ریفرنڈم کی راہ تکتے مظلوم کشمیری

دور حاضر میں کئی مقبوضہ علاقے ریفرنڈموں کی بدولت آزاد ہو چکے مگر کشمیریوں کو انصاف نہیں مل سکا

جب بھی وہاں ریفرنڈم ہوا ،کشمیری مسلمانوں نے بھارت سے علیحدگی کا فیصلہ سنا دینا ہے۔ فوٹو: فائل

کچھ عرصہ قبل برطانیہ میں شامل اسکاٹ لینڈ،اسپینی علاقے کاتالونیا اور عراق کے ایک حصے،کردستان میں عوامی ریفرنڈم منعقد ہوئے۔ان تینوں علاقوں کے باشندگان معاشی،معاشرتی،ثقافتی،لسانی یا مذہبی بنیاد پر اپنے خطّوں کو آزاد وخودمختار دیکھنا چاہتے ہیں۔اس سے قبل ریفرنڈموں کی وساطت ہی سے اندونیشیا کا علاقہ مشرقی تیمور اور سوڈان کا حصہ،جنوبی سوڈان آزاد ریاستوں کی روپ میں ڈھل چکے۔

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ریفرنڈم کرانے کے سلسلے میں مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کا کیس سب سے زیادہ مضبوط ہے۔اس خطے میں مسلم اکثریت ہے اور وہ ہندو حکومت کے ماتحت زندگیاں نہیں گذارنا چاہتے۔لیکن عالمی قوتیں ان کے مطالبہ آزادی سے مسلسل چشم پوشی کر رہی ہیں۔

بظاہر وہ جموہریت اور انسانی حقوق کی چیمپئن بنتی ہیں مگر مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں ان کا عجیب وغریب رویّہ عیاں کرتا ہے کہ وہ منافق اور اپنے مفادات کی اسیر ہیں۔چونکہ ان کے مفادات بہت بڑی منڈی رکھنے والے بھارت کی خوشنودی و دوستی سے وابستہ ہیں لہذا وہ ریفرنڈم کرانے کے لیے بھارتی حکمرانوں پہ دباؤ ڈالنے سے گریز کرتی ہیں۔زیادہ سے زیادہ معصوم سا بھارت مخالف بیان داغ دیا جاتا ہے۔

ایک طرف مقبوضہ کشمیر بے انصافی کا نشانہ بنا ہوا ہے،دوسری سمت عالمی طاقتوں نے مسلم انڈونیشیا پر زبردست دباؤ ڈالے رکھا کہ وہ مشرقی تیمور میں ریفرنڈم کرا دے۔ان کا استدلال تھا کہ مشرقی تیمور میں عیسائیوں کی اکثریت ہے جو مسلم حکومت کے تحت نہیں رہنا چاہتے۔انڈونیشی حکومت نے آخرکار یہ دلیل تسلیم کر کے اگست1999ء میں وہاں ریفرنڈم کرا دیا۔حسب توقع مشرقی تیمور کے عیسائیوں نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا اور علاقہ آزاد ریاست بن گیا۔

اسی طرح عالمی قوتوں نے حکومت سوڈان پر مسلسل دباؤ ڈالے رکھا کہ وہ جنوبی سوڈان میں ریفرنڈم کرائے۔اب بھی ان کی بنیادی دلیل یہی تھی کہ علاقے میں عیسائیوں کی اکثریت ہے جو اپنی تہذیب وتمدن اور اقدار وروایات کے مطابق زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔سوڈانی حکومت نے بھی جنوری 2011 ء میں جنوبی سوڈان میں ریفرنڈم کرا دیا۔علاقے کے لوگوں نے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا ،سو جنوبی سوڈان آزاد مملکت بن گیا۔

مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت ہے اور وہ بھی اپنے مذہبی اصولوں کے مطابق آزادی سے زندگی گذارنے کے خواہش مند ہیں۔وہ ہندو حکومت کے ماتحت رہنا پسند نہیں کرتے۔اسی لیے 1947 ء سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ علاقے میں ریفرنڈم کرایا جائے تاکہ وہ اپنی تقدیر کا خود فیصلہ کر سکیں۔مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کی مثالیں سامنے رکھتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں ریفرنڈم کرانے کے ضمن میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے مگر بھارتی حکمران ڈھٹائی و بے شرمی سے علاقے کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دے دیتے ہیں۔

حد یہ ہے کہ بھارت کے پہلے وزیراعظم،پنڈت نہرو نے مقبوضہ کشمیر میں ریفرنڈم یا استصواب رائے کرانے کا وعدہ کیا تھا مگر وہ ایفا نہ ہو سکا۔غرض مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں بھارت اور عالمی قوتوں نے لاپروائی،ڈھٹائی اور ظلم کا جو وتیرہ اختیار کر رکھا ہے وہ انتہائی شرمناک اور غیر انسانی و غیر قانونی داستان ہے۔بھارت کی موجودہ قوم پرست مودی حکومت اب کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح بھارتی ہندوؤں کو مقبوضہ کشمیر میں رہنے بسنے کی اجازت مل جائے۔مقصد یہ ہے کہ کشمیرمیں مسلم اکثریت کم سے کم کر دی جائے۔یوں علاقے میں ریفرنڈم کرانے کا مطالبہ کمزور پڑ جائے گا۔

بھارتی حکمرانوں نے مقبوضہ کشمیر کو تین خطوں...وادی کشمیر،جموں اور لداخ میں تقسیم کر رکھا ہے۔ان میں ایک کروڑ پچیس لاکھ سے زیادہ نفوس بستے ہیں۔وادی کشمیر کے دس اضلاع ہیں۔ان کی آبادی میں مسلمانوں کی شرح فیصد کا حساب یہ ہے:اننت ناگ (98فیصد)، کلگام( ژ99.48فیصد)، شوپیاں(98.52فیصد)، پلوامہ(95.49فیصد)، بڈگام(97.65فیصد)، سری نگر (95.19فیصد)، گاندربل (97.69فیصد)، بارہ مولہ(95.15فیصد)،کپواڑہ (94.59فیصد)اور بندی پورہ(97.39فیصد)۔

جموں کا علاقہ بھی دس اضلاع پر مشتمل ہے۔ان اضلاع میں مسلم آبادی کا تناسب یہ ہے: پونچھ (90.45 فیصد)، رام بن(70.68فیصد)، راجوڑی(62.71فیصد)، کشتواڑ (57.75فیصد)، ڈوڈا(53.82فیصد)، ریاسی (49.66فیصد)، ادھم پور (10.77فیصد)، کتھوا (10.42 فیصد)، سامبا(7.2فیصد) اور جموں (7.03فیصد)۔

لداخ کا علاقہ دو اضلاع پر مشتمل ہے۔ان میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب یہ ہے: کارگل(76.87فیصد)۔ اس ضلع میں 14.29فیصد بدھ مت اور 7.34 فیصد باشندے ہندومت کے ماننے والے ہیں۔ لیہہ(14.28فیصد)۔ضلع میں66.4 فیصدبدھ مت اور 17.14فیصد ہندومت سے تعلق رکھتے ہیں۔

واضح رہے کہ درج بالا اعداد وشمار بھارتی محکمہ مردم شماری کی ویب سائٹ سے اخذشدہ ہیں۔یہ عیاں کرتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے ''21''اضلاؑع میں سے ''17''میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔گویا جب بھی وہاں ریفرنڈم ہوا ،کشمیری مسلمانوں نے بھارت سے علیحدگی کا فیصلہ سنا دینا ہے۔اسی اندیشے کے باعث بھارتی حکمران مقبوضہ کشمیر میں ریفرنڈم کرانے سے گریز کرتے چلے آ رہے ہیں۔صد افسوس انصاف اور قانون کی بالادستی کی دعوی دار عالمی قوتیں بھی اس معاملے میں بھارت کی حمایتی وطرفدار بنی ہوئی ہیں۔یہ طرزعمل عالمی طاقتوں کی منافقت کا پردہ چاک کر دیتا ہے۔

