پی سی بی میں سفارشی کلچر کا خاتمہ ہونا چاہیے
ثقلین مشتاق کی ’’ایکسپریس‘‘ کے ساتھ خصوصی بات چیت
ثقلین مشتاق پاکستان کے مایہ ناز آف سپنر رہے ہیں، انہوں نے ایک نئی ڈلیوری دُوسرا متعارف کروائی اور بڑے بڑے بلے بازوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا.
ثلقین نے 49 ٹیسٹ میچز میں 29.83 کی اوسط سے 208 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں جبکہ 169 ون ڈے انٹرنیشنلز میں 21.78 کی اوسط سے 288 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں جن میں زمبابوے کے خلاف ہیٹ ٹرک بھی شامل ہے۔
آج کل انگلش ٹیم کے ساتھ سپن کوچ کے طور پر کام کر رہے ہیں اور ان کی کوچنگ میں معین علی اور عادل رشید کی کارکردگی میں حیران کن حد تک بہتری آئی ہے، اس سے قبل وہ ویسٹ انڈیز، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کے کرکٹرز کی بھی رہنمائی کر چکے ہیں، گزشتہ دنوں انہوں نے ایڈیٹر سپورٹس ''روزنامہ ایکسپریس'' سلیم خالق سے خصوصی گفتگو کی جو قارئین کی نذر ہے۔
ایکسپریس: آپ انگلینڈ ٹیم کے کوچ ہیں، دیگر ٹیموں کیساتھ بھی کام کر چکے ہیں، پاکستان کرکٹ بورڈ آپ کی خدمات سے استفادہ کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہا، کیا اس پر افسوس ہوتا ہے؟
ثقلین مشتاق: دیکھیں افسوس یہ نہیںہوتا کہ مجھے پاکستان میں موقع نہیں مل رہا بلکہ دکھ یہ ہوتا ہے کہ میں پاکستان کی خدمت نہیں کر پا رہا، پی سی بی پر تنقید کرکے یا سیاسی رابطوں کے ذریعے بورڈ خود بخود ملازمت کے حصول کا مشورہ دیا گیا تاہم میں نے ایسا نہیں کیا، ایسا سسٹم دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، اس کلچر کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ پی سی بی میں ملازمت کے پیچھے نہیں بھاگ رہا کیونکہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں میرے پاس بہت سے آپشنز ہیں، ایک پاکستانی کے طور پر میرا دل اپنے ملک کے لیے دھڑکتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے لیے بہتر طریقے سے کام کر سکتا ہوں، اگر آپ کوالیفیکیشن، میرٹ اور تجربہ کو دیکھیں تو میں پاکستان کا سب سے زیادہ کوالیفائیڈ کوچ ہوں کیونکہ میں انگلینڈ میں لیول تھری کوچ ہوں، میں یہ جاب حاصل کرنے کیلیے نہیں کہہ رہا۔ صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہاں میرٹ اور پرفارمنس کی بنیاد پر سلیکشن ہونی چاہیے۔ اگر آپ کسی کو کوچ رکھنا چاہ رہے ہیں تو اس کا باقاعدہ انٹرویو لیں اور اس کی سابق کارکردگی کو بھی مدنظر رکھیں، میری پرفارمنس عوام اور پی سی بی کے سامنے ہے، انگلش ٹیم کے ساتھ بطور کوچ کام کر رہا ہوں، آسٹریلیا کے سنٹر آف ایکسی لینس میں جا چکا ہوں، اس کے علاوہ، نیوزی لینڈ، ویسٹ انڈیز، بنگلہ دیش گیا ہوں، کچھ اور ممالک بھی دلچسپی کااظہار کر چکے ہیں، میری انگلینڈ میں اپنی کرکٹ اکیڈمی ہے۔ مجھے کسی نے بتایا کہ پی سی بی میں ہم خیال لوگوں کو لانا چاہتے ہیں، یہ بات مجھے سمجھ نہیں آئی کہ ہم خیال کون ہوتے ہیں اور اس کا کیا مطلب ہے۔
ایکسپریس: انگلش سپنر معین علی اور عادل رشید نے آپ کی بہت تعریف کی ہے، آپ نے انہیں ایسا کیا گھول کر پلا دیا؟
ثقلین مشتاق: معین علی بہت ٹیلنٹڈ ہیں، انہوں نے جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز کے خلاف بہت محنت کی، ہر وقت کچھ اچھا اور الگ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، انہوں نے اپنی کارکردگی کا مجھے کریڈٹ دیا تو اس پر ان کا شکر گزار ہوں تاہم اصل محنت تو ان کی اپنی تھی، آپ مشورہ دے سکتے ہیں، مسائل پر بات کر سکتے ہیں، پلان بنا سکتے ہیں، تکنیک کو بہتر کر سکتے ہیں، تاہم اصل کریڈٹ پلیئر کا اپنا ہوتا ہے کیونکہ اس نے ہی میدان میں اس سب پر عملدرآمد کرنا ہوتا ہے۔ عادل رشید نے بھارت کے خلاف ٹیسٹ میچز میں شاندار کارکردگی کے بعد مجھے کریڈٹ دیا، ایسا لگتا ہے کہ میں ان کے لیے خوش قسمت ثابت ہو رہا ہوں، میں ابھی تک سیکھ رہا ہوں، میں نے انہیں گھول کے تو کچھ نہیں پلایا، ان کی اپنی محنت ہے۔
