جہانگیرترین نااہلی کیس عوامی عہدہ دارنے غیرقانونی رقم سے ٹرسٹ بنا لیا سپریم کورٹ
جہانگیرترین نے بچوں کا گھربنایا لیکن وہ بینفیشل مالک نہیں، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ میں جہانگیرترین کی نااہلی کی سماعت کے دوران جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عوامی عہدہ دار نے غیر قانونی رقم سے ٹرسٹ بنا لیا ہے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ جہانگیر ترین کی نااہلی کے لیے دائر درخواست کی سماعت کررہا ہے، سماعت کے دوران جہانگیرترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے دلائل میں کہا کہ ایپلٹ اتھارٹی نے تمام فریقین کوسنے بغیرفیصلہ دیاتھا، لاہورہائی کورٹ نے ٹیکس کے معاملات ایپلٹ اتھارٹی کوواپس بھجوادئیے ہیں، ان کے موکل پرالزام ہے کہ انہوں نے اپنی آف شورکمپنی اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کی، جہانگیرترین نے اپنا کوئی اثاثہ نہیں چھپایا عدالت کوآف شور کمپنی سے متعلق مکمل تفصیل دوں گا۔
چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ جہانگیرترین اورعمران خان کے پہلے جوابات کسی ایک شخص کے تیارکردہ ہیں، جس پر سکندر بشیر نے جواب دیا کہ جہانگیرترین کاجواب میں نے تیار کیا تھا، شائینی ویوکمپنی کے ذریعے رہائشی اراضی خریدی گئی، جسٹس عمرعطاء بندیال نے استفسار کیا کہ شائینی ویو کمپنی کا ٹرسٹی کون ہے، جس پر جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ ٹرسٹ اور آف شور کمپنی میں جہانگیر ترین کا کوئی اثاثہ نہیں ہے، اس کا کا ٹرسٹی ای ایف جی کارپوریٹ بینک ہے، 27 اپریل 2011 کو ٹرسٹ کی رجسٹریشن ہوئی ہے، ٹرسٹ کے سیٹلر جہانگیرترین ہیں۔ کمپنی کے تحت 2 ملین پاؤنڈ کا رہائشی پلاٹ خریدا گیا، پلاٹ کوگروی رکھ کرگھرکی تعمیرکے کیے قرض لیا گیا، کمپنی کے ذریعے کاروباری سرگرمی نہیں ہورہی، جہانگیرترین کے بچوں میں بھی گھرکاکوئی مالک نہیں ہے، قرض کی ادائیگی آف شور کمپنی کرتی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ ٹرسٹ دستاویزات رجسٹرڈ ہیں، جس پر سکندر بشیر نے کہا کہ ٹرسٹ کی دستاویز کو رجسٹرڈ کروانے کی ضرورت نہیں ہوتی، جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا آف شورکمپنی رجسٹرڈ ہوتی ہے، سکندر بشیر نے جواب میں بتایا کہ آف شور کمپنی رجسٹرڈ ہوتی ہے لیکن ٹرسٹ ڈیڈ خفیہ دستاویزات ہوتی ہے اس کی تفصیل شیئر نہیں کی جاتی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم آف شور کمپنی اورٹرسٹ کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ میرا دماغ ذراسست ہے چیزیں سمجھنے میں وقت لیتا ہے، مجھے سمجھائیں کہ پیسہ پاکستان سے بہت کمالیا ہے، بچوں کو باہر پڑھانا بھی ہوتا ہے، باہرآنا جانا بھی لگا رہتا ہے کل کو حالات بدل بھی سکتے ہیں ،ہمیں بتائیں کہ باہر جائیداد خریدنی ہو تو کیا طریقہ کار ہے۔ ہمیں آف شور کمپنی کی تشکیل کی مکمل تصویربتائی جائے۔
