لوگ پوچھتے ہیں
وطن عزیزکا تشخص بہتر بنانے پر توجہ دی جائے
KARACHI:
لوگ پوچھتے ہیں کہ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا انجام کیا ہوگا ؟ کیا جمہوریت واقعی خطرے میں ہے؟ یہ جو عوام میں افقی اور عمودی تقسیم مسلسل گہری ہورہی ہے، کیا گل کھلائے گی؟ کیا حالیہ تناؤ کسی بڑے بحران کا سبب بننے تو نہیں جا رہا ؟
دراصل ملک میں اقتدار و اختیار کی رسہ کشی اب کثیرالجہتی ہوچکی ہے۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا غیرسیاسی ریاستی قوتیں، کوئی بھی آئین کے دائرے کے اندر رہ کر کام کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ بلکہ ہر ادارہ دوسرے ادارے پر حاوی آنے اور اس کے اختیارات سلب کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتا ہے۔ حکمران اشرافیہ کی چومکھی لڑائی کے نتیجے میں ملک کی معیشت زبوں حالی اور سماجی ڈھانچہ افتراق و انتشار میں مبتلا ہوکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔ نتیجتاً نظام حکمرانی بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور نظم و نسق مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
ہمارے سیاسی رہنما اور اکابرین یہ بھول چکے ہیں کہ اقوام کا تشخص تہذیبی نرگسیت نہیں، بلکہ وہ صحیفہ ہوتا ہے، جسے آئین کہتے ہیں ۔ انھیں شاید یہ بھی نہیں معلوم کہ قانون سازی اور منصوبہ بندی کا واحد ادارہ پارلیمان ہے۔ جسے نظر انداز کرنے سے جمہوری سیاست ممکن نہیں ہوتی۔ وہ اس حقیقت سے بھی نابلد ہیں کہ سیاست کا مقصد صرف اقتدار کا حصول نہیں، بلکہ عوام کو فکری، نظریاتی اور اصولی بنیادوں پر منظم کرنا بھی ہے۔ پاکستان میں آج سیاست مراعات یافتہ طبقہ کی رکھیل بن چکی ہے۔ وہ سیاستدان جو آج ملک کے مقدر کا ستارہ بنے ہوئے ہیں، انھیں اس سے غرض نہیں کہ عوام کوکن مسائل کا سامنا ہے۔ وہ اپنی دکانیں چلانے کی خاطر ہر غیر جمہوری اقدام کو قبول کرنے پر آمادہ رہتے ہیں ۔
جب سیاسی جماعتوں کے درمیان نظریاتی و فکری تقسیم ناپید ہوچکی ہو۔ جب قومی دھارے(Main Stream)کی جماعتوں کے درمیان فکری اور نظریاتی فرق مٹ چکا ہو۔ جب ایک جماعت کا لیڈر اپنا بوریا بستر لپیٹ کر دوسری اور دوسری سے تیسری جماعت میں چلے جانے کو بالکل ایسا سمجھتا ہو، جیسے کوئی مسافر ٹرین کی ایک بوگی سے دوسری بوگی میں چلا جائے۔ ایسے ماحول میں وہ سیاسی کارکن جو فکری اور نظریاتی طورپر اپنا ایک انفرادی تشخص رکھتے ہیں، اجنبیت کا شکار ہوکر گوشہ نشینی کو ترجیح دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ سیاست اب ہر جائز اور ناجائز طریقے سے اقتدار و اختیار پر قبضے کا نام بن کر رہ گئی ہے۔
ستر برس گذرگئے، یہ طے نہیں ہوسکا کہ اس ملک کے قیام کا مقصد کیا تھا ؟ اس کی سمت اور طرز حکمرانی کیا ہوگی ؟ ریاست کے منطقی جواز کے حوالے سے ابہام آج بھی جاری ہے۔ جس کے نتیجے میں سیاسی، سماجی اور ثقافتی انتشار پیچیدہ تر ہو چکا ہے۔ اداروں اور سیاستدانوں کے درمیان بداعتمادی کی فضا پہلے دن ہی سے چلی آرہی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ریاست کے منطقی جواز اور نظم حکمرانی کے حوالے سے سیاستدانوں اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان اختلاف روز اول ہی سے پیدا ہوگیا تھا۔ یوں ریاست کے مختلف ستونوں کے درمیان عدم اتفاق اور عدم اعتماد نے مستحکم حکمرانی کے تصور کو بری طرح متاثر کردیا ہے۔ نتیجتاً منتخب سویلین حکومتیں ہوں یا آمریتیں، کوئی بھی ملک میں اچھی حکمرانی کی مثال قائم نہیں کرسکیں۔ اداروں کے درمیان اقتدار و اختیار کی کشمکش نے بد ترین حکمرانی کو جنم دیا۔ جس کے نتیجے میں کرپشن اور بدعنوانی عام ہوئی اور قرضوں کے بوجھ میں بے بہا اضافہ ہوا ۔ جہاں تک جمہوریت اور جمہوری اداروں کی حالت زار کا تعلق ہے، تویہ زدپذیر ی Vulnerabilityکی آخری حدود کو چھو رہے ہیں۔
اب اگر موجودہ سیاسی کشمکش پر نظر ڈالیں، تو ہمیں پورے عمل میں ان گنت اسقام نظر آئیں گے۔ ہمارے بہت سے دوست اس غلط فہمی(Illusion)میں مبتلا ہیں کہ مسلم لیگ ن کی قیادت جمہوریت کی بقا کی لڑائی لڑ رہی ہے اور ریاست کے طاقتور ستونوں سے نبرد آزما ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں جو لڑائی ہورہی ہے، وہ دراصل جمہوریت کی بقا کے بجائے پالیسی سازی اور اختیارات پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ نے گو کہ ذاتی مفاد ہی میں سہی، پالیسی سازی پر اسٹبلشمنٹ کے کنٹرول کو چیلنج کرکے سیاسی عمل کو تقویت دی ہے۔ اس حوالے سے میاں صاحب کو دیگر سیاسی رہنماؤں پر فوقیت دی جاسکتی ہے۔
لیکن اگر جمہوریت اور وفاقیت کے مستقبل، سیاسی عمل کی بقا اور فکری کثرتیت کے حوالے سے ان کی جماعت کے کردار کا جائزہ لیا جائے، تو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ ان کی جماعت بیشتر بین الاقوامی، علاقائی اور قومی معاملات میں شدید کنفیوژن میں مبتلا نظر آتی ہے، جس کے جا بجا شواہد موجود ہیں۔ جب کچھ حلقوں نے ان کے قائد پر انگشت نمائی کی، تو ان کے داماد کیپٹن صفدر نے قومی اسمبلی میں جو کیا وہ جمہوریت کی کوئی خدمت نہیں ہے۔ بلکہ یہ اشتعال انگیزی پر مبنی ایک ایسی تقریر تھی، جس نے بانی پاکستان کی روح کو تڑپا کر رکھ دیا ہوگا۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مذہبی شدت پسندی کے بڑھاؤے میں کسی کا بھی کردار کم نہیں ہے۔
گزشتہ دنوں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ''گھر کی درستی '' کی بات کی، تو ان کے موقف کا ادراک کیے بغیر دیگر جماعتوں کوتو چھوڑئیے ، خود ان کی اپنی جماعت کے بعض رہنماؤں نے ان پر کڑی تنقید کا سلسلہ شروع کردیا ۔ جس سے یہ اندازہ ہوا کہ ایک طبقہ نہیں چاہتا کہ عقل و دانش پر مبنی کوئی بات کی جائے اور وطن عزیزکا تشخص بہتر بنانے پر توجہ دی جائے ۔ پھر جس وقت خواجہ آصف امریکیوں کو یقین دلا رہے تھے کہ پاکستان ایک وسیع القلب آزاد فکر ملک ہے، اس وقت مذہبی اقلیتوں کے خلاف باتیں فرمائی جا رہی تھیں۔ کیا اس نوعیت کی تقاریر عالمی برادری کے ذہنوں میں بیٹھی اس غلط فہمی کو دور کر سکیں گی کہ پاکستان مذہبی شدت پسندی کی محفوظ پناہ گاہ ہے؟مگر اس سوال پر غور کرنے پر کوئی آمادہ نہیں ہے۔
