جے این یو میں طلبا یونین کے انتخابات اور پاکستان میں طلبا سیاست
آج پاکستانی طلبا کو مسائل کے انبار کا سامنا ہے اور طلبا یونینوں پر پابندی ان پر دوہرا ظلم ہے
KARACHI:
جوہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) بھارت کا معروف سرکاری تعلیمی ادارہ ہے جو بھارتی دارالحکومت دہلی میں واقع ہے۔ جے این یونیورسٹی جو اپنی جمہوری اقدار کے حوالے سے مشہور ہے۔ حال ہی میں ہونے والے طلبا یونین کے انتخابات میں بائیں بازو کے اتحاد ''یونائیٹڈ لیفٹ'' نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے طلبا ونگ ''اکھیل بھارتیہ ودیارتھی پریشد'' (اے بی وی پی) کو مکمل شکست دی ہے۔ اے بی وی پی رجعت پسند طلبا تنظیم ہے جسے ہندو فاشسٹ حکومتی جماعت بی جے پی کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
انتخابات میں اے آئی ایس اے، ایس ایف آئی اور ڈی ایس ایف کے اتحاد نے صدر، نائب صدر، سیکریٹری اور جوائنٹ سیکریٹری کے چاروں عہدوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ صدر کے عہدے کےلیے یونائیٹڈ لیفٹ کی امیدوار گیتا کماری، نائب صدر زویا خان، جنرل سیکریٹری کے عہدے پر دگیرالا کرشنن اور جوائنٹ سیکریٹری کے عہدے کےلیے سوبھانشو سنگھ کی جیت ہوئی ہے۔
جے این یو میں بائیں بازو کی جیت اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ بھارت میں جے این یونیورسٹی اس وقت فاشزم اور مودی کی انتہا پسند حکومت کے خلاف پورے ملک میں ترقی پسند طلبا کی مزاحمتی سیاست کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ بھارت میں جے این یونیورسٹی کے علاوہ دہلی یونیورسٹی اور حیدرآباد یونیورسٹی میں بھی بائیں بازو کی طلبا تنظیموں کو بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
بھارت کی جامعات میں طلبا یونین کے الیکشن ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب پاکستان کی جامعات سے پڑھے لکھے نوجوانوں کے انتہا پسند تنظیموں سے رابطوں اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ اس کی حالیہ مثال عید الاضحی پر ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہار الحق پر ہونے والا قاتلانہ حملہ ہے جس میں جامعہ کراچی کا پوسٹ گریجویٹ طالب علم سروش صدیقی ملوث پایا گیا جو ''انصار الشریعہ'' نامی دہشت گرد تنظیم کا کمانڈر تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان کی بڑی جامعہ، پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹلوں سے القاعدہ کے کارکنوں کی گرفتاریاں سامنے آتی رہی ہیں۔
پاکستان میں طلبا سیاست کا شاندار ماضی رہا ہے۔ 60 اور 70 کی دہائیوں میں طلبا سیاست عروج پر تھی جب ترقی پسند طلبا تنظیموں نے پاکستان کی سیاست میں ہراول دستے کا کردارادا کیا۔ ڈی ایس ایف اور این ایس ایف، طلبا حقوق کی ترجمان اور ترقی پسند طلبا سیاست کا محور تھیں۔ اُس عہد میں دائیں بازو کی طلبا تنظیموں کو طلبا یونین کے انتخابات میں شکست ہوتی تھی اور اُن کی حمایت نہ ہونے کے برابر تھی۔ ایک اندازے کے مطابق 60 کی دہائی میں ہونے والے طلبا یونین کے انتخابات میں ڈی ایس ایف نے 50 فیصد، این ایس ایف نے 35 فیصد، ایم ایس ایف نے 10 فیصد اور اسلامی جمعیت طلبا نے 5 فیصد انتخابات میں فتح حاصل کی تھی۔
