مستعفی ہو ہی جائیں
ہر جگہ وزیروں کا بھی یہی حال ہے وہ قومی اور صوبائی ایوانوں کو اہمیت نہیں دیتے
روزنامہ ایکسپریس کے مطابق مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی مستعفی ہونے پر غورکررہے ہیں، البتہ یہ نہیں پتا کہ وہ سابق وزیراعظم میر ظفر اﷲ جمالی کی طرح ن لیگ سے مستعفی ہوںگے یا اپنی اپنی اسمبلیوں سے اور ویسے بھی اب اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے میں سات ماہ باقی رہ گئے ہیں ۔ ارکان اسمبلی کی اکثریت ویسے بھی تقریباً ساڑھے چار سالوں میں اکثر غیر حاضر ہی رہی ہے اور اگر وہ سات ماہ قبل مستقل ہی غیر حاضر ہوجائیں تو کیا فرق پڑے گا۔
ارکان اسمبلی کی اکثریت ویسے بھی ایوانوں میں باقاعدگی سے آنے کے لیے منتخب نہیں ہوتی بلکہ قومی خزانے پر بوجھ بڑھانے اور ذاتی مالی وسیاسی مفادات کے حصول کے لیے اسمبلیوں کے الیکشن لڑتے ہیں اور اکثر ایوانوں میں نہیں آتے اور یہاں تو یہ حال ہے کہ مہینوں مستعفی اور اسمبلیوں سے غیر حاضر رہنے والے ارکان بھی اپنی اسمبلیوں سے باقاعدگی سے تنخواہیں وصول کررہے ہیں جن کا یہ حق نہیں بنتا کہ اسمبلیوں سے غیر حاضر رہیں یا تنخواہ حلال کرنے کے لیے صرف حاضری لگانے آئیں اور اسمبلی ایوان سے واپس چلے جائیں۔
اسمبلیوں میں بہت کم ہی ارکان جمشید دستی جیسے ہوںگے جن کے لیے اسمبلی میں آنا اور تنخواہ وصول کرنا ضروری ہو کیونکہ وہ کوئی بڑا زمیندار اور جاگیردار نہیں ہے جب کہ اسمبلیوں میں اکثریت ایسے ارکان کی ہے جو ایوان میں موجود رہنا اپنی توہین مگر سرکاری مراعات کا حصول اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ قومی اسمبلی، سینیٹ اور تمام صوبائی اسمبلیوں میں ارکان کی غیر حاضری اور کورم نہ ہونا مستقل مسئلہ بنا ہوا ہے ۔
یہ بھی عجب مذاق ہے کہ بڑے بڑے اسمبلی ایوانوں میں ٹی وی چینلز پر بڑی تعداد میں خالی نظر آنے والی نشستیں اپنے ارکان سے محروم ہی ہوتی ہیں اور موجود چند ارکان ہی کی موجودگی میں ملک اور صوبوں کے مستقبل کے فیصلے کردیے جاتے ہیں ۔کورم پورا نہ ہونے کے باوجود اجلاس جاری رکھا جاتا ہے اور جب کوئی مخالف رکن کورم نہ ہونے کی نشان دہی کرتا ہے تو بادل ناخواستہ اجلاس ملتوی کیا جاتا ہے اور اجلاسوں کی مقررہ تعداد پوری کرنے کے لیے اجلاس جاری رکھے جاتے ہیں۔
پنجاب اسمبلی کے ارکان کی تعداد قومی اسمبلی سے زیادہ ہے مگر 20 اکتوبرکوکورم نہ ہونے پر اجلاس ملتوی کرنا پڑا اور اکثر ہر اسمبلی میں یہی تماشا قوم دیکھ رہی ہے ۔اسمبلیوں کے ذریعے وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور وزیر بننے والے حلف اٹھاتے ہی اسمبلیوں سے لا تعلق ہوجاتے ہیں ۔
چیئرمین سینیٹ، تمام اسمبلیوں کے اسپیکر ارکان کی غیر حاضری پر برہمی کا اظہارکرکے تھک گئے ہوںگے مگر ارکان باز نہیں آرہے، ہر جگہ وزیروں کا بھی یہی حال ہے وہ قومی اور صوبائی ایوانوں کو اہمیت نہیں دیتے ۔ ارکان کے سوالات کا جواب وزارتوں سے مہینوں میں ملتا ہے مگر ایوان میں جواب دینے کے لیے متعلقہ وزیر موجود ہی نہیں ہوتے اور غیر متعلقہ وزیر جواب دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔
سابق نا اہل وزیراعظم نواز شریف نے ایک سال تک سینیٹ میں آنا گوارا نہیں کیا، جہاں ان کے مخالفین کی اکثریت ہے، جب کہ قومی اسمبلی جہاں مسلم لیگ ن کی دو بار واضح اکثریت رہی وہاں بھی وزیراعظم کی حیثیت سے نواز شریف بہت کم آتے تھے اور اب کہہ رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا، بڑے میاں کی طرح چھوٹے میاں کا بھی یہی حال ہے ۔ دونوں بھائی اسمبلیوں میں بہت کم آئے ہیں۔ البتہ بڑے میاں کے مقابلے میں میاں شہباز شریف فعال اور متحرک وزیراعلیٰ مشہور ہیں ، جو بڑے بھائی کے برعکس آرام کم اورکام زیادہ کرتے ہیں، مگر بڑکوں میں بڑے بھائی سے آگے ہیں۔
اس معاملے میں عمران خان بھی جنھوں نے نواز شریف پر کبھی ایوان میں نہ آنے پر اس لیے تنقید نہیں کی کہ خود عمران خان بھی قومی اسمبلی میں بہت کم آتے ہیں اور اسی قومی اسمبلی سے ملک کا وزیراعظم منتخب ہونے کے لیے بہت بے چین رہتے ہیں مگر نواز شریف کی طرح قومی اسمبلی میں باقاعدگی سے کبھی نہیں آئے۔
مولانا فضل الرحمن کا بھی یہی حال ہے جب کہ سینیٹر سراج الحق سے یہ شکایت کم ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار بھی قومی اسمبلی میں کم ہی آتے ہیں۔ محمود اچکزئی، شیخ رشید، سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ایوان میں ضرور آتے ہیں۔ ملک میں قومی حکومت اور ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام کی افواہ عام ہے جب کہ ارکان اسمبلی کا سیاسی وفاداریاں بدلنے کے لیے اپنی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا سیزن بھی شروع ہونے والا ہے اور ارکان اسمبلی آیندہ اسمبلیوں میں آنے کے لیے یہ دیکھ رہے ہیں کہ کون سی پارٹی آیندہ حکومت بنائے گی۔
ارکان اسمبلی مستعفی ہونے کے لیے کالزکے بھی منتظر ہیں، اگر اسمبلیوں سے ارکان کے مستعفی ہونے کا سلسلہ شروع ہوگیا تو کیا باقی چند ماہ کے لیے الیکشن کمیشن خالی نشستوں پر ضمنی انتخاب کراسکے گا۔ یہ سوال بھی اہم ہے۔ اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے سے قبل اگر اسمبلیاں ارکان کے استعفوں سے خالی ہوگئیں تو بڑی تعداد میں خالی نشستوں پر تو ضمنی انتخاب ممکن نہیں ہوگا مگر خالی اسمبلیوں کے باعث چند سالوں کے لیے قومی یا ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام کے لیے راہ ضرور ہموار ہوجائے گی اور ایسا چاہنے والے یہ جواز پیش کرسکیںگے کہ ملک کو ایسی اسمبلیوں کی کیا ضرورت جہاں منتخب ارکان آتے ہی نہیں اور غیر حاضر زیادہ رہتے ہیں اور خالی رہنے والی اسمبلیوں پر قومی خزانہ کیوں ضایع ہو۔
