یہ کیسا نظام ہے
ہمارے وطن کو ہمیشہ موقع پرستوں نے اور فوٹو سیشن نام نہاد ملاؤں نے بہت نقصان پہنچایا۔
نظام حکومت اگر اسلامی نہ ہو تو روایتی طور پر دو ہی راستے ہیں، ایک ملوکیت یا آمریت، دوسرا جمہوریت۔ دنیا کے جن ملکوں میں جمہوریت اپنے شفاف انداز میں موجود ہے وہاں عوام کی حکمرانی نظرآتی ہے اور ملک میں ہر روز ترقی نظر آتی۔ عوام کی مشکلات میں آسانی پیدا ہوتی ہے، مگرعموماً مسلم ممالک میں اول تو آمریت ہے اور بہت کم ملک ہیں جہاں جمہوریت ہے، مگر جمہوریت بھی آمریت کے تخت پر بیٹھی ہوئی ہے، اسی لیے شخصی حکمرانی کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ حاکم وقت اتنا بڑا آمر ہوجاتا ہے کہ اسے کسی حال اقتدار کی قربانی دینا مقصود نہیں ہوتی۔
اگر اس کا اقتدار گر رہا ہو تو وہ ہر ناجائز طریقے سے بھی بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلمان ملکوں میں جہاں جہاں سیاسی جماعتیں ہیں ان کی بنیاد قوم و سلطنت نہیں ہے، بلکہ یہ مفاد پرستوں کا ٹولہ جمع ہوجاتا ہے اور اپنی نفسی خواہشات کے تابع اپنی سیاست کو چمکاتا ہے، انھیں نہ جمہوریت کی تمیز ہے، نہ آمریت کا فرق پتا ہے۔
ہمارے ملک میں علم کی بہت کمی ہے، ان پڑھ بہت ہیں، یعنی بھولے بھالے عوام ان سیاست دانوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آجاتے ہیں اور دوسرا اہم رخ یہ ہے کہ سیاسی جماعت ہو یا مذہبی، کوئی گروہی جماعت ہو، ان سب کو وافر مقدار میں فنڈنگ ملتی ہے اور بے تحاشا دولت ملتی ہے، جس سے پارٹی کا سربراہ اور اس کا خاندان و قبیلہ مستفیض ہوتا ہے، پھر اس کی پارٹی کے وہ لوگ جو پارٹی کے سربراہ کے قریب ہوں پھر اس سے نچلے طبقے کے کارکن، اس طرح جب کبھی انھیں اقتدار ملتا ہے تو عوام کے خون اور پسینہ کی کمائی سے یہ لوگ فرعون اور نمرود بن جاتے ہیں اور دولت اور شہرت سے اپنے اقتدار کو مضبوط کرتے ہیں۔ یہی حال ہمارے ملک کا ہے۔
مجھے ایک معمولی سا کارکن بھی کسی سیاسی پارٹی کا نہ ملا جس نے سیاست میں آنے کے بعد دولت اور شہرت اور طاقت نہ حاصل کی ہو۔ لیکن ہمارے بھولے بھالے عوام جس کو ان مفاد پرست ٹولوں نے کہیں لسانیت کی بنیاد پر، کہیں صوبائیت کی بنیاد پر، کہیں علاقائی قومیت کی بنیاد پر، کہیں مسلک کی بنیاد پر، کہیں مذہب کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کیا ہوا ہے اور عوام کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ ان ہی نفس کے پجاریوں، ان ہی شہرت کے بھوکے اور دولت کے لالچیوں ہی کو ووٹ دیں۔ اس لیے اصلاح کرنے والے جب اصلاح نہیں کریں گے، یہ ملک خوشحال نہیں ہوگا۔
