بلوچستان میں ادب کا جمالیاتی رنگ

بلوچستان کے اہلِ قلم اور احبابِ علم و ادب نے بھی اپنی تحریروں کے رنگ خوب بکھیرے ہیں

بلوچستان کے اہلِ قلم اور احبابِ علم و ادب نے بھی اپنی تحریروں کے رنگ خوب بکھیرے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

رنگ اس ماحول کو بہت خوبصورت بناتے ہیں۔ قدرت نے ان رنگوں میں ایسی خوبصورتی چھپائی ہے کہ یہ دیکھتے ہی من میں بس جاتے ہیں۔ رنگ جمالیاتی حُسن کا حَسین منظر پیش کرتے ہیں۔ قوسِ قزح جب آسمان پر اپنا حسین نظارہ پیش کررہی ہوتی ہے تو آسمان ان رنگوں سے مزید نکھر جاتا ہے۔ غرض ہر شئے کا اپنا ایک خوبصورت رنگ ہوتا ہے اور ہر رنگ میں ایک کردار چھپا ہوتا ہے۔ یہی کردار انسان کے اصل رنگ کی عکاسی کرتی ہے۔ انسان کالا ہو یا گورا، بوڑھا ہو یا جوان، عورت ہو یا مرد، سب اپنے اپنے کردار کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔

ادب میں بھی ہمیں بہت سے رنگ پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ادب کے کئی جمالیاتی رنگ ایسے ہیں جن کی وجہ سے ادب میں مزید نکھار پیدا ہوا ہے۔ شاعری کا رنگ ہو یا افسانے کا، تنقید کا رنگ ہو یا تحقیق کا، نثرنگاری کا رنگ ہو یا ترجمے کا، ہر رنگ کا اپنا اپنا ایک مقام ہے یہ جہاں سجتا ہے، جہاں خوبصورت دکھائی دیتا ہے؛ اور پڑھنے اور سننے والوں کو بے حد متاثر بھی کرتا ہے۔ ان سب رنگوں کی جڑیں ادب سے پیوست ہوتی ہیں، ان سب کی خوبصورتی کا رنگ آپس میں جڑے ہوئے مضبوط تعلق سے ظاہر ہوتا ہے۔

علم، ادب اور قلم کا رنگ بلوچستان میں بھی سرسبز و شاداب ہے۔ اس میں ایسے کئی نامور نقاد، افسانہ نگار اور شاعر پیدا ہوئے ہیں جن کی ادبی خدمات کے باعث بلوچستان کا نام ایک چراغ کی طرح روشن ہے۔ ان اہلِ علم و ادب نے ادبی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ادب کو مزید جلا بخشی ہے۔ علم و ادب کا جمالیاتی رنگ ان کے تحریر کردہ مضامین اور کتابوں میں ملتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے ادیبوں کی خداداد صلاحیتوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔


بلوچستان میں جن قلم کاروں نے ادب کی شمع کو ہر وقت روشن رکھا ان میں پروفیسر صابر بولانوی، مقبول رانا، محترمہ شاہین روحی بخاری، پروفیسر ضیاء الرحمان چشتی، ڈاکٹر صلاح الدین مینگل، عالی سیدی، ڈاکٹرتاج رئیسانی، شیخ فرید، بیرم غوری، محسن شکیل، راحت ملک، ڈاکٹرعبدالرشید آزاد، عبدالقیوم بیدار، اکبر ساسولی، ببرک کارمل جمالی، محمد اسلم آزاد، نور محمد جمالی، ساحل ابڑو، اسراراحمد شاکر کے علاوہ دیگر ادباء وشعراء کرام نے علم و اوب کے رنگوں کو نکھار کر بلوچستان کا نام روشن کرکے اس پرآشوب دور میں اپنا کردار ادا کیا۔ ان کی فکری تخلیق، رنگارنگ تحریروں اوردل کو چھو جانے والی شاعری سے بلوچستان میں ادب کو نئے شعور سے متعارف کروایا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے خیالات و احساسات پر پابندیاں لگائیں، وہ قومیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں اور آج ان کا نام ونشان تک نہ رہا۔ یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم و ملت کی ترقی کا اندازہ اس کے پڑھے لکھے معاشرے سے لگایا جاتا ہے۔ اگر ہم علم و ادب کے ان حسین رنگوں کو اپنے معاشرے میں شامل نہیں کریں گے تو ایک نہ ایک دن ہمارے معاشرے کا رنگ ضرور پھیکا پڑ جائے گا۔ ان رنگوں کو ہمیں ہی خوبصورت بنانا ہے؛ علم کے ذریعے، قلم کے ذریعے اور ادب کے ذریعے۔ اگر ہم علم، ادب اور قلم کا دامن مضبوطی سے تھام لیں تو وہ دن دور نہیں جس دن کا ہمیں شدت سے انتظار ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story