1977 میں مارشل کے نفاذ اور ریاستی طاقت ضیاء الحق جیسے رجعتی انتہا پسند آمر کے ہاتھوں میں آنے کے بعد اسلامی انتہا پسند طلبا تنظیمیں ریاستی پشت پناہی سے مضبوط ہوگئیں اور بائیں بازو کے طلبا، سرگرم کارکنان اور تنظیموں کے خلاف حملے اور کارروائیاں کرنے لگیں۔ اسلامی بنیاد پرستی کو اِسی ضیاء آمریت نے امریکی سامراج کے ایما پر پروان چڑھایا تھا تاکہ افغانستان میں اپریل 1978ء کے صور انقلاب کے نتیجے میں بننے والی انقلابی حکومت کو بدنام زمانہ 'ڈالر جہاد' کے ذریعے کچلا جاسکے۔ ضیاء آمریت کے اشیرآباد سے انتہا پسند اسلامی طلبا تنظیموں کو پروان چڑھایا گیا اور اُنہیں افغان جہاد میں خام مال کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اُسی وقت سے انتہا پسندی کا یہ ناسور رفتہ رفتہ پورے خطے میں پھیل گیا ہے جس کے ثمرات ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
ضیاء آمریت کے خلاف بائیں بازو کی طلبا تنظیموں کی جدوجہد اور مزاحمت اتنی شدید تھی کہ ضیاء الحق کو پہلے اکتوبر 1979ء اور پھر 1983ء میں طلبا یونینوں پر پابندی لگانا پڑی جو آج تک مختلف اعلانات اور دعووں کے باوجود برقرار ہے۔ پاکستان میں طلبا یونین اور ان کے الیکشنوں پر تو پابندی ہے مگر چند کالعدم تنظیمیں جیسے کہ سپاہ صحابہ پاکستان، جیش محمد، جماعت الدعوۃ کے طلبا ونگ کسی نہ کسی انداز میں آزادی سے کام کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے ہی کئی تعلیمی اداروں میں سربراہان کی مرضی اور ریاستی پشت پناہی میں تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی کے طلبا ونگ اسلامی جمعیت طلباء کو کافی حد تک آزادانہ کام کرنے کی اجازت ہے اور کئی کیمپسز پر ان کا ہی قبضہ ہے۔ جب کہ بائیں بازو اور ترقی پسند نظریات والی تنظیموں اور ان کے کارکنان کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔
پاکستان میں پرائیوئیٹ یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ اب سرکاری جامعات کی فیسوں میں بھی بے تحاشا اضافہ کیا جارہا ہے۔ تعلیم غریب کےلیے خواب اور امیر کےلیے عیاشی بن چکی ہے۔ تعلیمی اداروں میں طلبا کو کیریئر کی اندھی دوڑ کا گھوڑا بنا دیا جاتا ہے۔ تعلیم کے نام پر کھلنے والی چھوٹی چھوٹی دکانوں کو کالج اور یونیورسٹیوں کے نام دیئے جا رہے ہیں جہاں قصاب نما غیر تربیت یافتہ لوگ جنہیں استاد کہنا بھی اس لفظ کی توہین ہے، نوجوان نسل کی تربیت کرنے میں مصروف ہیں اور ملک میں تبدیلی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں نمود و نمائش کا کلچر پروان چڑھایا جارہا ہے تاکہ فیشن انڈسٹری اور برانڈز خوب منافع کما سکیں۔
لوئر اور مڈل کلاس سے آنے والے نوجوان اس ماحول میں رنگ جانے کی پوری طرح کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ نمائشی کلچر، مقابلے کی اندھی دوڑ، ڈسپلن کے نام پر انتظامیہ کی من مانی اور طلبا کی قدم قدم پر تضحیک جیسے عناصر احساس کمتری اور طبقاتی تفریق کو ہوا دیتے ہیں۔ یہ کیفیت نفسیاتی خلفشار اور سماج سے بیگانگی کی نفسیات کو جنم دیتی ہے۔ کوئی ترقی پسند تنظیم اور سوچ موجود نہ ہونے سے اکثر مڈل کلاس طلبا اس خلفشار کے دباؤ سےمتاثر ہوکر بنیاد پرست نظریات اور دہشت گرد رجحانات کی طرف مائل ہوتے ہیں؛ اور ان انتہا پسند تنظیموں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو ان کو اسلام کے نام پر اپنے مفاد کےلیے استعمال کرتی ہیں۔
