وزیر اعظم عباسی اور ہماری ’’مخدوش‘‘ معیشت
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو اس محاذ پر بھی توجہ مرکوز کرنی ہے۔
دو تقریروں نے حالیہ ایام میں بہت ہلچل مچائی ہے: قومی اسمبلی میں سابق وزیر اعظم کے داماد، ایم این اے کیپٹن صفدر اعوان کی شعلہ فشاں تقریر اور کراچی میں جنرل باجوہ کا ایک کانفرنس سے خطاب۔ 11اکتوبر 2017ء کو کراچی میں جس اقتصادی کانفرنس سے جنرل قمر جاوید باجوہ نے خطاب کیا تھا، وہ اپنے مندرجات اور شرکت کنندگان کے اعتبار سے غیر معمولی تھی۔
اس میں پاکستان کے کئی مستند اور عالمی شہرت یافتہ ماہرینِ معیشت موجود تھے۔ مثال کے طور پر: ڈاکٹر اشفاق حسن خان، ڈاکٹر عشرت حسین، ڈاکٹر عین الحسن، ڈاکٹر سلمان شاہ وغیرہ۔ جنرل باجوہ صاحب نے سادہ الفاظ میں یہ کہا تھا کہ ''ہم نے سیکیورٹی بہتر کر دی ہے، اب معیشت بہتر بنائی جائے، پاکستان کی شرحِ نمو بہتر ہے مگر قرضے آسمانوں کو چھو رہے ہیں۔''
اس پر حکومتی حلقوں کی جانب سے دبے دبے الفاظ میں ناراضی کا اظہار کیا گیا۔ حالانکہ جنرل صاحب نے تو ایک حقیقت کی نشاندہی کی تھی مگر حکومت کو شاید اس لیے بُرا لگا کہ اُس کا خیال اور دعویٰ ہے کہ ملکی معیشت کو مستحکم کیا جا چکا ہے۔ ابھی اس ناراضی کی گرد بیٹھی بھی نہ تھی کہ 12اکتوبر کو جامعہ کراچی سے خطاب کرنے اور ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کے دوران ڈی جی، آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بھی ملکی معیشت پر اپنے انداز میں تبصرہ کیا۔ اِس پر بھی حکومتی اطراف سے ناراضی کا اظہار کیا گیا۔
وزیر داخلہ جناب احسن اقبال نے امریکا میں ہوتے ہُوئے بھی ردِ عمل کا اظہار کرتے ہُوئے یوں کہا:''ڈی جی، آئی ایس پی آر کو ملکی معیشت پر تبصرہ آرائی سے گریز کرنا چاہیے تھا۔'' معاملہ اتنا بڑھا کہ آصف غفور صاحب کو14اکتوبر کو اپنی پریس کانفرنس میں وضاحت کرنا پڑی اور یہ بھی کہا کہ وزیر داخلہ کے بیان پر انھیں بطور سپاہی اور پاکستانی دکھ ہُوا ہے''تاہم اپنے بیان پر قائم ہُوں۔ملکی معیشت قرضوں پر چلے گی تو ہماری سلامتی متاثر ہوگی۔''
احسن اقبال کی طرف سے پھر اِس کا جواب آیا جس میں کہا گیا تھا:''میرا بیان (کسی سے) محاذ آرائی نہیں ہے۔ملکی معیشت بُری نہیں، اچھی ہے۔''بات تو معمولی سی تھی لیکن عمائدینِ حکومت کو لگا کہ اُن کے معاشی اقدامات پر عدم اعتماد کیا گیا ہے۔ شاید اس لیے کہ حکومت میاں صاحب کی قبل از وقت رخصتی پر خاصی مجروح اور حساس ہو رہی ہے۔ پاکستان کی نازک اور مبینہ مخدوش معاشی حالت کے بارے میں تو ساری دنیا میں تبصرے ہو رہے ہیں۔
