دو بڑے فیصلے
حالات کی سنگینی اور نزاکت کے پیش نظر بڑے اور ضرورت مندانہ فیصلے کرنا ضروری ہوگیا ہے
بلاشبہ وطن عزیز کو اس وقت گوناگوں مسائل و مشکلات کا سامنا ہے، ملک کے طول و ارض میں امن وامان کی مخدوش صورت حال نے اہل وطن کو دل گرفتہ کر رکھا ہے۔ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، فرقہ وارانہ کشیدگی، خودکش حملوں اور بم دھماکوں جیسے سنگین چیلنجز سے نمٹنا ارباب اقتدار کے لیے درد سر بنا ہوا ہے، بعینہ اقتصادی و معاشی استحکام و ترقی کے حوالے سے توانائی کے بحران نے بھی ایسے گمبھیر مسائل کو جنم دیا ہے کہ پاکستان پریشانیوں کے گرداب میں پھنستا جارہا ہے۔ بجلی و گیس کی کمیابی نے نہ صرف عوام الناس کے معمولات زندگی کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے بلکہ ملک کا صنعتی شعبہ بھی تقریباً مفلوج ہوکر رہ گیا ہے، سیکڑوں کارخانوں کی بندش کے باعث بے روزگاروں کی تعداد میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔
حالات کی سنگینی اور نزاکت کے پیش نظر بڑے اور ضرورت مندانہ فیصلے کرنا ضروری ہوگیا ہے، معاشی ترقی کا پہیہ رواں رکھنے کے لیے بجلی و گیس کی کمی کو دور کرنے اور تسلسل کے ساتھ اس کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی منظوری موجودہ حکومت کا بڑا کارنامہ ہے، اسی طرح گوادر پورٹ کو چین کے حوالے کرنے کا فیصلہ بھی قابل ستائش ہے۔ مذکورہ دونوں حساس نوعیت کے فیصلوں کے پس پردہ صدر آصف علی زرداری کے بنیادی کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے بروقت حالات کی سنگینی کا ادراک کیا اور ملک کو بجلی و گیس کے بڑے بحرانوں سے نکالنے اور قومی معیشت کے تابناک مستقبل کے لیے تمام تر بیرونی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے ایران اور چین سے ٹھوس اور جامع بات چیت کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھایا اور برسوں سے التوا کے شکار منصوبوں کی تکمیل کے لیے نتیجہ خیز اقدامات اٹھائے۔ گوادر پورٹ کا انتظام پہلے سنگاپور اتھارٹی کے پاس تھا جسے اب چین کی کمپنی چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ لمیٹڈ کے حوالے کردیا گیا ہے۔
صدر زرداری نے گوادر پورٹ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے سے پاک چین تعلقات مزید مستحکم ہوں گے اور گوادر خطے میں تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن جائے گا، وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ معاشی روابط قائم ہوں گے جس سے ملکی معیشت مستحکم ہوگی۔ صدر نے واضح کیا کہ گوادر پورٹ آپریشن میں آنے سے بلوچستان کے لوگوں کو بھی فائدہ ہوگا، انھیں روزگار کے نئے مواقع ملیں گے اور ان پر ترقی و خوشحالی کا دروازہ کھل جائے گا۔
پاک چین دوستی کی بنیاد پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پڑی۔ درحقیقت بھٹو صاحب مستقبل پر نظر رکھنے والے ایک وژنری لیڈر تھے، انھوں نے خطے کے حالات کے تناظر میں امریکا کے مقابلے میں چین سے روابط قائم کیے اپنے دور حکومت میں انھوں نے چین کے متعدد دورے کیے، ادھر چین کے عظیم لیڈروں چیئرمین مائو اور وزیراعظم چواین لائی نے بھی بھٹو صاحب کے جذبہ خیر سگالی کو احترام کی نگاہ سے دیکھا، یوں پاک چین دوستی کی بنیاد پڑی اور آج دونوں مملک کے رہنما اپنے عظیم قائدین کے لگائے ہوئے دوستی کے اس پودے کو تناور درخت بنانے کے لیے کوشاں ہیں تاکہ اس کی گھنی چھاؤں کے نیچے ہماری آیندہ نسلوں کا مستقبل پروان چڑھ سکے۔
