انتہاپسندی کی طرف بڑھتا ہوا رجحان
یہ حقیقت ہے کہ 2013 کے انتخابات میں مذہبی انتہاپسند گروپ نے مسلم لیگ ن کی کامیابی میں بھر پورکردار اد اکیا تھا۔
لاہور:
قیامِ پاکستان کے ایک سال بعد قائداعظم اس دارِفانی کو الوداع کہہ گئے، اس کے بعد پاکستان اپنی شناخت کے حوالے سے دو مخالف سمتوں میں بٹ گیا۔ ایک طبقہ یہ کہتا تھا کہ قائداعظم پاکستان کو اسلامی مملکت بنانا چاہتے تھے جب کہ دوسرے طبقے کا کہنا تھا کہ بانیِ پاکستان نے مذہب کو انفرادی معاملہ قرار دیتے ہوئے ملک کو سیکولر انداز میں چلانے کی بات کی تھی ۔ پاکستان کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں پر رواداری، برداشت اورجمہوری اصولوں پر مبنی آزاد مملکت قائم کرنا تھا ۔ سیکولر اور اسلامی نظام کی بحث سے قطع نظر قائداعظم نوزائیدہ مملکت میں بسنے والے غیرمسلم شہریوں کے حوالے سے نہایت مثبت رائے رکھتے تھے ۔
گیارہ اگست کی تقریر اور قرار دادِ پاکستان کے اصل متن کوکبھی بھی ہمارے نصاب کا حصہ نہیں بنایا گیا جس کی بنا پر نوجوان نسل انتہائی اہم تاریخی دستاویزات سے بے خبر ہے۔ گیارہ اگست کی تقریر میں قائد نے فرمایا تھا '' آپ آزاد ہیں، آپ اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ اس ریاست میں اپنی مساجد یا دوسری عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں آپ کسی بھی مذہب ، رنگ یا نسل سے تعلق رکھتے ہوں ریاستی معاملات کا اس سے کوئی سروکار نہیں'' پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی میں اسپیکر کے فرائض ایک غیر مسلم جوگندر ناتھ منڈل نے ادا کیے تھے۔ تقریر کے اختتام سے قبل قائداعظم نے پاکستان میں قیام پذیر غیرمسلموں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ترک وطن نہ کریں اور پاکستان کو ہی اپنا وطن بنائیں کیونکہ اب تمام پاکستانی آزاد ہیں، اپنے مندروں میں جانے کے لیے، اپنے کلیسا میں جانے کے لیے، ا پنی مساجد میں جا نے کے لیے یا کسی اور عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔
17اگست 1947 کو قائداعظم نے کراچی کے Holy Trinity Church کا دورہ کیا جس کا مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا تھاکہ اس نوزائیدہ ریاست میں غیر مسلم اقلیتوں کوبھی وہی حقوق ملیں گے جو مسلمان اکثریت کو ملتے ہیں۔ کسی غیر مسلم کے ساتھ مذہب کی بنیادپر امتیاز نہیں برتا جائے گا۔دوسری طرف پاکستان کو اسلامی ریاست دیکھنے کے خواہشمند عناصرکا موقف ہے کہ قائداعظم نے اپریل 1948ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں تقریرکرتے ہوئے فرمایا تھاکہ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسرکرسکیں۔ سوال یہ اْٹھتا ہے کہ کیا پاکستان کا مقصد ایک Theocratic stateکا قیام تھا؟ اگر ایسا تھا تو پھر اْس وقت قائد اعظم اور پاکستان کی مخالفت کیوں کی جا رہی تھی۔
جب 1919ء میں گاندھی کی ایما پرہندوستان کے علماء نے ''جمعیت علمائے ہند'' کے نام سے علیحدہ پارٹی تشکیل دی، اس گروپ سے تعلق رکھنے والے سارے علماء مسلم لیگی قیادت اور تحریک پاکستان کے شدید مخالف تھے،بعض مذہبی جماعتوں نے پاکستان کے مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قائد اعظم پاکستان کوواقعی ایک اسلامی مذہبی ریاستTheocratic stateبنانا چاہتے تھے تو ہندوستان کے جید علماء اور مذہبی جماعتوں نے اس تحریک کی مخالفت کیوں کی تھی؟ قائد اعظم کے انتقال کے بعد مذہبی ذہنیت رکھنے والے طبقے نے حکومت پر دباؤ ڈالا کہ ملک میں شریعت کا نفاذ کیا جائے، تاکہ وہ ایک اسلامی مملکت بن سکے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے یہ مطالبہ کیا کہ حکومت کے کلیدی اور اعلیٰ عہدے صرف مسلمانوں کو دیے جائیں اور وہ لوگ جو محض برائے نام مسلمان ہیں انھیں بھی اہم ذمے داریاں نہ سونپی جائے۔
