عدالتوں پر سیاسی یلغار

مقدمات زیر سماعت کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے کاز لسٹ لمبی ہوتی ہے۔

h.sethi@hotmail.com

میں نے اپنے ایک مقدمہ باز ہونے کی شہرت رکھنے والے دوست سے دریافت کیا کہ تم کبھی مدعی کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے وکیلوں کے دفتروں اور عدالتوں کے چکر لگاتے ہو جس طرح ہر پیشے میں قسم قسم کے لوگ ہوتے ہیں، تمہارے علم میں وکلاء کی کتنی اقسام ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ وکیلوں کی ذہانت اور قابلیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا لیکن ہر پیشے میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ میرے ذاتی علم میں ہے کہ ایک کاروباری شخص اپنا پرابلم عابد حسن منٹو صاحب کے پاس لے کر گیا۔

انھوں نے موکل کا کیس سننے کے بعد گراں فیس کی آفر کے باوجود یہ کہہ کر کیس لینے سے انکار کر دیا کہ قانون کی رو سے اس کیس میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ وکیل کے دفتر میں جانے والا موکل یعنی سوالی کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔ مطلب یہ کہ فیس ادا کر کے ہاتھ میں وکیل صاحب کا وزٹنگ کارڈ لیے بغیر واپس نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ عدالتوں میں مقدمات کے انبار لگے پائے جاتے ہیں اور سچا میرٹ والا مدعی یا مدعا علیہ سالہا سال تک خوار اور پریشان ہوتا ہے۔

مقدمات زیر سماعت کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے کاز لسٹ لمبی ہوتی ہے۔ جج صاحبان بھی لسٹ میں نیچے والے مقدمات کو Left Over کرنے اور آیندہ پیشی پر رکھ دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ وکیل صاحب کے منشی کی مہارت ہوتی ہے کہ وہ عدالتی اہلکار سے اپنے کیس کو لسٹ کے آخر میں رکھوا لے۔

فریق مقدمہ کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی عدالت میں پیشی والے دن اس کے وکیل صاحب کو کن اور کتنے دیگر مقدمات میں پیش ہونا ہے اس لیے سینئر وکیل کا جونیئر یا منشی آواز پڑنے پر عدالت سے انتظار کرنے کی درخواست کرتا ہے کہ وکیل مقدمہ دوسری عدالت یا ہائی کورٹ میں مصروف ہیں۔ اس دوران مدمقابل وکیل کی درخواست بھی جج صاحب کو مل جاتی ہے کہ بہتر ہے مقدمہ کی سماعت Adjourn کر دی جائے کیونکہ خود اسے بھی ایک دوسری عدالت میں پیش ہونا ہے۔ ایسی صورت میں جج صاحب بھی بے بس ہوتے ہیں اور کیس اگلی پیشی پر چلا جاتا ہے۔

کچھ وکلا کا دل ہی نہیں کرتا کہ مقدمہ جس میں وہ کونسل ہیں اپنے انجام کو پہنچے۔ لہٰذا وہ کبھی ناسازئی طبیعت، تو کبھی بوجہ دیگر مصروفیات مقدمے کی تیاری کا وقت نہ ملنے کی بنا پر عدالت سے التوا کی درخواست کر دیتے ہیں جسے عموماً منظور کر لیا جاتا ہے۔


بعض وکلاء کو مجسٹریٹ یا جج کے رویے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ فیصلہ ان کے موکل کے حق میں ہونے کا امکان نہیں۔ لہٰذا وہ جج سے دوران سماعت مقدمہ تلخ کلامی یا سخت ریمارکس کا بہانہ بنا کر مقدمہ کسی دوسری عدالت میں ٹرانسفر کرنے کی درخواست دے کر کیس کو التوا میں ڈالنے کی تکنیک استعمال میں لے آتے ہیں اس طرح وہ اپنے کیس کی سماعت کو طول دینے اور اپنے موکل کے ساتھ تعلق کا دورانیہ طویل کر کے اپنے مالی مفاد کو بڑھانے کی راہ ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

وکیل اور عدالت کے مابین ہمیشہ احترام کا رشتہ رہا ہے اور اس کے بغیر نظام عدل چل بھی نہیں سکتا۔ بدقسمتی سے تربیت کی کمی، معاشی ناہمواری اور بدحالی، کرپشن، ڈیمانڈ اور سپلائی میں عدم توازن اور برداشت کے فقدان کے علاوہ سیاسی دخل اندازی نے وکیل اور عدالت کے باہمی احترام کے رشتے میں دراڑ ڈال دی ہے اور ہمارے ملک میں اب اکثر عدالت کے کمروں، بار رومز میں اور سڑکوں پر ایسے شرمناک اور قابل افسوس مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جن کو کیمروں کی آنکھ محفوظ کر کے وقتاً فوقتاً دکھاتی ہے تو وہ ہمارے ڈوب مرنے کا مقام ہوتا ہے۔

گزشتہ ایک سال میں عدالت عظمیٰ نے بے حد اہم مقدمہ کی سماعت کی اور اس کیس کے تسلسل میں سابق وزیراعظم اور فیملی کو نیب عدالتوں کا سامنا ہے۔ ان مقدمات کے نتیجے میں ملکی تاریخ مستقل کی راہ کا تعین کرے گی۔ ہمیں مزید چھ ماہ انتظار کے بعد صورتحال کا اندازہ ہو گا۔ لیکن اس کیس کے ٹرائل کے دوران عدلیہ، وقت کے حکمران، مدعیاں اور عوام ایک ایسے امتحان اور تجربے سے گزرے جو ناقابل بیان ہے۔ اس امتحان اور تجربے نے ملک اور اس کے عوام و خواص کو ذہنی طور پر جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔

بہت سے لوگوں کا کہنا ہے یہ سب کچھ اچھا ہوا، حکمرانوں کے ساتھیوں کا کہنا ہے برا ہوا۔ سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کا پورا عرصہ پٹیشنرز اور الزام علیہ کے سپورٹرز عدالت کے باہر مجمع لگا کر واہی تباہی کا کھیل کھیلتے رہے جسے عدالت عظمی نے برداشت کیا۔ نواز شریف نااہل قرار دیے گئے لیکن ان سمیت اب پانچ فیملی ممبران کو NAB عدالتوں میں کرپشن کیسز کا سامنا ہے۔

سپریم کورٹ نے ٹرائل مکمل کرنے کے لیے عدالتوں کو چھ ماہ کا وقت دیا ہے۔ ڈیڑھ ماہ سے زیادہ عرصہ گزرچکا لیکن ماتحت عدالت کوشش کے باوجود پانچ میں سے صرف تین ملزمان کو چارج شیٹ کر سکی کیونکہ ملزمان عدالت مجاز کے ساتھ پنجابی میں ''چھپن چھپائی'' کا کھیل کھیل رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے جب عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے تحت نااہل ہونے والے نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر نے فرد جرم کے لیے عدالت میں پیش ہونا تھا تو ملک کے شہریوں اوردنیا نے اسلام آباد کی عدالت کے باہر اور اندر سیاسی وکلاء کی جو ہلڑ بازی دیکھی وہ باعث شرم تھی۔ یہ بات بھی سوال اٹھاتی ہے کہ کیا وزراء اور حکومتی مشیروں کو عدالت کے باہر اور اندر ہلڑبازی اور ہنگامہ آرائی کے لیے آنا چاہیے اور کیا ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو زیب دیتا ہے کہ وہ لاء اینڈ آرڈر پر متعین پولیس آفیسر کو تھپڑ دے مارے اور پراسیکیوٹر کو دھکے پڑیں۔
Load Next Story