ڈھاکا کا میدان جنگ
ہماری اشرافیہ تو مشرقی پاکستان کا باب کب کا بند کر چکی ہے۔
KARACHI:
ڈھاکا میں پاکستان کے خلاف نیا محاذ کھول دیا گیا۔ جنگی جرائم کی آڑ میں عالمی جرائم کی خود ساختہ عدالتیں (CT) پاکستان سے وفا کے جرم میں 3 سرکردہ بنگالی رہنمائوں کو سزائے موت سنا چکی ہیں۔ جناب دلاور حسین سعیدی کو سزائے موت کے اعلان کے بعد سارے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں تا دم تحریر 50 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ حسینہ واجد کی کا بنیادی ہدف جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی قیادت ہے۔ 4 دہائیوں کے بعد شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی نے صرف ووٹوں کی سیاست کے لیے نفرت کے کھیل کو ہوا دے دے کر شعلہ جوالا بنا دیا ہے جس کی آگ نے اب سارے بنگلہ دیش کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
ڈھاکا کی یہ ''ڈرامہ'' عدالتیں 23 مارچ 1971ء سے 16 دسمبر 1971ء کی خانہ جنگی کے دوران ہونے والے مبینہ جرائم کے مقدمات چلانے کے لیے قائم کی گئی ہیں۔ 9 ماہ کے دوران بنگال کے سبزہ زاروں میں بے گناہوں کا لہو بہا یا گیا۔ 4 دہائیوں کے بعد اب ان جرائم کے خلاف مقدمات چلانا نفرت کی دبی ہوئی چنگاریوں کو ہوا دینا ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے 16 دسمبر 1971 ء کو جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے کے بعد جنگ ختم ہو گئی تھی لیکن وفا ئے پاکستان کے جرم میں آج بھی عشق پیشہ بنگالی موت کی سزائیں سُن و بھگت رہے ہیں۔
ہماری اشرافیہ تو مشرقی پاکستان کا باب کب کا بند کر چکی ہے۔ ہماری نئی نسلوں کو سونار بنگلہ، مسجد بیت المکرم اور ان ساحلوں اور سمندروں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں، لیکن پاکستان کے وفا شعار بنگالیوں کی دوسری اور تیسری نسل آج بھی جرم وفا کی سزا بھگت رہی ہیں۔ اور یہ خیال باطل ثابت ہوا کہ دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہو گیا تھا۔ نہیں جناب بالکل نہیں۔ دوقومی نظریہ آج بھی پوری شدت سے بروئے کار ہے، اسی لیے تو بھارت نواز بنگالی شاہ باغ میں پاکستان کے خلاف مورچہ لگائے بیٹھے ہیں۔ جس کے پس پردہ قوت متحرکہ عوامی لیگ کی قیادت اور شیخ مجیب الرحمن کی صاحبزادی حسینہ واجد ہے۔
16 دسمبر 1971 ء کے بعد بنگلہ دیشی حکومت نے ساز باز ایکٹ کے تحت ہزاروں بنگالیوں کو لا متناہی مدت تک قید رکھا تھا۔ مختلف ادوار میں دفاع پاکستان کے لیے جارح بھارتی افواج اور مکتی باہنی کے مقابلے میں سیسہ پلائی دیوار دم توڑ گئے تھے جن میں متحدہ پاکستان قومی اسمبلی کے آخری اسپیکر فضل القادر چوہدری بھی شامل تھے۔ اب ابوالکلام آزاد ، عبدالقادر ملا کے بعد دلاور حسین سعیدی کو ان جرائم ٹریبونلز سے موت کی سزا سنوائی گئی ہے جن کا قیام ہی متنازع اور آئین سے متصادم ہے۔