لہٰذا غیر مسلموں کو تو حکومتی عہدوں پر تقررکرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ، انھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ علماء کی ایک کمیٹی بنائی جائے تاکہ یہ کمیٹی دستور بنانے کے عمل میںشریک ہو، چنانچہ علماء کی اس کمیٹی نے 1949 میں قرارداد مقاصد کے نام سے ایک دستاویز تشکیل دی۔ اس کے بعد دستور بنانے میں علماء نے حصہ لیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1957 اور 1962 اور 1973 کے دستوروں میں جو دفعات رکھی گئیں ان میں خصوصیت سے تین دفعات خاص طور سے قابل ذکر ہیں کہ پاکستان کا نام اسلامی ریپبلک آف پاکستان ہو گا (جب ایوب خان نے اس کو اپنے بنائے ہوئے دستور سے حذف کردیا اس پر سخت احتجاج ہوا اور اسے یہ دفعہ دستور میں رکھنا پڑی ) ملک کا سربراہ مسلمان ہوگا اور قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایاجائے گا۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد سیاسی قائدین نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا جو آئین بنایا اس میں غیرمسلموں کومساوی حقوق دینے کی تو بات کی گئی لیکن آج متعدد ایسی دفعات موجود ہیں جس پر غیرمسلم کمیونٹی کو تحفظات ہیںاور وہ خود کو پاکستان میں غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی تعداد میں غیر مسلم پاکستان کو خیرآباد کہہ چکے ہیں۔قیامِ پاکستان کے وقت ملک کی تقریبا ًایک چوتھائی آبادی (لگ بھگ 23فیصد) غیرمسلموں پر مشتمل تھی جو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بتدریج کم ہوتی رہی اور اب غیرمسلموں کی موجودہ آبادی پانچ سے چھ فیصد سے بھی کم ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح کے طے کردہ اصولوں کی بنیاد پر پاکستان کو ایک روشن خیال، ترقی پسند، اعتدال پسند اور جمہوری فلاحی مملکت ہونا چاہیے تھا، جہاں ہر فرقہ، ہر عقیدہ، ہر مذہب، ہر نسل اور ہر علاقے کے عوام کو یکساں طور پر بنیادی انسانی حقوق، انسانی آزادی اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کا قانونی حق حاصل ہوتا ۔ قائد اعظم نے 1948ء میں امریکی عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان ایک تھیوکریٹک ریاست نہیں ہوگی۔
ہم خدا کی حاکمیت پر یقین رکھتے ہیں جس میں جمہوریت، معاشرتی انصاف ، ہر شعبہ زندگی کے لیے برابرکے مواقعے اور برابر قانونی حقوق حاصل ہوں گے'' قائد اعظم کی یہ تقریر ظاہرکرتی ہے کہ ان کے ذہن میں قطعی طور پر تھیوکریٹک پاکستان کا تصور نہیں تھا ۔ پاکستان کی اکثریت دل کی گہرائیوں سے تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے۔ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ تمام مذاہب بنیادی طور پر ہر قسم کی انتہا پسندی کے خلاف ہیں ۔ البتہ پاکستانی معاشرے میں چند ایسے انتہا پسندگروہ موجود ہیں جو پاکستانی معاشرے کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ذریعے اپنے شکنجے میں جکڑنا چاہتے ہیں ۔ انتہا پسندی اور فرقہ واریت پھیلانے والے یہ گروہ ریاست کے اندر اپنی ریاست قائم کرنے، مذہب اور فرقے کی بنیاد پر پر تشدد سرگرمیاں کرکے پاکستان کو تھیوکریٹک اسٹیٹ یا ملائی مملکت بنانے کی خواہش رکھتے ہیں ۔