پاکستانی معیشت کو اِس وقت تین دباؤ کا سامنا ہے: گردشی قرضے، مالی خسارہ اور غیر ملکی قرضہ جات۔ہمارے ''معاشی جادوگروں'' کو سمجھ نہیں آرہی کہ اِن قیامتوں سے کیسے نمٹا جائے۔وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی عجب مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔ اوپر سے ہمارے اسٹیٹ بینک نے 13اکتوبر کو جو بیان دیا ہے، اس میں بھی معیشت اور خوشحالی میں بہتری کی کوئی نوید نہیں ہے۔ اسٹیٹ بینک نے بجا طور پر خبردار کیا ہے کہ ''ہمیں اپنی درآمدات میں فوری کمی کرنا ہوگی اور برآمدات میں اضافے کی انتھک کوششوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔''
اگر ہمارے حکمران ان تجاویز پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنا شروع کر دیں تو شاید ہم مالی خسارے سے کچھ نجات حاصل کر سکیں۔ ورلڈ بینک کے سابق پاکستانی چیف اکانومسٹ جناب پرویز حسن نے بھی اپنے تازہ آرٹیکل میں وارننگ دی ہے کہ پاکستانی معیشت میںاسقدر گراوٹ آچکی ہے کہ وزیر اعظم عباسی کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے کہ وہ حل کے لیے کوئی ہنگامی اقدام کریں۔
ایسے میں سابق صدرِ پاکستان جناب آصف علی زرداری نے بھی مایوس کن بیان دیتے ہُوئے کہا ہے کہ''معیشت میں ابتری کی وجہ سے ملک دیوالیہ کنارے پہنچ چکا ہے، اس لیے معاشی ایمرجنسی کا نفاذ از بس ضروری ہو گیا ہے۔'' اگر یہ مذاق نہیں ہے اور جناب عباسی کی حکومت پر دباؤ ڈالنے کی سازش نہیں تو ہماری معیشت کی مخدوش صورتحال صاف دکھائی دے رہی ہے۔ ہمارے وزیر داخلہ جناب احسن اقبال کے بیانات بھی ملکی معیشت کے بارے خدشات میں اضافے کا باعث بنے ہیں۔ وہ امریکی دَورے (اکتوبر2017ء کے دوسرے ہفتے)میں یہ کہہ آئے ہیں کہ ''نواز شریف کو عدالت کی طرف سے فارغ کیے جانے پر پاکستان کو 15سو ارب کا نقصان ہُوا ہے۔'' ہمارے کئی اقتصادی ماہرین احسن اقبال کے بتائے گئے اس نقصان کو ''مبالغہ'' قرار دیتے ہیں۔
اگرچہ یہ درست ہے کہ میاں محمد نواز شریف کو اقتدار سے رخصت کیے جانے سے پاکستانی معیشت کو دھچکا پہنچا ہے لیکن اتنا بھی نہیں۔ یہ بھی واقعہ ہے کہ معیشت بہتر نہ ہونے کی وجہ سے غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے پاکستانیوں کی تعداد کم نہیں ہو سکی ہے۔دہشتگردی کے خلاف جنگ پر ہم نے جو 120ارب ڈالر پھونک دیے ہیں،اس نے بھی ہماری معاشی کمر توڑی ہے۔
پاکستان کو کم ازکم 80ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے بھی ادا کرنے ہیں۔اوپر سے ''سی پیک'' کے 50ارب ڈالرکا قرض مزید بڑھ گیا ہے۔ ٹیکس ہم ادا نہیں کرتے۔ پاکستان کی 22کروڑ آبادی میں 22 لاکھ لوگ بھی باقاعدہ ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ جنرل باجوہ اور میجر جنرل آصف غفور بھی ٹیکس ادا کرنے کی اپیلیں کررہے ہیں لیکن کوئی سُنتا ہی نہیں۔
ہمارے وزیر خزانہ الزامات کی زد میں احتسابی کٹہرے میں کھڑے ہیں لیکن انھوں نے 16اکتوبر کو اپنی پریس کانفرنس میں سب اچھا ہو نے کی امید دلائی ہے اور پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خدشات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ یہ بھی مگر کہا ہے کہ گردشی قرضہ 390ارب ہو گیا ہے۔یہ قرضے مگرکیسے ادا ہوں گے؟ کشکول ٹوٹے تو کیسے ٹوٹے؟ اِس کی کوئی شکل سامنے نہیں آرہی۔
