سامراجی طاقتوں کی نئی حکمت عملی
اگر آج ہم نے پوشیدہ مقاصد کو نہ سمجھا اور اسی طرح آلہ کار بنتے رہے تو یہ ہماری تاریخ کا المیہ ہوگا۔
عالمی سامراجی طاقتوں نے صلیبی جنگوں کے بعد اپنا لائحہ عمل و طریقہ کار میں تبدیلی لاتے ہوئے اسلام اور عالم اسلام کی قوت و اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے ایسی حکمت عملی اختیار کی ہے جس کے تحت مسلمان سلطنتوں و ملکوں کے خلاف فرقہ واریت، لسانی و علاقائی تعصبات، تشدد و انتہاپسندی، حکومتوں کی تبدیلی، بے حیائی و فحاشی و معاشی عدم استحکام کے ہتھیار کو استعمال کیا گیا۔ مسلم اسپین، سلطنت بغداد، مغلیہ سلطنت، سابقہ مشرقی پاکستان اور حالیہ افغانستان، عراق اور پاکستان میں آج بھی اسی حکمت عملی کے تحت فرقہ واریت و تعصبات کو فروغ دیا جارہا ہے جس کے باعث ماضی میں مسلم سلطنتوں کو تباہ و برباد کیا گیا، ان مقاصد کی تکمیل کے لیے غداروں کی لمبی فہرست خود انھی ملکوں سے حاصل ہورہی ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں اگر میر جعفر و میر صادق کا وجود نہ ہوتا تو انگریز کبھی مغلیہ سلطنت کا خاتمہ نہیں کرسکتے تھے، آج مملکت پاکستان بھی طویل سازشوں کے دور سے گزر رہی ہے۔ عالمی سامراج و اسلام دشمن طاقتوں کی نظر میں یہ واحد اسلامی ایٹمی قوت رکھنے والا ملک سرفہرست ہے اور بدقسمتی سے آج بھی ''ہمارے اپنے ہی'' ان سازشوں کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔ بلوچستان میں جاری طویل بدامنی، قتل، اغوا اور کوئٹہ کے حالیہ واقعات، کراچی میں متواتر ٹارگٹ کلنگ اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ یہ دشمنوں کا ایسا منصوبہ ہے کہ جس کے تحت ان واقعات کی آڑ میں پورے ملک میں مذہبی فسادات کو پھیلایا جائے تاکہ منصوبے کے مطابق اسلام اور پاکستان کے خلاف منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جاسکے۔ کمال ہوشیاری سے ''اسلام'' کا ہی نام استعمال کیا جارہا ہے اور مختلف فرقوں، فقہی اختلافات کو اٹھایا جارہا ہے۔
منصوبے کا باقاعدہ آغاز تو افغانستان سے ہوا جہاں روس کی آمد کے بعد پوشیدہ مقاصد کی تکمیل کے لیے ''جہاد'' کی حمایت و عملی مدد کی گئی اور روس کے جانے کے بعد افغانستان کو اپنا اصل چہرہ دکھایا گیا اور اس پر حملہ کرکے نیا نعرہ ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' (جوکہ دراصل اسلام کے خلاف جنگ ہے) لگایا گیا اور ایک مرتبہ پھر پاکستان کو اس بے مقصد جنگ میں جھونک دیا گیا، جس کا نتیجہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ ہمارے بعض دینی عناصر بھی پرویز مشرف کے دور کو موجودہ صورت حال کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جب کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ضیاء الحق کے دور سے ہی پوشیدہ مقاصد کی تکمیل کا آغاز ہوا، وہ پہلا حصہ تھا۔ اب منصوبے کا دوسرا حصہ ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' کے نام سے جاری ہے جس کی لپیٹ میں پاکستان سرفہرست آچکا ہے۔