یہ حقیقت ہے کہ 2013 کے انتخابات میں مذہبی انتہاپسند گروپ نے مسلم لیگ ن کی کامیابی میں بھر پورکردار اد اکیا تھا۔ انتہا پسند مذہبی جماعتیں کے ووٹوں اور حمایت کی وجہ سے مسلم لیگ پنجاب میں کئی اہم نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔ مسلم لیگ ن اپنے سے جڑے مذہبی ووٹ کو کسی صورت کھونا نہیں چاہتی۔ یہ وہی روش ہے جس طرح افغانستان میں طالبان نے اسلامی نظام کے نام پر انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کو پامال کیا اور صوفیاء اور شعراء کی مزارات کو مسمار کیا۔کیپٹن صفدرکی تقریر پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں پر کھلاحملہ ہے۔ قومی اسمبلی میں ایک صاحب کی تقریر سے اقلیتوں کو عدم تحفظ کا احساس دلایا گیا تو دوسری طرف غیر ضروری تبصرے کا مقصد پاکستان کے اندر افراتفری اور اداروں میں ٹکراؤ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ تمام چیزیں ظاہرکرتی ہیں کہ مسلم لیگ ن اداروں سے ٹکراؤ کی طرف بڑھ رہی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ مذہبی انتہا پسندی کو بھی فروغ دینا چاہتی ہے ۔ ہمیشہ مذہبی انتہاپسندی کی درپردہ سرپرستی کی گئی تاکہ وقت ضرورت اور انتخابات میںانھیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جاسکے، لیکن پاکستان کی روشن خیال عوام، جمہوری اور فلاحی مملکت کی حیثیت سے یہاں تمام منفی سماجی رجحانات اور مذہبی انتہا پسندی سے پاک معاشرہ چاہتی ہے۔ قائد اعظم کے اصولوں اور نظریات کی بنیاد پر ایک ایسا نظام چاہتی جہاںاقلیتوں کو بھی معاشرتی انصاف اور برابر قانونی حقوق کے ساتھ تحفظ بھی حاصل ہوں ۔
قیامِ پاکستان کے ایک سال بعد قائداعظم اس دارِفانی کو الوداع کہہ گئے، اس کے بعد پاکستان اپنی شناخت کے حوالے سے دو مخالف سمتوں میں بٹ گیا۔ ایک طبقہ یہ کہتا تھا کہ قائداعظم پاکستان کو اسلامی مملکت بنانا چاہتے تھے جب کہ دوسرے طبقے کا کہنا تھا کہ بانیِ پاکستان نے مذہب کو انفرادی معاملہ قرار دیتے ہوئے ملک کو سیکولر انداز میں چلانے کی بات کی تھی ۔ پاکستان کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں پر رواداری، برداشت اورجمہوری اصولوں پر مبنی آزاد مملکت قائم کرنا تھا ۔ سیکولر اور اسلامی نظام کی بحث سے قطع نظر قائداعظم نوزائیدہ مملکت میں بسنے والے غیرمسلم شہریوں کے حوالے سے نہایت مثبت رائے رکھتے تھے ۔
گیارہ اگست کی تقریر اور قرار دادِ پاکستان کے اصل متن کوکبھی بھی ہمارے نصاب کا حصہ نہیں بنایا گیا جس کی بنا پر نوجوان نسل انتہائی اہم تاریخی دستاویزات سے بے خبر ہے۔ گیارہ اگست کی تقریر میں قائد نے فرمایا تھا '' آپ آزاد ہیں، آپ اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ اس ریاست میں اپنی مساجد یا دوسری عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں آپ کسی بھی مذہب ، رنگ یا نسل سے تعلق رکھتے ہوں ریاستی معاملات کا اس سے کوئی سروکار نہیں'' پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی میں اسپیکر کے فرائض ایک غیر مسلم جوگندر ناتھ منڈل نے ادا کیے تھے۔ تقریر کے اختتام سے قبل قائداعظم نے پاکستان میں قیام پذیر غیرمسلموں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ترک وطن نہ کریں اور پاکستان کو ہی اپنا وطن بنائیں کیونکہ اب تمام پاکستانی آزاد ہیں، اپنے مندروں میں جانے کے لیے، اپنے کلیسا میں جانے کے لیے، ا پنی مساجد میں جا نے کے لیے یا کسی اور عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔
17اگست 1947 کو قائداعظم نے کراچی کے Holy Trinity Church کا دورہ کیا جس کا مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا تھاکہ اس نوزائیدہ ریاست میں غیر مسلم اقلیتوں کوبھی وہی حقوق ملیں گے جو مسلمان اکثریت کو ملتے ہیں۔ کسی غیر مسلم کے ساتھ مذہب کی بنیادپر امتیاز نہیں برتا جائے گا۔دوسری طرف پاکستان کو اسلامی ریاست دیکھنے کے خواہشمند عناصرکا موقف ہے کہ قائداعظم نے اپریل 1948ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں تقریرکرتے ہوئے فرمایا تھاکہ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسرکرسکیں۔ سوال یہ اْٹھتا ہے کہ کیا پاکستان کا مقصد ایک Theocratic stateکا قیام تھا؟ اگر ایسا تھا تو پھر اْس وقت قائد اعظم اور پاکستان کی مخالفت کیوں کی جا رہی تھی۔
جب 1919ء میں گاندھی کی ایما پرہندوستان کے علماء نے ''جمعیت علمائے ہند'' کے نام سے علیحدہ پارٹی تشکیل دی، اس گروپ سے تعلق رکھنے والے سارے علماء مسلم لیگی قیادت اور تحریک پاکستان کے شدید مخالف تھے،بعض مذہبی جماعتوں نے پاکستان کے مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قائد اعظم پاکستان کوواقعی ایک اسلامی مذہبی ریاستTheocratic stateبنانا چاہتے تھے تو ہندوستان کے جید علماء اور مذہبی جماعتوں نے اس تحریک کی مخالفت کیوں کی تھی؟ قائد اعظم کے انتقال کے بعد مذہبی ذہنیت رکھنے والے طبقے نے حکومت پر دباؤ ڈالا کہ ملک میں شریعت کا نفاذ کیا جائے، تاکہ وہ ایک اسلامی مملکت بن سکے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے یہ مطالبہ کیا کہ حکومت کے کلیدی اور اعلیٰ عہدے صرف مسلمانوں کو دیے جائیں اور وہ لوگ جو محض برائے نام مسلمان ہیں انھیں بھی اہم ذمے داریاں نہ سونپی جائے۔
لہٰذا غیر مسلموں کو تو حکومتی عہدوں پر تقررکرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ، انھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ علماء کی ایک کمیٹی بنائی جائے تاکہ یہ کمیٹی دستور بنانے کے عمل میںشریک ہو، چنانچہ علماء کی اس کمیٹی نے 1949 میں قرارداد مقاصد کے نام سے ایک دستاویز تشکیل دی۔ اس کے بعد دستور بنانے میں علماء نے حصہ لیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1957 اور 1962 اور 1973 کے دستوروں میں جو دفعات رکھی گئیں ان میں خصوصیت سے تین دفعات خاص طور سے قابل ذکر ہیں کہ پاکستان کا نام اسلامی ریپبلک آف پاکستان ہو گا (جب ایوب خان نے اس کو اپنے بنائے ہوئے دستور سے حذف کردیا اس پر سخت احتجاج ہوا اور اسے یہ دفعہ دستور میں رکھنا پڑی ) ملک کا سربراہ مسلمان ہوگا اور قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایاجائے گا۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد سیاسی قائدین نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا جو آئین بنایا اس میں غیرمسلموں کومساوی حقوق دینے کی تو بات کی گئی لیکن آج متعدد ایسی دفعات موجود ہیں جس پر غیرمسلم کمیونٹی کو تحفظات ہیںاور وہ خود کو پاکستان میں غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی تعداد میں غیر مسلم پاکستان کو خیرآباد کہہ چکے ہیں۔