بنی نوع انسان کا مستقبل خطرے میں غذاؤں میں غذائیت کم ہونے لگی
اندھا دھند جاری انسانی سرگرمیوں کے بطن سے جنم لینے والے منفی اثرات سامنے آنے لگے
یہ 1998ء کی بات ہے، امریکی طالب علم اراکلی لولاڈز (Irakli Loladze)ایزونا یونیورسٹی میں ریاضیات پر پی ایچ ڈی کررہا تھا۔ ایک دن وہ اپنے دوست کے ساتھ اس کی کلاس میں گیا جہاں پروفیسر حیاتیات لیکچر دے رہے تھے۔ دراصل اراکلی اس علم سے بھی دلچسپی رکھتا تھا۔ وہاں ایک انوکھا واقعہ پیش آیا۔
پروفیسر نے طالب علموں کو بتایا کہ انہوں نے حال ہی میں لیبارٹری میں ''زوپلانکٹن'' (Zooplankton)پر تحقیق کرتے ہوئے ایک عجیب و غریب بات دریافت کی۔ زوپلانکٹن سمندروں اور جھیلوں میں ملنے والے ننھے منے جانور ہیں جو الجی یا کائی کھا کر زندہ رہتے ہیں۔ مچھلیاں انہی جانوروں کو کھا کر زندہ رہتی ہیں لہٰذا سمندروں میں زوپلانکٹن کی بڑی اہمیت ہے۔
پروفیسر حیاتیات نے لیبارٹری میں یہ تجربہ کیا کہ زوپلانکٹن کی تعداد کیونکر بڑھائی جائے؟ اس نے سب سے پہلے پانی کے ایک ٹینک میں نشوونما پاتی الجی پر خوب (مصنوعی) روشنی ڈالی۔ مسلسل روشنی پڑنے سے الجی کی نشوونما تیز ہوگئی۔ یوں ٹینک میں موجود زوپلانکٹن کو زیادہ خوراک ملنے لگی۔ اچھی خوراک ملنے سے قدرتاً زوپلانکٹن کی آبادی بڑھ گئی کہ جوڑوں کے ہاں زیادہ بچے پیدا ہونے لگے۔
لیکن جلد ہی یہ عجیب و غریب بات سامنے آئی کہ وافر خوراک کے باوجود کئی زو پلانکٹن آہستہ آہستہ مرنے لگے۔ یہ دیکھ کر پروفیسر حیاتیات اور اس کے ساتھی حیران رہ گئے۔ اب انہوں نے تحقیق کی کہ وافر خوراک کے باوجود زو پلانکٹنوں کی اموات میں اضافہ کیوں ہوگیا؟یہ بہت حیرت کی بات تھی۔
تحقیق سے ان پر منکشف ہوا کہ مسلسل روشنی اور زیادہ بلند درجہ حرارت ملنے سے الجی کی پیداوار بڑھ تو گئی مگر یہ پودا پہلے جیسی غذائیات ( nutrients) کا حامل نہیں رہا۔ الجی میں شکر اور کاربوہائیڈریٹ کی مقدار بڑھ گئی جبکہ وٹامن، معدنیات اور دیگر غذائی عناصر کی مقدار کم ہوگئی ۔گویا ماہرین نے الجی کی نشوونما تیز رفتار بناکر اسے درحقیقت ''ردی غذا'' (Junk Food) میں تبدیل کردیا۔ زو پلانکٹن کو وافر الجی تو دستیاب تھی مگر انہیں مطلوبہ غذائیت میسر نہ آسکی... اسی لیے کمزور جسم والے جانور قبل از وقت دم توڑنے لگے۔
اراکلی لولاڈز ریاضی کا طالب علم تھا مگر بیان ہو چکا کہ حیاتیات بھی اس کا پسندیدہ مضمون تھا۔ اب وہ سوچنے لگا کہ دنیا بھر میں رکازی ایندھن (کوئلہ، تیل، گیس) کی وجہ سے درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ کیا یہ بڑھتا درجہ حرارت سبھی نباتات میں غذائیت کم کرسکتا ہے؟ مثال کے طور پر گھاس میں غذائیت کم ہوجائے اور گائے بھینس مطلوبہ غذائیت نہ ملنے سے کمزور و ناتواں ہونے لگیں۔ اسی طرح چاول میں غذائیت گھٹ جائے اور وہ ردی غذا بن کر رہ جائے۔