صدر آصف علی زرداری نے گزشتہ چار سال میں 9 مرتبہ چین کا دورہ کیا جس سے دونوں ممالک کی قیادت کو مزید قریب آنے کا موقع ملا۔ پاک چین دوستی جس کے استحکام کو ہمالیہ سے تشبیہہ دی جاتی ہے، ہر کڑے امتحان میں ایک دوسرے کے اعتماد پر پورا اتری ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے بجا طور پر کہا کہ گوادر پورٹ کو چین کے حوالے کرنا پاک چین تعلقات میں اعتماد کا مظہر ہے جو ہمیں بہت آگے تک لے جائے گا۔ محترمہ بے نظیربھٹو کے پہلے دور میں گوادر میں ایک فش ہاربر پورٹ بنایا گیا تھا جن کا سنگ بنیاد محترمہ نے 14 دسمبر 1989 کو رکھا تھا۔ آج گوادر کا آپریشنل کنٹرول چین کے حوالے کرنے سے پاک چین تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوگا تاہم گوادر کا ملکیتی قبضہ پاکستان کے پاس ہی رہے گا۔
پاک چین تازہ گوادر معاہدے پر بھارت کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے، بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے گزشتہ دنوں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اگرچہ اسے پاکستان اور چین کا داخلی معاملہ قرار دیتے ہوئے خفت مٹانے کی کوشش کی، تاہم ضمناً یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ اسٹرٹیجک گوادر پورٹ کے معاملے پر ایک توازن رکھنا ضروری ہے، ہمیں بھارتی تحفظات سے قطعاً کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ بھارت ہماری معاشی ترقی و استحکام سے بھلا کیوں کر خوش ہوسکتا ہے۔ یہ بھارتی عدم تعاون ہی کا نتیجہ ہے کہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا منصوبہ ایک عرصے سے التوا کا شکار چلا آرہا تھا، بھارتی قیادت محض امریکی خوشنودی کے لیے پاک ایران گیس لائن منصوبے میں شراکت سے پہلو تہی کرتی رہی ہے۔
تاہم صدر آصف علی زرداری نے بھارتی وامریکی تحفظات کے باوجود ہر قسم کے دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے ایران سے گیس کی فراہمی کا معاہدہ کرکے جرأت مندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اب امریکا ہمیں ڈرا رہا ہے کہ اگر پاکستان نے ایران کے ساتھ کیے گئے گیس پائپ لائن منصوبے کو آگے بڑھایا تو اسے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دراصل امریکا بھارت کے ساتھ روابط مستحکم کرکے جنوبی ایشیا میں اپنی چوہدراہٹ قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ تیزی سے معاشی ترقی کرتا ہوا چین اس کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔ بعینہ ہی وہ ایران کے امکانی طور پر ایٹمی قوت بننے سے بھی خوفزدہ ہے اور اپنے دباؤ کا سارا زور پاکستان پر ڈالتا ہے تاکہ ہم اس کے لیے راہداری کا کام اس کی خواہش کے مطابق انجام دیتے رہیں۔
امریکا کو اندیشہ ہے کہ پاکستان چین و ایران کے ساتھ معاہدے کرکے ان ملکوں سے اپنے تعلقات کو مستحکم کرکے خطے میں اہمیت حاصل کرسکتا ہے جس سے امریکی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس باعث وہ پاکستان کو ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے، پاکستان میں متعین امریکی سفیر نے بھی پاک ایران گیس معاہدے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ہم امریکی ناز برداری کی خاطر اپنے مفادات اور دوست ملکوں سے تعلقات کو قربان نہیں کرسکتے۔ ایران اور چین دونوں پاکستان کے قابل اعتماد ہمسایہ ممالک ہیں ان سے کسی بھی قسم کے تجارتی معاہدے اور اقتصادی تعاون حاصل کرنا خالصتاً ہمارا داخلی معاملہ ہے جس پر بھارت، امریکا یا کسی بھی دوسرے ملک کو اعتراضات کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں کیونکہ ایسے معاہدات سے کسی بھی دوسرے ملک کے مفادات کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ یہی وجہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے ہر قسم کے بیرونی دباؤ کو مسترد کردیا اور قومی مفاد کو مقدم رکھا، ملکی معیشت کے استحکام کے حوالے سے مذکورہ دو بڑے فیصلوں کا سہرا صدر زرداری کے سر جاتا ہے۔