16 دسمبر 1971 ء تک مشرقی پاکستان، وفاق پاکستان کا حصہ اور خود مختار ریاست تھا جس کا دفاع اس کے تمام باشندوں پر فرض لازم تھا۔ اس وقت پاکستان کے بنگالی باشندوں کو آج 4 دہائیوں کے بعد اپنے وطن کے دفاع کے مقدس جرم میں موت کی سزائیں دی جا رہی ہیں جو انصاف کے تقاضوں اور عالمی نظائر سے متصادم ہیں۔ نام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل 1کی کورٹ نمبر 1 میں جسٹس اے ٹی ایم فضل کبیر نے دلاور حسین سعیدی کو سزائے موت سنانے کا اعلان کرنے سے پہلے بڑے ڈرائی انداز میں خطبہ دیا۔
'' فیصلے کا اعلان کرنے سے پہلے، میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ کمرہ عدالت میں سکوت مرگ طاری تھا۔'' ہمارا ملزم کوئی عالم دین نہیں ہے، نہ ہی وہ دو بار پارلیمنٹ کا رکن رہا ہے، وہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا نائب امیر بھی نہیں ہے'' ۔۔۔ پھر جسٹس فضل کبیر ڈرامائی رنگ بھرنے کے لیے خود سے سوال کرتا ہے ، ''کیا ہم کسی عالم دین پر مقدمہ چلا رہے ہیں ۔۔۔ ''نہیں'''' کیا ہم جماعت اسلامی کے نائب امیر پر مقدمہ چلا رہے ہیں ۔۔۔'' نہیں '''' کیا ہم دو مرتبہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے والے معزز شخص پر مقدمہ چلا رہے ہیں۔ '' نہیں ''
'' نہیں جناب ، ایسا نہیں ہے'' ہمیں اپنے ملزم کی شناخت کے لیے 40 سال پیچھے جانا ہو گا۔ ہمارا ملزم پیروز پور کا رہائشی 30 سالہ نوجوان '' دیلو'' تھا۔ ایک بچے کا باپ، وہ 1971 ء میں عام آدمی تھا۔
دلاور حسین سعیدی، رواں روانی سے اردو بولنے والا نوجوان جس نے پاک فوج کے ساتھ مل کر بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے دوران 9 ماہ میں بنگالی عوام کے خلاف جنگ کی۔
اس مکالمہ بازی کے بعد 120 صفحات پر مشتمل فیصلے کا اعلان کیا گیا جس کے مطابق جرائم ثابت ہونے پر انھیں سزائے موت سنائی گئی۔ انھوں نے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے کا اہم ترین پہلو مدنظر رکھنا چاہیے کہ ہم کسی سابق رکن پارلیمان یا نائب امیر جماعت اسلامی علامہ دلاور حسین سعیدی کے خلاف فیصلہ سنانے نہیں جا رہے۔ جن کے دینی خطبات سننے کے لیے ملک بھر سے ہزاروں لوگ جمع ہوتے ہیں۔ حالات و واقعات اور شواہد کے مطابق ہمارا ملزم دلاور حسین سعیدی کسی قسم کی سیاسی یا سماجی حیثیت نہیں رکھتا، ہمارا ملزم تو ایک کریانہ فروش دلاور حسین سعیدی ہے جس نے مقامی امن کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا تھا جو بنگلہ دیش کی سپاہ آزادی سے لڑنے والی پاک فوج کا وفادار تھا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وکیل صفائی نے موقف اختیار کیا ہے کہ رضا کار دلاور حسین ملک خانہ جنگی کے دوران مارا جا چکا ہے۔ اب بدنیتی کی بنا پر دلاور حسین ملک کے جرائم کی سزا علامہ دلاور حسین سعیدی کو دی جا رہی ہے۔ اور ہمارے ہود بھائی ان مظلوموں کے حوالے سے اپنی پسند کی تاریخ لکھنے کی کوشش کر رہے۔ یہ وہی ہیں جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے مخالف اور پاک فوج کے ملٹری ڈاکٹرائین کے ناقد ہیں۔ پاکستان کے وفادار بنگالیوں کو جرم محبت پر سزا کی خوشخبری سن کر ڈھاکا کے گلی کوچوں میں بھی رقص برپا ہے۔ لیکن آفرین ہے ان بنگالی نوجوانوں پر جو آج بھی اپنے لہو سے انھی گلی کوچوں میں دو قومی نظرئیے کی ابدی سچائی سنہری تاریخ لکھ رہے ہیں۔