دنیا میں بیشتر پودے توانائی پانے اور زندہ رہنے کی خاطر دھوپ یا مصنوعی روشنی، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کے ذریعے اپنی غذا تیار کرتے ہیں۔ یہ غذا پودے میں شکر، کاربوہائیڈریٹ، وٹامن معدنیات اور دیگر غذائی عناصر کی صورت محفوظ ہوتی ہے۔ اس غذا کی تیاری کے دوران ہی فاضل مصنوعہ کے طور پر آکسیجن جنم لیتی ہے۔ اسی آکسیجن کے دم قدم سے کرہ ارض پر زندگی آباد ہے۔ یہ ساراعمل سائنسی اصطلاح میں ''ضیائی تالیف'' (Photosynthesis) کہلاتا ہے۔
زمین کی 78 فیصد فضا نائٹروجن اور 21 فیصد آکسیجن گیسوں سے بنی ہے۔ یہ دونوں شفاف گیسیں ہیں یعنی روشنی ان سے آرپار ہوجاتی ہے۔ زمینی فضا کا بقیہ ایک فیصد حصہ ''سبزمکانی گیسیوں'' (greenhouse gases)پر مشتمل ہے جن میں آبی قطرے (water Vapors) ، کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، ہالو کاربنز، نائٹرس آکسائیڈ اور اوزون شامل ہیں۔
یہ سبھی غیر شفاف ہیں یعنی روشنی ان میں جذب ہوجاتی ہے۔ یہ سبز مکانی گیسیں زمین کا درجہ حرارت نارمل رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ ہماری نصف زمین دن بھر سورج کی شعاعوں یا دھوپ کی زد میں رہتی ہے۔ جب اس نصف کرہ ارض پر رات آئے، تو وہ ٹھنڈی ہونے لگتی ہے۔ تب زمین میں جذب شدہ دھوپ کی حرارت دوبارہ اوپر اٹھنے لگتی ہے۔
اس حرارت کا کچھ حصہ سبز مکانی گیسیں جذب کرلیتی ہیں اور بقیہ خلا میں فرار ہوجاتا ہے۔ یہ عمل ''سبز مکانی اثر''(greenhouse effect) کہلاتا ہے اور اسی کے ذریعے ہماری زمین کا درجہ حرارت 15 درجے سینٹی گریڈ کے آس پاس رہتا ہے۔ اگر سبز مکانی گیسیں نہ ہوں، تو رات کو ہماری دنیا کا نصف کرہ شدید ٹھنڈ کی لپیٹ میں آسکتا ہے اور وہاں بیشتر زندگی ناپید ہوجائے گی۔
مسئلہ یہ ہے کہ اگر فضا میں سبز مکانی گیسوں کی مقدار بڑھ جائے، تو سبز مکانی اثر بھی طاقتور ہوجاتا ہے... یعنی وہ زمین کا درجہ حرارت بلند کرنے لگتا ہے۔ ہماری زمین فی الوقت اسی مسئلے سے دوچار ہے کہ وہ ہر آنے والے دن زیادہ گرم ہورہی ہے اور اس مسئلے نے خاصی حد تک انسانی سرگرمیوں کے ذریعے جنم لیا۔
1750ء کے بعد صنعتی انقلاب کا آغاز ہوا تو انسان رکازی ایندھن وسیع پیمانے پر استعمال کرنے لگا۔ اس وقت زمین کی فضا میں چکر کھاتی گیسوں کے ہر دس لاکھ حصوں میں سے ''288'' حصے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے تھے۔ آج یہ تعداد بڑھ کر 400 تک پہنچ چکی۔ وجہ یہ کہ رکازی ایندھن جلنے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑی مقدار فضا میں خارج ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2075ء تک زمینی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے حصوں کی تعداد 550 تک پہنچ جائے گی کیونکہ انسان بدستور رکازی ایندھن استعمال کررہا ہے۔
