کراچی کا دنیا کے شہروں میں 60واں نمبر
شروع دن سے امریکی امداد ہی نے ہماری معیشت کو تباہ کیا۔
PESHAWAR:
آپ کے ذہن میں سوال اٹھا ہوگا کہ کس بات کا 60 واں نمبر، اچھائی میں برائی میں یا 60 سال کا کوئی تخمینہ ہے۔ جی نہیں، دنیا کے 60 ملکوں میں پاکستان کا یہ شہرگندا اور بدترین چہرہ ہے۔ ڈھاکہ اور ممبئی کی صورتحال کراچی سے بہتر ہے، حالانکہ ڈھاکہ اور ممبئی رقبے کے لحاظ سے کراچی کے مقابلے میں زیادہ گنجان آباد ہیں یعنی کم جگہ میں زیادہ آبادی رہتی ہے پھر بھی صورتحال ہم سے بہتر ہے، جب کہ چند برس قبل کہا گیا تھا کہ کراچی دنیا کا نمبر دو شہر ہے۔
آئیے! ذرا پیچھے چلتے ہیں ۔ پاکستان جب بنا تو دفتروں میں کیکر کے کانٹوں سے کامن پن کا کام لیا جا تا تھا، مگر شہرکی تین بڑی سڑکیں لارنس روڈ، بندر روڈ اور میکلوڈ روڈ صبح سویرے پانی سے دھلتی تھیں۔ سورج طلوع ہونے سے قبل ہی سوئیپر صفائی مکمل کرلیتے تھے۔ مچھر، مکھی مارنے کے لیے گاڑیوں سے کیڑے مار ادویات کے چھڑکاؤکیے جاتے تھے۔ بیروزگاری نہ ہونے کے برابر تھی۔ نکاسی آب کی صورتحال بہتر تھی۔ چوری چکاری اور چھینا جھپٹی نہیں ہوتی تھیں۔ قتل وغارت گری تھی اور نہ ہی بھتہ خوری۔ عورتیں اور لڑکیاں آزادی سے شہر میں پھرتی تھیں اور روزمرہ کے اپنے کام انجام دیتی تھیں۔ تین روپے کا ایک ڈالر تھا۔اس سکون و امن کی زندگی میں دخل اندازی تب شروع ہوئی جب امریکی گندم کو اونٹ گاڑی پر رکھ کر بندرروڈ thank you amrica کی تختی لگا کر گاڑی کوگھمانا شروع کیا۔ یہ امداد pl 480 کے تحت تھی اورآج بھی ہے۔
شروع دن سے امریکی امداد ہی نے ہماری معیشت کو تباہ کیا۔ اب تو امریکا ہمیں ایک ڈالر دے کر 14ڈالر لے جاتا ہے ایک ڈالرکل 3روپے کا تھا اور اب 103نہیں بلکہ 105روپے کا ہے۔ آخر ایسا کیوں؟ پاکستان بنا تو تعلیم اورصحت کا بجٹ، عالمی قرضوں کے سودکا بجٹ اور دفاعی بجٹ سے زیادہ تھا اور اب آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دفاعی بجٹ کل بجٹ کا دوتہائی ہوگیا ہے۔ کل سو نا 100روپے تولہ تھا تو تنخواہیں کم ازکم 65 روپے ہوا کرتی تھی اور آج سونا 53 ہزار رو پے تولہ ہے تو تنخواہ 15ہزار روپے کا اعلان ہوا ہے مگر 90 فیصد مزدوروں کی تنخواہیں 6 ہزار روپے سے 12ہزار روپے سے زیادہ نہیں۔ جب کہ سابق سوشلسٹ ممالک میں چالیس چالیس سال تک روز مرہ کی اشیاء خورو نوش کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔آج بھی کیوبا اور سوشلسٹ کوریا میں اشیاء خورونوش دنیا میں سب سے سستی ہیں۔ اس لیے کہ وہاں سر مایہ داری اور جاگیر داری نہیں ہے۔
پاکستان میں بھی کبھی بجلی کی لوڈشیڈنگ کبھی نہیں ہوئی تھی۔ جب سے بجلی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حوالے کی گئی اور فرنس آئل سے بجلی پیدا کی جانے لگی تب سے نرخوں میں اضافہ ہوا ہے اور لوڈشیڈنگ بھی ہورہی ہے۔ بجلی کو سورج، ہوا اور پانی سے ماحول دوست طریقوں سے حاصل کیا جائے تو نرخوں میں کمی ہوگی اور لوڈشیڈنگ بھی نہیں ہوگی۔ صرف گزشتہ اگست کے ایک ماہ میں عوام کو دو ارب روپے کا نقصان ہوا۔ بجلی کی ناقص ترسیلی نظام کی وجہ سے عوام کو ایک ماہ کے دوران 2 ارب 14کروڑکا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔
اگست کے مہینے میں 33 کروڑ یونٹس (فیکٹری مالکان کی جانب سے) چوری اور لائن لاسزکی نذر ہوگئے۔ دستیاب اعداد وشمارکے مطابق اگست کے مہینے میں 12ارب 75کروڑ 43لاکھ یونٹس پیدا کیے گئے اور فی یو نٹ کی قیمت 4 روپے 49 پیسے رہی۔ ناقص ترسیلی نظام کے باعث 33 کروڑ سے زائد یونٹس ضایع ہوئے جن کا بوجھ بھی عوام کو برداشت کر نا پڑا۔ صرف ایک ماہ کے دوران نقصان کی وجہ سے عوام کو اربوں رو پے کا دھچکا لگا دیا گیا۔ تقسیم کارکمپنیوں کی جانب سے جو بجلی عوام کو فراہم کی گئی وہ مہنگے ذرایع سے پیدا کی گئی۔
ماہ اگست کے دوران فرنس آئل سے 29 فیصد بجلی پیدا کی گئی اور فرنس آئل سے عوام کو 29ارب 32کروڑ روپے کی بجلی فراہم کی گئی۔ فرنس آئل سے پیدا ہونے والی بجلی کی فی یونٹ کی قیمت 9 رو پے 39 پیسے رہی۔ اگست کے دوران ہائی اسپیڈ ڈیزل سے 4ارب 53کروڑ روپے سے زائد بجلی پیدا کی گئی اور اس کی فی یونٹ کی قیمت ساڑھے 13روپے رہی ہے۔ درآمدی ایل این جی سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت 7روپے 47 پیسے فی یونٹ رہی۔
سی پی پی اے کے اعدادوشمار کے مطابق جولائی کے دوران 21کروڑ 55 لاکھ یونٹس سے زائد کی بجلی ضایع ہوئی تھی اور عوام کو ایک ارب 39کروڑ روپے کا جھٹکا لگایا گیا تھا اور بجلی کے نقصانات 1.73فیصد تھے جو ایک ماہ بعد اگست میں بڑھ کر 2.60فیصد تک پہنچ چکے تھے اور جولائی کے دوران بھی بجلی کی پیداوارکا انحصار فرنس آئل اور ہائی اسپیڈ ڈیزل پر رہا۔
حکومت کی جانب سے ہر بار یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بجلی کی ترسیل وتقسیم کے نظام میں بہتری لائی گئی ہے، تاہم صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ چارسال گزرنے کے باوجود بھی نہ تو انرجی مکس کو بہترکیا جاسکا ہے اور نہ ہی ترسیلی نقصانات اور لائن نقصانات کی شرح کم ہوسکی ہے۔ اس سلسلے میں موقف لینے کے لیے پاور سیکٹر کے ریگولیریٹی ادارے نیپرا کے ترجمان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو متعدد مرتبہ کوششوں کے باوجود ان سے بات نہ ہوسکی اور نمبر بند جا رہا تھا۔
بات ہورہی تھی کراچی شہرکی۔ اس پرکسی ادارے کی تحقیق کی ضرورت نہیں اس لیے کہ چلتے پھرتے گٹر بہتے،کوڑے کرکٹ کے ڈھیر نظر آتے ہیں، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے لوگ گزرتے ہیں، ہفتوں علاقوں میں پانی کی ترسیل نہیں ہوتی، لوڈ شیڈنگ آٹھ سے بارہ گھنٹے معمول کا ہے، شہر میں ٹریفک ہر وقت جام رہتا ہے، اگر یورپی ممالک میں ٹرام، سرکلر ٹرین اور ڈبل ڈیکر بسیں چل سکتی ہیں تو پھرکراچی میں کیوں نہیں؟ بائی پاس، انڈرپاس تعمیر ہوتے جارہے ہیں اور رش بھی بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ بسیں سڑکوں سے غائب ہیں۔
آئی جی ٹر یفک پولیس کہتے ہیں کہ کراچی میں روزانہ ڈھائی سوگاڑیاں رجسٹرڈ ہوتی ہیں۔ جس سرکلر ٹرین کی بات ہورہی ہے وہ ٹرین نہیں ہے جو ملیر، لیاقت آباد ، ناظم آباد ،گلشن اقبال بلدیہ، سائٹ وغیرہ کا چکر لگاتی تھی، یہ تو ٹھٹھہ سے کراچی تک کی ہے،اگر ہم دفاعی اخراجات کم کردیں اورآئی ایم ایف کا قرضہ نہ لیں تو یہ سب کچھ ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔
آپ کے ذہن میں سوال اٹھا ہوگا کہ کس بات کا 60 واں نمبر، اچھائی میں برائی میں یا 60 سال کا کوئی تخمینہ ہے۔ جی نہیں، دنیا کے 60 ملکوں میں پاکستان کا یہ شہرگندا اور بدترین چہرہ ہے۔ ڈھاکہ اور ممبئی کی صورتحال کراچی سے بہتر ہے، حالانکہ ڈھاکہ اور ممبئی رقبے کے لحاظ سے کراچی کے مقابلے میں زیادہ گنجان آباد ہیں یعنی کم جگہ میں زیادہ آبادی رہتی ہے پھر بھی صورتحال ہم سے بہتر ہے، جب کہ چند برس قبل کہا گیا تھا کہ کراچی دنیا کا نمبر دو شہر ہے۔
آئیے! ذرا پیچھے چلتے ہیں ۔ پاکستان جب بنا تو دفتروں میں کیکر کے کانٹوں سے کامن پن کا کام لیا جا تا تھا، مگر شہرکی تین بڑی سڑکیں لارنس روڈ، بندر روڈ اور میکلوڈ روڈ صبح سویرے پانی سے دھلتی تھیں۔ سورج طلوع ہونے سے قبل ہی سوئیپر صفائی مکمل کرلیتے تھے۔ مچھر، مکھی مارنے کے لیے گاڑیوں سے کیڑے مار ادویات کے چھڑکاؤکیے جاتے تھے۔ بیروزگاری نہ ہونے کے برابر تھی۔ نکاسی آب کی صورتحال بہتر تھی۔ چوری چکاری اور چھینا جھپٹی نہیں ہوتی تھیں۔ قتل وغارت گری تھی اور نہ ہی بھتہ خوری۔ عورتیں اور لڑکیاں آزادی سے شہر میں پھرتی تھیں اور روزمرہ کے اپنے کام انجام دیتی تھیں۔ تین روپے کا ایک ڈالر تھا۔اس سکون و امن کی زندگی میں دخل اندازی تب شروع ہوئی جب امریکی گندم کو اونٹ گاڑی پر رکھ کر بندرروڈ thank you amrica کی تختی لگا کر گاڑی کوگھمانا شروع کیا۔ یہ امداد pl 480 کے تحت تھی اورآج بھی ہے۔
شروع دن سے امریکی امداد ہی نے ہماری معیشت کو تباہ کیا۔ اب تو امریکا ہمیں ایک ڈالر دے کر 14ڈالر لے جاتا ہے ایک ڈالرکل 3روپے کا تھا اور اب 103نہیں بلکہ 105روپے کا ہے۔ آخر ایسا کیوں؟ پاکستان بنا تو تعلیم اورصحت کا بجٹ، عالمی قرضوں کے سودکا بجٹ اور دفاعی بجٹ سے زیادہ تھا اور اب آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دفاعی بجٹ کل بجٹ کا دوتہائی ہوگیا ہے۔ کل سو نا 100روپے تولہ تھا تو تنخواہیں کم ازکم 65 روپے ہوا کرتی تھی اور آج سونا 53 ہزار رو پے تولہ ہے تو تنخواہ 15ہزار روپے کا اعلان ہوا ہے مگر 90 فیصد مزدوروں کی تنخواہیں 6 ہزار روپے سے 12ہزار روپے سے زیادہ نہیں۔ جب کہ سابق سوشلسٹ ممالک میں چالیس چالیس سال تک روز مرہ کی اشیاء خورو نوش کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔آج بھی کیوبا اور سوشلسٹ کوریا میں اشیاء خورونوش دنیا میں سب سے سستی ہیں۔ اس لیے کہ وہاں سر مایہ داری اور جاگیر داری نہیں ہے۔
پاکستان میں بھی کبھی بجلی کی لوڈشیڈنگ کبھی نہیں ہوئی تھی۔ جب سے بجلی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حوالے کی گئی اور فرنس آئل سے بجلی پیدا کی جانے لگی تب سے نرخوں میں اضافہ ہوا ہے اور لوڈشیڈنگ بھی ہورہی ہے۔ بجلی کو سورج، ہوا اور پانی سے ماحول دوست طریقوں سے حاصل کیا جائے تو نرخوں میں کمی ہوگی اور لوڈشیڈنگ بھی نہیں ہوگی۔ صرف گزشتہ اگست کے ایک ماہ میں عوام کو دو ارب روپے کا نقصان ہوا۔ بجلی کی ناقص ترسیلی نظام کی وجہ سے عوام کو ایک ماہ کے دوران 2 ارب 14کروڑکا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔
اگست کے مہینے میں 33 کروڑ یونٹس (فیکٹری مالکان کی جانب سے) چوری اور لائن لاسزکی نذر ہوگئے۔ دستیاب اعداد وشمارکے مطابق اگست کے مہینے میں 12ارب 75کروڑ 43لاکھ یونٹس پیدا کیے گئے اور فی یو نٹ کی قیمت 4 روپے 49 پیسے رہی۔ ناقص ترسیلی نظام کے باعث 33 کروڑ سے زائد یونٹس ضایع ہوئے جن کا بوجھ بھی عوام کو برداشت کر نا پڑا۔ صرف ایک ماہ کے دوران نقصان کی وجہ سے عوام کو اربوں رو پے کا دھچکا لگا دیا گیا۔ تقسیم کارکمپنیوں کی جانب سے جو بجلی عوام کو فراہم کی گئی وہ مہنگے ذرایع سے پیدا کی گئی۔
ماہ اگست کے دوران فرنس آئل سے 29 فیصد بجلی پیدا کی گئی اور فرنس آئل سے عوام کو 29ارب 32کروڑ روپے کی بجلی فراہم کی گئی۔ فرنس آئل سے پیدا ہونے والی بجلی کی فی یونٹ کی قیمت 9 رو پے 39 پیسے رہی۔ اگست کے دوران ہائی اسپیڈ ڈیزل سے 4ارب 53کروڑ روپے سے زائد بجلی پیدا کی گئی اور اس کی فی یونٹ کی قیمت ساڑھے 13روپے رہی ہے۔ درآمدی ایل این جی سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت 7روپے 47 پیسے فی یونٹ رہی۔
سی پی پی اے کے اعدادوشمار کے مطابق جولائی کے دوران 21کروڑ 55 لاکھ یونٹس سے زائد کی بجلی ضایع ہوئی تھی اور عوام کو ایک ارب 39کروڑ روپے کا جھٹکا لگایا گیا تھا اور بجلی کے نقصانات 1.73فیصد تھے جو ایک ماہ بعد اگست میں بڑھ کر 2.60فیصد تک پہنچ چکے تھے اور جولائی کے دوران بھی بجلی کی پیداوارکا انحصار فرنس آئل اور ہائی اسپیڈ ڈیزل پر رہا۔
حکومت کی جانب سے ہر بار یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بجلی کی ترسیل وتقسیم کے نظام میں بہتری لائی گئی ہے، تاہم صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ چارسال گزرنے کے باوجود بھی نہ تو انرجی مکس کو بہترکیا جاسکا ہے اور نہ ہی ترسیلی نقصانات اور لائن نقصانات کی شرح کم ہوسکی ہے۔ اس سلسلے میں موقف لینے کے لیے پاور سیکٹر کے ریگولیریٹی ادارے نیپرا کے ترجمان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو متعدد مرتبہ کوششوں کے باوجود ان سے بات نہ ہوسکی اور نمبر بند جا رہا تھا۔
بات ہورہی تھی کراچی شہرکی۔ اس پرکسی ادارے کی تحقیق کی ضرورت نہیں اس لیے کہ چلتے پھرتے گٹر بہتے،کوڑے کرکٹ کے ڈھیر نظر آتے ہیں، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے لوگ گزرتے ہیں، ہفتوں علاقوں میں پانی کی ترسیل نہیں ہوتی، لوڈ شیڈنگ آٹھ سے بارہ گھنٹے معمول کا ہے، شہر میں ٹریفک ہر وقت جام رہتا ہے، اگر یورپی ممالک میں ٹرام، سرکلر ٹرین اور ڈبل ڈیکر بسیں چل سکتی ہیں تو پھرکراچی میں کیوں نہیں؟ بائی پاس، انڈرپاس تعمیر ہوتے جارہے ہیں اور رش بھی بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ بسیں سڑکوں سے غائب ہیں۔
آئی جی ٹر یفک پولیس کہتے ہیں کہ کراچی میں روزانہ ڈھائی سوگاڑیاں رجسٹرڈ ہوتی ہیں۔ جس سرکلر ٹرین کی بات ہورہی ہے وہ ٹرین نہیں ہے جو ملیر، لیاقت آباد ، ناظم آباد ،گلشن اقبال بلدیہ، سائٹ وغیرہ کا چکر لگاتی تھی، یہ تو ٹھٹھہ سے کراچی تک کی ہے،اگر ہم دفاعی اخراجات کم کردیں اورآئی ایم ایف کا قرضہ نہ لیں تو یہ سب کچھ ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