اگر آج ہم نے پوشیدہ مقاصد کو نہ سمجھا اور اسی طرح آلہ کار بنتے رہے تو یہ ہماری تاریخ کا المیہ ہوگا۔ آج ضرورت ہے کہ ان واقعات کو ان منصوبوں کے پس منظر میں دیکھا جائے، ان پر قابو پانے کے لیے فرقہ واریت، لسانی و علاقائی تعصبات، مذہبی منافرت وانتہا پسندی و تشدد پر بند باندھا جائے۔ ابھی وقت ہے، قوم باشعور ہے۔ ان واقعات و سانحات کے باوجود یہ بات قابل اطمینان ہے کہ قوم نے دانشمندی، صبر و برداشت، باہمی رواداری کا حوصلہ افزا مظاہرہ کیا ہے۔ متاثرین کی رہنمائی کرنے والے علمائے کرام نے احتجاج ضرور کیا ہے جوکہ ان کا حق ہے لیکن ان واقعات کو ابھی تک فرقہ واریت کا رنگ نہیں دیا گیا اور قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کا دشمن کا منصوبہ قومی دینی رہنماؤں و عوام کے اتحاد سے ناکام ہوچکا ہے لیکن ہماری حکومتی مشنری نے جس بے حسی و غفلت کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل گرفت ہے۔
سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس اس کا ثبوت ہے کہ حکومت ناکام نظر آئی ہے اور ایسے واقعات کے سدباب کے لیے کوئی ٹھوس و قابل ذکر اقدامات حکومت وقت نے نہیں اٹھائے جس کی وجہ سے اتنا بڑا سانحہ رونما ہوا، اس لیے ضرورت ہے کہ پوری قوم جاگتی رہے اور علما و دینی جماعتوں و عمائدین کو ملک گیر مضبوط دینی و قومی اتحاد کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے میدان عمل میں آنا چاہیے۔ حکومت سے توقع بے کار ہے۔ ماضی میں ایسے واقعات پر حکومتی سطح پر مستقل بنیادوں پر کوئی قدم نہ اٹھانے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج اسلام اور ملک دشمن آزادانہ طور پر قومی یکجہتی کے خلاف کام کر رہے ہیں، ایسے واقعات رونما ہونے پر گورنر ہاؤس، وزیراعلیٰ ہاؤس و دیگر اداروں میں نمائشی مختلف مکاتب فکر کے علما کو جمع کرکے محض اتحاد کا وعظ کیا جاتا ہے اور اخباری کوریج کرائی جاتی ہے۔
آج تک علما و دینی جماعتوں کی کسی تجاویز و سفارشات پر عمل نہیں ہوا، حالانکہ اگر حکومت قرارداد مقاصد اور 22 متفقہ نکات ہی پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کرائے تو قومی یکجہتی و فرقہ واریت سے متعلق مفید لائحہ عمل طے ہوسکتا ہے اور قومی یکجہتی کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے لیکن حکومت کو کہاں فرصت کہ وہ اس جانب توجہ دے اس لیے اب دینی رہنماؤں و علما کرام کو ہی آگے بڑھنا ہوگا۔ اس سلسلے میں راقم الحروف اتحاد امت و فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے چند تجاویز پیش کرتا ہے، امید ہے کہ حکومتی حلقے اور دینی تنظیمیں ان تجاویز پر غور کریں گی۔
1۔ مذہبی رواداری کے لیے اہل علم، علما حضرات پر مشتمل ہر علاقے میں مساجد کمیٹی کو فعال کیا جائے، کمیٹی میں کم ازکم ہر مکتبہ فکر کی نمایندگی ہو۔
2۔ مذہبی پروگراموں میں لاؤڈ اسپیکر کی پابندی لازمی کرائی جائے۔
3۔ مذہبی تقاریر کو اجازت نامے سے مشروط کیا جائے جب کہ محلے کی سطح پر مذہبی منافرت پھیلانے کے لیے آزادانہ تقاریر کا سلسلہ نقصان دہ ہے۔
4۔ فرقہ وارانہ چاکنگ، نعروں و نفرت پھیلانے والے مواد پر پابندی عائد کی جائے اور اس پر عمل کرایا جائے۔
5۔ قومی اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر کڑی نظر رکھی جائے جو اکثر غیرذمے داری کاثبوت دیتے ہوئے ان واقعات کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کرتے ہیں۔