انسان سے وابستہ مختلف سرگرمیاں دیگر سبز مکانی گیسوں کی تعداد بھی بڑھا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر گائے بھینسوں کی جگالی کا عمل میتھین پیدا کرتا ہے۔ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں 30 گنا زیادہ روشنی جذب کرتی ہے۔ ہالو کاربنز گیسیں پلاسٹک کی تیاری میں کام آتی ہیں۔ لہٰذا جب پلاسٹک جلایا جائے، تو یہ گیسیں فضا میں پہنچ جاتی ہیں۔ ان گیسیوں کا ایک حصہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ایک حصے کی نسبت ''دس ہزار گنا'' زیادہ روشنی جذب کرتا ہے۔ نائٹرس آکسائیڈ کھیتی باڑی کے عمل سے خارج ہوکر فضا میں شامل ہوتی ہے۔ یہ بھی طاقتور سبز مکانی گیس ہے۔
نباتات کی حد تک فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا بڑھ جانا بنی نوع انسان کے لیے خطرناک امر ہے۔ وجہ یہ کہ دنیا بھر میں اربوں انسان پیٹ بھرنے کی خاطر اناج، سبزیاں اور پھل استعمال کرتے ہیں۔ اگر ان نباتات میں غذائیت کم سے کم ہوتی گئی تو پھر انسان کی عمر بھی گھٹتی جائے گی اور مرد، عورت اور بچے کمزوری کے باعث وقت سے پہلے ہی مرنے لگیں گے۔ ظاہر ہے جب انسانی جسم کو مطلوبہ غذائیت نہ ملے، تو وہ کمزور ہوجاتا ہے۔
زوپلانکٹن کے تجربے کے بعد سب سے پہلے اراکلی لولاڈز ہی کو خیال آیا کہ زمین کی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی مقدار بڑھ رہی ہے۔ کیا یہ اضافہ نباتات پر کسی قسم کے اثرات مرتب کررہا ہے کیونکہ وہ ضیائی تالیف کے دوران کاربن ڈائی آکسائیڈ استعمال کرتے ہیں؟ اس نے مختلف یونیورسٹیوں اور علمی اداروں سے رابطہ کیا، مگر کہیں بھی سائنس دانوں نے اس موضوع پر تحقیق و تجربات نہیں کیے تھے۔ اراکلی کو بہت حیرت ہوئی کیونکہ یہ نسل انسانی کی بقا خطرے میں ڈال دینے والا سنگین معاملہ ہے۔
چناں چہ وہ اس مسئلے پر خود ہی تحقیق کرنے لگا۔ اس دوران 2004ء میں یونیورسٹی آف ٹیکساس کے ماہرین حیاتیات کی پانچ سالہ تحقیق کے حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔ انہوں نے اپنی تحقیق میں یہ دیکھا تھا کہ 1950ء سے لے کر 1999ء تک چالیس سے زائد اناج، پھلوں اور سبزیوں کی غذائیت میں کتنی کمی آئی ہے۔
واضح رہے، 1950ء کے بعد سے ماہرین اناج، سبزی اور پھل کی پیداوار بڑھانے کے لیے ان پر مختلف سائنسی تجربات کررہے ہیں۔ اس دوران ایسے بیج پیدا کیے گئے جو زیادہ پیداوار دیں اور کیڑوں کا مقابلہ کرسکیں۔ گویا تمام تر دھیان یہ رہا کہ ایسے سائنسی طریقے ایجاد کیے جائیں جن کی بدولت اناج، سبزی اور پھل کی پیدوار بڑھ سکے۔ ٹیکساس یونیورسٹی کے ماہرین نے اپنی تحقیق سے دریافت کیا کہ یہ غیر فطری طریقے اختیار کرنے کی وجہ سے اناج، سبزی اور پھل کی غذائیت میں ''5 یا 40 فیصد''کمی آگئی۔
اس اثنا میں نت نئی کھادیں بھی متعارف کرائی گئیں جنہوں نے زمین کو مصنوعی طور پر زرخیز بنادیا۔مگر زمین رفتہ رفتہ اپنی قدرتی قوت سے محروم ہوتی گئی۔ اس عمل نے غذاؤں کی غذائیت ہی نہیں ذائقے پر بھی منفی اثر ڈالا۔ یہی وجہ ہے، اب اکثر لوگ یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ غذائیں پہلے کی طرح مزے دار اور ذائقے دارنہیں ہوتیں۔