ایکسپریس: پاکستانی بولرز خصوصاً سپنرز یاسر شاہ اور دیگر نوجوان سپنرز کی کارکردگی کے حوالے سے کیا کہیں گے؟
ثقلین مشتاق: یاسر شاہ کی پرفارمنس ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے، ایک سپن کوچ کی حیثیت سے میں یہ کہوں گا کہ وہ اس سے بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں، اس کے لیے ان کو اپنی مہارت کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے، لیگ سپن پر مزید کام کرنا ہو گا، وہ بہت محنتی بولر ہیں، اگر وہ لیگ سپن کی کاٹ کو مزید بہتر بنا لیں تو میں نہیں سمجھتا کہ انہیں 5 یا اس سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے کے لیے 57 اوورز کروانے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ اس سے پہلے ہی وہ بازی پلٹ دیں گے۔ جوش و جذبہ، لگن، ڈسپلن، سیکھنے کی شدید خواہش ان میں موجود ہے، صرف سکلز کو مزید بہتر بنانا ہو گا۔
ایکسپریس: سوشل میڈیا پر آپ کی باکسنگ وڈیو سامنے آئی،کیا اب رنگ میں اترنے کا ارادہ ہے؟
ثقلین مشتاق: باکسنگ جوائن کرنے کا ارادہ نہیں ہے، اصل میں میڈیکل چیک اپ کروانے پر مجھے پتہ چلا کہ جسم میں کولیسٹرول کی مقدار زیادہ ہے، اپنے آپ کو فٹ رکھنے کے لیے جم جوائن کیا اور باقاعدگی سے جا رہا ہوں، میری اہلیہ نے مجھے تحریک دلانے کے لیے باکسنگ پریکٹس کی وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کر دی جس پر مداحوں نے اچھا رد عمل دیا، عامر خان نے بھی اس پر کمنٹ کیا اور ضرورت پڑنے پر پارٹنر بنانے کا بھی کہا تاہم میں یہ سب اپنی فٹنس کے لیے کر رہا ہوں۔
ثلقین نے 49 ٹیسٹ میچز میں 29.83 کی اوسط سے 208 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں جبکہ 169 ون ڈے انٹرنیشنلز میں 21.78 کی اوسط سے 288 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں جن میں زمبابوے کے خلاف ہیٹ ٹرک بھی شامل ہے۔
آج کل انگلش ٹیم کے ساتھ سپن کوچ کے طور پر کام کر رہے ہیں اور ان کی کوچنگ میں معین علی اور عادل رشید کی کارکردگی میں حیران کن حد تک بہتری آئی ہے، اس سے قبل وہ ویسٹ انڈیز، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کے کرکٹرز کی بھی رہنمائی کر چکے ہیں، گزشتہ دنوں انہوں نے ایڈیٹر سپورٹس ''روزنامہ ایکسپریس'' سلیم خالق سے خصوصی گفتگو کی جو قارئین کی نذر ہے۔
ایکسپریس: آپ انگلینڈ ٹیم کے کوچ ہیں، دیگر ٹیموں کیساتھ بھی کام کر چکے ہیں، پاکستان کرکٹ بورڈ آپ کی خدمات سے استفادہ کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہا، کیا اس پر افسوس ہوتا ہے؟
ثقلین مشتاق: دیکھیں افسوس یہ نہیںہوتا کہ مجھے پاکستان میں موقع نہیں مل رہا بلکہ دکھ یہ ہوتا ہے کہ میں پاکستان کی خدمت نہیں کر پا رہا، پی سی بی پر تنقید کرکے یا سیاسی رابطوں کے ذریعے بورڈ خود بخود ملازمت کے حصول کا مشورہ دیا گیا تاہم میں نے ایسا نہیں کیا، ایسا سسٹم دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، اس کلچر کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ پی سی بی میں ملازمت کے پیچھے نہیں بھاگ رہا کیونکہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں میرے پاس بہت سے آپشنز ہیں، ایک پاکستانی کے طور پر میرا دل اپنے ملک کے لیے دھڑکتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے لیے بہتر طریقے سے کام کر سکتا ہوں، اگر آپ کوالیفیکیشن، میرٹ اور تجربہ کو دیکھیں تو میں پاکستان کا سب سے زیادہ کوالیفائیڈ کوچ ہوں کیونکہ میں انگلینڈ میں لیول تھری کوچ ہوں، میں یہ جاب حاصل کرنے کیلیے نہیں کہہ رہا۔ صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہاں میرٹ اور پرفارمنس کی بنیاد پر سلیکشن ہونی چاہیے۔ اگر آپ کسی کو کوچ رکھنا چاہ رہے ہیں تو اس کا باقاعدہ انٹرویو لیں اور اس کی سابق کارکردگی کو بھی مدنظر رکھیں، میری پرفارمنس عوام اور پی سی بی کے سامنے ہے، انگلش ٹیم کے ساتھ بطور کوچ کام کر رہا ہوں، آسٹریلیا کے سنٹر آف ایکسی لینس میں جا چکا ہوں، اس کے علاوہ، نیوزی لینڈ، ویسٹ انڈیز، بنگلہ دیش گیا ہوں، کچھ اور ممالک بھی دلچسپی کااظہار کر چکے ہیں، میری انگلینڈ میں اپنی کرکٹ اکیڈمی ہے۔ مجھے کسی نے بتایا کہ پی سی بی میں ہم خیال لوگوں کو لانا چاہتے ہیں، یہ بات مجھے سمجھ نہیں آئی کہ ہم خیال کون ہوتے ہیں اور اس کا کیا مطلب ہے۔
ایکسپریس: انگلش سپنر معین علی اور عادل رشید نے آپ کی بہت تعریف کی ہے، آپ نے انہیں ایسا کیا گھول کر پلا دیا؟
ثقلین مشتاق: معین علی بہت ٹیلنٹڈ ہیں، انہوں نے جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز کے خلاف بہت محنت کی، ہر وقت کچھ اچھا اور الگ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، انہوں نے اپنی کارکردگی کا مجھے کریڈٹ دیا تو اس پر ان کا شکر گزار ہوں تاہم اصل محنت تو ان کی اپنی تھی، آپ مشورہ دے سکتے ہیں، مسائل پر بات کر سکتے ہیں، پلان بنا سکتے ہیں، تکنیک کو بہتر کر سکتے ہیں، تاہم اصل کریڈٹ پلیئر کا اپنا ہوتا ہے کیونکہ اس نے ہی میدان میں اس سب پر عملدرآمد کرنا ہوتا ہے۔ عادل رشید نے بھارت کے خلاف ٹیسٹ میچز میں شاندار کارکردگی کے بعد مجھے کریڈٹ دیا، ایسا لگتا ہے کہ میں ان کے لیے خوش قسمت ثابت ہو رہا ہوں، میں ابھی تک سیکھ رہا ہوں، میں نے انہیں گھول کے تو کچھ نہیں پلایا، ان کی اپنی محنت ہے۔
ایکسپریس: پاکستانی بولرز خصوصاً سپنرز یاسر شاہ اور دیگر نوجوان سپنرز کی کارکردگی کے حوالے سے کیا کہیں گے؟
ثقلین مشتاق: یاسر شاہ کی پرفارمنس ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے، ایک سپن کوچ کی حیثیت سے میں یہ کہوں گا کہ وہ اس سے بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں، اس کے لیے ان کو اپنی مہارت کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے، لیگ سپن پر مزید کام کرنا ہو گا، وہ بہت محنتی بولر ہیں، اگر وہ لیگ سپن کی کاٹ کو مزید بہتر بنا لیں تو میں نہیں سمجھتا کہ انہیں 5 یا اس سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے کے لیے 57 اوورز کروانے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ اس سے پہلے ہی وہ بازی پلٹ دیں گے۔ جوش و جذبہ، لگن، ڈسپلن، سیکھنے کی شدید خواہش ان میں موجود ہے، صرف سکلز کو مزید بہتر بنانا ہو گا۔
ایکسپریس: سوشل میڈیا پر آپ کی باکسنگ وڈیو سامنے آئی،کیا اب رنگ میں اترنے کا ارادہ ہے؟
ثقلین مشتاق: باکسنگ جوائن کرنے کا ارادہ نہیں ہے، اصل میں میڈیکل چیک اپ کروانے پر مجھے پتہ چلا کہ جسم میں کولیسٹرول کی مقدار زیادہ ہے، اپنے آپ کو فٹ رکھنے کے لیے جم جوائن کیا اور باقاعدگی سے جا رہا ہوں، میری اہلیہ نے مجھے تحریک دلانے کے لیے باکسنگ پریکٹس کی وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کر دی جس پر مداحوں نے اچھا رد عمل دیا، عامر خان نے بھی اس پر کمنٹ کیا اور ضرورت پڑنے پر پارٹنر بنانے کا بھی کہا تاہم میں یہ سب اپنی فٹنس کے لیے کر رہا ہوں۔