صنف نازک حجاب سے بے حجابی تک

اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ بہت سی خواہشیں ضرورتوں سے جنم لیتی ہیں

کوئی بھی معاشرہ برائیوں کی زد میں اس وقت آتا ہے، جب وہ اپنی تہذیب، ثقافت ، لباس، زبان اور اپنے بزرگوں اور اسلامی کارناموں کو فراموش کرنا شروع کردے۔ جب کوئی معاشرہ اخلاق، انسانیت، سماج اور سیاسی قدروں کو نہ بچاسکے تو اس کی معاشی ساکھ کو گرنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکتی اور جب معاشی ساکھ گر جائے تو معاشرہ بھوک اور افلاس میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ہم آنکھیں کھول کر دیکھیں تو سامنے بلکہ گرد و پیش کا منظر ہمارے ہوش اڑا دے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ ہمیں سماجی شعبے میں اپنی پسماندگی کا کوئی نیا اشارہ نہ ملے۔

شرم و حیا ہی کو دیکھ لیں جسے عورت کا حقیقی زیور کہا گیا ہے لیکن افسوس صنف نازک کی غالب اکثریت اس زیور کو اپنے کرتوتوں یا اپنے ہاتھوں سے گنوا چکی ہے۔ برگر فیملیز کے ساتھ ساتھ اب مڈل کلاس فیملی بھی بے حجابی میں بازی لے گئی ہے۔ شاپنگ مالز، سینما ہالز، شادی ہالز اور ماڈل پارکوں میں صنف نازک کے ملبوسات کو دیکھیں تو وہ بے حجابی کا اشتہار بنی دکھائی دیں گی۔۔

ہمارے اس ملک میں نصف آبادی عورتوں کی ہے، گویا دس کروڑ بچیاں، لڑکیاں، عورتیں اس ملک میں رہتی ہیں۔ اگر ملک کی بقیہ دس کروڑ آبادی پر مشتمل مرد حضرات اپنی سوچ کے مطابق یہ طے کرنے لگیں کہ کون سی عورت با حیا یا پارسا ہے اور کون ملک میں عریانی و فحاشی پھیلا رہی ہے تو اس کا نتیجہ قتل کی صورت میں ہی نکلے گا۔ جہاں برانڈڈ پوشاکوں اور مہنگے میک اپ والیوں کو ایدھی صاحب کی سادگی پسند ہو، جہاں ظالموں اور غاصبوں کے آئیڈیل ایدھی صاحب اور جہاں بھٹو بھی شہید اور بھٹو کو شہادت کے درجے پر فائز کرنے والے ضیا الحق بھی شہید کہلائیں وہاں تبدیلی کیسے اور کیوں کر آسکتی ہے؟

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ چادر، دوپٹہ، اوڑھنی، برقعہ، عبایا یا حجاب ہر مسلمان عورت یا لڑکی کا فخر و امتیاز، سائبان، اس کی نسوانیت کی پہچان، دینی و سماجی شعار، تہذیب و تمدن کی علامت اس کی شرم و حیا، تقدس و پاکیزگی پر ایک مہر، ایک آہنی حصار یا ڈھال ہے۔ قرآن میں اللہ نے حضور اکرم ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے خاص طور پر ''مومنات'' کے لیے حکم دیا کہ ''اے نبی مومن عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں، اپنی عصمتوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی زینت (نسوانی حسن) کو دکھاتی نہ پھریں بجز اس کے جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں اور اپنی آرائش و زیبائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں۔'' (سورۂ نور)

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ''جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو۔ بے ہودگی جس چیز میں بھی ہوگی اسے عیب دار اور ناقص بنادے گی اور حیا جس چیز میں بھی ہوگی اسے خوبصورت اور کامل کردے گی۔''

حضور اکرمؐ کے اس جامع اور مختصر ارشاد میں گویا انسان کا پورا نظام زندگی سمو گیا ہے۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ معاشرے کے سدھار اور بگاڑ سے قوم براہ راست متاثر ہوتی ہے۔ معاشرے میں اصلاح کا عمل جاری ہو تو اس سے ایک صحت مند اور باصلاحیت قوم وجود میں آتی ہے اور اگر معاشرہ بگڑا ہوا ہو تو اس کا فساد قوم کو گھن کی طرح کھا جاتا ہے اور اگر قوم میں اصلاح احوال کا جذبہ پیدا نہ ہو تو وہ قوم ہمیشہ برباد ہوئی ہے۔اس کی تباہی میں اس سوال کی کبھی کوئی اہمیت نہیں رہی کہ اس تباہی کی وجہ کیا ہے بلکہ ہر برا عمل خواہ اس کی نوعیت کچھ بھی ہو اگر معاشرے کا اجتماعی کردار بن جائے تو وہ اس قوم اور معاشرے کے لیے موت کا پیغام لاتا ہے۔


صحت مند معاشروں میں لوگوں کی اخلاقی تربیت کا روز اول سے ہی اہتمام و انتظام کیا جاتا ہے، اسکول ہی سے بچوں بچیوں کو اخلاق سکھائے جاتے ہیں، لیکن افسوس ہماری ترجیحات میں اخلاقی تربیت سرے سے شامل ہی نہیں۔ ذرا ایک لمحے کے لیے پوری سوسائٹی کا جائزہ لیں اور سوچیں کہ ہمارا معاشرہ کس بات کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھتا ہے؟ یہ تحریر کرتے ہوئے بڑا دکھ ہو رہا ہے کہ آج پاکستانی سوسائٹی ایک اسلامی معاشرہ تو کجا ایک انسانی معاشرہ بھی نہیں رہا۔