ادھر ارا کلی لولاڈز اپنی تحقیق و تجربات پر لگا رہا۔ کچھ عرصہ قبل اس نے اپنی تحقیق مکمل کرلی جس نے ایک اور حیرت انگیز انکشاف کیا... یہ کہ واقعی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر سبز مکانی گیسوں کی کثرت کے باعث اناج، پھل اور سبزیوں میں غذائیت گھٹ رہی ہے۔
اراکلی کی تحقیق کے مطابق پچھلی نصف صدی میں غذاؤں میں تمام اہم وٹامن، معدنیات اور دیگر غذائی عناصر مثلاً کیلشیم، فارسفورس، پروٹین، زنک، فولاد، چکنائی، فائبر، میگنیشیم، پوٹاشیم، وٹامن سی، وٹامن اے وغیرہ کی مقدار کم ہوچکی۔ کسی غذا کی غذائیت میں زیادہ کمی آئی ہے اور کسی کی کم... لیکن ہر غذا کی غذائیت ماضی کے مقابلے میں خاصی گھٹ گئی ہے۔
انسان اناج، سبزی اور پھل کے ذریعے ہی توانائی پاتا اور زندہ رہتا ہے۔ انسان نے خود ہی اس زندگی بخش غذائی نظام کو سب سے پہلے پیداوار بڑھانے کی طلب اپنا کر نقصان پہنچایا۔ دوم فضا میں بڑھتی سبز مکانی گیسوں نے بھی غذاؤں میں غذائیت کم کردی۔ غذاؤں کو نقصان پہنچانے والا تیسرا عمل لالچی اور ظالم انسانوں کے ہاتھوں ظہور پذیر ہورہا ہے۔ یہ لوگ زیادہ کمائی کی خاطر غذاؤں میں زہریلے عناصر ملا کر انہیں ملاوٹی اور زہریلا بنا دیتے ہیں۔پاکستان ،بھارت اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں اس قسم کی ملاوٹ دودھ، مسالوں، پسے اناج اور تیل میں عام ہوچکی۔
ماہرین طب کے مطابق غذاؤں میں غذائیت کم ہونے سے انسانوں کی صحت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ مطلوبہ غذائیت نہ ملنے سے انسان کو بیماریوں سے بچانے والے مامون نظام (immune system) کوضعف پہنچے گا۔ چناں چہ رنگ برنگ امراض آسانی سے انسانوں کو اپنا شکار بنانے لگیں گے۔ یہ عجوبہ سامنے آچکا کہ بہت سے لوگ اچانک کسی موذی بیماری کا نشانہ بنتے اور راتوں رات چل بستے ہیں۔ اس عجوبے کو جنم دینے والے عوامل میں ایک یہ بھی ہے کہ ہماری غذا میں پہلے کی طرح غذائیت نہیں رہی اور وہ ردی غذائیں بن چکیں۔
یہ یاد رہے کہ دنیا بھر میں اربوں انسانوں کا گزارا اناج ،دالوں اور سبزیوں پہ ہے۔ خاص طور پر زیادہ آبادی والے ممالک مثلاً چین، بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، نائیجیریا وغیرہ میں گندم، چاول اور دالیں ہی وسیع پیمانے پر کھائی جاتی ہیں۔ مگر ان غذاؤں میں غذائیت کم ہونے سے عام لوگ اینمیا (خون کی کمی)، ذہنی پستی اور عام جسمانی کمزوری کا شکار ہورہے ہیں۔اناج، سبزی اور پھل میں کاربوہائیڈریٹ زیادہ بڑھنے کا ایک نقصان بھی ہے... یہ کہ ایسی غذائیں کھا کر انسان ذیابیطس، مٹاپے اور امراض قلب کا شکار ہورہے ہیں۔ اسی لیے دنیا بھر میں یہ تینوں بیماریاں لاکھوں مرد و زن کو نشانہ بناچکی۔
انسان نے ترقی کر کے نت نئی ایجادات کی مدد سے اپنی زندگی آسان بنا لی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ انسان کا لالچ اور خواہشات بڑھتی چلی جا رہی ہیں اور ان کی تکمیل کے لیے غیر فطری اقدامات کرنے لگا ہے۔غذاؤں سے کھلواڑ اسی کج روی کا مظہر ہے۔لالچ ایک ایسے راستے کے مانند ہے جس کا کوئی انت نہیں...لالچی انسان خواہشات کاغلام بن کر اس پہ چلتا چلا جاتا ہے مگر وہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔حتی کہ ایک دن انسان خود ختم ہو جاتا ہے۔بنی نوع انسان نے اگر اپنی ہوس ولالچ پر قابو نہ پایا تو فطرت دشمن بن کر اسے ہی نیست ونابود کر دے گی۔