ہم سے 70 سال میں کبھی آنے والی نسل کے لیے کوئی تعلیم اور تربیت نہیں کی۔ معاشرے کے علماء، استاتذہ، والدین اور حکمرانوں نے تربیت نسل میں وہ حق ادا ہی نہیں کیا جو ان پر قرض ہے۔ آج 22 کروڑ عوام میں 22 ہزار افراد بھی موجود ہ حکمرانی سے مطمئن نظر نہیں آتے۔ 1970 سے لے کر 1977 تک سیاست کسی حد تک قابل قبول تھی، جس میں ذوالفقار علی بھٹو کا بڑا اہم کردار رہا، وہ واقعی ملک اور قوم کا خیر خواہ تھا، اس نے اتنے مختصر عرصے میں ٹوٹے ہوئے پاکستان کو بھی سنبھالا اور فوجی قوت میں بھی اضافہ کیا اور عوام کو سہولتیں دیں اور سب سے بڑھ کر ملک جوہری قوت بنایا۔ مگر عاقبت نااندیش لوگوں نے نام نہاد ملاؤں نے اس کا ساتھ دینے کے بجائے امریکا کے جمی کارٹر کا ساتھ دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اتنا عظیم رہنما بن چکا تھا کہ وہ اسلامی دنیا کا ابھرتا ہوا کم سے کم ایشیائی لیڈر تھا۔
ہمارے وطن کو ہمیشہ موقع پرستوں نے اور فوٹو سیشن نام نہاد ملاؤں نے بہت نقصان پہنچایا۔ حالانکہ اس ملک میں مولانا مفتی محمود، مولانا ابوالعلیٰ مودودی، مولانا شاہ احمد نورانی سے علما بھی جنھیں ملک اور قوم کی تعمیر میں دلچسپی تھی لیکن آج نہ ذوالفقار علی بھٹو کی فکر پر عمل کرنے والے ہیں، نہ ان معزز علماؤں سے مذہبی رہنما ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج 70 سال بعد بھی ہماری ریاست کمزور ہے۔ بس اﷲ کا شکر ہے کہ پاکستان کی افواج کے سربراہ راحیل شریف سے آج کے سپہ سالار جنرل قمر باجوہ تک نے اس ملک میں دہشت گردوں کے خلاف بڑا کامیاب آپریشن کیا اور ملک کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچالیا۔ اسی طرح پاکستانی عدالت عظمیٰ نے بڑے حوصلے سے پرعزم انداز میں قانون کی حکمرانی کی رٹ کو بحال کرنے میں طاقتور ہستیوں کو بھی جوابدہی کے لیے عدالت کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔
یہ کوئی آسان کام نہیں تھا اور اس سے عدالت کے وقار میں بہت اضافہ ہوا۔ ویسے بھی ایک عام آدمی کو جب بھی ریلیف ملا تو عدالتوں کے ذریعے ملا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ہم اربوں سے کھربوں کے مقروض ہوگئے۔ نہ ترقی ہورہی ہے، نہ انفرااسٹرکچر درست ہورہا ہے، نہ تعلیمی شعبے میں باقاعدگی ہے، نہ صحت عامہ کی سہولتوں میں آسانی ہے، نہ روزگار میں اضافہ ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عام آدمی موبائل فون، بجلی، پانی، گیس کے بلوں کی مد میں فوری ٹیکس ادا کرتا ہے، اربوں روپے لائسنس اور گاڑیوں کے ٹیکس کے وصول ہوتے ہیں، اربوں روپے پرائیوٹ تعلیمی اداروں اور اسکولوں میں لے لیے جاتے ہیں لیکن ان ٹیکس آمدنی کا خرچہ کہیں نظر نہیں آتا۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان کے بڑے منصب کے ارباب اختیار کچھ قوم و ملت کے لیے سوچیں، کیونکہ وطن کی خستہ حالی اور داخلی اور خارجی پالیسی نے ریاست کو بہت کمزور کردیا ہے۔