اب جہاں تک جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مضبوط اور مستحکم بنانے کا معاملہ ہے، تو خرابی بسیار کے ذمے دار صرف غیر سیاسی قوتیں نہیں ہیں، بلکہ سیاسی جماعتیں بھی اپنی کوتاہ بینی، موقع پرستی اور فکری انتشار کے باعث اتنی ہی ذمے دار ہیں۔ یہ بھی طے ہے کہ جمہوریت اس وقت تک مضبوط اور مستحکم نہیں ہوسکتی، جبتک کہ پارلیمان خود کو Assert کرتے ہوئے مختلف ریاستی اداروں کو آئینی محدودات کے اندر رہنے پر مجبور نہیں کرتی۔ دنیا بھر میں پارلیمان کو مضبوط بنانے میں سیاسی جماعتوں (حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں) کا کلیدی کردار ہوتا ہے، مگر ہمارے یہاں حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں ہی یہ کردار ادا کرنے سے گریزاں رہتی ہیں۔ جس کی وجہ سے پارلیمان کمزور اور مفلوج قسم کا نمائشی ادارہ بن کر رہ گئی ہے۔
لہٰذا لوگوں کایہ سوال کہ کیا پاکستان میں جمہوریت واقعی خطرے میں ہے؟ اس کے جواب میں یہی کہاجاسکتا ہے کہ پاکستان میںجمہوریت بے شک خطرات میں گھری ہوئی ہے، مگر یہ خطرات یک طرفہ نہیں ہیں بلکہ کثیرالجہتی ہیں۔ صرف غیر جمہوری قوتوں اور ریاست کے بعض اداروں کو ان خطرات کا ذمے دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، بلکہ سیاسی جماعتوں میں موجود فیوڈل ذہنیت ، موروثیت کا کلچر اور کوتاہ بین فکری رجحانات بھی جمہوری عمل کے تسلسل میں بڑی رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ان کے غلط فیصلے اورغلط اقدامات غیر جمہوری قوتوںاور ریاستی اداروں کو ماورائے آئین اقدامات پر اکسانے کاذریعہ بن رہے ہیں۔ اس لیے اچھی حکمرانی کے بغیر تمام دعوے محض جھوٹ کا پلندہ ہیں،خواہ کسی بھی جانب سے کیے جائیں۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا انجام کیا ہوگا ؟ کیا جمہوریت واقعی خطرے میں ہے؟ یہ جو عوام میں افقی اور عمودی تقسیم مسلسل گہری ہورہی ہے، کیا گل کھلائے گی؟ کیا حالیہ تناؤ کسی بڑے بحران کا سبب بننے تو نہیں جا رہا ؟
دراصل ملک میں اقتدار و اختیار کی رسہ کشی اب کثیرالجہتی ہوچکی ہے۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا غیرسیاسی ریاستی قوتیں، کوئی بھی آئین کے دائرے کے اندر رہ کر کام کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ بلکہ ہر ادارہ دوسرے ادارے پر حاوی آنے اور اس کے اختیارات سلب کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتا ہے۔ حکمران اشرافیہ کی چومکھی لڑائی کے نتیجے میں ملک کی معیشت زبوں حالی اور سماجی ڈھانچہ افتراق و انتشار میں مبتلا ہوکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔ نتیجتاً نظام حکمرانی بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور نظم و نسق مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
ہمارے سیاسی رہنما اور اکابرین یہ بھول چکے ہیں کہ اقوام کا تشخص تہذیبی نرگسیت نہیں، بلکہ وہ صحیفہ ہوتا ہے، جسے آئین کہتے ہیں ۔ انھیں شاید یہ بھی نہیں معلوم کہ قانون سازی اور منصوبہ بندی کا واحد ادارہ پارلیمان ہے۔ جسے نظر انداز کرنے سے جمہوری سیاست ممکن نہیں ہوتی۔ وہ اس حقیقت سے بھی نابلد ہیں کہ سیاست کا مقصد صرف اقتدار کا حصول نہیں، بلکہ عوام کو فکری، نظریاتی اور اصولی بنیادوں پر منظم کرنا بھی ہے۔ پاکستان میں آج سیاست مراعات یافتہ طبقہ کی رکھیل بن چکی ہے۔ وہ سیاستدان جو آج ملک کے مقدر کا ستارہ بنے ہوئے ہیں، انھیں اس سے غرض نہیں کہ عوام کوکن مسائل کا سامنا ہے۔ وہ اپنی دکانیں چلانے کی خاطر ہر غیر جمہوری اقدام کو قبول کرنے پر آمادہ رہتے ہیں ۔