کاتالونیا کا معاملہ بھی مقبوضہ کشمیر سے کچھ حد تک ملتا جلتا ہے۔یہ ا سپین کا نیم خود مختار علاقہ ہے جو چار صوبوں (بارسلونا، جیرونا، لریدا اور تاریگونا) پر مشتمل ہے۔ علاقے میں پچھتّر لاکھ سے زائد لوگ بستے ہیں۔گویا علاقے کی آبادی سوئٹزر لینڈ جتنی ہے۔علاقے کا شمار اسپین کے دولتمند علاقوں میں ہوتا ہے۔قومی جی ڈی پی میں اس کا حصہ 19فیصد سے زیادہ ہے۔مگر کاتالونیا میں یہ خیال عام ہے کہ وفاقی حکومت آمدن تو ساری لے لیتی ہے مگر بدلے میں علاقے میں بہت کم ترقیاتی کام کراتی ہے۔ کاتالونیا کے مقامی باشندے ایک علیحدہ زبان (کاتالونی) بولتے ہیں نیز ان کی تہذیب، ثقافت اور ادب بھی مختلف ہے۔

دراصل ماضی میں کاتالونیا ایک آزاد ریاست رہا ہے۔ لہٰذا اب اہل کاتالونیا اسپین سے نجات پاکر دوبارہ آزاد و خود مختار ہونا چاہتے ہیں تاکہ اپنی زبان ، تہذیب و ثقافت، ادب اور معیشت کو ترقی دے سکیں۔مذید براں انھیں شکایت ہے کہ ہسپانوی حکمران طبقہ علاقے پر توجہ نہیں دیتا اور اہل کاتالونیا کو بھاری ٹیکسوں کا نشانہ بناتا ہے۔اہل کاتالونیا یہ بھی سمجھتے ہیں کہ حکمران طبقہ ان پر زبردستی ہسپانوی زبان، تہذیب و ثقافت تھوپ رہا ہے۔صورت حال 2015ء کے بعد گھمبیر ہوئی جب کاتالونیا میں آزادی پسند لیڈر برسراقتدار آ گئے۔

جنوری 2017ء میں ان لیڈروں نے ایک اجلاس منعقد کیا جس میں آزادی کے سلسلے میں ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ ہوا۔ 6 ستمبر 2017ء کو کاتالونیا کی پارلیمنٹ نے ریفرنڈم کرانے کے لیے ایک قانون منظور کرلیا۔ قانون میں اعلان کیا گیا کہ اگر ووٹروں کی زیادہ تعداد نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا، تو کاتالونیا آزاد مملکت بن جائے گا۔کاتالونیا کی حزب اختلاف اور وفاقی حکومت، دونوں نے یہ قانون مسترد کردیا۔


حزب اختلاف نے اپنے ووٹروں سے اپیل کی کہ وہ ریفرنڈم میں ووٹ نہ ڈالیں۔ جبکہ اسپینی حکومت نے پولیس کو متحرک کردیا تاکہ وہ ہل کاتالونیا کو ووٹ ڈالنے نہ دے۔چناں چہ جب 1 اکتوبر کو ریفرنڈم منعقد ہوا، تو کئی مقامات پر پولیس اور ووٹروں کے مابین متشددانہ جھڑپیں ہوئیں۔ جھڑپوں کے باعث ایک ہزار سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔

کاتالونیا میں ووٹروں کی کل تعداد 53 لاکھ 13 ہزار 564 ہے۔ ان میں سے 22 لاکھ 62 ہزار 424 نے ریفرنڈم میں ووٹ ڈالا۔ گویا 42.58 ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ ان میں سے 20 لاکھ 20 ہزار 144 ووٹروں نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 1 لاکھ 76 ہزار 565 نے مخالفت میں ووٹ ڈالا۔ گویا ووٹروں کی بھاری بھرکم تعداد (91.96 فیصد) آزادی کی حامی نکلی۔