سچ یہ ہے کہ پاکستانی معیشت میں اتنی جان اور سکت ہی نہیں ہے کہ یہ قرضے ادا کیے جاسکیں؛ چنانچہ صدرِ مملکت جناب ممنون حسین نے 18اکتوبر 2017ء کو بنّوں یونیورسٹی سے خطاب کرتے ہُوئے بجا کہا ہے: ''چار سال سے ڈیم بنے ہیں نہ اسپتال، عوام پوچھیں 14ہزار8سو ارب کا قرضہ کہاں گیا؟''
پاک، افغان تعلقات میں کشیدگی کے عنصر نے بھی ہماری معیشت پر منفی اثرات مرتّب کیے ہیں۔ مثال کے طور پر، 2015ء میں پاکستان اور افغانستان کی باہمی تجارت 2 ارب 40کروڑ ڈالر تھی اور اِس تجارت کا زیادہ جھکاؤ پاکستان کی جانب تھا۔ اور اب پاک ، افغان ٹرید صرف ایک ارب ڈالر تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
افغانستان نے ایران کی بندرگاہ (چاہ بہار) کے راستے بھارت کے ساتھ تجارت شروع کر رکھی ہے۔ مقصد فقط یہ ہے کہ افغانستان کو پاکستان کے نزدیک نہیں پھٹکنے دینا۔پاکستانی ایکسپورٹس میں ویسے بھی خاصی کمی آچکی ہے۔ایسے میں افغانستان کو برآمدات میں تقریباً بندش سے پاکستانی معیشت پر مزید بوجھ آ پڑا ہے۔اب جب بھی پاک افغان ٹریڈ بات چیت ہوتی ہے، افغان حکام یہ پخ لگا دیتے ہیں کہ مکالمے میں بھارت کو بھی شریک کیا جائے۔ پاکستان کے لیے ابھی یہ مطالبہ ماننا شاید ممکن نہیں ہے۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو اس محاذ پر بھی توجہ مرکوز کرنی ہے۔ اگرچہ یہ (سفارتی) راستہ آسان نہیں ہے۔ شنید ہے افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان دَورے کی ہامی بھر لی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب کو یہ موقع ضایع نہیں ہونے دینا چاہیے کہ رواں لمحوں میں پاکستان کو اپنے ہمسایہ دوستوںکی اشد ضرورت ہے۔
اس میں پاکستان کے کئی مستند اور عالمی شہرت یافتہ ماہرینِ معیشت موجود تھے۔ مثال کے طور پر: ڈاکٹر اشفاق حسن خان، ڈاکٹر عشرت حسین، ڈاکٹر عین الحسن، ڈاکٹر سلمان شاہ وغیرہ۔ جنرل باجوہ صاحب نے سادہ الفاظ میں یہ کہا تھا کہ ''ہم نے سیکیورٹی بہتر کر دی ہے، اب معیشت بہتر بنائی جائے، پاکستان کی شرحِ نمو بہتر ہے مگر قرضے آسمانوں کو چھو رہے ہیں۔''
اس پر حکومتی حلقوں کی جانب سے دبے دبے الفاظ میں ناراضی کا اظہار کیا گیا۔ حالانکہ جنرل صاحب نے تو ایک حقیقت کی نشاندہی کی تھی مگر حکومت کو شاید اس لیے بُرا لگا کہ اُس کا خیال اور دعویٰ ہے کہ ملکی معیشت کو مستحکم کیا جا چکا ہے۔ ابھی اس ناراضی کی گرد بیٹھی بھی نہ تھی کہ 12اکتوبر کو جامعہ کراچی سے خطاب کرنے اور ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کے دوران ڈی جی، آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بھی ملکی معیشت پر اپنے انداز میں تبصرہ کیا۔ اِس پر بھی حکومتی اطراف سے ناراضی کا اظہار کیا گیا۔
