سرفراز احمد نے بکی کا جال توڑ کر مثال قائم کردی
یہی ایک بڑے کپتان کا خاصا ہوتا ہے کہ وہ ’’ بلیم گیم‘‘ کے بجائے مردوں کی طرح اپنی خامیوں کا اعتراف کرے
لاہور:
ٹیسٹ سیریز میں شکست کے بعد پاکستان نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سری لنکا کو 4-0 سے قابو کر کے ثابت کر دکھایا کہ وہ ون ڈے کی بہترین ٹیم ہے۔
پیر کو شارجہ میں شیڈول پانچواں میچ جیت کر کلین سوئپ کا بھی اچھا موقع ہوگا، ٹیسٹ میں اگر ناکامی ہوئی تو اس کی وجوہات واضح تھیں، گزشتہ دنوں دبئی کے ہوٹل میں جب میری کپتان سرفراز احمدسے ملاقات ہوئی تواس وقت بھی یہ موضوع چھڑا، صرف ایک اسپنر کھلانے پر بھی بات ہوئی، میں نے واضح طور پر محسوس کیا کہ انھیں اپنی غلطیوں کا اندازہ ہے، وہ کسی اور پر ملبہ گرانے کے بجائے خود تمام ذمہ داری قبول کرنے کو تیار دکھائی دیے۔
یہی ایک بڑے کپتان کا خاصا ہوتا ہے کہ وہ '' بلیم گیم'' کے بجائے مردوں کی طرح اپنی خامیوں کا اعتراف کرے، ابھی سرفراز کی بطور کپتان پہلی ٹیسٹ سیریز تھی لہذا ان کو زیادہ تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں، وقت کے ساتھ ساتھ یقیناً بہتری آئے گی، جیسے کہ ابھی ون ڈے سیریز دیکھ لیں ، کسی لمحے سری لنکا کو حاوی ہونے کا موقع نہ ملا، پاکستانی کرکٹرز نے شاندار کارکردگی سے انھیں اپنے کنٹرول میں رکھا، چیمپئنز ٹرافی جتوا کر سرفراز ون ڈے میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا پہلے ہی منوا چکے، ہر گزرتی سیریز کے ساتھ ان کی کپتانی میں نکھار آ رہا ہے۔
البتہ سرفراز کو ایک بات کا خیال رکھا ہوگا کہ بیٹنگ متاثر نہیں ہونی چاہیے ورنہ ان پر تنقید کے نشتر برسانے کیلیے پہلے ہی کئی لوگ تیار بیٹھے ہیں،وہ ان دنوں نچلے نمبرز پر بیٹنگ کر رہے ہیں جو کہ غلط ہے، انھیں ابتدائی پوزیشز پر کھیلنا چاہیے تاکہ بڑا اسکور بنا کر ٹیم کے کام آ سکیں، خوش آئند بات یہ ہے کہ دیگر سینئرز ان کا عمدگی سے ساتھ دے رہے ہیں، البتہ محمد حفیظ کی قسمت روٹھ گئی، ایک طرف وہ رینکنگ میں نمبر ون بنے دوسری جانب بولنگ ایکشن پر پھر اعتراض سامنے آ گیا۔
بار بار کے مسائل سے نجات کیلیے اب بہتر یہی ہوگا کہ حفیظ صرف بیٹنگ پر ہی توجہ دیں تاکہ بطور بیٹسمین ٹیم میںجگہ برقرار رہے، تیسرے ون ڈے کے بعد سنچری میکر امام الحق نے پریس کانفرنس میں حفیظ کو اپنی سنچری کا کریڈٹ دیتے ہوئے ان کی بھرپور رہنمائی کا بطور خاص تذکرہ کیا، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ '' حفیظ بھائی نے کہا تھا کہ اب سنچری نہ بنائی تو بڑی مار پڑے گی'' جس پر قہقہہ بلند ہوا، اسی قسم کا اعتمادنوجوانوں کو درکار ہوتا ہے، اگر سینئرز ان کی ایسی ہی رہنمائی کریں تو وہ عمدہ پرفارم کرتے رہیں گے۔
جیسے بابر اعظم نے بتایا تھا کہ شعیب ملک کا ان کے کیریئر میں بڑا عمل دخل ہے، ویسے بابر کی بیٹنگ سے واضح ہوتا ہے کہ وہ عنقریب سپراسٹار کا روپ دھار لیں گے، بس انھیں قدم زمین پر رکھتے ہوئے صرف کھیل پر توجہ دینا ہوگی، انھیں اپنے کزن عمر اکمل کو یاد رکھنا چاہیے جو باصلاحیت ہونے کے باوجود آف دی فیلڈ مسائل کی وجہ سے بڑے بیٹسمین نہ بن سکے۔
امام الحق نے گوکہ ڈیبیو پر سنچری بنائی مگر کارکردگی میں تسلسل لانے کیلیے انھیں سخت محنت درکار ہوگی، ان پر چیف سلیکٹر انضمام الحق کے بھتیجے کا لیبل بھی لگا ہوا ہے جو آسانی سے کھیلنے نہیں دے گا، وہ اپنے ٹیلنٹ کی جھلک دکھا چکے مگر اب آخری ون ڈے میں بھی بڑی اننگز کھیلنا ہوگی۔
