عقیدہ ریاست اور تہذیب

لازمی اور بنیادی اس لیے کہ وہ انسانی نفسیات کا ازلی اور فطری تقاضوں کا جواب ہیں۔

ہمارے معاشرے میں انتہا پسندی نے علمی سطح پر اور بحیثیت مجموعی، دوسری باتوں کے علاوہ ایک خاص قسم کے دہرے ردِ عمل کو جنم دیا، جسے انتہا پسندانہ رویوں کے باعث بعض افراد کے اندر مذہب سے عملی دوری، لیکن ''مذہب'' سے عقیدت اور وابستگی کی روش کہا جاسکتا ہے۔ یہاں تک ہمارے معاشرے کی یہی دہری کیفیت جس نے اس میں مذاہب اور مذہبی فرقوں کے سلسلے میں ہم آہنگی اور کشادہ دِلی کی عام روش کو جنم دیا تھا، ہماری تہذیب کے ارتقاء کا ایک پتھر بن گیا۔ مذہب، ریاست اور تہذیب انسانی معاشرے کی تنظیم کے تین لازمی اور بنیادی جزو ہیں۔

لازمی اور بنیادی اس لیے کہ وہ انسانی نفسیات کا ازلی اور فطری تقاضوں کا جواب ہیں۔ انسان کو قطعی حیوانیت کی سطح سے انسانیت کی بلند ترین سطح تک اپنے وجود کی سلامتی کی فکر رہتی ہے۔ وہ اَن دیکھے خوف کا، یعنی لاشعور میں چھپا ہوا یا (دوسرے حیوان) انسان سے خوف اور خود اپنے اندر (درد، بھوک اور جنس وغیرہ) کے خوف کا شکار رہتا ہے۔ ان تینوں طرح کے خطرات سے بچنے کے لیے وہ ایک بہت بڑی پناہ گاہ تلاش کرتا ہے، جسے وہ معاشرے کا نام دیتا ہے۔ اپنی اس وسیع پناہ گاہ میں وہ اِن تین خاص خطرات سے بچنے کے لیے تین طرح کے خول یا غلاف تیار کرتا ہے۔ اَن دیکھے خوف سے بچنے کے لیے عقیدے اور نظریے کا خول، دوسرے انسانوں سے بچنے کے لیے ریاست (حکومت اور سرکار) کا خول اور اپنے نفس یا حیوانی فطرت سے بچنے یا اس کی تشفی کے لیے تہذیب (ثقافت وغیرہ) کا خول۔

مذہب اور ریاست کے شعبوں سے متعلق لوگ اپنے عقیدے کے مطابق ہمیشہ اپنی دنیا کو تبدیل کرنے سے بچتے ہیں اور اسے جوں کا توں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور لوگوں کے عقل کے استعمال اور اُن کی فکری آزادی کو دبائے اور روکے رکھتے ہیں۔

پھر جب عقیدہ یا ریاست، یعنی نظریہ اور طاقت کچھ زیادہ عرصہ عقل (تہذیب) کی قربت سے محروم رہتے ہیں، بلکہ اسے نچوڑ کر بزدل اور کنگال بنادیتے ہیں۔ تب اُن کے اپنے کمزور و ناتواں اور ''بے روح'' وجود کا حال یوں ہوتا ہے جیسے پرانے دیمک زدہ درخت اندر سے کھوکھلے ہوجاتے ہیں اور صرف تنے کی ظاہری بناوٹ کے سہارے جوں کے توں کھڑے رہتے ہیں اور ظاہری دکھاوے کے لیے اُن پر ہرے پتے اور ڈالیاں جھولتی نظر آتی ہیں، بالکل اسی طرح جیسے وہ تازہ اور توانا ہوں۔ اس طرح وہ سالہا سال بلکہ بعض صورتوں میں صدیوں تک جھوٹی پائیداری کی جھلک دکھاتے رہتے ہیں، لیکن وہ کمزور، بے مقصد محض رسم و رواج، تجہیز و تکفین اور اداروں کے لمبے چوڑے انتظام میں پھنسے رہتے ہیں اور اس طرح وہ پورے معاشرے کو ایک خاص دائرے تک محدود رکھتے ہیں۔


