افغانستان میں امریکی آپریشن

پکتیا میں کیے گئے ڈرون حملے میں سربراہ جماعت الاحرار عمر خالد خراسانی زخمی ہو گئے تھے

پکتیا میں کیے گئے ڈرون حملے میں سربراہ جماعت الاحرار عمر خالد خراسانی زخمی ہو گئے تھے۔ فوٹو: فائل

افغانستان میں آپریشن کا طبل بجنے کے امریکی آثار و خدشات نے ہولناک صورت اختیار کرلی ہے، ٹرمپ کی جنگی حکمت عملی اور نئی افغان وار پالیسی پر عملدرآمد کا حکم ملتے ہی فورسزنے دہشتگردوں اور طالبان سمیت داعش کے خاتمہ کے لیے ڈرون حملے ایک بار پھر پوری شدت سے شروع کردیے ہیں، آئی ایس پی آر کے مطابق افغانستان میں آپریشن پاکستان کو اطلاع دے کر شروع کیا گیا ہے ، پاک فوج الرٹ ہے، ترجمان پاک فوج نے مزید کہا کہ پاک افغان سرحد پر کوئی فضائی خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی کرم ایجنسی میں کوئی ڈرون حملہ ہوا ہے،ایسی اطلاعات غلط ہیں۔

بلاشبہ خطے میں افغان جنگ کا نیا خونیں باب رقم ہونے جارہا ہے ، لہٰذا پاک افغان سرحد پر بھی صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی آنے کا خدشہ ہے۔ امریکا نے پاک افغان سرحد پر گزشتہ 24 گھنٹوں میں تین ڈرون حملے کیے جن میں 31 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو ئے، میڈیا کے مطابق ان حملوں میں حقانی نیٹ ورک کے اہم کمانڈر اور ان کے ساتھی ہلاک ہوئے ہیں،ایک نجی ٹی وی نے ذرایع کے حوالے سے بتایا کہ افغان علاقے پکتیا میں کیے گئے ڈرون حملے میں سربراہ جماعت الاحرار عمر خالد خراسانی عرف عبدالولی زخمی ہو گئے جنھیں شدید زخمی حالت میں نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے، مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں عام لوگ بھی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں،این این آئی کے مطابق تیسرے حملے میں افغان طالبان کے اہم کمانڈر سنگین علی شاہ سمیت 5 دہشتگرد مارے گئے۔

ذرایع کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں طالبان کے اہم کمانڈر ابوبکر افغانی سید کریمی اپنے متعدد ساتھیوں سمیت ہلاک ہوگئے تاہم اس حوالے سے طالبان اور دیگر ذرایع سے تصدیق نہیں ہوسکی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں دو روز کے دوران مسلسل تین ڈرون حملے ہوئے اور اْن میں اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ جواباً طالبان کے فوری حملوں میں صوبائی پولیس چیف اور 46 اہلکاروں سمیت 72 افراد ہلاک اور 250 زخمی ہوگئے، افغان وزارت داخلہ کے مطابق صوبہ پکتیا کے دارالحکومت گردیز کے ایک پولیس ٹریننگ سینٹر پر کیے گئے حملے میں 41 افراد ہلاک ہوئے جن میں 21 پولیس اہلکار اور 20 شہری شامل ہیں، کابل حکومت نے اسے رواں برس کا سب سے بڑا دہشت گردانہ حملہ قرار دیا ہے۔ادھر امریکی جنرلز اور کمانڈروں کا دعوی ٰہے کہ افغان جنگ میں فتح کا دعوی نہیں کرتے مگر جنگ ختم ہوجائیگی اس کا یقین ہے، تفصیلات کے مطابق دوسرا حملہ غزنی میں کیا گیا جس میں مزید 25 سیکیورٹی اہلکار اور 5 شہری ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ پاکستان نے افغانستان میں دہشت گرد حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے جاں بحق افراد کے لواحقین، افغان حکومت اور عوام سے دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے۔


دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے ایک بیان میں ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کا اعادہ کرتے ہوئے دہشت گردی کی اس لعنت کے خاتمے کے لیے کوششیں اور تعاون جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔ آرمی چیف نے کہا ہے افغانستان اور پاکستان ملکر مشترکہ دشمن دہشتگردوں کو شکست دینگے،آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پکتیا میں پولیس ہیڈکوارٹرز پر خود کش حملے کی شدید مذمت کی اور دہشتگرد حملے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہارکیا ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق انھوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف بھرپور عزم سے لڑنے والے افغان ہمارے بہادر بھائی ہیں، امریکی افواج کی بروقت اطلاع پر افغان سرحد کے ساتھ پاک فوج چوکس ہے، یہ علاقے کرم ایجنسی کی دوسری طرف واقع ہیں، وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ڈرون حملے زیرو لائن پر ہوئے ہیں ۔ اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ پاک افغان سرحد پر منڈلانے والے خطرات نظر انداز نہیں کیے جاسکتے، ملکی سالمیت اور قومی یکجہتی کا تقاضہ ہے کہ اس جنگ کے شراروں اور شعلوں سے مادر وطن کو ہر قیمت پر محفوظ رکھا جائے، پاک فوج نے خطے میں امن کے قیام افغان صورتحال میں بہتری اور دہشتگردی کے خلاف بے پناہ قربانیاں دی ہیں، اب وقت گلے شکوے اور الزام تراشی کا نہیں، پاک افغان تعلقات میں بہتری کی برف ٹوٹی ہے، افغانستان اور پاکستان کو امن واستحکام کے ثمرات دہشتگردی کے خلاف مشترکہ کوششوں سے ہی حاصل ہونگے۔

صدر اشرف غنی اور افغان طالبان کے مابین شدید کشمکش ، چپقلش ، خونریزی ، بیگناہ افغانوں کی ہلاکت درد انگیز حقائق ہیں، خطے میں امریکی آپریشن ''بل ان دی چائنا شاپ'' کے مصداق ہے، ٹرمپ کی شعلہ نوائی ان کی افغان پالیسی کے جلو میں پاک افغان سرحد تک آئی ہے، تاہم خوش آیند بات پاک امریکا اشتراک عمل اور دہشتگردوں کے خلاف باہمی بروقت انٹیلی جنس پر اتفاق رائے کا پیدا ہوجانا ہے، یہ بریک تھرو برقرار رہا تو دہشتگردوں کو شکست فاش ہوگی، البتہ کشیدگی کا خاتمہ اولین نکتہ ہے،اس کے لیے پاک افغان سفارتکاری فعال بنائی جائے، افغانستان میں قیام امن کے لیے قائم چار ملکی رابطہ گروپ نے بھی ''مفاہمتی عمل کے فارمولے '' کو دوبارہ بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، چار ملکی رابطہ کار گروپ کا اجلاس مسقط کے دارالحکومت عمان میں ہوا، اجلاس میں افغان مفاہمتی عمل کی بحالی کے تمام پہلوؤں کاجائزہ لیا گیا ہے ۔ اس اجلاس میں پاکستان، چین ، امریکا اور افغانستان کے حکام شریک ہوئے ہیں۔ یہ علامتی نشست تھی تاکہ گروپ کو فعال بنایا جائے۔مگر صورتحال بدستور تیزی سے بگڑ رہی ہے، امریکی سینیٹ میں خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر جان مکین نے خبردار کیا ہے کہ صدر ٹرمپ کا کئی دیگر ممالک کے خلاف اختیار کردہ دھمکی آمیز رویہ امریکا کو 'تیسری عالمی جنگ' کی جانب دھکیل سکتا ہے۔

تاہم یہ صائب پیش رفت ہوئی ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف اور وزیر داخلہ احسن اقبال نے امریکا جاکر دہشتگردی اور کالعدم تنظیموں کے بارے میں ٹرمپ حکام اور امریکی میڈیا سے دو ٹوک بات کی اور حقائق پر سے پردہ ہٹایا، امریکا پر زور دیا کہ وہ پاکستان کا مدعا سنے اور اسے سمجھے، چنانچہ حکمرانوں کو اب پاک امریکا اشتراک عمل کے سیاق و سباق میں غیر معمولی دانش مندی،عملیت پسندی، چوکسی، اور دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے معروضی صورتحال کو سنبھالنا ہے، چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا ہے کہ ایشیائی خطے کو مغربی سامراجی ذہنیت کی جانب سے عدم استحکام اور انتشارکی جانب دھکیلاجا رہا ہے کیونکہ ایشیا کی ترقی سے مغربی سامراجیت کا تسلط ختم ہوتا نظرآرہا ہے، یہ بات انھوں نے روس کے شہرسینٹ پٹرس برگ میں137ویںبین الپارلیمانی تنظیم کے اجلاس کے موقعے پر پارلیمانی وفود سے باتیں کرتے ہوئے کہی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغان جنگ امن پر منتج ہو اور خطے میں کوئی تباہی نہ آئے۔
Load Next Story