اس وقت حل یہ ہے کہ احتساب کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ، کوئی این ار او کیے بغیر اس احتساب کے نظام کو مضبوط اور مربوط بنائیں کہ بڑے سے بڑا طاقتور شخص بھی اس احتساب سے گزرے اور عام لوگوں کے ساتھ رعایت کا سلسلہ شروع کیا جائے۔
آج جیل میں ہزاروں غریب قیدی وہ ہیں جو بے گناہ ہیں، اس لیے اگر ان کے معاملات پر نظرثانی کرکے صرف وہ قیدی جن پر کوئی بڑا جرم ثابت ہوچکا ہے جیسے قتل، ان کے علاوہ سب کے والدین وارثین سے ضمانتی اقرارنامے لے کر رہا کردیں اور انھیں ایک اچھا شہری بننے کا موقع دیں، دوسرے یہ کہ تمام سرکاری اداروں کے بجٹ کا احتساب ہو کہ یہ بجٹ کب، کتنا اور کہاں خرچ ہوا، اس کے لیے کمیشن بنایا جائے اور سب سے اہم کام یہ ہو کہ انتخابی اصلاحات ایسی ہوں جس سے نامزد امیدوار ایماندار، وفادار، کفایت شعار، تجربہ کار ہوں۔
آسان حل یہ ہے کہ جو صوبائی اسمبلی کا امیدوار ہو اس نے پہلے کم سے کم کونسلر کا انتخاب لڑا ہو اور جیتا ہو، اسی طرح قومی اسمبلی کا انتخاب جیتا ہو، اس طرح ہمارے سیاستدان ایک اچھے پارلیمنٹیرین ثابت ہوں گے، ان کی سیاسی ترقی اہلیت کی بنیاد پر ہوگی، ان کے پارلیمنٹ میں آنے سے پارلیمنٹ نہ گونگی ہوگی، نہ بہری، جیسا کہ پارلیمنٹ پر نظر کریں تو 500 افراد میں صرف دس افراد ہی عوامی مسائل پر گفتگو کرتے نظر آتے ہیں، باقی یا تو سنتے ہیں یا سوتے ہیں یا صرف تالی بجاتے ہیں اور اس سے زیادہ اہم کہ کسی امیدوار کو نہ لسانی، نہ برادری، نہ مسلکی، نہ مذہبی بنیاد پر ووٹ لینے کا حق ہو، صرف اہلیت ہو اور وفاق پرست ہو اور فرض شناس ہو، ان اصلاحات کے لیے اس وقت پاکستان میں ایک مختصر کابینہ بنائی جائے، وزرا کی اکثرت کے بجائے ماہرین سیکٹریز کے ذریعے کام کو بڑھایا جائے اور نیب جیسے ادارے کو عدالت عظمیٰ کی طرح خودمختار ادارہ بنایا جائے، جو مستقل طور پر عدالت عظمیٰ کے نگراں جج کی نگرانی میں رہے۔
اگر اس کا اقتدار گر رہا ہو تو وہ ہر ناجائز طریقے سے بھی بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلمان ملکوں میں جہاں جہاں سیاسی جماعتیں ہیں ان کی بنیاد قوم و سلطنت نہیں ہے، بلکہ یہ مفاد پرستوں کا ٹولہ جمع ہوجاتا ہے اور اپنی نفسی خواہشات کے تابع اپنی سیاست کو چمکاتا ہے، انھیں نہ جمہوریت کی تمیز ہے، نہ آمریت کا فرق پتا ہے۔
ہمارے ملک میں علم کی بہت کمی ہے، ان پڑھ بہت ہیں، یعنی بھولے بھالے عوام ان سیاست دانوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آجاتے ہیں اور دوسرا اہم رخ یہ ہے کہ سیاسی جماعت ہو یا مذہبی، کوئی گروہی جماعت ہو، ان سب کو وافر مقدار میں فنڈنگ ملتی ہے اور بے تحاشا دولت ملتی ہے، جس سے پارٹی کا سربراہ اور اس کا خاندان و قبیلہ مستفیض ہوتا ہے، پھر اس کی پارٹی کے وہ لوگ جو پارٹی کے سربراہ کے قریب ہوں پھر اس سے نچلے طبقے کے کارکن، اس طرح جب کبھی انھیں اقتدار ملتا ہے تو عوام کے خون اور پسینہ کی کمائی سے یہ لوگ فرعون اور نمرود بن جاتے ہیں اور دولت اور شہرت سے اپنے اقتدار کو مضبوط کرتے ہیں۔ یہی حال ہمارے ملک کا ہے۔