ریفرنڈم کے بعد اسپین میں حالات ہیجان انگیز ہوگئے۔ وفاقی حکومت اور آئینی عدالت، دونوں نے ریفرنڈم کو مسترد کردیا۔ ہسپانوی حکمران طبقہ کاتالونیا کو خود مختار ہوتا نہیں دیکھ سکتا، چناں چہ وہ آزادی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ برطانوی حکمران اس ضمن میں سپینی حکمرانوں سے زیادہ عاقل و دانش مند نکلے۔ اسکاٹ لینڈ میں بھی اسکاٹش زبان بولی جاتی ہے، گو انگریزی کا چلن بھی عام ہے۔اسی طرح کاتولونیا میں بھی ہسپانوی زبان سمجھ لی جاتی ہے۔ زبان کی رکاوٹ کے باوجود برطانوی وزیر، سیاست داں سکاٹ لینڈ پہنچے اور انہوں نے علیحدگی پسندوں کے خلاف بھر پور تحریک چلائی۔ لیکن ہسپانوی وزیر اور سیاست داں میڈرڈ (دارالحکومت) ہی میں براجمان رہے اور انہوں نے کاتالونیا جانا گوارا نہیں کیا۔ اہل کاتالونیا نے اس روش کو غرور و تکبر کی علامت بھی قراردیا۔

تبدیلی کانیا ہتھیار
دور حاضر میں ہر ملک میں عوام کی طاقت کا ایک اظہار ریفرنڈم بھی بن چکا ۔ جب کسی قانون یا مسئلے پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف کا اتفاق نہ ہوسکے تو حکومت عموماً ریفرنڈم کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی سعی کرتی ہے۔ گویا ریفرنڈم وسیع پیمانے پر اتفاق رائے حاصل کرنے کا طریق کار بن گیا۔مغربی مورخین کا دعویٰ ہے کہ ریفرنڈم نے تیرہویں صدی کے سوئٹزرلینڈ میں جنم لیا۔ جب وہاں کوئی نیا قانون بنانا ہوتا، تو عوامی ریفرنڈم کرالیا جاتا۔



 

اس میں بالغ مرد و زن ہاتھ اٹھا کر رائے دیتے تھے۔ اس طریق کار سے سینکڑوں سوئس قوانین وجود میں آئے۔ اسی لیے سوئٹزر لینڈ ''دنیا میں ریفرنڈموں کا صدر مقام'' کہلاتا ہے۔ریفرنڈم کی تشریح اسی مقولے میں پوشیدہ ہے: ''عوام کی طاقت اقتدار میں بیٹھے لوگوں کی قوت سے زیادہ ہوتی ہے۔'' یہی وجہ ہے، اسکاٹ لینڈ کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ مملکت متحدہ برطانیہ (یوکے) سے الگ ہونے کی خاطر ریفرنڈم کرایا جائے، تو برطانوی حکومت کو یہ فیصلہ تسلیم کرنا پڑا۔ اس نے اسکاٹش عوام کی رائے کا احترام کیا اور اسے انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔

برطانوی حکومت چاہتی تھی کہ اسکاٹ لینڈ یوکے کا حصہ رہے۔ چناں چہ حاضر و سابق برطانوی وزیروں کی بڑی تعداد سکاٹ لینڈ پہنچ گئی۔ انہوں نے اتحاد برقرار رکھنے کی خاطر سرگرم مہم چلائی۔

جب ریفرنڈم ہوا، تو تحریک علیحدگی کے لیڈر شکست کھاگئے۔ گویا برطانوی حکومت نے جمہوری قوانین و اصولوں کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اسکاٹش علیحدگی پسندوں کا مقابلہ کیا اور انہیں مات دے ڈالی۔ یہ جمہوریت کا حسن ہے اور اس کی خوبی بھی۔لیکن عراق اور اسپین میں حکومتوں نے جمہوری اصولوں کی پاس داری نہ کی اور علیحدگی پسندوں سے ٹکرائو مول لے لیا۔ عراق میں تو خیر جمہوریت نوزائیدہ ہے، مگر ہسپانوی حکومت کے متشددانہ رویے نے سبھی کو حیران کردیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹکرائو کی پالیسی کے باعث اسپین میں سیاسی، معاشرتی اور معاشی حالات بتدریج خراب ہوسکتے ہیں۔