آج پاکستانی طلبا کو مسائل کے انبار کا سامنا ہے اور طلبا یونینوں پر پابندی ان پر دوہرا ظلم ہے۔ جہاں آج ہمارے ہمسایہ ملک کے تعلیمی اداروں میں طلبا یونین کے انتخابات ہورہے ہیں وہیں ہمارے ملک میں ابھی تک یہ بحث جاری ہےکہ طلبا کو سیاست کرنے کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں۔ دانشواروں کا وہ طبقہ جو اس کی مخالفت میں ہے، اس کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ یونیورسٹیوں میں یونین کی بحالی سے طلبا میں تصادم ہوں گے۔
اول تو وہ تاریخ کو نظراندز کردیتے ہیں کہ کس طرح طلبا سیاست میں غنڈہ گردی اور انتہا پسندی کو ضیاء آمریت میں اپنے مفاد کےلیے پروان چڑھایا گیا۔ دوم یہ کہ آج تو طلبا یونین پر پابندی ہے۔ کیا آج ہمارے کیمپسز میں طلبا میں تصادم نہیں ہوتے؟ کیا جامعات سے کالعدم تنظیموں کے کارکنان گرفتار نہیں ہورہے؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح باقی شعبوں میں یونین سازی کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے؛ جس طرح ڈاکٹروں، صحافیوں، وکیلوں، مزدوروں کی اپنی یونینز ہیں اسی طرح ان نوجوان طلبا کو بھی حق ہے کہ وہ اپنے مسائل کے حل کےلیے یونین کا انتخاب کرسکیں تاکہ طلبا کو پلیٹ فارم مل سکے جس سے وہ اپنے مسائل کے حل کےلیے جمہوری جدوجہد کرسکے۔ اس یونین کے پلیٹ فارم سے سیاسی تربیت حاصل کرکے ملک کو باصلاحیت اور فہم شناس نوجوان قیادت فراہم کرسکے جو ملک میں حقیقی تبدیلی لاسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جوہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) بھارت کا معروف سرکاری تعلیمی ادارہ ہے جو بھارتی دارالحکومت دہلی میں واقع ہے۔ جے این یونیورسٹی جو اپنی جمہوری اقدار کے حوالے سے مشہور ہے۔ حال ہی میں ہونے والے طلبا یونین کے انتخابات میں بائیں بازو کے اتحاد ''یونائیٹڈ لیفٹ'' نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے طلبا ونگ ''اکھیل بھارتیہ ودیارتھی پریشد'' (اے بی وی پی) کو مکمل شکست دی ہے۔ اے بی وی پی رجعت پسند طلبا تنظیم ہے جسے ہندو فاشسٹ حکومتی جماعت بی جے پی کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
انتخابات میں اے آئی ایس اے، ایس ایف آئی اور ڈی ایس ایف کے اتحاد نے صدر، نائب صدر، سیکریٹری اور جوائنٹ سیکریٹری کے چاروں عہدوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ صدر کے عہدے کےلیے یونائیٹڈ لیفٹ کی امیدوار گیتا کماری، نائب صدر زویا خان، جنرل سیکریٹری کے عہدے پر دگیرالا کرشنن اور جوائنٹ سیکریٹری کے عہدے کےلیے سوبھانشو سنگھ کی جیت ہوئی ہے۔
جے این یو میں بائیں بازو کی جیت اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ بھارت میں جے این یونیورسٹی اس وقت فاشزم اور مودی کی انتہا پسند حکومت کے خلاف پورے ملک میں ترقی پسند طلبا کی مزاحمتی سیاست کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ بھارت میں جے این یونیورسٹی کے علاوہ دہلی یونیورسٹی اور حیدرآباد یونیورسٹی میں بھی بائیں بازو کی طلبا تنظیموں کو بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