ہمارے بعض قومی رویے خطرناک، قابل توجہ اور قابل اصلاح ہیں مگر اصلاح کون کرے؟ اصلاح معاشرتی اصلاحی تحریکیں، تعلیمی ادارے اور لیڈرشپ کرتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں یہ تمام ادارے گمراہ ہوچکے ہیں۔ مولوی کا وعظ بے اثر اور عصر حاضر کے تقاضوں سے یکسر تہی دامن ہوتا ہے جب کہ ممتاز علما سیاست کی دلدل میں پھنس کر اپنے الفاظ کی تاثیر بھی کھو چکے ہیں اور معاشرتی قیادت کا کردار بھی فراموش کرچکے ہیں۔ ہماری صفیں سیدھی لیکن سوچیں اور اعمال ٹیڑھے ہیں۔ دراصل جس دن مولوی اور مسجد کا رول ڈیفائن ہوگیا وہ دن ہماری نشاط ثانیہ کا پہلا دن ہوگا، لیکن ایسا دن چڑھتا دکھائی نہیں دیتا۔

مانا کہ وقت کے ساتھ ساتھ زمانے کی ڈگر، روش، طرز یا انداز بدل گئے ہیں۔ برق رفتار ترقی، جدت پسندی اور نام نہاد روشن خیالی نے بے باکی و بے حیائی کا چلن عام کردیا ہے مگر صد شکر کہ امت مسلمہ کی نیک بیبیوں ، بیٹیوں کو آج بھی اپنی سترپوشی، شرم و حیا، شرافت و پاسداری کا بے حد پاس ہے۔ وہ نہ صرف حق و اعزاز کی حفاظت کر رہی ہیں بلکہ اپنے اس امتیاز و انتخاب پر نازاں و شاداں بھی ہیں۔ نیکی اور بدی، رات اور دن کی طرح اگر ایک طرف بے حجابی فروغ پا رہی ہے تو دوسری طرف دنیا بھر کی مسلمان خواتین، خاص طور پر نوعمر بچیوں میں اپنی عفت و عصمت کی حفاظت، تقدس و حیا کی سلامتی و پاسبانی کا شعور بھی بڑھ رہا ہے اور ستر پوشی و حجاب کے رحجان میں بھی روز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

ان سطور کے ذریعے ہم ''دعوت نظارہ'' دینے والی پوشاکیں زیب تن کرنے والی خواتین کو پھر بھی احترام دینے اور عزت کرنے والے الفاظ کے ساتھ مخاطب کرنا چاہتے ہیں کہ خدارا وہ اپنی عزت، شرم و حیا اور اپنے والدین کی غیرت کو یوں سرعام نیلام یا رسوا نہ کریں اور اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہی اپنی سترپوشی کرلیں۔ لیکن ہم حیران ہیں کہ انھیں ہم کن الفاظ کے ساتھ مخاطب کریں؟ کیونکہ ہمارا سماجی یا معاشرتی المیہ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں احترام دینے کے لیے جو الفاظ یا القاب استعمال کیے جاتے ہیں اس کا اب اکیسویں صدی میں کوئی رواج نہیں۔

یہ سچ ہے کہ بعض اوقات عبادتیں نہیں ندامتیں قبول ہوجاتی ہیں۔ مغرب کی اندھی تقلید میں مبتلا دختران مشرق اپنے اہل خانہ کو اپنے طرز عمل سے اتنی تکلیف نہ دیں اور اس حد تک دیں کہ سہنے والا باغی نہ ہو جائے۔ کیونکہ درد تب نہیں ہوتا جب لوگ زندہ بچ جاتے ہیں بلکہ درد تو ہوتا ہی اس وقت ہے جب احترام اور وفا و خلوص کے رشتے مر جاتے ہیں۔ اس لیے صنف نازک سے گزارش ہے کہ ان رشتوں کو بچا لیجیے، ان کے صبر وضبط کو مزید نہ آزمائیں، رشتوں کے تقدس کی پامالی کو روک سکیں تو روک لیں، اس بے راہ روی کے پل کے دونوں اطراف '' اپنے'' ہی ہیں۔

بس کچھ ناراض ہیں، کچھ بے بس، کچھ بے اختیار اور کچھ طیش میں لیکن بیچ میں سے یہ پل ٹوٹ چکا ہے اس لیے بے راہ روی کو ترک کردینا ہی انسانیت ہوگی۔ کیونکہ انسان ہونا ہمارا انتخاب نہیں بلکہ قدرت کی عطا ہے لیکن اپنے اندر انسانیت بنائے رکھنا انسان کے اختیار میں ہے۔اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ بہت سی خواہشیں ضرورتوں سے جنم لیتی ہیں اور بہت سی آرزوئیں حرص و ہوس کی کوکھ سے پھوٹتی ہیں۔

انسان انہی ضرورتوں، خواہشوں اور آرزوؤں کے ریگزاروں میں بٹکتے بھٹکتے تمام ہوجاتا ہے۔ اور یہ بھی غلط نہیں کہ جب بڑی خواہشیں پوری نہ ہوں تو نہ پوری ہونے والی چھوٹی چھوٹی تمنائیں حسرتیں بن جاتی ہیں۔ لیکن کیا ہے کہ پستی کے جانب لڑھکتے وقت سنبھلنا اکثر اپنے بس میں نہیں رہتا، اگر ہر شے بندے یا بندی کے اختیار میں ہو تو کرہ ارض سے فساد کا وجود ہی مٹ جائے اور شاید رنج و الم سے بھرپور کہانیاں بھی جنم پذیر نہ ہوں۔
Load Next Story