فخر زمان نے چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں پاکستان کو فتح دلائی تھی انھیں اب مزید ایسی بڑی اننگز کھیلنے کی ضرورت ہے، بولنگ میں حسن علی مسلسل عمدہ کارکردگی سے صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے، انھیں اس کا صلہ ون ڈے رینکنگ میں نمبر ون پوزیشن سے بھی ملا البتہ جنید خان میں ماضی جیسی بات دکھائی نہیں دے رہی، انھیں جلد فارم میں آنا ہوگا ورنہ کئی نوجوان کھلاڑی جگہ سنبھالنے کیلیے تیار بیٹھے ہیں، اسپنرز میں شاداب خان کی بولنگ دن بہ دن نکھرتی جا رہی ہے، پاکستان خوش قسمت ہے کہ اسے اتنے اچھے نوجوان کھلاڑیوں کا ساتھ حاصل ہے۔
ون ڈے سیریز میں فتح کی خوشی اس وقت دھندلی پڑنے لگی جب سرفراز احمد سے بکی کے رابطے کی اطلاعات سامنے آئیں، حیرت کی بات ہے کہ پی سی بی نے ماضی کی غلطیوں سے بھی سبق نہیں سیکھا اور کھلاڑیوں کے ملاقاتیوں پر نظر نہیں رکھی جا رہی، سرفراز محب الوطن کھلاڑی ہیں، انھوں نے فوراً رپورٹ کر کے اس کا ثبوت دیا لیکن لالچ میں آکر کوئی نیا کھلاڑی بکیز کے چنگل میں پھنس گیا تو نیا مسئلہ ہو سکتا ہے۔
کپتان نے تو بکی کا جال توڑ کر دیگر کرکٹرز کے لیے مثال قائم کردی، بورڈ کو اب بہت زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔ سری لنکا سے سیریز کا آخری ٹی ٹوئنٹی میچ لاہور میںہوگا، خوشی کی بات ہے کہ سری لنکا نے دورے پر آمادگی ظاہر کر دی، رواں سیریز میں سوائے شارجہ ون ڈے کے بیشتر میچز میں گراؤنڈز خالی رہے، لاہور میں بڑی تعداد میں شائقین کی آمد متوقع ہے،امید ہے کہ میچ کا انعقاد بااحسن انداز میں ہوگا۔
ٹیسٹ سیریز میں شکست کے بعد پاکستان نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سری لنکا کو 4-0 سے قابو کر کے ثابت کر دکھایا کہ وہ ون ڈے کی بہترین ٹیم ہے۔
پیر کو شارجہ میں شیڈول پانچواں میچ جیت کر کلین سوئپ کا بھی اچھا موقع ہوگا، ٹیسٹ میں اگر ناکامی ہوئی تو اس کی وجوہات واضح تھیں، گزشتہ دنوں دبئی کے ہوٹل میں جب میری کپتان سرفراز احمدسے ملاقات ہوئی تواس وقت بھی یہ موضوع چھڑا، صرف ایک اسپنر کھلانے پر بھی بات ہوئی، میں نے واضح طور پر محسوس کیا کہ انھیں اپنی غلطیوں کا اندازہ ہے، وہ کسی اور پر ملبہ گرانے کے بجائے خود تمام ذمہ داری قبول کرنے کو تیار دکھائی دیے۔
یہی ایک بڑے کپتان کا خاصا ہوتا ہے کہ وہ '' بلیم گیم'' کے بجائے مردوں کی طرح اپنی خامیوں کا اعتراف کرے، ابھی سرفراز کی بطور کپتان پہلی ٹیسٹ سیریز تھی لہذا ان کو زیادہ تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں، وقت کے ساتھ ساتھ یقیناً بہتری آئے گی، جیسے کہ ابھی ون ڈے سیریز دیکھ لیں ، کسی لمحے سری لنکا کو حاوی ہونے کا موقع نہ ملا، پاکستانی کرکٹرز نے شاندار کارکردگی سے انھیں اپنے کنٹرول میں رکھا، چیمپئنز ٹرافی جتوا کر سرفراز ون ڈے میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا پہلے ہی منوا چکے، ہر گزرتی سیریز کے ساتھ ان کی کپتانی میں نکھار آ رہا ہے۔
البتہ سرفراز کو ایک بات کا خیال رکھا ہوگا کہ بیٹنگ متاثر نہیں ہونی چاہیے ورنہ ان پر تنقید کے نشتر برسانے کیلیے پہلے ہی کئی لوگ تیار بیٹھے ہیں،وہ ان دنوں نچلے نمبرز پر بیٹنگ کر رہے ہیں جو کہ غلط ہے، انھیں ابتدائی پوزیشز پر کھیلنا چاہیے تاکہ بڑا اسکور بنا کر ٹیم کے کام آ سکیں، خوش آئند بات یہ ہے کہ دیگر سینئرز ان کا عمدگی سے ساتھ دے رہے ہیں، البتہ محمد حفیظ کی قسمت روٹھ گئی، ایک طرف وہ رینکنگ میں نمبر ون بنے دوسری جانب بولنگ ایکشن پر پھر اعتراض سامنے آ گیا۔
بار بار کے مسائل سے نجات کیلیے اب بہتر یہی ہوگا کہ حفیظ صرف بیٹنگ پر ہی توجہ دیں تاکہ بطور بیٹسمین ٹیم میںجگہ برقرار رہے، تیسرے ون ڈے کے بعد سنچری میکر امام الحق نے پریس کانفرنس میں حفیظ کو اپنی سنچری کا کریڈٹ دیتے ہوئے ان کی بھرپور رہنمائی کا بطور خاص تذکرہ کیا، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ '' حفیظ بھائی نے کہا تھا کہ اب سنچری نہ بنائی تو بڑی مار پڑے گی'' جس پر قہقہہ بلند ہوا، اسی قسم کا اعتمادنوجوانوں کو درکار ہوتا ہے، اگر سینئرز ان کی ایسی ہی رہنمائی کریں تو وہ عمدہ پرفارم کرتے رہیں گے۔
جیسے بابر اعظم نے بتایا تھا کہ شعیب ملک کا ان کے کیریئر میں بڑا عمل دخل ہے، ویسے بابر کی بیٹنگ سے واضح ہوتا ہے کہ وہ عنقریب سپراسٹار کا روپ دھار لیں گے، بس انھیں قدم زمین پر رکھتے ہوئے صرف کھیل پر توجہ دینا ہوگی، انھیں اپنے کزن عمر اکمل کو یاد رکھنا چاہیے جو باصلاحیت ہونے کے باوجود آف دی فیلڈ مسائل کی وجہ سے بڑے بیٹسمین نہ بن سکے۔
امام الحق نے گوکہ ڈیبیو پر سنچری بنائی مگر کارکردگی میں تسلسل لانے کیلیے انھیں سخت محنت درکار ہوگی، ان پر چیف سلیکٹر انضمام الحق کے بھتیجے کا لیبل بھی لگا ہوا ہے جو آسانی سے کھیلنے نہیں دے گا، وہ اپنے ٹیلنٹ کی جھلک دکھا چکے مگر اب آخری ون ڈے میں بھی بڑی اننگز کھیلنا ہوگی۔
فخر زمان نے چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں پاکستان کو فتح دلائی تھی انھیں اب مزید ایسی بڑی اننگز کھیلنے کی ضرورت ہے، بولنگ میں حسن علی مسلسل عمدہ کارکردگی سے صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے، انھیں اس کا صلہ ون ڈے رینکنگ میں نمبر ون پوزیشن سے بھی ملا البتہ جنید خان میں ماضی جیسی بات دکھائی نہیں دے رہی، انھیں جلد فارم میں آنا ہوگا ورنہ کئی نوجوان کھلاڑی جگہ سنبھالنے کیلیے تیار بیٹھے ہیں، اسپنرز میں شاداب خان کی بولنگ دن بہ دن نکھرتی جا رہی ہے، پاکستان خوش قسمت ہے کہ اسے اتنے اچھے نوجوان کھلاڑیوں کا ساتھ حاصل ہے۔
ون ڈے سیریز میں فتح کی خوشی اس وقت دھندلی پڑنے لگی جب سرفراز احمد سے بکی کے رابطے کی اطلاعات سامنے آئیں، حیرت کی بات ہے کہ پی سی بی نے ماضی کی غلطیوں سے بھی سبق نہیں سیکھا اور کھلاڑیوں کے ملاقاتیوں پر نظر نہیں رکھی جا رہی، سرفراز محب الوطن کھلاڑی ہیں، انھوں نے فوراً رپورٹ کر کے اس کا ثبوت دیا لیکن لالچ میں آکر کوئی نیا کھلاڑی بکیز کے چنگل میں پھنس گیا تو نیا مسئلہ ہو سکتا ہے۔
کپتان نے تو بکی کا جال توڑ کر دیگر کرکٹرز کے لیے مثال قائم کردی، بورڈ کو اب بہت زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔ سری لنکا سے سیریز کا آخری ٹی ٹوئنٹی میچ لاہور میںہوگا، خوشی کی بات ہے کہ سری لنکا نے دورے پر آمادگی ظاہر کر دی، رواں سیریز میں سوائے شارجہ ون ڈے کے بیشتر میچز میں گراؤنڈز خالی رہے، لاہور میں بڑی تعداد میں شائقین کی آمد متوقع ہے،امید ہے کہ میچ کا انعقاد بااحسن انداز میں ہوگا۔