اعلیٰ تعلیم کےلیے چین ایک اچھا انتخاب کیوں
چین کی کم و بیش 300 یونیورسٹیوں میں ہر سال تقریباً 225,000 غیرملکی طلبا کو اسکالرشپس پر داخلہ دیا جاتا ہے
LONDON:
چین میں تعلیم جاری رکھے ہوئے مجھے دو سال ہوچکے ہیں۔ جان پہچان والا کوئی دوست اب بھی ملتا ہے تو سوال یہی ہوتا ہے یار تم چین کیوں چلے گئے؟ تم جیسے طالب علموں کو تو یورپ یا امریکا کا رخ کرنا چاہیے۔ خیر، میں اب اس طرح کی باتوں کا عادی ہوچکا ہوں۔ کچھ عرصہ قبل جب میں نے انجنینئرنگ یونیورسٹی چھوڑ کر پریسٹن میں بی ایس نینو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں داخلہ لیا تو احباب میں سے ہر ایک نے حسب توفیق خوب برا بھلا کہا۔ ہمارے ہاں ٹرینڈ یہ ہے کہ اچھے طالب علم کو یا تو ڈاکٹر بننا چاہیے یا انجینئر، دوسری کسی طرف دھیان ہی نہیں جاتا۔
باتیں کرنے والے تو باتیں کرتے ہیں لیکن کچھ اچھے طالب علم اسی شش و پنج میں راستے سے ہٹ جاتے ہیں، کچھ کو مایوسیاں گھیر لیتی ہیں۔ ہمارے ہاں اکثر طالب علموں کو یورپ کے بارے میں پتا ہوتا ہے۔ لیکن ایک تو وہاں داخلہ مشکل سے ملتا ہے اور دوسرا وہ اسکالرشپس بہت کم دیتے ہیں جس کی وجہ سے طلبا کو خود سے اچھا خاصا خرچہ کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں غریب مگر لائق طالب علم خاموشی سے گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسے تما م دوستوں کےلیے میں نے سوچا کہ کچھ لکھا جائے۔ یہ پہلا سوال ہے اور آنے والے دنوں میں کوشش کروں گا کہ اس کے جواب میں کچھ دلائل دے سکوں۔
چین کے بارے میں ہمارے ملک میں بے انتہا غلط فہمیاں ہیں۔ ایک عام بات یہ ہے کہ چین کا مال دو نمبر ہوتا ہے۔ لیکن چین اترتے ہی جو پہلی چیز حیران کرتی ہے، وہ یہ کہ دنیا کی تقریباً ہر بڑی کمپنی کا پروڈکشن یونٹ چین میں ضرور ہوتا ہے یا وہ چینی کمپنیوں سے مال خرید کر اپنا برانڈ لگا کر فروخت کردیتے ہیں۔ چونکہ چین سے آنے والی چیزیں دو نمبر ہوتی ہیں لہٰذا بہت سارے احباب یہ فرض کرلیتے ہیں کہ وہاں سے آنے والی تعلیم بھی دو نمبر ہی ہوگی یا کوئی خاص معیار کی نہیں ہوگی۔
تو جناب! اگر آ پ نے بھی گریجویشن مکمل کرلیا ہے اور مزید اعلیٰ تعلیم کےلیے بیرون ملک جانے کا سوچ رہے ہیں تو میرے خیال میں چین ایک بہترین انتخاب ہے۔ اگر آپ کا یورپ یا امریکا کی کسی اچھی یونیورسٹی میں اسکالر شپ پر داخلہ ہوجاتا ہے تو بہت خوب، لیکن اگر نہیں ہوتا تو مایوس بالکل نہ ہوں، چین ہے ناں! آپ چین کےلیے کوشش کیجیے کیونکہ چین میں دنیا کی بہترین یونیورسٹیاں ہیں۔ یونیورسٹیوں کا معیار جانچنے کا ایک پیمانہ عالمی سطح پر ان کی رینکنگ ہے جو مختلف اداروں کی طرف سے شائع ہوتی ہے۔