جب سیاسی جماعتوں کے درمیان نظریاتی و فکری تقسیم ناپید ہوچکی ہو۔ جب قومی دھارے(Main Stream)کی جماعتوں کے درمیان فکری اور نظریاتی فرق مٹ چکا ہو۔ جب ایک جماعت کا لیڈر اپنا بوریا بستر لپیٹ کر دوسری اور دوسری سے تیسری جماعت میں چلے جانے کو بالکل ایسا سمجھتا ہو، جیسے کوئی مسافر ٹرین کی ایک بوگی سے دوسری بوگی میں چلا جائے۔ ایسے ماحول میں وہ سیاسی کارکن جو فکری اور نظریاتی طورپر اپنا ایک انفرادی تشخص رکھتے ہیں، اجنبیت کا شکار ہوکر گوشہ نشینی کو ترجیح دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ سیاست اب ہر جائز اور ناجائز طریقے سے اقتدار و اختیار پر قبضے کا نام بن کر رہ گئی ہے۔
ستر برس گذرگئے، یہ طے نہیں ہوسکا کہ اس ملک کے قیام کا مقصد کیا تھا ؟ اس کی سمت اور طرز حکمرانی کیا ہوگی ؟ ریاست کے منطقی جواز کے حوالے سے ابہام آج بھی جاری ہے۔ جس کے نتیجے میں سیاسی، سماجی اور ثقافتی انتشار پیچیدہ تر ہو چکا ہے۔ اداروں اور سیاستدانوں کے درمیان بداعتمادی کی فضا پہلے دن ہی سے چلی آرہی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ریاست کے منطقی جواز اور نظم حکمرانی کے حوالے سے سیاستدانوں اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان اختلاف روز اول ہی سے پیدا ہوگیا تھا۔ یوں ریاست کے مختلف ستونوں کے درمیان عدم اتفاق اور عدم اعتماد نے مستحکم حکمرانی کے تصور کو بری طرح متاثر کردیا ہے۔ نتیجتاً منتخب سویلین حکومتیں ہوں یا آمریتیں، کوئی بھی ملک میں اچھی حکمرانی کی مثال قائم نہیں کرسکیں۔ اداروں کے درمیان اقتدار و اختیار کی کشمکش نے بد ترین حکمرانی کو جنم دیا۔ جس کے نتیجے میں کرپشن اور بدعنوانی عام ہوئی اور قرضوں کے بوجھ میں بے بہا اضافہ ہوا ۔ جہاں تک جمہوریت اور جمہوری اداروں کی حالت زار کا تعلق ہے، تویہ زدپذیر ی Vulnerabilityکی آخری حدود کو چھو رہے ہیں۔
اب اگر موجودہ سیاسی کشمکش پر نظر ڈالیں، تو ہمیں پورے عمل میں ان گنت اسقام نظر آئیں گے۔ ہمارے بہت سے دوست اس غلط فہمی(Illusion)میں مبتلا ہیں کہ مسلم لیگ ن کی قیادت جمہوریت کی بقا کی لڑائی لڑ رہی ہے اور ریاست کے طاقتور ستونوں سے نبرد آزما ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں جو لڑائی ہورہی ہے، وہ دراصل جمہوریت کی بقا کے بجائے پالیسی سازی اور اختیارات پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ نے گو کہ ذاتی مفاد ہی میں سہی، پالیسی سازی پر اسٹبلشمنٹ کے کنٹرول کو چیلنج کرکے سیاسی عمل کو تقویت دی ہے۔ اس حوالے سے میاں صاحب کو دیگر سیاسی رہنماؤں پر فوقیت دی جاسکتی ہے۔