6۔ سرکاری سطح پر نمائشی و اخباری حد تک مختلف مکاتب فکر کی میٹنگوں میں فرقہ وارانہ تقاریر و مذہبی منافرت پر مبنی تقاریر کے لیے مشہور علما کے بجائے دینی اتحاد و فرقہ وارانہ یکجہتی کے لیے کام کے حوالے سے شہرت رکھنے والے غیر جانبدار اہل علم، لکھاری، محقق، اعتدال پسند شہرت رکھنے والوں کو نظرانداز کرنے کی پالسی ختم کرکے ٹھوس، جامع و طویل منصوبہ بندی کے لیے ایسے اجلاس گورنرہاؤس، وزیر اعلیٰ ہاؤس ودیگر سرکاری محکموں کے بجائے شہر کی بڑی و جامع مساجد میں بلائے جائیں اور ہر مکتبہ فکر کی مساجد میں ایسے اجلاس رکھے جائیں تو اس سے مذہبی رواداری و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تقویت ملے گی۔
برصغیر پاک و ہند میں اگر میر جعفر و میر صادق کا وجود نہ ہوتا تو انگریز کبھی مغلیہ سلطنت کا خاتمہ نہیں کرسکتے تھے، آج مملکت پاکستان بھی طویل سازشوں کے دور سے گزر رہی ہے۔ عالمی سامراج و اسلام دشمن طاقتوں کی نظر میں یہ واحد اسلامی ایٹمی قوت رکھنے والا ملک سرفہرست ہے اور بدقسمتی سے آج بھی ''ہمارے اپنے ہی'' ان سازشوں کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔ بلوچستان میں جاری طویل بدامنی، قتل، اغوا اور کوئٹہ کے حالیہ واقعات، کراچی میں متواتر ٹارگٹ کلنگ اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ یہ دشمنوں کا ایسا منصوبہ ہے کہ جس کے تحت ان واقعات کی آڑ میں پورے ملک میں مذہبی فسادات کو پھیلایا جائے تاکہ منصوبے کے مطابق اسلام اور پاکستان کے خلاف منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جاسکے۔ کمال ہوشیاری سے ''اسلام'' کا ہی نام استعمال کیا جارہا ہے اور مختلف فرقوں، فقہی اختلافات کو اٹھایا جارہا ہے۔
منصوبے کا باقاعدہ آغاز تو افغانستان سے ہوا جہاں روس کی آمد کے بعد پوشیدہ مقاصد کی تکمیل کے لیے ''جہاد'' کی حمایت و عملی مدد کی گئی اور روس کے جانے کے بعد افغانستان کو اپنا اصل چہرہ دکھایا گیا اور اس پر حملہ کرکے نیا نعرہ ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' (جوکہ دراصل اسلام کے خلاف جنگ ہے) لگایا گیا اور ایک مرتبہ پھر پاکستان کو اس بے مقصد جنگ میں جھونک دیا گیا، جس کا نتیجہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ ہمارے بعض دینی عناصر بھی پرویز مشرف کے دور کو موجودہ صورت حال کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جب کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ضیاء الحق کے دور سے ہی پوشیدہ مقاصد کی تکمیل کا آغاز ہوا، وہ پہلا حصہ تھا۔ اب منصوبے کا دوسرا حصہ ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' کے نام سے جاری ہے جس کی لپیٹ میں پاکستان سرفہرست آچکا ہے۔
اگر آج ہم نے پوشیدہ مقاصد کو نہ سمجھا اور اسی طرح آلہ کار بنتے رہے تو یہ ہماری تاریخ کا المیہ ہوگا۔ آج ضرورت ہے کہ ان واقعات کو ان منصوبوں کے پس منظر میں دیکھا جائے، ان پر قابو پانے کے لیے فرقہ واریت، لسانی و علاقائی تعصبات، مذہبی منافرت وانتہا پسندی و تشدد پر بند باندھا جائے۔ ابھی وقت ہے، قوم باشعور ہے۔ ان واقعات و سانحات کے باوجود یہ بات قابل اطمینان ہے کہ قوم نے دانشمندی، صبر و برداشت، باہمی رواداری کا حوصلہ افزا مظاہرہ کیا ہے۔ متاثرین کی رہنمائی کرنے والے علمائے کرام نے احتجاج ضرور کیا ہے جوکہ ان کا حق ہے لیکن ان واقعات کو ابھی تک فرقہ واریت کا رنگ نہیں دیا گیا اور قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کا دشمن کا منصوبہ قومی دینی رہنماؤں و عوام کے اتحاد سے ناکام ہوچکا ہے لیکن ہماری حکومتی مشنری نے جس بے حسی و غفلت کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل گرفت ہے۔
سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس اس کا ثبوت ہے کہ حکومت ناکام نظر آئی ہے اور ایسے واقعات کے سدباب کے لیے کوئی ٹھوس و قابل ذکر اقدامات حکومت وقت نے نہیں اٹھائے جس کی وجہ سے اتنا بڑا سانحہ رونما ہوا، اس لیے ضرورت ہے کہ پوری قوم جاگتی رہے اور علما و دینی جماعتوں و عمائدین کو ملک گیر مضبوط دینی و قومی اتحاد کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے میدان عمل میں آنا چاہیے۔ حکومت سے توقع بے کار ہے۔ ماضی میں ایسے واقعات پر حکومتی سطح پر مستقل بنیادوں پر کوئی قدم نہ اٹھانے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج اسلام اور ملک دشمن آزادانہ طور پر قومی یکجہتی کے خلاف کام کر رہے ہیں، ایسے واقعات رونما ہونے پر گورنر ہاؤس، وزیراعلیٰ ہاؤس و دیگر اداروں میں نمائشی مختلف مکاتب فکر کے علما کو جمع کرکے محض اتحاد کا وعظ کیا جاتا ہے اور اخباری کوریج کرائی جاتی ہے۔
آج تک علما و دینی جماعتوں کی کسی تجاویز و سفارشات پر عمل نہیں ہوا، حالانکہ اگر حکومت قرارداد مقاصد اور 22 متفقہ نکات ہی پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کرائے تو قومی یکجہتی و فرقہ واریت سے متعلق مفید لائحہ عمل طے ہوسکتا ہے اور قومی یکجہتی کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے لیکن حکومت کو کہاں فرصت کہ وہ اس جانب توجہ دے اس لیے اب دینی رہنماؤں و علما کرام کو ہی آگے بڑھنا ہوگا۔ اس سلسلے میں راقم الحروف اتحاد امت و فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے چند تجاویز پیش کرتا ہے، امید ہے کہ حکومتی حلقے اور دینی تنظیمیں ان تجاویز پر غور کریں گی۔
1۔ مذہبی رواداری کے لیے اہل علم، علما حضرات پر مشتمل ہر علاقے میں مساجد کمیٹی کو فعال کیا جائے، کمیٹی میں کم ازکم ہر مکتبہ فکر کی نمایندگی ہو۔
2۔ مذہبی پروگراموں میں لاؤڈ اسپیکر کی پابندی لازمی کرائی جائے۔
3۔ مذہبی تقاریر کو اجازت نامے سے مشروط کیا جائے جب کہ محلے کی سطح پر مذہبی منافرت پھیلانے کے لیے آزادانہ تقاریر کا سلسلہ نقصان دہ ہے۔
4۔ فرقہ وارانہ چاکنگ، نعروں و نفرت پھیلانے والے مواد پر پابندی عائد کی جائے اور اس پر عمل کرایا جائے۔
5۔ قومی اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر کڑی نظر رکھی جائے جو اکثر غیرذمے داری کاثبوت دیتے ہوئے ان واقعات کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کرتے ہیں۔
6۔ سرکاری سطح پر نمائشی و اخباری حد تک مختلف مکاتب فکر کی میٹنگوں میں فرقہ وارانہ تقاریر و مذہبی منافرت پر مبنی تقاریر کے لیے مشہور علما کے بجائے دینی اتحاد و فرقہ وارانہ یکجہتی کے لیے کام کے حوالے سے شہرت رکھنے والے غیر جانبدار اہل علم، لکھاری، محقق، اعتدال پسند شہرت رکھنے والوں کو نظرانداز کرنے کی پالسی ختم کرکے ٹھوس، جامع و طویل منصوبہ بندی کے لیے ایسے اجلاس گورنرہاؤس، وزیر اعلیٰ ہاؤس ودیگر سرکاری محکموں کے بجائے شہر کی بڑی و جامع مساجد میں بلائے جائیں اور ہر مکتبہ فکر کی مساجد میں ایسے اجلاس رکھے جائیں تو اس سے مذہبی رواداری و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تقویت ملے گی۔