سیاست اور معیشت

طاقتور حلقے انکم ٹیکس اور دیگر ٹیکسز ایمانداری سے ادا نہیں کر رہے

طاقتور حلقے انکم ٹیکس اور دیگر ٹیکسز ایمانداری سے ادا نہیں کر رہے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD:
ملک میں اقتدار کے اسٹیک ہولڈرز کے مابین جاری محاذ آرائی سے سیاسی عدم استحکام گہرا ہو رہا ہے' سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی ہے' اس میں محاذ آرائی کی شدت خاصی بڑھی ہوئی نظر آ رہی ہے۔یوں ملک کا سیاسی ماحول چہ میگوئیوںاور افواہوں کی زد میں ہے۔

ویسے تو نواز شریف کی نااہلی ایک قانونی عمل کے ذریعے ہوئی اور وہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے تحت اپنے منصب سے الگ بھی ہو گئے۔ ان کی جگہ مسلم لیگ ن سے ہی شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بن گئے لہٰذا سارا عمل آئین کے مطابق طے پا گیا اور حکومتی امور تسلسل کے ساتھ معمول کے مطابق انجام پذیر ہو رہے ہیں لیکن اس کے باوجودحکومت اور اداروں کے درمیان عدم اعتماداور محاذ آرائی کی کیفیت نظر آ رہی ہے جو ملک کے لیے خوش کن نہیں ہے۔

پاک فوج کے سربراہ کی سیکیورٹی اور معیشت کے باہمی تعلق اور پاکستانی معیشت پر اظہار خیال 'پھر ترجمان پاک فوج کا معیشت کے حوالے سے اظہار اور اس پر وزیر داخلہ کے بیان نے صورت حال کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔ اسی دوران تجزیہ کاروں کی خیال آفر ینیاں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں اور ملک میں افواہوں کا بازار بھی گرم ہے' کہیں ٹیکنوکریٹ حکومت کی باتیں ہو رہی ہیں اور کہیں قبل از وقت الیکشن کا ڈھول بج رہا ہے۔ یہ ماحول ملکی معیشت کے لیے بہتر نہیں ہے کیونکہ افواہوں کی بنا پر کاروباری سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ گزشتہ روز پاک فوج کے ترجمان نے پریس کانفرنس کے دوران بہت سی چیزوں کی وضاحت کر دی ہے۔انھوں نے کہا کہ وزیر داخلہ کے بیان پر انھیں بطور سپاہی اور پاکستانی دکھ ہوا ہے، میرا کوئی بیان ذاتی نہیں پوری فوج کا موقف ہوتا ہے، میں اپنے الفاظ پر قائم ہوں ، میں نے کہا تھا کہ معیشت پر مل بیٹھ کر کام کرنا ہے، یہ نہیں کہا تھا کہ معیشت غیرمستحکم ہے اگر سیکیورٹی اچھی نہیں ہوگی تومعیشت بھی اچھی نہیں ہوگی، جمہوریت کو خطرہ فوج سے نہیں عوام کی امنگیں پوری نہ کرنے سے ہوسکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ملکی معیشت قرضوں پر چلے گی تو سلامتی متاثر ہوگی ،مضبوط ملک بننے کے لیے سب کو ٹیکس ادا کرنا چاہیے، ان کا کہنا تھا کہ ،انھوں نے کہا وزیراعظم ہی آرمی چیف کا تقررکرتے ہیں،تمام فیصلے حاکم وقت کے ہوتے ہیں،دنیا کے ہر ملک کے اندر اداروں کے درمیان اختلاف رائے ہوتا ہے ،کوئی بھی کام آئین اور قانون سے بالاتر نہیں ہوگا، محض افواہیں گردش کررہی ہیں۔ ملک میں کوئی ٹیکنوکریٹ حکومت نہیں آ رہی ٗ جو سسٹم چل رہا ہے اسے ہی چلتے رہنا چاہیے۔


حالیہ دنوں میں اعلیٰ سطح پر ہونے والی گفتگو کا بغور جائزہ لیا جائے تو کہیں بھی کوئی تشویش یا خطرے کا اشارہ نہیں ملتا' اقتدار کے اسٹیک ہولڈرز جو کچھ کہہ رہے ہیں' اس میں ملک کو درپیش مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے' اگر معیشت کی بات کی جائے تو یہ حقیقت واضح ہے کہ ملک پر قرضوں کا بوجھ تشویشناک حدتک بڑھ گیا ہے۔ملک میں کاروباری سرگرمیاں اتنی تیز نہیں ہیں جتنی کہ ہونی چاہئیں۔

عجیب بات یہ ہے کہ جمہوری نظام قائم ہے 'حکومت اپنا کام کررہی ہے' وزیرخزانہ موجود ہیں 'معاشی پالیسیاں تسلسل کے ساتھ چل رہی ہیں' اس کے باوجود اگر معاشی عدم استحکام کی باتیں ہو رہی ہیں تو یہ اچھی بات نہیں ہے۔جہاں تک معیشت کو درست کرنے کی بات ہے تو یہ کوئی بھی کہے حکومت کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔ پاکستان میں ٹیکس کا نظام انتہائی پیچیدہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے طاقتور حلقے انکم ٹیکس اور دیگر ٹیکسز ایمانداری سے ادا نہیں کر رہے۔

پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے 'بڑی ذمے داریوں اور گدی نشینوں کے زیراثر علاقے ٹیکس ادا نہیں کر رہے 'ان علاقوں کے طاقتور قبائلی سردار 'گدی نشین اور وہ علماء جن کی حفاظت پر بیسیوں گارڈز تعینات ہوتے ہیں ' وہ قومی خزانے میں انکم ٹیکس کی مد میں ایک پیسہ بھی ادا نہیں کرتے جب کہ تمام سہولیات حاصل کر رہے ہیں۔

ان علاقوں میں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو بغیر نمبر پلیٹوں کے چلایا جاتا ہے' یوں وہ اس پر بھی ٹیکس ادا نہیں کرتے۔جب یہ کہا جاتا ہے کہ سب کو ٹیکس ادا کرنا چاہیے تو پھر حقیقی معنوں میں پورے ملک کے تمام علاقوں کے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ طاقتور لوگوں نے ٹرسٹ قائم کر رکھے ہیں 'اس حوالے سے بھی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ کہیں یہ ٹیکس بچانے کے لیے تونہیں ہو رہا۔

دوسری طرف حکومت نے ہر چیز پر ٹیکس لگا رکھا ہے' عجیب بات یہ ہے جب آپ کسی سے انکم ٹیکس لے رہے ہیں تو پھر اس سے بطور کنزیومر جنرل سیلز ٹیکس اور بجلی کے بلوں میں عائد ٹیلی ویژن ٹیکس کس بنیاد پر وصول کیا جاتا ہے۔ بہر حال اقتدار کے اسٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے پر ذمے داری ڈالنے کے بجائے اپنے حصے کے فرائض ایمانداری سے ادا کریں تو ملک میں سیاسی عدم استحکام بھی ختم ہو جائے گا اور معیشت بھی ترقی کے راستے پر گامزن ہو جائے گی۔

 
Load Next Story