افغانستان خودکش حملوں میں اضافہ

امریکی فورسز فضائی حملے کر کے دہشت گردوں کی ہلاکتوں کا دعویٰ کرتی ہے

امریکی فورسز فضائی حملے کر کے دہشت گردوں کی ہلاکتوں کا دعویٰ کرتی ہے۔ فوٹو؛ رائٹرز

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مارشل فہیم ملٹری اکیڈمی میں زیرتربیت فوجی کیڈٹس کے مرکز سے باہر نکلنے والی بس پر خود کش دھماکے میں15زیرتربیت اہلکار جاں بحق ہوگئے۔ طالبان نے ان حملوں کی ذمے داری قبول کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ افغان فورسز اور ان کے غیرملکی سرپرستوں کے خلاف جاری مہم کا حصہ ہے۔ ایک بیان میں محکمہ خارجہ کی خاتون ترجمان ہیدرنوئرٹ نے کہا ہے کہ امریکا افغانستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑا ہے' امریکا افغانستان میں امن اور سلامتی کے حصول کے لیے کی جانے والی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا۔

افغانستان میں امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن تیز کرنے کے بعد وہاں ہر دو فریقین کی جانب سے حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے' ادھر امریکی فورسز فضائی حملے کر کے دہشت گردوں کی ہلاکتوں کا دعویٰ کرتی ہے تو ادھر طالبان ردعمل کے طور پر خودکش حملے کر کے حساب چکتا کر دیتے ہیں۔ افغان دارالحکومت میں دو تین دنوں کے دوران یہ دوسرا خود کش حملہ تھا۔

چند روز قبل افغانستان کے صوبے قندھار میں افغان نیشنل آرمی کے ایک بیس کیمپ پر خود کش حملے کے نتیجے میں 41اہلکار ہلاک اور 24زخمی ہو گئے تھے جب کہ اس سے قبل جنوب مشرقی صوبے پکتیا میں قائم پولیس ٹریننگ سینٹر پر ہونے والے خود کش حملے اور مسلح جھڑپ کے نتیجے میں 32افراد ہلاک اور 200سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ کابل میں جمعہ کو دو مساجد کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا جن میں خواتین اور بچوں سمیت 90کے قریب افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔ داعش نے ان حملوں کی ذمے داری قبول کی۔

یہ کارروائیاں اس امر کی مظہر ہیں کہ افغانستان میں جنگ کا ایک نیا مرحلہ شروع ہو گیا ہے' امریکا کے پاس بھرپور فورسز اور جدید ترین ہتھیار ہیں جنھیں وہ اپنے مخالفین کے خلاف بے دریغ استعمال کر رہا ہے جب کہ اس کے مقابل جنگجوؤں کے حملے بھی اس امر کے آئینہ دار ہیں کہ ان کے پاس بھی حملہ کرنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے اور وہ اپنے مخالف کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس صورت حال کے تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں خونریزی کا نیا دور شروع ہو گیا ہے جس میں ہر دو جانب سے بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔


یوں معلوم ہوتا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے وسائل اور طاقت کے زعم میں افغان صورت حال کا غلط اندازہ لگایا ہے' ان کو یہ گمان ہو گا کہ وہ بھرپور فضائی حملوں اور خوفناک ہتھیاروں کے استعمال سے جنگجوؤں کا خاتمہ کر دیں گے جب کہ امریکا گزشتہ کئی سال سے افغانستان میں تمام تر وسائل بروئے کار لانے کے باوجود وہاں امن قائم نہیں کر سکا اور آج بھی اسے جنگجوؤں کے حملوں کا سامنا ہے۔ بعض تجزیہ نگار اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر یہی صورت حال جاری رہی تو افغان جنگ پھیل سکتی ہے اور اس کے شعلے پاکستان میں بھی محسوس کیے جائیں گے۔

انھی خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی سول اور عسکری قیادت اس امرکا اظہار کر چکی ہے کہ وہ افغان جنگ میں امریکا کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں مگر وہ اس جنگ کو اپنے ملک میں آنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ پاکستان نے افغان جنگ کے شعلوں اور نقصانات سے بچنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن پاکستان دہشت گردوں کی آمد روکنے کے لیے افغان بارڈر کے ساتھ ساتھ بڑی سرعت سے خاردار تاریں لگا رہا اور وہاں بڑی تعداد میں سرحدی چوکیاں قائم کر چکا ہے۔

ادھر مصر میں بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے جانے والی پولیس پارٹی پر حملے سے 35 پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔ پوری اسلامی دنیا میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی سے اضافہ تشویشناک ہے جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسلامی ممالک کو انتشار اور افراتفری کا شکار کیا جا رہا ہے۔ عراق' شام' لیبیا اور افغانستان کی صورت حال سب کے سامنے ہے' اب مصر میں دہشت گردوں کے حملے تشویشناک ہیں۔

مصر نے فلسطینی تنظیموں حماس اور الفتح کے درمیان صلح کروانے میں اہم کردار ادا کیا ہے' اغلب گمان ہے کہ ایسا کرنے پر مصر میں بھی خلفشار پیدا کرنے کے لیے دہشت گردوں کی سرپرستی شروع کر دی گئی ہے۔ پاکستان سمیت تمام اسلامی دنیا کے سربراہان کو مل بیٹھ کر اس پریشان کن صورت حال کا حل تلاش کرنا چاہیے تاکہ مسلم دنیا کو انتشار اور خلفشار کے عذاب سے بچایا جا سکے۔

 
Load Next Story