''کیو ایس رینکنگ'' ان میں سے ایک با وقار ادارہ ہے۔ 2016 میں کیو ایس رینکنگ کے مطابق چین کی 4 یونیورسٹیاں دنیا کی 100 بہترین یونیورسٹیوں میں شامل تھیں۔ 2017 میں یہ تعداد بڑھ کر 5 ہوچکی ہے۔ ہانگ کانگ جو کہ چین کے زیر انتطام علاقہ ہے، اسے بھی شامل کرلیں تو یہ تعداد 8 ہوجاتی ہے۔ نہ صرف تعداد میں اضافہ ہوا ہے بلکہ یونیورسٹیوں کی رینکنگ میں بھی بہتری ہوئی ہے۔ مثلاّ شنگخواہ اور پیکنگ یونیورسٹی کی 2016 میں رینکنگ بالترتیب 25 اور 41 تھی جبکہ 2017 میں یہ 24 اور 39 ہو گئی ہے۔ رینکنگ کا یہ معیار کتنا مشکل ہے؟ اس بات کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے ساتھ پوری مسلم دنیا سے کوئی ایک بھی یونیورسٹی ٹاپ 100 میں شامل نہیں۔
اب تک ہم نے رینکنگ پر ہی بات کی ہے۔ بعض احباب سوال کرتے ہیں کہ چین میں اس معیار کی تحقیق نہیں ہوتی جیسی کہ یورپ وغیرہ میں ہوتی ہے۔ اس بات کی وضاحت ''نیچر پبلشنگ انڈیکس'' سے سمجھی جا سکتی ہے۔ نیچر پبلشنگ انڈیکس دنیا بھر میں سائنسی تحقیق شائع کرنے والے انتہائی اہم 68 ایسے جرائد کا احاطہ کرتا ہے جن میں سائنسدان اپنی تحقیق شائع کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان تحقیقی جرائد (ریسرچ جرنلز) سے ڈیٹا اکٹھا کرکے ترتیب دیا جاتا ہے جس سے کسی بھی یونیورسٹی یا ملک میں ہونے والی تحقیق کے معیار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
2014 سے میری یونیورسٹی (یونیورسٹی آف چائنیز اکیڈمی آف سائنسز) اس فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اس سال اس فہرست میں ہارورڈ یونیورسٹی کا دوسرا، آکسفورڈ کا ساتواں اور کیمبرج کا آٹھواں نمبر ہے۔ اس کے علاوہ اگر بحیثیت ملک جائزہ لیا جائے تو امریکا اس فہرست میں پہلے نمبر پر ہے اور چین دوسرے نمبر پر ہے۔ اسی طرح جرمنی تیسرے، برطانیہ چوتھے اور جاپان پانچویں نمبر پر ہے۔ اس بات سے چین میں ہونے والی تحقیق کے معیار کا آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
سائنسی تحقیق میں استعمال ہونے والے جدید آلات بہت مہنگے ہیں اسی لئے پاکستان جیسے ملکوں میں نایاب تسلیم ہوتے ہیں اور الیکٹرون مائیکرو اسکوپ (جو جدید سائنسی تحقیق کا ایک اہم اوزار ہے) پاکستان میں خال خال ہی کسی لیبارٹری میں دستیاب ہے اور وہ بھی طلبا کی پہنچ سے بہت دور۔ لیکن یہاں چین میں یہ لوگ تعلیم پر پیسہ پانی کی طرح بہارہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی لیبارٹریز ہر طرح کے جدید آلات سے بھری ہوئی ہیں۔
نیشنل سینٹر فار نینو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں، جہاں میں تعلیم حاصل کر رہا ہوں، ایک ہی چھت کے نیچے اسکیننگ الیکٹرون مائیکرو اسکوپ، ہائی ریزولیوشن ٹرانسمیشن الیکٹرون مائیکرو اسکوپ، رامن اسپیکٹروسکوپی، اٹامک فورس مائیکرو اسکوپی، ایکس پی ایس، این ایم آر، کنفوکل لیزر مائیکرو اسکوپی اور ہر طرح کے جدید آلات دستیاب ہیں۔
اس طرح کے ادارے یورپ اور امریکا میں بھی بہت ہی کم ہیں جہاں ساری سہولیات ایک ہی چھت کے نیچے دستیاب ہوں۔ پھر یورپ یا امریکا میں مہنگے اور جدید آلات طلبا کو خود سے استعمال نہیں کرنے دیئے جاتے بلکہ مشین آپریٹرز طلبا سے سیمپلز لے کر ان کا تجزیہ کرتے ہیں۔ لیکن یہاں چین میں ہر طرح کے مہنگے آلات بھی طلبا خود استعمال کرتے ہیں، بغیر کسی جھجک کے، اور اپنی مرضی سے اور جتنے وقت کےلیے مرضی ہے استعمال کریں، کوئی پابندی نہیں۔
