توہین عدالت قانون پارلیمنٹ کو قانون بنانے کا اختیار ہے ایکسپریس فورم

محاذآرائی کا سلسلہ جاری رہا تو حکومت کیلیے مسائل بڑھیں گے ، تیسری قوت فائدہ اٹھا سکتی ہے، ڈاکٹر اعجاز بٹ کا اظہار خیال

محاذآرائی کا سلسلہ جاری رہا تو حکومت کیلیے مسائل بڑھیں گے ، تیسری قوت فائدہ اٹھا سکتی ہے ، ڈاکٹر اعجاز بٹ کا اظہار خیال

توہین عدالت قانون پر سپریم کورٹ کا فیصلہ درست ہے تاہم پارلیمنٹ کو نیا قانون بنانے کا اختیار حاصل ہے ۔ اداروں کے درمیان محاذآرائی جمہوریت اور سیاسی جماعتوں کو کمزور کررہی ہے ۔ ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالنے کیلیے درمیانی راستہ تلاش کرنا چاہیے۔

آئینی و سیاسی امور کے ماہرین نے ان ملے جلے خیالات کا اظہار توہین عدالت قانون پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے منعقدہ ''ایکسپریس فورم '' میں کیا ۔ میزبانی کے فرائض اجمل ستار ملک اور شاہد جاوید ڈسکوی نے ادا کیے ۔ اس موقع پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور معروف دانشور عابد حسن منٹو نے کہا کہ اداروں کے درمیان محاذآرائی سے جمہوریت اور سیاسی جماعتیں کمزور ہو رہی ہیں ۔ اس طرح جمہوریت نہیں چل سکتی۔ جو لوگ قانون بناتے ہیں انھیں قانون کا احترام بھی کرنا چاہیے اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کو تسلیم کرنا چاہیے ۔

بدقسمتی سے اس ملک میں نظریہ ضرورت بھی25-30سال چلتا رہا ہم اس کے مخالف تھے لیکن پھر بھی اس کو ماننا پڑا ، بہت سے قوانین غلط ہوتے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد ہوتا ہے ۔ پاکستان میں پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان جو کچھ ہو رہا ہے وہ دنیا میں ہر جگہ ہوتا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ، بھارت میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام کی جمہوریت میں جہاں جہاں ریاست کے تین بڑے ادارے انتظامیہ ، مقننہ اور عدلیہ آزادانہ طور پر اپنا اپنا کام نہیں کرپاتے تو نظام نہیں چل پاتا ۔


اگر پارلیمنٹ ایک بار پھر توہین عدالت کا نیا قانون بنانے جا رہی ہے تو اس میں کوئی پریشانی والی بات نہیں ، قانون بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے ۔ پولیٹکل سائنس ڈپارٹمنٹ پنجاب یونیورسٹی کے سربراہ ڈاکٹر عنبرین جاوید نے کہا کہ ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالنے کیلیے کوئی درمیانی راستہ تلاش کرنا چاہیے ، اس وقت کوئی بھی فریق اپنی پوزیشن سے ہٹنے کیلیے تیار نہیں ، جب تک رویوں میں تبدیلی نہیں آئے گی تب تک حالات اسی ڈگر پر چلتے رہیں گے ۔ اس وقت عدلیہ ، انتظامیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان محاذآرائی کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے ،اس کے ملک پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔

سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر اعجاز بٹ نے کہا ہے کہ توہین عدالت قانون پر سپریم کورٹ کا فیصلہ درست ہے تاہم پارلیمنٹ کو نیا قانون بنانے کا اختیار حاصل ہے ۔ اس وقت انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان جو محاذآرائی جاری ہے اس کا نقصان صرف اور صرف انتظامیہ کو ہو گا عدلیہ کو کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ پارلیمنٹ نے سادہ اکثریت کے ذریعے توہین عدالت کا جو نیا قانون بنایا تھا اس کا مقصد صرف وزیراعظم کو تحفظ دینا تھا جو آئین کی کئی شقوں سے متصادم تھا اسی لیے سپریم کورٹ نے اسے کالعدم قرار دیدیا۔

اگر کوئی قانون دو تہائی اکثریت سے بنایا جاتا ہے تو اس پر عدلیہ کے اختیارات محدود ہوجاتے ہیں ۔ حکومت اب توہین عدالت کے ایک اور نئے قانون پر کام شروع کر رہی ہے، اگر محاذآرائی کا یہ سلسلہ جاری رہا تو حکومت کیلیے مسائل بڑھیں گے ، ایسی صورت میں تیسری قوت کے فائدہ اٹھانے کے امکانات بھی موجود ہوا کرتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اس وقت حکومتی پالیسیوں کے خلاف عوام سڑکوں پر ہیں ، جہاں جہاں انتظامیہ ناکام ہوئی وہاں وہاں عدلیہ نے آگے بڑھ کر کردار ادا کیا ، اس لیے عوام حکومت کے نہیں بلکہ عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں ۔
Load Next Story