مجھے ایک معمولی سا کارکن بھی کسی سیاسی پارٹی کا نہ ملا جس نے سیاست میں آنے کے بعد دولت اور شہرت اور طاقت نہ حاصل کی ہو۔ لیکن ہمارے بھولے بھالے عوام جس کو ان مفاد پرست ٹولوں نے کہیں لسانیت کی بنیاد پر، کہیں صوبائیت کی بنیاد پر، کہیں علاقائی قومیت کی بنیاد پر، کہیں مسلک کی بنیاد پر، کہیں مذہب کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کیا ہوا ہے اور عوام کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ ان ہی نفس کے پجاریوں، ان ہی شہرت کے بھوکے اور دولت کے لالچیوں ہی کو ووٹ دیں۔ اس لیے اصلاح کرنے والے جب اصلاح نہیں کریں گے، یہ ملک خوشحال نہیں ہوگا۔
ہم سے 70 سال میں کبھی آنے والی نسل کے لیے کوئی تعلیم اور تربیت نہیں کی۔ معاشرے کے علماء، استاتذہ، والدین اور حکمرانوں نے تربیت نسل میں وہ حق ادا ہی نہیں کیا جو ان پر قرض ہے۔ آج 22 کروڑ عوام میں 22 ہزار افراد بھی موجود ہ حکمرانی سے مطمئن نظر نہیں آتے۔ 1970 سے لے کر 1977 تک سیاست کسی حد تک قابل قبول تھی، جس میں ذوالفقار علی بھٹو کا بڑا اہم کردار رہا، وہ واقعی ملک اور قوم کا خیر خواہ تھا، اس نے اتنے مختصر عرصے میں ٹوٹے ہوئے پاکستان کو بھی سنبھالا اور فوجی قوت میں بھی اضافہ کیا اور عوام کو سہولتیں دیں اور سب سے بڑھ کر ملک جوہری قوت بنایا۔ مگر عاقبت نااندیش لوگوں نے نام نہاد ملاؤں نے اس کا ساتھ دینے کے بجائے امریکا کے جمی کارٹر کا ساتھ دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اتنا عظیم رہنما بن چکا تھا کہ وہ اسلامی دنیا کا ابھرتا ہوا کم سے کم ایشیائی لیڈر تھا۔
ہمارے وطن کو ہمیشہ موقع پرستوں نے اور فوٹو سیشن نام نہاد ملاؤں نے بہت نقصان پہنچایا۔ حالانکہ اس ملک میں مولانا مفتی محمود، مولانا ابوالعلیٰ مودودی، مولانا شاہ احمد نورانی سے علما بھی جنھیں ملک اور قوم کی تعمیر میں دلچسپی تھی لیکن آج نہ ذوالفقار علی بھٹو کی فکر پر عمل کرنے والے ہیں، نہ ان معزز علماؤں سے مذہبی رہنما ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج 70 سال بعد بھی ہماری ریاست کمزور ہے۔ بس اﷲ کا شکر ہے کہ پاکستان کی افواج کے سربراہ راحیل شریف سے آج کے سپہ سالار جنرل قمر باجوہ تک نے اس ملک میں دہشت گردوں کے خلاف بڑا کامیاب آپریشن کیا اور ملک کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچالیا۔ اسی طرح پاکستانی عدالت عظمیٰ نے بڑے حوصلے سے پرعزم انداز میں قانون کی حکمرانی کی رٹ کو بحال کرنے میں طاقتور ہستیوں کو بھی جوابدہی کے لیے عدالت کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔
یہ کوئی آسان کام نہیں تھا اور اس سے عدالت کے وقار میں بہت اضافہ ہوا۔ ویسے بھی ایک عام آدمی کو جب بھی ریلیف ملا تو عدالتوں کے ذریعے ملا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ہم اربوں سے کھربوں کے مقروض ہوگئے۔ نہ ترقی ہورہی ہے، نہ انفرااسٹرکچر درست ہورہا ہے، نہ تعلیمی شعبے میں باقاعدگی ہے، نہ صحت عامہ کی سہولتوں میں آسانی ہے، نہ روزگار میں اضافہ ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عام آدمی موبائل فون، بجلی، پانی، گیس کے بلوں کی مد میں فوری ٹیکس ادا کرتا ہے، اربوں روپے لائسنس اور گاڑیوں کے ٹیکس کے وصول ہوتے ہیں، اربوں روپے پرائیوٹ تعلیمی اداروں اور اسکولوں میں لے لیے جاتے ہیں لیکن ان ٹیکس آمدنی کا خرچہ کہیں نظر نہیں آتا۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان کے بڑے منصب کے ارباب اختیار کچھ قوم و ملت کے لیے سوچیں، کیونکہ وطن کی خستہ حالی اور داخلی اور خارجی پالیسی نے ریاست کو بہت کمزور کردیا ہے۔
اس وقت حل یہ ہے کہ احتساب کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ، کوئی این ار او کیے بغیر اس احتساب کے نظام کو مضبوط اور مربوط بنائیں کہ بڑے سے بڑا طاقتور شخص بھی اس احتساب سے گزرے اور عام لوگوں کے ساتھ رعایت کا سلسلہ شروع کیا جائے۔
آج جیل میں ہزاروں غریب قیدی وہ ہیں جو بے گناہ ہیں، اس لیے اگر ان کے معاملات پر نظرثانی کرکے صرف وہ قیدی جن پر کوئی بڑا جرم ثابت ہوچکا ہے جیسے قتل، ان کے علاوہ سب کے والدین وارثین سے ضمانتی اقرارنامے لے کر رہا کردیں اور انھیں ایک اچھا شہری بننے کا موقع دیں، دوسرے یہ کہ تمام سرکاری اداروں کے بجٹ کا احتساب ہو کہ یہ بجٹ کب، کتنا اور کہاں خرچ ہوا، اس کے لیے کمیشن بنایا جائے اور سب سے اہم کام یہ ہو کہ انتخابی اصلاحات ایسی ہوں جس سے نامزد امیدوار ایماندار، وفادار، کفایت شعار، تجربہ کار ہوں۔
آسان حل یہ ہے کہ جو صوبائی اسمبلی کا امیدوار ہو اس نے پہلے کم سے کم کونسلر کا انتخاب لڑا ہو اور جیتا ہو، اسی طرح قومی اسمبلی کا انتخاب جیتا ہو، اس طرح ہمارے سیاستدان ایک اچھے پارلیمنٹیرین ثابت ہوں گے، ان کی سیاسی ترقی اہلیت کی بنیاد پر ہوگی، ان کے پارلیمنٹ میں آنے سے پارلیمنٹ نہ گونگی ہوگی، نہ بہری، جیسا کہ پارلیمنٹ پر نظر کریں تو 500 افراد میں صرف دس افراد ہی عوامی مسائل پر گفتگو کرتے نظر آتے ہیں، باقی یا تو سنتے ہیں یا سوتے ہیں یا صرف تالی بجاتے ہیں اور اس سے زیادہ اہم کہ کسی امیدوار کو نہ لسانی، نہ برادری، نہ مسلکی، نہ مذہبی بنیاد پر ووٹ لینے کا حق ہو، صرف اہلیت ہو اور وفاق پرست ہو اور فرض شناس ہو، ان اصلاحات کے لیے اس وقت پاکستان میں ایک مختصر کابینہ بنائی جائے، وزرا کی اکثرت کے بجائے ماہرین سیکٹریز کے ذریعے کام کو بڑھایا جائے اور نیب جیسے ادارے کو عدالت عظمیٰ کی طرح خودمختار ادارہ بنایا جائے، جو مستقل طور پر عدالت عظمیٰ کے نگراں جج کی نگرانی میں رہے۔