لیکن اگر جمہوریت اور وفاقیت کے مستقبل، سیاسی عمل کی بقا اور فکری کثرتیت کے حوالے سے ان کی جماعت کے کردار کا جائزہ لیا جائے، تو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ ان کی جماعت بیشتر بین الاقوامی، علاقائی اور قومی معاملات میں شدید کنفیوژن میں مبتلا نظر آتی ہے، جس کے جا بجا شواہد موجود ہیں۔ جب کچھ حلقوں نے ان کے قائد پر انگشت نمائی کی، تو ان کے داماد کیپٹن صفدر نے قومی اسمبلی میں جو کیا وہ جمہوریت کی کوئی خدمت نہیں ہے۔ بلکہ یہ اشتعال انگیزی پر مبنی ایک ایسی تقریر تھی، جس نے بانی پاکستان کی روح کو تڑپا کر رکھ دیا ہوگا۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مذہبی شدت پسندی کے بڑھاؤے میں کسی کا بھی کردار کم نہیں ہے۔
گزشتہ دنوں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ''گھر کی درستی '' کی بات کی، تو ان کے موقف کا ادراک کیے بغیر دیگر جماعتوں کوتو چھوڑئیے ، خود ان کی اپنی جماعت کے بعض رہنماؤں نے ان پر کڑی تنقید کا سلسلہ شروع کردیا ۔ جس سے یہ اندازہ ہوا کہ ایک طبقہ نہیں چاہتا کہ عقل و دانش پر مبنی کوئی بات کی جائے اور وطن عزیزکا تشخص بہتر بنانے پر توجہ دی جائے ۔ پھر جس وقت خواجہ آصف امریکیوں کو یقین دلا رہے تھے کہ پاکستان ایک وسیع القلب آزاد فکر ملک ہے، اس وقت مذہبی اقلیتوں کے خلاف باتیں فرمائی جا رہی تھیں۔ کیا اس نوعیت کی تقاریر عالمی برادری کے ذہنوں میں بیٹھی اس غلط فہمی کو دور کر سکیں گی کہ پاکستان مذہبی شدت پسندی کی محفوظ پناہ گاہ ہے؟مگر اس سوال پر غور کرنے پر کوئی آمادہ نہیں ہے۔
اب جہاں تک جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مضبوط اور مستحکم بنانے کا معاملہ ہے، تو خرابی بسیار کے ذمے دار صرف غیر سیاسی قوتیں نہیں ہیں، بلکہ سیاسی جماعتیں بھی اپنی کوتاہ بینی، موقع پرستی اور فکری انتشار کے باعث اتنی ہی ذمے دار ہیں۔ یہ بھی طے ہے کہ جمہوریت اس وقت تک مضبوط اور مستحکم نہیں ہوسکتی، جبتک کہ پارلیمان خود کو Assert کرتے ہوئے مختلف ریاستی اداروں کو آئینی محدودات کے اندر رہنے پر مجبور نہیں کرتی۔ دنیا بھر میں پارلیمان کو مضبوط بنانے میں سیاسی جماعتوں (حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں) کا کلیدی کردار ہوتا ہے، مگر ہمارے یہاں حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں ہی یہ کردار ادا کرنے سے گریزاں رہتی ہیں۔ جس کی وجہ سے پارلیمان کمزور اور مفلوج قسم کا نمائشی ادارہ بن کر رہ گئی ہے۔
لہٰذا لوگوں کایہ سوال کہ کیا پاکستان میں جمہوریت واقعی خطرے میں ہے؟ اس کے جواب میں یہی کہاجاسکتا ہے کہ پاکستان میںجمہوریت بے شک خطرات میں گھری ہوئی ہے، مگر یہ خطرات یک طرفہ نہیں ہیں بلکہ کثیرالجہتی ہیں۔ صرف غیر جمہوری قوتوں اور ریاست کے بعض اداروں کو ان خطرات کا ذمے دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، بلکہ سیاسی جماعتوں میں موجود فیوڈل ذہنیت ، موروثیت کا کلچر اور کوتاہ بین فکری رجحانات بھی جمہوری عمل کے تسلسل میں بڑی رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ان کے غلط فیصلے اورغلط اقدامات غیر جمہوری قوتوںاور ریاستی اداروں کو ماورائے آئین اقدامات پر اکسانے کاذریعہ بن رہے ہیں۔ اس لیے اچھی حکمرانی کے بغیر تمام دعوے محض جھوٹ کا پلندہ ہیں،خواہ کسی بھی جانب سے کیے جائیں۔