حالات کی سنگینی اور نزاکت کے پیش نظر بڑے اور ضرورت مندانہ فیصلے کرنا ضروری ہوگیا ہے، معاشی ترقی کا پہیہ رواں رکھنے کے لیے بجلی و گیس کی کمی کو دور کرنے اور تسلسل کے ساتھ اس کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی منظوری موجودہ حکومت کا بڑا کارنامہ ہے، اسی طرح گوادر پورٹ کو چین کے حوالے کرنے کا فیصلہ بھی قابل ستائش ہے۔ مذکورہ دونوں حساس نوعیت کے فیصلوں کے پس پردہ صدر آصف علی زرداری کے بنیادی کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے بروقت حالات کی سنگینی کا ادراک کیا اور ملک کو بجلی و گیس کے بڑے بحرانوں سے نکالنے اور قومی معیشت کے تابناک مستقبل کے لیے تمام تر بیرونی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے ایران اور چین سے ٹھوس اور جامع بات چیت کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھایا اور برسوں سے التوا کے شکار منصوبوں کی تکمیل کے لیے نتیجہ خیز اقدامات اٹھائے۔ گوادر پورٹ کا انتظام پہلے سنگاپور اتھارٹی کے پاس تھا جسے اب چین کی کمپنی چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ لمیٹڈ کے حوالے کردیا گیا ہے۔
صدر زرداری نے گوادر پورٹ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے سے پاک چین تعلقات مزید مستحکم ہوں گے اور گوادر خطے میں تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن جائے گا، وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ معاشی روابط قائم ہوں گے جس سے ملکی معیشت مستحکم ہوگی۔ صدر نے واضح کیا کہ گوادر پورٹ آپریشن میں آنے سے بلوچستان کے لوگوں کو بھی فائدہ ہوگا، انھیں روزگار کے نئے مواقع ملیں گے اور ان پر ترقی و خوشحالی کا دروازہ کھل جائے گا۔
پاک چین دوستی کی بنیاد پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پڑی۔ درحقیقت بھٹو صاحب مستقبل پر نظر رکھنے والے ایک وژنری لیڈر تھے، انھوں نے خطے کے حالات کے تناظر میں امریکا کے مقابلے میں چین سے روابط قائم کیے اپنے دور حکومت میں انھوں نے چین کے متعدد دورے کیے، ادھر چین کے عظیم لیڈروں چیئرمین مائو اور وزیراعظم چواین لائی نے بھی بھٹو صاحب کے جذبہ خیر سگالی کو احترام کی نگاہ سے دیکھا، یوں پاک چین دوستی کی بنیاد پڑی اور آج دونوں مملک کے رہنما اپنے عظیم قائدین کے لگائے ہوئے دوستی کے اس پودے کو تناور درخت بنانے کے لیے کوشاں ہیں تاکہ اس کی گھنی چھاؤں کے نیچے ہماری آیندہ نسلوں کا مستقبل پروان چڑھ سکے۔
صدر آصف علی زرداری نے گزشتہ چار سال میں 9 مرتبہ چین کا دورہ کیا جس سے دونوں ممالک کی قیادت کو مزید قریب آنے کا موقع ملا۔ پاک چین دوستی جس کے استحکام کو ہمالیہ سے تشبیہہ دی جاتی ہے، ہر کڑے امتحان میں ایک دوسرے کے اعتماد پر پورا اتری ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے بجا طور پر کہا کہ گوادر پورٹ کو چین کے حوالے کرنا پاک چین تعلقات میں اعتماد کا مظہر ہے جو ہمیں بہت آگے تک لے جائے گا۔ محترمہ بے نظیربھٹو کے پہلے دور میں گوادر میں ایک فش ہاربر پورٹ بنایا گیا تھا جن کا سنگ بنیاد محترمہ نے 14 دسمبر 1989 کو رکھا تھا۔ آج گوادر کا آپریشنل کنٹرول چین کے حوالے کرنے سے پاک چین تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوگا تاہم گوادر کا ملکیتی قبضہ پاکستان کے پاس ہی رہے گا۔