وزیر داخلہ جناب احسن اقبال نے امریکا میں ہوتے ہُوئے بھی ردِ عمل کا اظہار کرتے ہُوئے یوں کہا:''ڈی جی، آئی ایس پی آر کو ملکی معیشت پر تبصرہ آرائی سے گریز کرنا چاہیے تھا۔'' معاملہ اتنا بڑھا کہ آصف غفور صاحب کو14اکتوبر کو اپنی پریس کانفرنس میں وضاحت کرنا پڑی اور یہ بھی کہا کہ وزیر داخلہ کے بیان پر انھیں بطور سپاہی اور پاکستانی دکھ ہُوا ہے''تاہم اپنے بیان پر قائم ہُوں۔ملکی معیشت قرضوں پر چلے گی تو ہماری سلامتی متاثر ہوگی۔''
احسن اقبال کی طرف سے پھر اِس کا جواب آیا جس میں کہا گیا تھا:''میرا بیان (کسی سے) محاذ آرائی نہیں ہے۔ملکی معیشت بُری نہیں، اچھی ہے۔''بات تو معمولی سی تھی لیکن عمائدینِ حکومت کو لگا کہ اُن کے معاشی اقدامات پر عدم اعتماد کیا گیا ہے۔ شاید اس لیے کہ حکومت میاں صاحب کی قبل از وقت رخصتی پر خاصی مجروح اور حساس ہو رہی ہے۔ پاکستان کی نازک اور مبینہ مخدوش معاشی حالت کے بارے میں تو ساری دنیا میں تبصرے ہو رہے ہیں۔
پاکستانی معیشت کو اِس وقت تین دباؤ کا سامنا ہے: گردشی قرضے، مالی خسارہ اور غیر ملکی قرضہ جات۔ہمارے ''معاشی جادوگروں'' کو سمجھ نہیں آرہی کہ اِن قیامتوں سے کیسے نمٹا جائے۔وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی عجب مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔ اوپر سے ہمارے اسٹیٹ بینک نے 13اکتوبر کو جو بیان دیا ہے، اس میں بھی معیشت اور خوشحالی میں بہتری کی کوئی نوید نہیں ہے۔ اسٹیٹ بینک نے بجا طور پر خبردار کیا ہے کہ ''ہمیں اپنی درآمدات میں فوری کمی کرنا ہوگی اور برآمدات میں اضافے کی انتھک کوششوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔''
اگر ہمارے حکمران ان تجاویز پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنا شروع کر دیں تو شاید ہم مالی خسارے سے کچھ نجات حاصل کر سکیں۔ ورلڈ بینک کے سابق پاکستانی چیف اکانومسٹ جناب پرویز حسن نے بھی اپنے تازہ آرٹیکل میں وارننگ دی ہے کہ پاکستانی معیشت میںاسقدر گراوٹ آچکی ہے کہ وزیر اعظم عباسی کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے کہ وہ حل کے لیے کوئی ہنگامی اقدام کریں۔
ایسے میں سابق صدرِ پاکستان جناب آصف علی زرداری نے بھی مایوس کن بیان دیتے ہُوئے کہا ہے کہ''معیشت میں ابتری کی وجہ سے ملک دیوالیہ کنارے پہنچ چکا ہے، اس لیے معاشی ایمرجنسی کا نفاذ از بس ضروری ہو گیا ہے۔'' اگر یہ مذاق نہیں ہے اور جناب عباسی کی حکومت پر دباؤ ڈالنے کی سازش نہیں تو ہماری معیشت کی مخدوش صورتحال صاف دکھائی دے رہی ہے۔ ہمارے وزیر داخلہ جناب احسن اقبال کے بیانات بھی ملکی معیشت کے بارے خدشات میں اضافے کا باعث بنے ہیں۔ وہ امریکی دَورے (اکتوبر2017ء کے دوسرے ہفتے)میں یہ کہہ آئے ہیں کہ ''نواز شریف کو عدالت کی طرف سے فارغ کیے جانے پر پاکستان کو 15سو ارب کا نقصان ہُوا ہے۔'' ہمارے کئی اقتصادی ماہرین احسن اقبال کے بتائے گئے اس نقصان کو ''مبالغہ'' قرار دیتے ہیں۔