بھارت کی جامعات میں طلبا یونین کے الیکشن ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب پاکستان کی جامعات سے پڑھے لکھے نوجوانوں کے انتہا پسند تنظیموں سے رابطوں اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ اس کی حالیہ مثال عید الاضحی پر ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہار الحق پر ہونے والا قاتلانہ حملہ ہے جس میں جامعہ کراچی کا پوسٹ گریجویٹ طالب علم سروش صدیقی ملوث پایا گیا جو ''انصار الشریعہ'' نامی دہشت گرد تنظیم کا کمانڈر تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان کی بڑی جامعہ، پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹلوں سے القاعدہ کے کارکنوں کی گرفتاریاں سامنے آتی رہی ہیں۔
پاکستان میں طلبا سیاست
پاکستان میں طلبا سیاست کا شاندار ماضی رہا ہے۔ 60 اور 70 کی دہائیوں میں طلبا سیاست عروج پر تھی جب ترقی پسند طلبا تنظیموں نے پاکستان کی سیاست میں ہراول دستے کا کردارادا کیا۔ ڈی ایس ایف اور این ایس ایف، طلبا حقوق کی ترجمان اور ترقی پسند طلبا سیاست کا محور تھیں۔ اُس عہد میں دائیں بازو کی طلبا تنظیموں کو طلبا یونین کے انتخابات میں شکست ہوتی تھی اور اُن کی حمایت نہ ہونے کے برابر تھی۔ ایک اندازے کے مطابق 60 کی دہائی میں ہونے والے طلبا یونین کے انتخابات میں ڈی ایس ایف نے 50 فیصد، این ایس ایف نے 35 فیصد، ایم ایس ایف نے 10 فیصد اور اسلامی جمعیت طلبا نے 5 فیصد انتخابات میں فتح حاصل کی تھی۔
ضیاء آمریت اور طلبا سیاست
1977 میں مارشل کے نفاذ اور ریاستی طاقت ضیاء الحق جیسے رجعتی انتہا پسند آمر کے ہاتھوں میں آنے کے بعد اسلامی انتہا پسند طلبا تنظیمیں ریاستی پشت پناہی سے مضبوط ہوگئیں اور بائیں بازو کے طلبا، سرگرم کارکنان اور تنظیموں کے خلاف حملے اور کارروائیاں کرنے لگیں۔ اسلامی بنیاد پرستی کو اِسی ضیاء آمریت نے امریکی سامراج کے ایما پر پروان چڑھایا تھا تاکہ افغانستان میں اپریل 1978ء کے صور انقلاب کے نتیجے میں بننے والی انقلابی حکومت کو بدنام زمانہ 'ڈالر جہاد' کے ذریعے کچلا جاسکے۔ ضیاء آمریت کے اشیرآباد سے انتہا پسند اسلامی طلبا تنظیموں کو پروان چڑھایا گیا اور اُنہیں افغان جہاد میں خام مال کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اُسی وقت سے انتہا پسندی کا یہ ناسور رفتہ رفتہ پورے خطے میں پھیل گیا ہے جس کے ثمرات ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
ضیاء آمریت کے خلاف بائیں بازو کی طلبا تنظیموں کی جدوجہد اور مزاحمت اتنی شدید تھی کہ ضیاء الحق کو پہلے اکتوبر 1979ء اور پھر 1983ء میں طلبا یونینوں پر پابندی لگانا پڑی جو آج تک مختلف اعلانات اور دعووں کے باوجود برقرار ہے۔ پاکستان میں طلبا یونین اور ان کے الیکشنوں پر تو پابندی ہے مگر چند کالعدم تنظیمیں جیسے کہ سپاہ صحابہ پاکستان، جیش محمد، جماعت الدعوۃ کے طلبا ونگ کسی نہ کسی انداز میں آزادی سے کام کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے ہی کئی تعلیمی اداروں میں سربراہان کی مرضی اور ریاستی پشت پناہی میں تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی کے طلبا ونگ اسلامی جمعیت طلباء کو کافی حد تک آزادانہ کام کرنے کی اجازت ہے اور کئی کیمپسز پر ان کا ہی قبضہ ہے۔ جب کہ بائیں بازو اور ترقی پسند نظریات والی تنظیموں اور ان کے کارکنان کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔
آخر کیوں طلبا کا رجحان انتہا پسندی کی طرف ہورہا ہے؟
پاکستان میں پرائیوئیٹ یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ اب سرکاری جامعات کی فیسوں میں بھی بے تحاشا اضافہ کیا جارہا ہے۔ تعلیم غریب کےلیے خواب اور امیر کےلیے عیاشی بن چکی ہے۔ تعلیمی اداروں میں طلبا کو کیریئر کی اندھی دوڑ کا گھوڑا بنا دیا جاتا ہے۔ تعلیم کے نام پر کھلنے والی چھوٹی چھوٹی دکانوں کو کالج اور یونیورسٹیوں کے نام دیئے جا رہے ہیں جہاں قصاب نما غیر تربیت یافتہ لوگ جنہیں استاد کہنا بھی اس لفظ کی توہین ہے، نوجوان نسل کی تربیت کرنے میں مصروف ہیں اور ملک میں تبدیلی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں نمود و نمائش کا کلچر پروان چڑھایا جارہا ہے تاکہ فیشن انڈسٹری اور برانڈز خوب منافع کما سکیں۔
لوئر اور مڈل کلاس سے آنے والے نوجوان اس ماحول میں رنگ جانے کی پوری طرح کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ نمائشی کلچر، مقابلے کی اندھی دوڑ، ڈسپلن کے نام پر انتظامیہ کی من مانی اور طلبا کی قدم قدم پر تضحیک جیسے عناصر احساس کمتری اور طبقاتی تفریق کو ہوا دیتے ہیں۔ یہ کیفیت نفسیاتی خلفشار اور سماج سے بیگانگی کی نفسیات کو جنم دیتی ہے۔ کوئی ترقی پسند تنظیم اور سوچ موجود نہ ہونے سے اکثر مڈل کلاس طلبا اس خلفشار کے دباؤ سےمتاثر ہوکر بنیاد پرست نظریات اور دہشت گرد رجحانات کی طرف مائل ہوتے ہیں؛ اور ان انتہا پسند تنظیموں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو ان کو اسلام کے نام پر اپنے مفاد کےلیے استعمال کرتی ہیں۔
آج پاکستانی طلبا کو مسائل کے انبار کا سامنا ہے اور طلبا یونینوں پر پابندی ان پر دوہرا ظلم ہے۔ جہاں آج ہمارے ہمسایہ ملک کے تعلیمی اداروں میں طلبا یونین کے انتخابات ہورہے ہیں وہیں ہمارے ملک میں ابھی تک یہ بحث جاری ہےکہ طلبا کو سیاست کرنے کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں۔ دانشواروں کا وہ طبقہ جو اس کی مخالفت میں ہے، اس کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ یونیورسٹیوں میں یونین کی بحالی سے طلبا میں تصادم ہوں گے۔
اول تو وہ تاریخ کو نظراندز کردیتے ہیں کہ کس طرح طلبا سیاست میں غنڈہ گردی اور انتہا پسندی کو ضیاء آمریت میں اپنے مفاد کےلیے پروان چڑھایا گیا۔ دوم یہ کہ آج تو طلبا یونین پر پابندی ہے۔ کیا آج ہمارے کیمپسز میں طلبا میں تصادم نہیں ہوتے؟ کیا جامعات سے کالعدم تنظیموں کے کارکنان گرفتار نہیں ہورہے؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح باقی شعبوں میں یونین سازی کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے؛ جس طرح ڈاکٹروں، صحافیوں، وکیلوں، مزدوروں کی اپنی یونینز ہیں اسی طرح ان نوجوان طلبا کو بھی حق ہے کہ وہ اپنے مسائل کے حل کےلیے یونین کا انتخاب کرسکیں تاکہ طلبا کو پلیٹ فارم مل سکے جس سے وہ اپنے مسائل کے حل کےلیے جمہوری جدوجہد کرسکے۔ اس یونین کے پلیٹ فارم سے سیاسی تربیت حاصل کرکے ملک کو باصلاحیت اور فہم شناس نوجوان قیادت فراہم کرسکے جو ملک میں حقیقی تبدیلی لاسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