا ہے کہ ایک دوسرے کو روند ڈالنے کی روش پر نظرثانی نہ کی گئی تو خود سیاسی جماعتوں کو بعد میں پچھتانا نہ پڑ جائے، اگر ایسا ہوا تو اسے سیاسی ہارا کاری کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکے گا۔
بد قسمتی سے جمہوریت میں ییلو اور ریڈ کارڈ دکھانے کا میکنزم نہیں لہذا فہمیدہ حلقے سیاسی صورتحال پر قدرے افسردہ ہیں اور سیاسی حالات پر ان کی افسردگی فطری ہے، کیونکہ کون ہے جسے خطے کے بڑھتے خطرات سے آگاہی نہیں ہے، مادر وطن کو عالمی برادری میں ایک باوقار جمہوری ملک کے حوالہ سے اپنا امیج بحال کرنے میں بریک تھرو مل رہا ہے تو صورتحال کی اصلاح ناگزیر ہے، سیاست دانوں اور عسکری قیادت کے باہمی مشاورت اور ہم آہنگی سے سیاسی و اسٹریٹجیکل میدان میں ملک آگے بڑھ سکتا ہے اور دنیا ہماری دہشتگردی کے خلاف جنگ میں خدمات اور کردار کو آخر کار تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائے گی لیکن اگر ملک میں جمہوریت ہی سوالیہ نشان بنی تو پھر باقی کیا رہ جائے گا، چنانچہ سیاست دانوں کو اپنی سیاسی جدوجہد میں ریڈ لائن کو عبور کرنے سے پہلے دس بار سوچنا چاہیے۔
بے بنیاد الزامات، کردار کشی اور اشتعال انگیز ذاتی حملے بند ہونے چاہییں۔ حکمرانوں اور اپوزیشن جماعتوں سے عوام توقع رکھتے ہیں کہ بند گلی کی سیاست سے گریز کرتے ہوئے ملکی بقا، سالمیت، جمہوری عمل میں اخلاق اور شائستگی کو ملحوظ رکھیں گے ، جمہوری قدروں کو مستحکم کر کے ہی وہ پاکستان کے عوام کو بہتر مستقبل اور مستحکم جمہوریت و خوشحالی کا تحفہ دے سکتے ہیں، ادھر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ ٹیکنوکریٹ یا غیر جمہوری حکومت مسائل حل نہیں کرسکتی ، صرف جمہوریت سے ترقی ہوگی۔
دریں اثنا ملکی سیاسی میں ناخوشگوار بھونچال احتساب عدالت کے باہر پیش آیا، ہلڑ بازی کے باعث نواز مریم اور صفدر پر فرد جرم عائد نہ ہوسکی، ادھر سپریم کورٹ میں نواز شریف نے پاناما کیس فیصلہ کے عدالتی جائزے کی درخواست دائر کردی۔ایک واضح پیش رفت کے ساتھ پاک فوج کی جانب سے امریکی انٹیلی جنس شیئرنگ کی بنیاد پر کرم ایجنسی سے بازیاب کرائے جانے والے کینڈین شخص، اس کی امریکی اہلیہ اور دوران یرغمال پیدا ہونیوالے ان کے تین بچے اسلام آباد سے لندن پہنچ گئے ہیں جہاں سے وہ اپنے ملک جائیں گے۔
کینیڈین شہری جوشوابوئل اور اس کی امریکی اہلیہ کیتلان کولمین کو 2012 میں طالبان نے افغانستان سے اغوا کیا تھا۔ بازیاب ہونیوالے کینیڈین شہری کے والدین نے ویڈیو پیغام میں پاک فوج کا شکریہ ادا کیا ہے، افغان وزارت کے ترجمان نے بتایا کہ مغویوں کی بازیابی کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں۔
دوسری جانب صدر ٹرمپ، وزیر دفاع جیمز میٹس اور دیگر نے کینیڈین شہری اور اس کے خاندان کی بازیابی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پاک فوج کی صلاحیتوں کی تعریف کی ہے۔ ٹرمپ نے کینیڈین شہری اور اس کی فیملی کی بازیابی کو مثبت لمحہ قرار دیا تھا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی سیاست داخلی استحکام کی طرف آئے اور سیاست تشددسے پاک ، خیر سگالی اور رواداری پر مبنی ہو۔