ہمارے لیے ڈھاکا ڈوب گیا ہو گا لیکن ان کے لیے آج بھی اسلام کا فلسفہ حیات سر بلند ہے۔ جس کے لیے وہ بلاخوف و خطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے جا رہے ہیں۔ سلام ہے ان وفا شعاروں پر۔ ان تکلیف دہ حقائق کے بعد کچھ ذکر قوم کی بیٹی کائنات موتلہ کینڈی کی دریا دلی اور غریبوں کے لیے محبت کا جنیوا میں مقیم مصورہ کائنات موتلہ کے بارے میں نیویارک میں مقیم ڈاکٹر شجاعت حسین بخاری بتا رہے تھے کہ کس طرح پاکستان کی اس بیٹی نے اپنی بیش قیمت پینٹنگز کی تمام کمائی غریبوں کی نذر کردی ہے۔ WHO کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر غفار کی صاحبزادی کائنات کے نام ای میل میں سابق سیکریٹری خارجہ ریاض کھوکھر نے اسے اپنے فارم ہائوس پر دعوت دی تھی۔ کہتے ہیں کہ با ذوق ریاض کھوکھر کے پاس صادقین سمیت معروف مقامی اور عالمی مصوروں کے فن پاروں کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
ڈاکٹر شمس قاسم لاکھا ۔۔ نگران حکومت کے لیے ان کا نام رواں ہفتے اسلام آباد میں اقتدار کی راہداریوں میں سرگوشیوں میں لایا جا رہا ہے۔۔ وہ قبل ازیں نگران حکومت میں وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔
ڈھاکا میں پاکستان کے خلاف نیا محاذ کھول دیا گیا۔ جنگی جرائم کی آڑ میں عالمی جرائم کی خود ساختہ عدالتیں (CT) پاکستان سے وفا کے جرم میں 3 سرکردہ بنگالی رہنمائوں کو سزائے موت سنا چکی ہیں۔ جناب دلاور حسین سعیدی کو سزائے موت کے اعلان کے بعد سارے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں تا دم تحریر 50 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ حسینہ واجد کی کا بنیادی ہدف جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی قیادت ہے۔ 4 دہائیوں کے بعد شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی نے صرف ووٹوں کی سیاست کے لیے نفرت کے کھیل کو ہوا دے دے کر شعلہ جوالا بنا دیا ہے جس کی آگ نے اب سارے بنگلہ دیش کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
ڈھاکا کی یہ ''ڈرامہ'' عدالتیں 23 مارچ 1971ء سے 16 دسمبر 1971ء کی خانہ جنگی کے دوران ہونے والے مبینہ جرائم کے مقدمات چلانے کے لیے قائم کی گئی ہیں۔ 9 ماہ کے دوران بنگال کے سبزہ زاروں میں بے گناہوں کا لہو بہا یا گیا۔ 4 دہائیوں کے بعد اب ان جرائم کے خلاف مقدمات چلانا نفرت کی دبی ہوئی چنگاریوں کو ہوا دینا ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے 16 دسمبر 1971 ء کو جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے کے بعد جنگ ختم ہو گئی تھی لیکن وفا ئے پاکستان کے جرم میں آج بھی عشق پیشہ بنگالی موت کی سزائیں سُن و بھگت رہے ہیں۔