عموماً یہاں نینو سینٹر میں ہم لوگ الیکٹرون مائیکرو اسکوپ پوری پوری رات بیٹھ کر استعمال کرتے ہیں۔ جب میں امریکا یا یورپ میں موجود اپنے دوستوں سے یہ ساری سہولیات بیان کرتا ہوں تو وہ ہم پر رشک کرتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بعض انتہائی مشہور یورپی اداروں نے یہاں کی یونیورسٹیز سے اس طرح کا معاہدہ کیا ہوا ہے کہ ان اداروں کو یہاں کی سہولیات سے استفادہ کرنے دیا جائے گا۔
چین میں پڑھنے کی ایک اور وجہ یہاں وافر تعداد میں دستیاب اسکالرشپس بھی ہیں۔ چین میں ہر سال 300 کے قریب مختلف یونیورسٹیوں میں تقریباً سوا دو لاکھ (225,000) غیر ملکی طلبا کو داخلہ دیا جاتا ہے اور ہر سال اس میں 5 فیصد اضافہ بھی کیا جاتا ہے۔ اس طرح چین دنیا میں غیرملکی طالب علموں کو اسکالرشپ فراہم کرنے والے بڑے ملکوں میں سے ایک ہے۔ اسکالرشپ میں ٹیوشن فیس کی معافی سے لے کر رہائش اور اضافی جیب خرچ تک شامل ہوسکتا ہے۔ جیب خرچ کی مالیت 20 ہزار پاکستانی روپے سے لے کر ایک لاکھ پاکستانی روپے تک ہوسکتی ہے۔
چائنیز گورنمنٹ اسکالرشپس، چائنیز یونیورسٹیز اسکالرشپس اور کیس-ٹواس (CAS-TWAS) پریزیڈنٹ اسکالرشپس وہ چند مشہور ایوارڈز ہیں جو غیر ملکیوں کو دیئے جاتے ہیں۔ ان کے بارے میں مزید تفصیلات ان شاء اللہ جلد ہی کسی تحریر میں بتاؤں گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
چین میں تعلیم جاری رکھے ہوئے مجھے دو سال ہوچکے ہیں۔ جان پہچان والا کوئی دوست اب بھی ملتا ہے تو سوال یہی ہوتا ہے یار تم چین کیوں چلے گئے؟ تم جیسے طالب علموں کو تو یورپ یا امریکا کا رخ کرنا چاہیے۔ خیر، میں اب اس طرح کی باتوں کا عادی ہوچکا ہوں۔ کچھ عرصہ قبل جب میں نے انجنینئرنگ یونیورسٹی چھوڑ کر پریسٹن میں بی ایس نینو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں داخلہ لیا تو احباب میں سے ہر ایک نے حسب توفیق خوب برا بھلا کہا۔ ہمارے ہاں ٹرینڈ یہ ہے کہ اچھے طالب علم کو یا تو ڈاکٹر بننا چاہیے یا انجینئر، دوسری کسی طرف دھیان ہی نہیں جاتا۔
باتیں کرنے والے تو باتیں کرتے ہیں لیکن کچھ اچھے طالب علم اسی شش و پنج میں راستے سے ہٹ جاتے ہیں، کچھ کو مایوسیاں گھیر لیتی ہیں۔ ہمارے ہاں اکثر طالب علموں کو یورپ کے بارے میں پتا ہوتا ہے۔ لیکن ایک تو وہاں داخلہ مشکل سے ملتا ہے اور دوسرا وہ اسکالرشپس بہت کم دیتے ہیں جس کی وجہ سے طلبا کو خود سے اچھا خاصا خرچہ کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں غریب مگر لائق طالب علم خاموشی سے گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسے تما م دوستوں کےلیے میں نے سوچا کہ کچھ لکھا جائے۔ یہ پہلا سوال ہے اور آنے والے دنوں میں کوشش کروں گا کہ اس کے جواب میں کچھ دلائل دے سکوں۔