وفاقی اور صوبائی وزرا اسمبلیوں میں اتنی باقاعدگی سے نہیں آتے جتنے وہ اپنے قائدین کے سامنے آتے ہیں اور خوشامد میں وقت ضایع کرتے ہیں تاکہ انھیں آیندہ ٹکٹ دینے کے لیے قائدین یاد رکھیں۔ اسمبلیوں میں مسلسل غیر حاضر رہنے والوں کے لیے کوئی سزا مقرر نہیں ہے جس کی وجہ سے اسمبلیاں خالی نظر آتے ہیں۔ ایسے ارکان سے عوام کو تو فائدہ نہیں مگر ارکان اسمبلی ہر طرف سے فائدے ہی میں نظر آتے ہیں۔
ارکان اسمبلی کی اکثریت ویسے بھی ایوانوں میں باقاعدگی سے آنے کے لیے منتخب نہیں ہوتی بلکہ قومی خزانے پر بوجھ بڑھانے اور ذاتی مالی وسیاسی مفادات کے حصول کے لیے اسمبلیوں کے الیکشن لڑتے ہیں اور اکثر ایوانوں میں نہیں آتے اور یہاں تو یہ حال ہے کہ مہینوں مستعفی اور اسمبلیوں سے غیر حاضر رہنے والے ارکان بھی اپنی اسمبلیوں سے باقاعدگی سے تنخواہیں وصول کررہے ہیں جن کا یہ حق نہیں بنتا کہ اسمبلیوں سے غیر حاضر رہیں یا تنخواہ حلال کرنے کے لیے صرف حاضری لگانے آئیں اور اسمبلی ایوان سے واپس چلے جائیں۔
اسمبلیوں میں بہت کم ہی ارکان جمشید دستی جیسے ہوںگے جن کے لیے اسمبلی میں آنا اور تنخواہ وصول کرنا ضروری ہو کیونکہ وہ کوئی بڑا زمیندار اور جاگیردار نہیں ہے جب کہ اسمبلیوں میں اکثریت ایسے ارکان کی ہے جو ایوان میں موجود رہنا اپنی توہین مگر سرکاری مراعات کا حصول اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ قومی اسمبلی، سینیٹ اور تمام صوبائی اسمبلیوں میں ارکان کی غیر حاضری اور کورم نہ ہونا مستقل مسئلہ بنا ہوا ہے ۔
یہ بھی عجب مذاق ہے کہ بڑے بڑے اسمبلی ایوانوں میں ٹی وی چینلز پر بڑی تعداد میں خالی نظر آنے والی نشستیں اپنے ارکان سے محروم ہی ہوتی ہیں اور موجود چند ارکان ہی کی موجودگی میں ملک اور صوبوں کے مستقبل کے فیصلے کردیے جاتے ہیں ۔کورم پورا نہ ہونے کے باوجود اجلاس جاری رکھا جاتا ہے اور جب کوئی مخالف رکن کورم نہ ہونے کی نشان دہی کرتا ہے تو بادل ناخواستہ اجلاس ملتوی کیا جاتا ہے اور اجلاسوں کی مقررہ تعداد پوری کرنے کے لیے اجلاس جاری رکھے جاتے ہیں۔
پنجاب اسمبلی کے ارکان کی تعداد قومی اسمبلی سے زیادہ ہے مگر 20 اکتوبرکوکورم نہ ہونے پر اجلاس ملتوی کرنا پڑا اور اکثر ہر اسمبلی میں یہی تماشا قوم دیکھ رہی ہے ۔اسمبلیوں کے ذریعے وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور وزیر بننے والے حلف اٹھاتے ہی اسمبلیوں سے لا تعلق ہوجاتے ہیں ۔
چیئرمین سینیٹ، تمام اسمبلیوں کے اسپیکر ارکان کی غیر حاضری پر برہمی کا اظہارکرکے تھک گئے ہوںگے مگر ارکان باز نہیں آرہے، ہر جگہ وزیروں کا بھی یہی حال ہے وہ قومی اور صوبائی ایوانوں کو اہمیت نہیں دیتے ۔ ارکان کے سوالات کا جواب وزارتوں سے مہینوں میں ملتا ہے مگر ایوان میں جواب دینے کے لیے متعلقہ وزیر موجود ہی نہیں ہوتے اور غیر متعلقہ وزیر جواب دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔
سابق نا اہل وزیراعظم نواز شریف نے ایک سال تک سینیٹ میں آنا گوارا نہیں کیا، جہاں ان کے مخالفین کی اکثریت ہے، جب کہ قومی اسمبلی جہاں مسلم لیگ ن کی دو بار واضح اکثریت رہی وہاں بھی وزیراعظم کی حیثیت سے نواز شریف بہت کم آتے تھے اور اب کہہ رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا، بڑے میاں کی طرح چھوٹے میاں کا بھی یہی حال ہے ۔ دونوں بھائی اسمبلیوں میں بہت کم آئے ہیں۔ البتہ بڑے میاں کے مقابلے میں میاں شہباز شریف فعال اور متحرک وزیراعلیٰ مشہور ہیں ، جو بڑے بھائی کے برعکس آرام کم اورکام زیادہ کرتے ہیں، مگر بڑکوں میں بڑے بھائی سے آگے ہیں۔
اس معاملے میں عمران خان بھی جنھوں نے نواز شریف پر کبھی ایوان میں نہ آنے پر اس لیے تنقید نہیں کی کہ خود عمران خان بھی قومی اسمبلی میں بہت کم آتے ہیں اور اسی قومی اسمبلی سے ملک کا وزیراعظم منتخب ہونے کے لیے بہت بے چین رہتے ہیں مگر نواز شریف کی طرح قومی اسمبلی میں باقاعدگی سے کبھی نہیں آئے۔
مولانا فضل الرحمن کا بھی یہی حال ہے جب کہ سینیٹر سراج الحق سے یہ شکایت کم ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار بھی قومی اسمبلی میں کم ہی آتے ہیں۔ محمود اچکزئی، شیخ رشید، سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ایوان میں ضرور آتے ہیں۔ ملک میں قومی حکومت اور ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام کی افواہ عام ہے جب کہ ارکان اسمبلی کا سیاسی وفاداریاں بدلنے کے لیے اپنی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا سیزن بھی شروع ہونے والا ہے اور ارکان اسمبلی آیندہ اسمبلیوں میں آنے کے لیے یہ دیکھ رہے ہیں کہ کون سی پارٹی آیندہ حکومت بنائے گی۔
ارکان اسمبلی مستعفی ہونے کے لیے کالزکے بھی منتظر ہیں، اگر اسمبلیوں سے ارکان کے مستعفی ہونے کا سلسلہ شروع ہوگیا تو کیا باقی چند ماہ کے لیے الیکشن کمیشن خالی نشستوں پر ضمنی انتخاب کراسکے گا۔ یہ سوال بھی اہم ہے۔ اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے سے قبل اگر اسمبلیاں ارکان کے استعفوں سے خالی ہوگئیں تو بڑی تعداد میں خالی نشستوں پر تو ضمنی انتخاب ممکن نہیں ہوگا مگر خالی اسمبلیوں کے باعث چند سالوں کے لیے قومی یا ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام کے لیے راہ ضرور ہموار ہوجائے گی اور ایسا چاہنے والے یہ جواز پیش کرسکیںگے کہ ملک کو ایسی اسمبلیوں کی کیا ضرورت جہاں منتخب ارکان آتے ہی نہیں اور غیر حاضر زیادہ رہتے ہیں اور خالی رہنے والی اسمبلیوں پر قومی خزانہ کیوں ضایع ہو۔
وفاقی اور صوبائی وزرا اسمبلیوں میں اتنی باقاعدگی سے نہیں آتے جتنے وہ اپنے قائدین کے سامنے آتے ہیں اور خوشامد میں وقت ضایع کرتے ہیں تاکہ انھیں آیندہ ٹکٹ دینے کے لیے قائدین یاد رکھیں۔ اسمبلیوں میں مسلسل غیر حاضر رہنے والوں کے لیے کوئی سزا مقرر نہیں ہے جس کی وجہ سے اسمبلیاں خالی نظر آتے ہیں۔ ایسے ارکان سے عوام کو تو فائدہ نہیں مگر ارکان اسمبلی ہر طرف سے فائدے ہی میں نظر آتے ہیں۔