ہماری اشرافیہ تو مشرقی پاکستان کا باب کب کا بند کر چکی ہے۔ ہماری نئی نسلوں کو سونار بنگلہ، مسجد بیت المکرم اور ان ساحلوں اور سمندروں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں، لیکن پاکستان کے وفا شعار بنگالیوں کی دوسری اور تیسری نسل آج بھی جرم وفا کی سزا بھگت رہی ہیں۔ اور یہ خیال باطل ثابت ہوا کہ دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہو گیا تھا۔ نہیں جناب بالکل نہیں۔ دوقومی نظریہ آج بھی پوری شدت سے بروئے کار ہے، اسی لیے تو بھارت نواز بنگالی شاہ باغ میں پاکستان کے خلاف مورچہ لگائے بیٹھے ہیں۔ جس کے پس پردہ قوت متحرکہ عوامی لیگ کی قیادت اور شیخ مجیب الرحمن کی صاحبزادی حسینہ واجد ہے۔
16 دسمبر 1971 ء کے بعد بنگلہ دیشی حکومت نے ساز باز ایکٹ کے تحت ہزاروں بنگالیوں کو لا متناہی مدت تک قید رکھا تھا۔ مختلف ادوار میں دفاع پاکستان کے لیے جارح بھارتی افواج اور مکتی باہنی کے مقابلے میں سیسہ پلائی دیوار دم توڑ گئے تھے جن میں متحدہ پاکستان قومی اسمبلی کے آخری اسپیکر فضل القادر چوہدری بھی شامل تھے۔ اب ابوالکلام آزاد ، عبدالقادر ملا کے بعد دلاور حسین سعیدی کو ان جرائم ٹریبونلز سے موت کی سزا سنوائی گئی ہے جن کا قیام ہی متنازع اور آئین سے متصادم ہے۔
16 دسمبر 1971 ء تک مشرقی پاکستان، وفاق پاکستان کا حصہ اور خود مختار ریاست تھا جس کا دفاع اس کے تمام باشندوں پر فرض لازم تھا۔ اس وقت پاکستان کے بنگالی باشندوں کو آج 4 دہائیوں کے بعد اپنے وطن کے دفاع کے مقدس جرم میں موت کی سزائیں دی جا رہی ہیں جو انصاف کے تقاضوں اور عالمی نظائر سے متصادم ہیں۔ نام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل 1کی کورٹ نمبر 1 میں جسٹس اے ٹی ایم فضل کبیر نے دلاور حسین سعیدی کو سزائے موت سنانے کا اعلان کرنے سے پہلے بڑے ڈرائی انداز میں خطبہ دیا۔
'' فیصلے کا اعلان کرنے سے پہلے، میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ کمرہ عدالت میں سکوت مرگ طاری تھا۔'' ہمارا ملزم کوئی عالم دین نہیں ہے، نہ ہی وہ دو بار پارلیمنٹ کا رکن رہا ہے، وہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا نائب امیر بھی نہیں ہے'' ۔۔۔ پھر جسٹس فضل کبیر ڈرامائی رنگ بھرنے کے لیے خود سے سوال کرتا ہے ، ''کیا ہم کسی عالم دین پر مقدمہ چلا رہے ہیں ۔۔۔ ''نہیں'''' کیا ہم جماعت اسلامی کے نائب امیر پر مقدمہ چلا رہے ہیں ۔۔۔'' نہیں '''' کیا ہم دو مرتبہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے والے معزز شخص پر مقدمہ چلا رہے ہیں۔ '' نہیں ''
'' نہیں جناب ، ایسا نہیں ہے'' ہمیں اپنے ملزم کی شناخت کے لیے 40 سال پیچھے جانا ہو گا۔ ہمارا ملزم پیروز پور کا رہائشی 30 سالہ نوجوان '' دیلو'' تھا۔ ایک بچے کا باپ، وہ 1971 ء میں عام آدمی تھا۔