سکندر بشیر نے بتایا کہ ٹرسٹ بنانا کمپنی خریدنا ایک قانونی طریقہ کارہے، سب سے پہلے ٹرسٹ بنایا جاتا ہے وہ ٹرسٹ پھر آف شور کمپنی خریدتا ہے، ایک بارٹرسٹ بنالیاجائے اس کوختم نہیں کیاجاسکتا، جہانگیرترین کے بچوں میں بھی گھرکاکوئی مالک نہیں ہے۔ عدالت کوٹرسٹ دستاویز اور جہانگیرترین کے بچوں کے گوشوارے بھی دوں گا لیکن یہ پرائیویٹ دستاویز ہیں انھیں پبلک نہ کیاجائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تمام فریقین کو دفاع کا موقع دینا چاہتے ہیں، تکنیکی نکات کو کاروائی میں رکاوٹ نہیں بننے دیں گے، پہلے دن ہی کہا تھا کہ تمام ریکارڈ لایا جائے، ہمیں دکھادیں دستاویزات کو پبلک نہ کرنے کا کوئی استحقاق ہے، عدالت کے ریکارڈ طلب کرنے پر کوئی قدغن نہیں ہے، محکمہ مال کاریکارڈ بھی طلب کیاتھا، نہیں معلوم کہ محکمہ مال کا ریکارڈ بھی مکمل دیا گیا یا نہیں جہانگیر ترین کوبتادیں کہ یہ چیز شفاف اور کھلی عدالت میں ہوگی۔ سکندر بشیر نے جواب دیا کہ دستاویزات متفرق درخواست کے ذریعے جمع کروا دیتا ہوں، کم سے کم وقت میں یہ دستاویزات جمع کروادوں گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے پاس اصل سوال دیانتداری کاہے یہ بتادیں کمپنی کے لیے پیسہ باہر کیسے بھیجا گیا۔
دوران سماعت جسٹس عمرعطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو ہمیں یہ بتانا ہے کہ جہانگیرترین کا کمپنی پرکنٹرول نہیں ہے، ان کی ہدایات کا کمپنی پراطلاق نہیں ہوتا، آف شورکمپنی کوپیسہ کون بھیجتا ہے، کیا کمپنی کے لیے قرض کی ادائیگی جہانگیرترین کرتے ہیں، جواب میں سکندربشیر نے کہا کہ رقم ٹرسٹی کو بھیجی جاتی ہے اور آف شور کمپنی کو بذریعہ ٹرسٹ فنڈنگ جہانگیر ترین کرتے ہیں، جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ عوامی عہدہ دارنے غیر قانونی رقم سے ٹرسٹ بنا لیا ہے، جب کاغذات نامزدگی کا وقت آتا ہے توکہتا ہے یہ میرا اثاثہ نہیں ہے، جس پرجہانگیرترین کے وکیل نے کہا کہ ٹرسٹ نیو جرسی اور انگلینڈ کے قانون کے مطابق بنایا گیا ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ اس طرح کا ٹرسٹ اثاثوں کو چھپانے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ سکندر بشیر نے جواب میں کہا کہ اس کا جہانگیر ترین کو فائدہ کیا ہوگا، جس پر جسٹس عمر عطاء نے کہا کہ فائدہ یہ ہوگا کہ کاغذات نامزدگی میں اثاثہ بنانا نہیں پڑے گا۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ جہانگیرترین نے بچوں کا گھربنایا لیکن وہ بینفیشل مالک نہیں، بچوں کے بجائے جہانگیر ترین نے غیرملکی بینک کے نمائندوں پر اعتبارکیا، بچے صرف گھر میں رہ سکتے ہیں اثاثے کوفروخت نہیں کرسکتے، یہ ساری باتیں سرکے اوپرسے گزررہی ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کمپنی کے لیے رقم کیسے اور کب بھیجی گئی، جس پرسکندر بشیرنے کہا کہ یہ ایون فیلڈزکے اپارٹمنٹ نہیں ہیں، ایون فیلڈ کی کوئی منی ٹریل نہیں آئی، جہانگیرترین نے اپنی قانونی آمدن باہربھجوائی اورساری منی ٹریل دی ہے۔ بچوں کے گوشواروں میں ٹرسٹ اور کمپنی کو ظاہرکیا گیا۔
چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ جہانگیرترین نے کتنی رقم باہربھیجی اوررہائشی اراضی کا رقبہ کتنا ہے، جس پر وکیل سکندر بشیر نے بتایا کہ رہائشی پلاٹ کا رقبہ 12 ایکڑ ہے اوریہ پلاٹ 21 لاکھ پاؤنڈ میں خریدا گیا، گھرکی تعمیر کے لیے 25 لاکھ پاؤنڈ کا معاہدہ کیاگیا، 2011 میں جہانگیرترین نے 25 لاکھ پاؤنڈ بینکنگ چینل سے باہر بھیجے، جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا ٹیکس حکام کو رقم منتقلی تک رسائی تھی، جس کے جواب میں جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ فارن کرنسی اکاؤنٹ کوقانون کے تحت مکمل تحفظ حاصل ہے۔ جہانگیر ترین کے وکیل کے دلائل جاری ہیں تاہم کیس کی مزید سماعت بدھ کو ہوگی۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ جہانگیر ترین کی نااہلی کے لیے دائر درخواست کی سماعت کررہا ہے، سماعت کے دوران جہانگیرترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے دلائل میں کہا کہ ایپلٹ اتھارٹی نے تمام فریقین کوسنے بغیرفیصلہ دیاتھا، لاہورہائی کورٹ نے ٹیکس کے معاملات ایپلٹ اتھارٹی کوواپس بھجوادئیے ہیں، ان کے موکل پرالزام ہے کہ انہوں نے اپنی آف شورکمپنی اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کی، جہانگیرترین نے اپنا کوئی اثاثہ نہیں چھپایا عدالت کوآف شور کمپنی سے متعلق مکمل تفصیل دوں گا۔
چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ جہانگیرترین اورعمران خان کے پہلے جوابات کسی ایک شخص کے تیارکردہ ہیں، جس پر سکندر بشیر نے جواب دیا کہ جہانگیرترین کاجواب میں نے تیار کیا تھا، شائینی ویوکمپنی کے ذریعے رہائشی اراضی خریدی گئی، جسٹس عمرعطاء بندیال نے استفسار کیا کہ شائینی ویو کمپنی کا ٹرسٹی کون ہے، جس پر جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ ٹرسٹ اور آف شور کمپنی میں جہانگیر ترین کا کوئی اثاثہ نہیں ہے، اس کا کا ٹرسٹی ای ایف جی کارپوریٹ بینک ہے، 27 اپریل 2011 کو ٹرسٹ کی رجسٹریشن ہوئی ہے، ٹرسٹ کے سیٹلر جہانگیرترین ہیں۔ کمپنی کے تحت 2 ملین پاؤنڈ کا رہائشی پلاٹ خریدا گیا، پلاٹ کوگروی رکھ کرگھرکی تعمیرکے کیے قرض لیا گیا، کمپنی کے ذریعے کاروباری سرگرمی نہیں ہورہی، جہانگیرترین کے بچوں میں بھی گھرکاکوئی مالک نہیں ہے، قرض کی ادائیگی آف شور کمپنی کرتی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ ٹرسٹ دستاویزات رجسٹرڈ ہیں، جس پر سکندر بشیر نے کہا کہ ٹرسٹ کی دستاویز کو رجسٹرڈ کروانے کی ضرورت نہیں ہوتی، جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا آف شورکمپنی رجسٹرڈ ہوتی ہے، سکندر بشیر نے جواب میں بتایا کہ آف شور کمپنی رجسٹرڈ ہوتی ہے لیکن ٹرسٹ ڈیڈ خفیہ دستاویزات ہوتی ہے اس کی تفصیل شیئر نہیں کی جاتی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم آف شور کمپنی اورٹرسٹ کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ میرا دماغ ذراسست ہے چیزیں سمجھنے میں وقت لیتا ہے، مجھے سمجھائیں کہ پیسہ پاکستان سے بہت کمالیا ہے، بچوں کو باہر پڑھانا بھی ہوتا ہے، باہرآنا جانا بھی لگا رہتا ہے کل کو حالات بدل بھی سکتے ہیں ،ہمیں بتائیں کہ باہر جائیداد خریدنی ہو تو کیا طریقہ کار ہے۔ ہمیں آف شور کمپنی کی تشکیل کی مکمل تصویربتائی جائے۔