پروفیسر نے طالب علموں کو بتایا کہ انہوں نے حال ہی میں لیبارٹری میں ''زوپلانکٹن'' (Zooplankton)پر تحقیق کرتے ہوئے ایک عجیب و غریب بات دریافت کی۔ زوپلانکٹن سمندروں اور جھیلوں میں ملنے والے ننھے منے جانور ہیں جو الجی یا کائی کھا کر زندہ رہتے ہیں۔ مچھلیاں انہی جانوروں کو کھا کر زندہ رہتی ہیں لہٰذا سمندروں میں زوپلانکٹن کی بڑی اہمیت ہے۔
پروفیسر حیاتیات نے لیبارٹری میں یہ تجربہ کیا کہ زوپلانکٹن کی تعداد کیونکر بڑھائی جائے؟ اس نے سب سے پہلے پانی کے ایک ٹینک میں نشوونما پاتی الجی پر خوب (مصنوعی) روشنی ڈالی۔ مسلسل روشنی پڑنے سے الجی کی نشوونما تیز ہوگئی۔ یوں ٹینک میں موجود زوپلانکٹن کو زیادہ خوراک ملنے لگی۔ اچھی خوراک ملنے سے قدرتاً زوپلانکٹن کی آبادی بڑھ گئی کہ جوڑوں کے ہاں زیادہ بچے پیدا ہونے لگے۔
لیکن جلد ہی یہ عجیب و غریب بات سامنے آئی کہ وافر خوراک کے باوجود کئی زو پلانکٹن آہستہ آہستہ مرنے لگے۔ یہ دیکھ کر پروفیسر حیاتیات اور اس کے ساتھی حیران رہ گئے۔ اب انہوں نے تحقیق کی کہ وافر خوراک کے باوجود زو پلانکٹنوں کی اموات میں اضافہ کیوں ہوگیا؟یہ بہت حیرت کی بات تھی۔
تحقیق سے ان پر منکشف ہوا کہ مسلسل روشنی اور زیادہ بلند درجہ حرارت ملنے سے الجی کی پیداوار بڑھ تو گئی مگر یہ پودا پہلے جیسی غذائیات ( nutrients) کا حامل نہیں رہا۔ الجی میں شکر اور کاربوہائیڈریٹ کی مقدار بڑھ گئی جبکہ وٹامن، معدنیات اور دیگر غذائی عناصر کی مقدار کم ہوگئی ۔گویا ماہرین نے الجی کی نشوونما تیز رفتار بناکر اسے درحقیقت ''ردی غذا'' (Junk Food) میں تبدیل کردیا۔ زو پلانکٹن کو وافر الجی تو دستیاب تھی مگر انہیں مطلوبہ غذائیت میسر نہ آسکی... اسی لیے کمزور جسم والے جانور قبل از وقت دم توڑنے لگے۔
اراکلی لولاڈز ریاضی کا طالب علم تھا مگر بیان ہو چکا کہ حیاتیات بھی اس کا پسندیدہ مضمون تھا۔ اب وہ سوچنے لگا کہ دنیا بھر میں رکازی ایندھن (کوئلہ، تیل، گیس) کی وجہ سے درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ کیا یہ بڑھتا درجہ حرارت سبھی نباتات میں غذائیت کم کرسکتا ہے؟ مثال کے طور پر گھاس میں غذائیت کم ہوجائے اور گائے بھینس مطلوبہ غذائیت نہ ملنے سے کمزور و ناتواں ہونے لگیں۔ اسی طرح چاول میں غذائیت گھٹ جائے اور وہ ردی غذا بن کر رہ جائے۔
دنیا میں بیشتر پودے توانائی پانے اور زندہ رہنے کی خاطر دھوپ یا مصنوعی روشنی، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کے ذریعے اپنی غذا تیار کرتے ہیں۔ یہ غذا پودے میں شکر، کاربوہائیڈریٹ، وٹامن معدنیات اور دیگر غذائی عناصر کی صورت محفوظ ہوتی ہے۔ اس غذا کی تیاری کے دوران ہی فاضل مصنوعہ کے طور پر آکسیجن جنم لیتی ہے۔ اسی آکسیجن کے دم قدم سے کرہ ارض پر زندگی آباد ہے۔ یہ ساراعمل سائنسی اصطلاح میں ''ضیائی تالیف'' (Photosynthesis) کہلاتا ہے۔