چین کے بارے میں ہمارے ملک میں بے انتہا غلط فہمیاں ہیں۔ ایک عام بات یہ ہے کہ چین کا مال دو نمبر ہوتا ہے۔ لیکن چین اترتے ہی جو پہلی چیز حیران کرتی ہے، وہ یہ کہ دنیا کی تقریباً ہر بڑی کمپنی کا پروڈکشن یونٹ چین میں ضرور ہوتا ہے یا وہ چینی کمپنیوں سے مال خرید کر اپنا برانڈ لگا کر فروخت کردیتے ہیں۔ چونکہ چین سے آنے والی چیزیں دو نمبر ہوتی ہیں لہٰذا بہت سارے احباب یہ فرض کرلیتے ہیں کہ وہاں سے آنے والی تعلیم بھی دو نمبر ہی ہوگی یا کوئی خاص معیار کی نہیں ہوگی۔
تو جناب! اگر آ پ نے بھی گریجویشن مکمل کرلیا ہے اور مزید اعلیٰ تعلیم کےلیے بیرون ملک جانے کا سوچ رہے ہیں تو میرے خیال میں چین ایک بہترین انتخاب ہے۔ اگر آپ کا یورپ یا امریکا کی کسی اچھی یونیورسٹی میں اسکالر شپ پر داخلہ ہوجاتا ہے تو بہت خوب، لیکن اگر نہیں ہوتا تو مایوس بالکل نہ ہوں، چین ہے ناں! آپ چین کےلیے کوشش کیجیے کیونکہ چین میں دنیا کی بہترین یونیورسٹیاں ہیں۔ یونیورسٹیوں کا معیار جانچنے کا ایک پیمانہ عالمی سطح پر ان کی رینکنگ ہے جو مختلف اداروں کی طرف سے شائع ہوتی ہے۔
''کیو ایس رینکنگ'' ان میں سے ایک با وقار ادارہ ہے۔ 2016 میں کیو ایس رینکنگ کے مطابق چین کی 4 یونیورسٹیاں دنیا کی 100 بہترین یونیورسٹیوں میں شامل تھیں۔ 2017 میں یہ تعداد بڑھ کر 5 ہوچکی ہے۔ ہانگ کانگ جو کہ چین کے زیر انتطام علاقہ ہے، اسے بھی شامل کرلیں تو یہ تعداد 8 ہوجاتی ہے۔ نہ صرف تعداد میں اضافہ ہوا ہے بلکہ یونیورسٹیوں کی رینکنگ میں بھی بہتری ہوئی ہے۔ مثلاّ شنگخواہ اور پیکنگ یونیورسٹی کی 2016 میں رینکنگ بالترتیب 25 اور 41 تھی جبکہ 2017 میں یہ 24 اور 39 ہو گئی ہے۔ رینکنگ کا یہ معیار کتنا مشکل ہے؟ اس بات کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے ساتھ پوری مسلم دنیا سے کوئی ایک بھی یونیورسٹی ٹاپ 100 میں شامل نہیں۔
اب تک ہم نے رینکنگ پر ہی بات کی ہے۔ بعض احباب سوال کرتے ہیں کہ چین میں اس معیار کی تحقیق نہیں ہوتی جیسی کہ یورپ وغیرہ میں ہوتی ہے۔ اس بات کی وضاحت ''نیچر پبلشنگ انڈیکس'' سے سمجھی جا سکتی ہے۔ نیچر پبلشنگ انڈیکس دنیا بھر میں سائنسی تحقیق شائع کرنے والے انتہائی اہم 68 ایسے جرائد کا احاطہ کرتا ہے جن میں سائنسدان اپنی تحقیق شائع کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان تحقیقی جرائد (ریسرچ جرنلز) سے ڈیٹا اکٹھا کرکے ترتیب دیا جاتا ہے جس سے کسی بھی یونیورسٹی یا ملک میں ہونے والی تحقیق کے معیار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
2014 سے میری یونیورسٹی (یونیورسٹی آف چائنیز اکیڈمی آف سائنسز) اس فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اس سال اس فہرست میں ہارورڈ یونیورسٹی کا دوسرا، آکسفورڈ کا ساتواں اور کیمبرج کا آٹھواں نمبر ہے۔ اس کے علاوہ اگر بحیثیت ملک جائزہ لیا جائے تو امریکا اس فہرست میں پہلے نمبر پر ہے اور چین دوسرے نمبر پر ہے۔ اسی طرح جرمنی تیسرے، برطانیہ چوتھے اور جاپان پانچویں نمبر پر ہے۔ اس بات سے چین میں ہونے والی تحقیق کے معیار کا آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