دلاور حسین سعیدی، رواں روانی سے اردو بولنے والا نوجوان جس نے پاک فوج کے ساتھ مل کر بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے دوران 9 ماہ میں بنگالی عوام کے خلاف جنگ کی۔
اس مکالمہ بازی کے بعد 120 صفحات پر مشتمل فیصلے کا اعلان کیا گیا جس کے مطابق جرائم ثابت ہونے پر انھیں سزائے موت سنائی گئی۔ انھوں نے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے کا اہم ترین پہلو مدنظر رکھنا چاہیے کہ ہم کسی سابق رکن پارلیمان یا نائب امیر جماعت اسلامی علامہ دلاور حسین سعیدی کے خلاف فیصلہ سنانے نہیں جا رہے۔ جن کے دینی خطبات سننے کے لیے ملک بھر سے ہزاروں لوگ جمع ہوتے ہیں۔ حالات و واقعات اور شواہد کے مطابق ہمارا ملزم دلاور حسین سعیدی کسی قسم کی سیاسی یا سماجی حیثیت نہیں رکھتا، ہمارا ملزم تو ایک کریانہ فروش دلاور حسین سعیدی ہے جس نے مقامی امن کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا تھا جو بنگلہ دیش کی سپاہ آزادی سے لڑنے والی پاک فوج کا وفادار تھا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وکیل صفائی نے موقف اختیار کیا ہے کہ رضا کار دلاور حسین ملک خانہ جنگی کے دوران مارا جا چکا ہے۔ اب بدنیتی کی بنا پر دلاور حسین ملک کے جرائم کی سزا علامہ دلاور حسین سعیدی کو دی جا رہی ہے۔ اور ہمارے ہود بھائی ان مظلوموں کے حوالے سے اپنی پسند کی تاریخ لکھنے کی کوشش کر رہے۔ یہ وہی ہیں جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے مخالف اور پاک فوج کے ملٹری ڈاکٹرائین کے ناقد ہیں۔ پاکستان کے وفادار بنگالیوں کو جرم محبت پر سزا کی خوشخبری سن کر ڈھاکا کے گلی کوچوں میں بھی رقص برپا ہے۔ لیکن آفرین ہے ان بنگالی نوجوانوں پر جو آج بھی اپنے لہو سے انھی گلی کوچوں میں دو قومی نظرئیے کی ابدی سچائی سنہری تاریخ لکھ رہے ہیں۔
ہمارے لیے ڈھاکا ڈوب گیا ہو گا لیکن ان کے لیے آج بھی اسلام کا فلسفہ حیات سر بلند ہے۔ جس کے لیے وہ بلاخوف و خطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے جا رہے ہیں۔ سلام ہے ان وفا شعاروں پر۔ ان تکلیف دہ حقائق کے بعد کچھ ذکر قوم کی بیٹی کائنات موتلہ کینڈی کی دریا دلی اور غریبوں کے لیے محبت کا جنیوا میں مقیم مصورہ کائنات موتلہ کے بارے میں نیویارک میں مقیم ڈاکٹر شجاعت حسین بخاری بتا رہے تھے کہ کس طرح پاکستان کی اس بیٹی نے اپنی بیش قیمت پینٹنگز کی تمام کمائی غریبوں کی نذر کردی ہے۔ WHO کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر غفار کی صاحبزادی کائنات کے نام ای میل میں سابق سیکریٹری خارجہ ریاض کھوکھر نے اسے اپنے فارم ہائوس پر دعوت دی تھی۔ کہتے ہیں کہ با ذوق ریاض کھوکھر کے پاس صادقین سمیت معروف مقامی اور عالمی مصوروں کے فن پاروں کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
ڈاکٹر شمس قاسم لاکھا ۔۔ نگران حکومت کے لیے ان کا نام رواں ہفتے اسلام آباد میں اقتدار کی راہداریوں میں سرگوشیوں میں لایا جا رہا ہے۔۔ وہ قبل ازیں نگران حکومت میں وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