عقیدے اور ریاست کے یوں یکجا ہونے پر سبقت یا فوقیت دونوں میں سے کسی کو بھی حاصل ہو، اس کے نتیجے میں محض ذہنی حجت اور اقتدار پرستی جنم لیتی ہے۔ اس میں طاقت مل جل کر حکمران اور مذہبی افراد کی صورت میں ایک آستانے پر جمع ہوجاتے ہیں۔ ان کے خاص نظریے کی بنیاد پر تمام خواہشات و جذبات مردہ ہوجاتے ہیں۔ زندگی کے پاس دینے کے لیے، بعد ازاں صرف دو نکتے رہ جاتے ہیں، حاکم اور محکوم، امیر اور غریب۔ جس جگہ بھی ان دونوں کی بادشاہت ہے، ذہن سے کائناتی یا فکری مطالعے کی لگن ختم ہوجاتی ہے اور تمام امنگیں دم توڑ جاتی ہیں۔ کیونکہ کائنات کے ممکنہ آسان اور مستند معنی 'دنیا اور آخرت اور علم کے معنی 'اِلہامی کتاب' اور آدرش(مثالی) کے معنی ''روح کی نجات'' کے رہ جاتے ہیں۔

مطلب یہ کہ اس صورتِ حال میں انسان اپنے وجود سے بلند اور اپنی حدود و قیود سے باہر نہ تو بڑھ سکتا ہے نہ نکل سکتا ہے۔ عقیدے اور ریاست کے اس ذہنی تعطل کے باعث آخرکار ریاست کا جبرواستبداد بڑھتا اور مضبوط ترہوتا جاتا ہے، یعنی طاقت اور محض طاقت، اور وہ پھر عقیدے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے، چاہے عقیدے میں اپنی برتری کی تصدیق میں کتنی ہی مبالغہ آرائی سے کام کیوں نہ لے۔ نتیجتاً اس اتحاد میں عقیدہ اور ریاست ایک دوسرے کے زوال کا سبب بن جاتے ہیں اور معاشرے میں اپنے فرائضِ منصبی اور بنیادی افعال پورا کرنے کی اہلیت کھو دیتے ہیں۔ نہ فرد کو ریاست میں جان و مال اور عزت کے تحفظ کی ضمانت ملتی ہے اور نہ ہی عقیدہ انسان کے لیے امید اور خوف کے مؤثر وسیلے یا تسلی و تقویت کا کوئی کام دے سکتا ہے۔ جب کسی معاشرے میں عقیدہ اور ریاست اپنے جمود، تشدد اور تنگ نظری کے اس نکتے پر پہنچ جاتے ہیں، تو معاشرہ بحرانی کیفیت سے دوچار ہوجاتا ہے۔

عقیدہ اور طاقت جامد ہوجاتے ہیں اور جامد ہی رہنا چاہتے ہیں، لیکن عقل وجذبات اور ولولہ متحرک ہیں اور آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ان کے آگے بند نہیں باندھا جاسکتا۔ اس گھٹن زدہ ماحول کے باعث حساس ذہنوں میں کسی خوشگوار مقام کا خواب جلوہ گر ہوتا ہے، جب کہ عام آدمی بیزاری اور انتقام کے جوش میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں آگ کے بھڑک اُٹھنے اور دھماکے کو روکنا مشکل ہوتا ہے۔ انسانی فطرت کی نیکی کا اصول کسی بہتر مقام کے خواب پانے اور اپنانے کا یہی احساس ہے، جو اس کی اچھائی کی علامت اورکسی موجود جہنم یا بری جگہ کے خلاف اس کا یہی انتقامی جوش ہے۔ صاف اور سچا جوش عظیم انقلاب کو جنم دیتا ہے۔ جدید اور اعلیٰ حسن کا یہ سچا اور خود فروشانہ جذبہ قوموں، ملکوں اور معاشروں کے بحرانی دور میں ہی پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ بحران ہی حالات کی کایا پلٹ میں قدرتی ذریعہ بنتے ہیں اور بحرانوں میں ہی قوموں کی قسمت کے بنیادی سوالات اُبھرتے ہیں اور اُن کے حل کے لیے زمین ہموار ہوتی ہے۔