قیامِ پاکستان کے وقت ملک کی تقریبا ًایک چوتھائی آبادی (لگ بھگ 23فیصد) غیرمسلموں پر مشتمل تھی جو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بتدریج کم ہوتی رہی اور اب غیرمسلموں کی موجودہ آبادی پانچ سے چھ فیصد سے بھی کم ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح کے طے کردہ اصولوں کی بنیاد پر پاکستان کو ایک روشن خیال، ترقی پسند، اعتدال پسند اور جمہوری فلاحی مملکت ہونا چاہیے تھا، جہاں ہر فرقہ، ہر عقیدہ، ہر مذہب، ہر نسل اور ہر علاقے کے عوام کو یکساں طور پر بنیادی انسانی حقوق، انسانی آزادی اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کا قانونی حق حاصل ہوتا ۔ قائد اعظم نے 1948ء میں امریکی عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان ایک تھیوکریٹک ریاست نہیں ہوگی۔
ہم خدا کی حاکمیت پر یقین رکھتے ہیں جس میں جمہوریت، معاشرتی انصاف ، ہر شعبہ زندگی کے لیے برابرکے مواقعے اور برابر قانونی حقوق حاصل ہوں گے'' قائد اعظم کی یہ تقریر ظاہرکرتی ہے کہ ان کے ذہن میں قطعی طور پر تھیوکریٹک پاکستان کا تصور نہیں تھا ۔ پاکستان کی اکثریت دل کی گہرائیوں سے تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے۔ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ تمام مذاہب بنیادی طور پر ہر قسم کی انتہا پسندی کے خلاف ہیں ۔ البتہ پاکستانی معاشرے میں چند ایسے انتہا پسندگروہ موجود ہیں جو پاکستانی معاشرے کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ذریعے اپنے شکنجے میں جکڑنا چاہتے ہیں ۔ انتہا پسندی اور فرقہ واریت پھیلانے والے یہ گروہ ریاست کے اندر اپنی ریاست قائم کرنے، مذہب اور فرقے کی بنیاد پر پر تشدد سرگرمیاں کرکے پاکستان کو تھیوکریٹک اسٹیٹ یا ملائی مملکت بنانے کی خواہش رکھتے ہیں ۔
یہ حقیقت ہے کہ 2013 کے انتخابات میں مذہبی انتہاپسند گروپ نے مسلم لیگ ن کی کامیابی میں بھر پورکردار اد اکیا تھا۔ انتہا پسند مذہبی جماعتیں کے ووٹوں اور حمایت کی وجہ سے مسلم لیگ پنجاب میں کئی اہم نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔ مسلم لیگ ن اپنے سے جڑے مذہبی ووٹ کو کسی صورت کھونا نہیں چاہتی۔ یہ وہی روش ہے جس طرح افغانستان میں طالبان نے اسلامی نظام کے نام پر انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کو پامال کیا اور صوفیاء اور شعراء کی مزارات کو مسمار کیا۔کیپٹن صفدرکی تقریر پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں پر کھلاحملہ ہے۔ قومی اسمبلی میں ایک صاحب کی تقریر سے اقلیتوں کو عدم تحفظ کا احساس دلایا گیا تو دوسری طرف غیر ضروری تبصرے کا مقصد پاکستان کے اندر افراتفری اور اداروں میں ٹکراؤ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ تمام چیزیں ظاہرکرتی ہیں کہ مسلم لیگ ن اداروں سے ٹکراؤ کی طرف بڑھ رہی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ مذہبی انتہا پسندی کو بھی فروغ دینا چاہتی ہے ۔ ہمیشہ مذہبی انتہاپسندی کی درپردہ سرپرستی کی گئی تاکہ وقت ضرورت اور انتخابات میںانھیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جاسکے، لیکن پاکستان کی روشن خیال عوام، جمہوری اور فلاحی مملکت کی حیثیت سے یہاں تمام منفی سماجی رجحانات اور مذہبی انتہا پسندی سے پاک معاشرہ چاہتی ہے۔ قائد اعظم کے اصولوں اور نظریات کی بنیاد پر ایک ایسا نظام چاہتی جہاںاقلیتوں کو بھی معاشرتی انصاف اور برابر قانونی حقوق کے ساتھ تحفظ بھی حاصل ہوں ۔