زمین کی 78 فیصد فضا نائٹروجن اور 21 فیصد آکسیجن گیسوں سے بنی ہے۔ یہ دونوں شفاف گیسیں ہیں یعنی روشنی ان سے آرپار ہوجاتی ہے۔ زمینی فضا کا بقیہ ایک فیصد حصہ ''سبزمکانی گیسیوں'' (greenhouse gases)پر مشتمل ہے جن میں آبی قطرے (water Vapors) ، کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، ہالو کاربنز، نائٹرس آکسائیڈ اور اوزون شامل ہیں۔
یہ سبھی غیر شفاف ہیں یعنی روشنی ان میں جذب ہوجاتی ہے۔ یہ سبز مکانی گیسیں زمین کا درجہ حرارت نارمل رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ ہماری نصف زمین دن بھر سورج کی شعاعوں یا دھوپ کی زد میں رہتی ہے۔ جب اس نصف کرہ ارض پر رات آئے، تو وہ ٹھنڈی ہونے لگتی ہے۔ تب زمین میں جذب شدہ دھوپ کی حرارت دوبارہ اوپر اٹھنے لگتی ہے۔
اس حرارت کا کچھ حصہ سبز مکانی گیسیں جذب کرلیتی ہیں اور بقیہ خلا میں فرار ہوجاتا ہے۔ یہ عمل ''سبز مکانی اثر''(greenhouse effect) کہلاتا ہے اور اسی کے ذریعے ہماری زمین کا درجہ حرارت 15 درجے سینٹی گریڈ کے آس پاس رہتا ہے۔ اگر سبز مکانی گیسیں نہ ہوں، تو رات کو ہماری دنیا کا نصف کرہ شدید ٹھنڈ کی لپیٹ میں آسکتا ہے اور وہاں بیشتر زندگی ناپید ہوجائے گی۔
مسئلہ یہ ہے کہ اگر فضا میں سبز مکانی گیسوں کی مقدار بڑھ جائے، تو سبز مکانی اثر بھی طاقتور ہوجاتا ہے... یعنی وہ زمین کا درجہ حرارت بلند کرنے لگتا ہے۔ ہماری زمین فی الوقت اسی مسئلے سے دوچار ہے کہ وہ ہر آنے والے دن زیادہ گرم ہورہی ہے اور اس مسئلے نے خاصی حد تک انسانی سرگرمیوں کے ذریعے جنم لیا۔
1750ء کے بعد صنعتی انقلاب کا آغاز ہوا تو انسان رکازی ایندھن وسیع پیمانے پر استعمال کرنے لگا۔ اس وقت زمین کی فضا میں چکر کھاتی گیسوں کے ہر دس لاکھ حصوں میں سے ''288'' حصے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے تھے۔ آج یہ تعداد بڑھ کر 400 تک پہنچ چکی۔ وجہ یہ کہ رکازی ایندھن جلنے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑی مقدار فضا میں خارج ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2075ء تک زمینی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے حصوں کی تعداد 550 تک پہنچ جائے گی کیونکہ انسان بدستور رکازی ایندھن استعمال کررہا ہے۔
انسان سے وابستہ مختلف سرگرمیاں دیگر سبز مکانی گیسوں کی تعداد بھی بڑھا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر گائے بھینسوں کی جگالی کا عمل میتھین پیدا کرتا ہے۔ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں 30 گنا زیادہ روشنی جذب کرتی ہے۔ ہالو کاربنز گیسیں پلاسٹک کی تیاری میں کام آتی ہیں۔ لہٰذا جب پلاسٹک جلایا جائے، تو یہ گیسیں فضا میں پہنچ جاتی ہیں۔ ان گیسیوں کا ایک حصہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ایک حصے کی نسبت ''دس ہزار گنا'' زیادہ روشنی جذب کرتا ہے۔ نائٹرس آکسائیڈ کھیتی باڑی کے عمل سے خارج ہوکر فضا میں شامل ہوتی ہے۔ یہ بھی طاقتور سبز مکانی گیس ہے۔
