کراچی میں زمینوں پر قبضے سپریم کورٹ نے اویس مظفر ٹپی و ریونیو افسروں سے آج جواب مانگ لیا
بورڈ آف ریونیو،نجی زمینوں کی منتقلی پر کوئی پابندی نہیں،جسٹس جمالی
سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجربینچ نے بورڈ آف ریونیوکے معاملات میں مداخلت اور زمینوں پر قبضے کے الزام میںاویس مظفر عرف ٹپی، سینئرممبر بورڈ آف ریونیوشازرشمعون، آفتاب پٹھان، ریونیوافسریارمحمد بوذدار، محمد حمادچاچڑاورمحمد علی شیخ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اپنے خلاف الزامات کا جواب داخل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے زمینوں کے انتقال کے متعلق سپریم کورٹ کے حکم کی غلط تشریح کرنے پر ریونیو افسران پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ نجی زمینوں کی منتقلی پر کوئی پابندی نہیں ریونیوافسران ذاتی مفادات کیلیے عدالتی احکامات کی غلط تشریح نہ کریں۔ جمعرات کو جسٹس انورظہیرجمالی کی سربراہی میں 5جسٹس خلجی عارف حسین ، جسٹس سرمد جلال عثمانی ، جسٹس گلزار احمد رکنی لارجربنچ نے جمعرات کو بھی کراچی بد امنی ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی، اس موقع پر سینئرممبربورڈ آف ریونیو شازر شمعون جبکہ محکمے کی جانب سے یاورفاروقی ایڈووکیٹ و دیگر پیش ہوئے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ 2006سے اب تک 542افرادکو17ہزار942ایکڑ اراضی الاٹ کی گئی ہے، عدالت کو بتایا گیا کہ عدالتی حکم کے مطابق 28نومبر2012کے بعد سرکاری و نجی اراضی کی الاٹمنٹ پر مکمل پابندی عائد کردی گئی تھی، جس پر جسٹس انور ظہیرجمالی نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا حکم صرف سرکاری اراضی سے متعلق تھا عام شہریوں کو کیوں پریشان کیا جارہا ہے، محکمہ ریونیوکے وکیل یاور فاروقی ایڈوکیٹ نے بتایا کہ عدالتی فیصلے کے بارے میں ایڈوکیٹ جنرل کی رائے کے مطابق سرکاری و نجی اراضی کی الاٹمنٹ پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
بینچ نے واضح کیا کہ دوران سماعت کسی زبانی ریمارکس کی کوئی اہمیت نہیں عدالتی حکم ہمیشہ تحریری صورت میں ہوتے ہیں۔ عدالت کے استفسار پر یاورفاروقی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے سانحے کے بعد سندھ میں 6000 دیہہ میں سے 874دیہہ کا ریکارڈ جل گیا تھا جس میں 80 فیصد ریکارڈ کو ازسرنو مرتب کرلیا گیا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے زمینوں کے انتقال کے متعلق سپریم کورٹ کے حکم کی غلط تشریح کرنے پر ریونیو افسران پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ نجی زمینوں کی منتقلی پر کوئی پابندی نہیں ریونیوافسران ذاتی مفادات کیلیے عدالتی احکامات کی غلط تشریح نہ کریں۔ جمعرات کو جسٹس انورظہیرجمالی کی سربراہی میں 5جسٹس خلجی عارف حسین ، جسٹس سرمد جلال عثمانی ، جسٹس گلزار احمد رکنی لارجربنچ نے جمعرات کو بھی کراچی بد امنی ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی، اس موقع پر سینئرممبربورڈ آف ریونیو شازر شمعون جبکہ محکمے کی جانب سے یاورفاروقی ایڈووکیٹ و دیگر پیش ہوئے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ 2006سے اب تک 542افرادکو17ہزار942ایکڑ اراضی الاٹ کی گئی ہے، عدالت کو بتایا گیا کہ عدالتی حکم کے مطابق 28نومبر2012کے بعد سرکاری و نجی اراضی کی الاٹمنٹ پر مکمل پابندی عائد کردی گئی تھی، جس پر جسٹس انور ظہیرجمالی نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا حکم صرف سرکاری اراضی سے متعلق تھا عام شہریوں کو کیوں پریشان کیا جارہا ہے، محکمہ ریونیوکے وکیل یاور فاروقی ایڈوکیٹ نے بتایا کہ عدالتی فیصلے کے بارے میں ایڈوکیٹ جنرل کی رائے کے مطابق سرکاری و نجی اراضی کی الاٹمنٹ پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
بینچ نے واضح کیا کہ دوران سماعت کسی زبانی ریمارکس کی کوئی اہمیت نہیں عدالتی حکم ہمیشہ تحریری صورت میں ہوتے ہیں۔ عدالت کے استفسار پر یاورفاروقی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے سانحے کے بعد سندھ میں 6000 دیہہ میں سے 874دیہہ کا ریکارڈ جل گیا تھا جس میں 80 فیصد ریکارڈ کو ازسرنو مرتب کرلیا گیا ہے۔