سائنسی تحقیق میں استعمال ہونے والے جدید آلات بہت مہنگے ہیں اسی لئے پاکستان جیسے ملکوں میں نایاب تسلیم ہوتے ہیں اور الیکٹرون مائیکرو اسکوپ (جو جدید سائنسی تحقیق کا ایک اہم اوزار ہے) پاکستان میں خال خال ہی کسی لیبارٹری میں دستیاب ہے اور وہ بھی طلبا کی پہنچ سے بہت دور۔ لیکن یہاں چین میں یہ لوگ تعلیم پر پیسہ پانی کی طرح بہارہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی لیبارٹریز ہر طرح کے جدید آلات سے بھری ہوئی ہیں۔
نیشنل سینٹر فار نینو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں، جہاں میں تعلیم حاصل کر رہا ہوں، ایک ہی چھت کے نیچے اسکیننگ الیکٹرون مائیکرو اسکوپ، ہائی ریزولیوشن ٹرانسمیشن الیکٹرون مائیکرو اسکوپ، رامن اسپیکٹروسکوپی، اٹامک فورس مائیکرو اسکوپی، ایکس پی ایس، این ایم آر، کنفوکل لیزر مائیکرو اسکوپی اور ہر طرح کے جدید آلات دستیاب ہیں۔
اس طرح کے ادارے یورپ اور امریکا میں بھی بہت ہی کم ہیں جہاں ساری سہولیات ایک ہی چھت کے نیچے دستیاب ہوں۔ پھر یورپ یا امریکا میں مہنگے اور جدید آلات طلبا کو خود سے استعمال نہیں کرنے دیئے جاتے بلکہ مشین آپریٹرز طلبا سے سیمپلز لے کر ان کا تجزیہ کرتے ہیں۔ لیکن یہاں چین میں ہر طرح کے مہنگے آلات بھی طلبا خود استعمال کرتے ہیں، بغیر کسی جھجک کے، اور اپنی مرضی سے اور جتنے وقت کےلیے مرضی ہے استعمال کریں، کوئی پابندی نہیں۔
عموماً یہاں نینو سینٹر میں ہم لوگ الیکٹرون مائیکرو اسکوپ پوری پوری رات بیٹھ کر استعمال کرتے ہیں۔ جب میں امریکا یا یورپ میں موجود اپنے دوستوں سے یہ ساری سہولیات بیان کرتا ہوں تو وہ ہم پر رشک کرتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بعض انتہائی مشہور یورپی اداروں نے یہاں کی یونیورسٹیز سے اس طرح کا معاہدہ کیا ہوا ہے کہ ان اداروں کو یہاں کی سہولیات سے استفادہ کرنے دیا جائے گا۔
چین میں پڑھنے کی ایک اور وجہ یہاں وافر تعداد میں دستیاب اسکالرشپس بھی ہیں۔ چین میں ہر سال 300 کے قریب مختلف یونیورسٹیوں میں تقریباً سوا دو لاکھ (225,000) غیر ملکی طلبا کو داخلہ دیا جاتا ہے اور ہر سال اس میں 5 فیصد اضافہ بھی کیا جاتا ہے۔ اس طرح چین دنیا میں غیرملکی طالب علموں کو اسکالرشپ فراہم کرنے والے بڑے ملکوں میں سے ایک ہے۔ اسکالرشپ میں ٹیوشن فیس کی معافی سے لے کر رہائش اور اضافی جیب خرچ تک شامل ہوسکتا ہے۔ جیب خرچ کی مالیت 20 ہزار پاکستانی روپے سے لے کر ایک لاکھ پاکستانی روپے تک ہوسکتی ہے۔
چائنیز گورنمنٹ اسکالرشپس، چائنیز یونیورسٹیز اسکالرشپس اور کیس-ٹواس (CAS-TWAS) پریزیڈنٹ اسکالرشپس وہ چند مشہور ایوارڈز ہیں جو غیر ملکیوں کو دیئے جاتے ہیں۔ ان کے بارے میں مزید تفصیلات ان شاء اللہ جلد ہی کسی تحریر میں بتاؤں گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