نباتات کی حد تک فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا بڑھ جانا بنی نوع انسان کے لیے خطرناک امر ہے۔ وجہ یہ کہ دنیا بھر میں اربوں انسان پیٹ بھرنے کی خاطر اناج، سبزیاں اور پھل استعمال کرتے ہیں۔ اگر ان نباتات میں غذائیت کم سے کم ہوتی گئی تو پھر انسان کی عمر بھی گھٹتی جائے گی اور مرد، عورت اور بچے کمزوری کے باعث وقت سے پہلے ہی مرنے لگیں گے۔ ظاہر ہے جب انسانی جسم کو مطلوبہ غذائیت نہ ملے، تو وہ کمزور ہوجاتا ہے۔
زوپلانکٹن کے تجربے کے بعد سب سے پہلے اراکلی لولاڈز ہی کو خیال آیا کہ زمین کی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی مقدار بڑھ رہی ہے۔ کیا یہ اضافہ نباتات پر کسی قسم کے اثرات مرتب کررہا ہے کیونکہ وہ ضیائی تالیف کے دوران کاربن ڈائی آکسائیڈ استعمال کرتے ہیں؟ اس نے مختلف یونیورسٹیوں اور علمی اداروں سے رابطہ کیا، مگر کہیں بھی سائنس دانوں نے اس موضوع پر تحقیق و تجربات نہیں کیے تھے۔ اراکلی کو بہت حیرت ہوئی کیونکہ یہ نسل انسانی کی بقا خطرے میں ڈال دینے والا سنگین معاملہ ہے۔
چناں چہ وہ اس مسئلے پر خود ہی تحقیق کرنے لگا۔ اس دوران 2004ء میں یونیورسٹی آف ٹیکساس کے ماہرین حیاتیات کی پانچ سالہ تحقیق کے حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔ انہوں نے اپنی تحقیق میں یہ دیکھا تھا کہ 1950ء سے لے کر 1999ء تک چالیس سے زائد اناج، پھلوں اور سبزیوں کی غذائیت میں کتنی کمی آئی ہے۔
واضح رہے، 1950ء کے بعد سے ماہرین اناج، سبزی اور پھل کی پیداوار بڑھانے کے لیے ان پر مختلف سائنسی تجربات کررہے ہیں۔ اس دوران ایسے بیج پیدا کیے گئے جو زیادہ پیداوار دیں اور کیڑوں کا مقابلہ کرسکیں۔ گویا تمام تر دھیان یہ رہا کہ ایسے سائنسی طریقے ایجاد کیے جائیں جن کی بدولت اناج، سبزی اور پھل کی پیدوار بڑھ سکے۔ ٹیکساس یونیورسٹی کے ماہرین نے اپنی تحقیق سے دریافت کیا کہ یہ غیر فطری طریقے اختیار کرنے کی وجہ سے اناج، سبزی اور پھل کی غذائیت میں ''5 یا 40 فیصد''کمی آگئی۔
اس اثنا میں نت نئی کھادیں بھی متعارف کرائی گئیں جنہوں نے زمین کو مصنوعی طور پر زرخیز بنادیا۔مگر زمین رفتہ رفتہ اپنی قدرتی قوت سے محروم ہوتی گئی۔ اس عمل نے غذاؤں کی غذائیت ہی نہیں ذائقے پر بھی منفی اثر ڈالا۔ یہی وجہ ہے، اب اکثر لوگ یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ غذائیں پہلے کی طرح مزے دار اور ذائقے دارنہیں ہوتیں۔
ادھر ارا کلی لولاڈز اپنی تحقیق و تجربات پر لگا رہا۔ کچھ عرصہ قبل اس نے اپنی تحقیق مکمل کرلی جس نے ایک اور حیرت انگیز انکشاف کیا... یہ کہ واقعی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر سبز مکانی گیسوں کی کثرت کے باعث اناج، پھل اور سبزیوں میں غذائیت گھٹ رہی ہے۔