اگرچہ یہ درست ہے کہ میاں محمد نواز شریف کو اقتدار سے رخصت کیے جانے سے پاکستانی معیشت کو دھچکا پہنچا ہے لیکن اتنا بھی نہیں۔ یہ بھی واقعہ ہے کہ معیشت بہتر نہ ہونے کی وجہ سے غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے پاکستانیوں کی تعداد کم نہیں ہو سکی ہے۔دہشتگردی کے خلاف جنگ پر ہم نے جو 120ارب ڈالر پھونک دیے ہیں،اس نے بھی ہماری معاشی کمر توڑی ہے۔
پاکستان کو کم ازکم 80ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے بھی ادا کرنے ہیں۔اوپر سے ''سی پیک'' کے 50ارب ڈالرکا قرض مزید بڑھ گیا ہے۔ ٹیکس ہم ادا نہیں کرتے۔ پاکستان کی 22کروڑ آبادی میں 22 لاکھ لوگ بھی باقاعدہ ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ جنرل باجوہ اور میجر جنرل آصف غفور بھی ٹیکس ادا کرنے کی اپیلیں کررہے ہیں لیکن کوئی سُنتا ہی نہیں۔
ہمارے وزیر خزانہ الزامات کی زد میں احتسابی کٹہرے میں کھڑے ہیں لیکن انھوں نے 16اکتوبر کو اپنی پریس کانفرنس میں سب اچھا ہو نے کی امید دلائی ہے اور پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خدشات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ یہ بھی مگر کہا ہے کہ گردشی قرضہ 390ارب ہو گیا ہے۔یہ قرضے مگرکیسے ادا ہوں گے؟ کشکول ٹوٹے تو کیسے ٹوٹے؟ اِس کی کوئی شکل سامنے نہیں آرہی۔
سچ یہ ہے کہ پاکستانی معیشت میں اتنی جان اور سکت ہی نہیں ہے کہ یہ قرضے ادا کیے جاسکیں؛ چنانچہ صدرِ مملکت جناب ممنون حسین نے 18اکتوبر 2017ء کو بنّوں یونیورسٹی سے خطاب کرتے ہُوئے بجا کہا ہے: ''چار سال سے ڈیم بنے ہیں نہ اسپتال، عوام پوچھیں 14ہزار8سو ارب کا قرضہ کہاں گیا؟''
پاک، افغان تعلقات میں کشیدگی کے عنصر نے بھی ہماری معیشت پر منفی اثرات مرتّب کیے ہیں۔ مثال کے طور پر، 2015ء میں پاکستان اور افغانستان کی باہمی تجارت 2 ارب 40کروڑ ڈالر تھی اور اِس تجارت کا زیادہ جھکاؤ پاکستان کی جانب تھا۔ اور اب پاک ، افغان ٹرید صرف ایک ارب ڈالر تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
افغانستان نے ایران کی بندرگاہ (چاہ بہار) کے راستے بھارت کے ساتھ تجارت شروع کر رکھی ہے۔ مقصد فقط یہ ہے کہ افغانستان کو پاکستان کے نزدیک نہیں پھٹکنے دینا۔پاکستانی ایکسپورٹس میں ویسے بھی خاصی کمی آچکی ہے۔ایسے میں افغانستان کو برآمدات میں تقریباً بندش سے پاکستانی معیشت پر مزید بوجھ آ پڑا ہے۔اب جب بھی پاک افغان ٹریڈ بات چیت ہوتی ہے، افغان حکام یہ پخ لگا دیتے ہیں کہ مکالمے میں بھارت کو بھی شریک کیا جائے۔ پاکستان کے لیے ابھی یہ مطالبہ ماننا شاید ممکن نہیں ہے۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو اس محاذ پر بھی توجہ مرکوز کرنی ہے۔ اگرچہ یہ (سفارتی) راستہ آسان نہیں ہے۔ شنید ہے افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان دَورے کی ہامی بھر لی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب کو یہ موقع ضایع نہیں ہونے دینا چاہیے کہ رواں لمحوں میں پاکستان کو اپنے ہمسایہ دوستوںکی اشد ضرورت ہے۔