کردستان میں ریفرنڈم
عراق میں کردستان ایک نیم خود مختار علاقہ ہے۔ یہ چار صوبوں یا ولایتوں پر مشتمل ہے۔ علاقے کا کل رقبہ 78 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے جہاں تریپن لاکھ افراد آباد ہیں۔ ان میں کرد نسل کے لوگوں کی اکثریت ہے۔ یہ علاقہ تیل و گیس سے مالا مال ہے۔

زراعت بھی آبادی کا اہم ذریعہ معاش ہے۔جنوری 2005ء سے کردستان میں مقامی حکومت نے اقتدار سنبھال رکھا ہے جو اپنی پارلیمنٹ رکھتی ہے۔ علاقے میں علیحدگی پسند لیڈروں کا اثرو رسوخ زیادہ ہے جو کردستان کو آزاد و خود مختار ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ مسعود بارزانی ان لیڈروں کا سربراہ اور صدر کردستان ہے۔25 ستمبر 2017ء کو کردستان میں آزاد و خود مختار ہونے یا نہ ہونے کے سوال پر ریفرنڈم منعقد ہوا۔ کل رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 45 لاکھ 81 ہزار 255 تھی۔ ان میں سے 33 لاکھ 35 ہزار 925 ووٹروں نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ گویا ووٹنگ کی شرح 72.82 فیصد رہی۔ ان میں سے 28 لاکھ 61 ہزار 471 ووٹ (92.73 فیصد) آزادی کے حق میں پڑے۔ 2 لاکھ 24 ہزار 464 ووٹروں نے مخالف میں ووٹ دیا۔ گویا ریفرنڈم سے آشکارا ہوا کہ کردستان میں آباد لوگوں کی اکثریت اپنے علاقے کو بطور آزاد مملکت دیکھنا چاہتی ہے۔



کردستان کی مقامی حکومت نے فوراً اعلان آزادی نہیں کیا، وہ اس ضمن میں عراقی حکومت سے گفت و شنید کرنا چاہتی ہے۔ تاہم عراق کی وفاقی حکومت کے علاوہ ایران، شام اور ترکی نے بھی اس ریفرنڈم کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔ عراقی حکومت کوخطرہ ہے کہ کردستان کی تشکیل سے وہ تیل و گیس کی بھاری آمدن سے محروم ہوجائے گی، جبکہ ترکی اور ایران کو خطرہ ہے کہ ان کے ممالک میں آباد کرد بھی عراقی کردوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تحریک آزادی چلاسکتے ہیں۔یہی وجہ ہے ، عراقی حکومت نے کردستان کی مقامی حکومت پر مختلف پابندیاں عائد کردی ہیں۔

مثلاً اب کردستانی بینک غیر ملکی کرسیوں کا لین دین نہیں کرسکتے۔ نیز کردستان کے ہوائی اڈوں پر بین الاقوامی پروازوں کا داخلہ بھی بند ہوچکا۔ نیز عراقی حکومت نے دھمکی دی ہے کہ وہ کرکوک شہر کا انتظام سنبھال لے گی جہاں تیل کے کئی کنوئیں واقع ہیں۔عراق کے وزیراعظم، حیدر العبادی کا کہنا ہے کہ وہ تمام مسائل حل کرنے کی خاطر کردستانی حکومت سے گفت و شنید کے لیے تیار ہیں، مگر کردستان کو آزاد و خودمختار حیثیت کبھی نہیں دی جائے گی۔ عراقی حکومت کے اس استدلال سے کردوں اور عراقی حکومت کے مابین تنائو بڑھ سکتا ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ خطہ خانہ جنگی کا نشانہ بن جائے۔
Load Next Story