اراکلی کی تحقیق کے مطابق پچھلی نصف صدی میں غذاؤں میں تمام اہم وٹامن، معدنیات اور دیگر غذائی عناصر مثلاً کیلشیم، فارسفورس، پروٹین، زنک، فولاد، چکنائی، فائبر، میگنیشیم، پوٹاشیم، وٹامن سی، وٹامن اے وغیرہ کی مقدار کم ہوچکی۔ کسی غذا کی غذائیت میں زیادہ کمی آئی ہے اور کسی کی کم... لیکن ہر غذا کی غذائیت ماضی کے مقابلے میں خاصی گھٹ گئی ہے۔
انسان اناج، سبزی اور پھل کے ذریعے ہی توانائی پاتا اور زندہ رہتا ہے۔ انسان نے خود ہی اس زندگی بخش غذائی نظام کو سب سے پہلے پیداوار بڑھانے کی طلب اپنا کر نقصان پہنچایا۔ دوم فضا میں بڑھتی سبز مکانی گیسوں نے بھی غذاؤں میں غذائیت کم کردی۔ غذاؤں کو نقصان پہنچانے والا تیسرا عمل لالچی اور ظالم انسانوں کے ہاتھوں ظہور پذیر ہورہا ہے۔ یہ لوگ زیادہ کمائی کی خاطر غذاؤں میں زہریلے عناصر ملا کر انہیں ملاوٹی اور زہریلا بنا دیتے ہیں۔پاکستان ،بھارت اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں اس قسم کی ملاوٹ دودھ، مسالوں، پسے اناج اور تیل میں عام ہوچکی۔
ماہرین طب کے مطابق غذاؤں میں غذائیت کم ہونے سے انسانوں کی صحت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ مطلوبہ غذائیت نہ ملنے سے انسان کو بیماریوں سے بچانے والے مامون نظام (immune system) کوضعف پہنچے گا۔ چناں چہ رنگ برنگ امراض آسانی سے انسانوں کو اپنا شکار بنانے لگیں گے۔ یہ عجوبہ سامنے آچکا کہ بہت سے لوگ اچانک کسی موذی بیماری کا نشانہ بنتے اور راتوں رات چل بستے ہیں۔ اس عجوبے کو جنم دینے والے عوامل میں ایک یہ بھی ہے کہ ہماری غذا میں پہلے کی طرح غذائیت نہیں رہی اور وہ ردی غذائیں بن چکیں۔
یہ یاد رہے کہ دنیا بھر میں اربوں انسانوں کا گزارا اناج ،دالوں اور سبزیوں پہ ہے۔ خاص طور پر زیادہ آبادی والے ممالک مثلاً چین، بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، نائیجیریا وغیرہ میں گندم، چاول اور دالیں ہی وسیع پیمانے پر کھائی جاتی ہیں۔ مگر ان غذاؤں میں غذائیت کم ہونے سے عام لوگ اینمیا (خون کی کمی)، ذہنی پستی اور عام جسمانی کمزوری کا شکار ہورہے ہیں۔اناج، سبزی اور پھل میں کاربوہائیڈریٹ زیادہ بڑھنے کا ایک نقصان بھی ہے... یہ کہ ایسی غذائیں کھا کر انسان ذیابیطس، مٹاپے اور امراض قلب کا شکار ہورہے ہیں۔ اسی لیے دنیا بھر میں یہ تینوں بیماریاں لاکھوں مرد و زن کو نشانہ بناچکی۔
انسان نے ترقی کر کے نت نئی ایجادات کی مدد سے اپنی زندگی آسان بنا لی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ انسان کا لالچ اور خواہشات بڑھتی چلی جا رہی ہیں اور ان کی تکمیل کے لیے غیر فطری اقدامات کرنے لگا ہے۔غذاؤں سے کھلواڑ اسی کج روی کا مظہر ہے۔لالچ ایک ایسے راستے کے مانند ہے جس کا کوئی انت نہیں...لالچی انسان خواہشات کاغلام بن کر اس پہ چلتا چلا جاتا ہے مگر وہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔حتی کہ ایک دن انسان خود ختم ہو جاتا ہے۔بنی نوع انسان نے اگر اپنی ہوس ولالچ پر قابو نہ پایا تو فطرت دشمن بن کر اسے ہی نیست ونابود کر دے گی۔