بحرانوں میں کتنے ہی بے جان اور غیر ضروری ادارے ختم ہوجاتے ہیں، جو تاریخ یا روایات کے سبب معاشرے کے وجود سے جونک کی طرح چپکے ہوتے ہیں۔ جب کہ عام حالات میں وہ آسانی سے ختم نہیں ہوتے۔ بحرانی دور کا کوئی حادثہ یا ہنگامہ حساس ذہنوں کو نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ غیر محفوظ حالات اور عدم تحفظ کے دور میں عظیم انقلابی قوتیں ایک جھٹکے سے بیدار ہوجاتی ہیں۔ فکری ذہنوں کے مالک ، طاقتور رہنما، دانشور، ادیب اور شاعر خطرے کی فضا کو محسوس کرلیتے ہیں کیونکہ اُن کے ذہن بڑے اور دقیق تجربات کے باعث پختہ ہوتے ہیں اور اُنہیں نئی فکر و سوچ اور معیار ملتا ہے۔ وہ زندگی کے بارے میں زیادہ آزاد اور قابل اعتبار فیصلوں تک پہنچتے ہیں۔ اس کے برعکس مکمل طور پرگھٹن زدہ ساکن ماحول میں ذاتی زندگی کے مفادات اور خوشیاں تخلیقی ذہنوں کو گھن لگا کر کمزور کردیتی ہیں اور اُن کی عظمت چھن جاتی ہے۔ اس صورت ِ حال میں محض خام خیالی، خود غرض اور نااہل لوگ آگے بڑھ آتے ہیں اور اُن کے نزدیک فن، فکر اور ادب محض ایک تجارت اور سوداگری ہوتی ہے کیونکہ وہ ہوتے ہی تاجر اور سوداگر ہیں۔ ایسے لوگ بغیر کسی صعوبت اور دُکھ و تکلیف اُٹھائے اپنی اہلیت سے کہیں زیادہ بڑے ذاتی فائدے حاصل کرلیتے ہیں کیونکہ اُن کے اندر آگ کے بھڑک اُٹھنے کی قدرت ہی نہیں ہوتی، نہ ہی اُن میں تحریر وبیان کی لیاقت ہوتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کسی بحرانی صورتِ حال میں ایسے سطحی اور چھوٹے لوگ تنکے کی طرح حقیر بن جاتے ہیں۔

بحرانوں میں یگانہ صفات کے مالک اور عظیم لوگ ہی مٹتی ہوئی زندگی میں جان ڈال دیتے ہیں۔ اُن کے وجود سے ہی تاریکی کے اُن ادوار کوعظیم شان و شوکت نصیب ہوتی ہے اور یہی شان و شوکت قرض کی صورت میں آیندہ نسلوں کو منتقل ہوجاتی ہے۔ ماضی کا حال کے کھاتے میں پیمائش سے زیادہ یہ قرض کبھی کم نہیں ہوتا، ہمیشہ ہی بڑھتا رہتا ہے۔ ایک سدا جاری رہنے والا سلسلہ، ایک سدا چلنے والا راستہ، اسی یادداشت کو تاریخ کہتے ہیں۔ اس راستے سے انسانی ذہن کو اپنے شعور کا احساس ہوتا ہے۔ اسی راستے سے ہی انسان اپنی عظمت اور جوہر سے آگاہ ہوتا ہے۔ انسان تہذیب کے راستے میں فکر و آگہی کی مدد سے آگے بڑھتا ہوا، تمام اشیاء کا ازلی مرکز، دُکھ سہنے والا، آگے نگاہ رکھنے والا، جدوجہد کرنے والامحنت کش انسان۔ آج بھی وہ ایسا ہی ہے جیسا کل تھا، اور وہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔ یہ حقیقت ہمیں یاد رکھنی چاہیے۔
Load Next Story