پاک چین تازہ گوادر معاہدے پر بھارت کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے، بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے گزشتہ دنوں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اگرچہ اسے پاکستان اور چین کا داخلی معاملہ قرار دیتے ہوئے خفت مٹانے کی کوشش کی، تاہم ضمناً یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ اسٹرٹیجک گوادر پورٹ کے معاملے پر ایک توازن رکھنا ضروری ہے، ہمیں بھارتی تحفظات سے قطعاً کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ بھارت ہماری معاشی ترقی و استحکام سے بھلا کیوں کر خوش ہوسکتا ہے۔ یہ بھارتی عدم تعاون ہی کا نتیجہ ہے کہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا منصوبہ ایک عرصے سے التوا کا شکار چلا آرہا تھا، بھارتی قیادت محض امریکی خوشنودی کے لیے پاک ایران گیس لائن منصوبے میں شراکت سے پہلو تہی کرتی رہی ہے۔
تاہم صدر آصف علی زرداری نے بھارتی وامریکی تحفظات کے باوجود ہر قسم کے دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے ایران سے گیس کی فراہمی کا معاہدہ کرکے جرأت مندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اب امریکا ہمیں ڈرا رہا ہے کہ اگر پاکستان نے ایران کے ساتھ کیے گئے گیس پائپ لائن منصوبے کو آگے بڑھایا تو اسے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دراصل امریکا بھارت کے ساتھ روابط مستحکم کرکے جنوبی ایشیا میں اپنی چوہدراہٹ قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ تیزی سے معاشی ترقی کرتا ہوا چین اس کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔ بعینہ ہی وہ ایران کے امکانی طور پر ایٹمی قوت بننے سے بھی خوفزدہ ہے اور اپنے دباؤ کا سارا زور پاکستان پر ڈالتا ہے تاکہ ہم اس کے لیے راہداری کا کام اس کی خواہش کے مطابق انجام دیتے رہیں۔
امریکا کو اندیشہ ہے کہ پاکستان چین و ایران کے ساتھ معاہدے کرکے ان ملکوں سے اپنے تعلقات کو مستحکم کرکے خطے میں اہمیت حاصل کرسکتا ہے جس سے امریکی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس باعث وہ پاکستان کو ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے، پاکستان میں متعین امریکی سفیر نے بھی پاک ایران گیس معاہدے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ہم امریکی ناز برداری کی خاطر اپنے مفادات اور دوست ملکوں سے تعلقات کو قربان نہیں کرسکتے۔ ایران اور چین دونوں پاکستان کے قابل اعتماد ہمسایہ ممالک ہیں ان سے کسی بھی قسم کے تجارتی معاہدے اور اقتصادی تعاون حاصل کرنا خالصتاً ہمارا داخلی معاملہ ہے جس پر بھارت، امریکا یا کسی بھی دوسرے ملک کو اعتراضات کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں کیونکہ ایسے معاہدات سے کسی بھی دوسرے ملک کے مفادات کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ یہی وجہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے ہر قسم کے بیرونی دباؤ کو مسترد کردیا اور قومی مفاد کو مقدم رکھا، ملکی معیشت کے استحکام کے حوالے سے مذکورہ دو بڑے فیصلوں کا سہرا صدر زرداری کے سر جاتا ہے۔