سکندر بشیر نے بتایا کہ ٹرسٹ بنانا کمپنی خریدنا ایک قانونی طریقہ کارہے، سب سے پہلے ٹرسٹ بنایا جاتا ہے وہ ٹرسٹ پھر آف شور کمپنی خریدتا ہے، ایک بارٹرسٹ بنالیاجائے اس کوختم نہیں کیاجاسکتا، جہانگیرترین کے بچوں میں بھی گھرکاکوئی مالک نہیں ہے۔ عدالت کوٹرسٹ دستاویز اور جہانگیرترین کے بچوں کے گوشوارے بھی دوں گا لیکن یہ پرائیویٹ دستاویز ہیں انھیں پبلک نہ کیاجائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تمام فریقین کو دفاع کا موقع دینا چاہتے ہیں، تکنیکی نکات کو کاروائی میں رکاوٹ نہیں بننے دیں گے، پہلے دن ہی کہا تھا کہ تمام ریکارڈ لایا جائے، ہمیں دکھادیں دستاویزات کو پبلک نہ کرنے کا کوئی استحقاق ہے، عدالت کے ریکارڈ طلب کرنے پر کوئی قدغن نہیں ہے، محکمہ مال کاریکارڈ بھی طلب کیاتھا، نہیں معلوم کہ محکمہ مال کا ریکارڈ بھی مکمل دیا گیا یا نہیں جہانگیر ترین کوبتادیں کہ یہ چیز شفاف اور کھلی عدالت میں ہوگی۔ سکندر بشیر نے جواب دیا کہ دستاویزات متفرق درخواست کے ذریعے جمع کروا دیتا ہوں، کم سے کم وقت میں یہ دستاویزات جمع کروادوں گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے پاس اصل سوال دیانتداری کاہے یہ بتادیں کمپنی کے لیے پیسہ باہر کیسے بھیجا گیا۔
دوران سماعت جسٹس عمرعطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو ہمیں یہ بتانا ہے کہ جہانگیرترین کا کمپنی پرکنٹرول نہیں ہے، ان کی ہدایات کا کمپنی پراطلاق نہیں ہوتا، آف شورکمپنی کوپیسہ کون بھیجتا ہے، کیا کمپنی کے لیے قرض کی ادائیگی جہانگیرترین کرتے ہیں، جواب میں سکندربشیر نے کہا کہ رقم ٹرسٹی کو بھیجی جاتی ہے اور آف شور کمپنی کو بذریعہ ٹرسٹ فنڈنگ جہانگیر ترین کرتے ہیں، جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ عوامی عہدہ دارنے غیر قانونی رقم سے ٹرسٹ بنا لیا ہے، جب کاغذات نامزدگی کا وقت آتا ہے توکہتا ہے یہ میرا اثاثہ نہیں ہے، جس پرجہانگیرترین کے وکیل نے کہا کہ ٹرسٹ نیو جرسی اور انگلینڈ کے قانون کے مطابق بنایا گیا ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ اس طرح کا ٹرسٹ اثاثوں کو چھپانے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ سکندر بشیر نے جواب میں کہا کہ اس کا جہانگیر ترین کو فائدہ کیا ہوگا، جس پر جسٹس عمر عطاء نے کہا کہ فائدہ یہ ہوگا کہ کاغذات نامزدگی میں اثاثہ بنانا نہیں پڑے گا۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ جہانگیرترین نے بچوں کا گھربنایا لیکن وہ بینفیشل مالک نہیں، بچوں کے بجائے جہانگیر ترین نے غیرملکی بینک کے نمائندوں پر اعتبارکیا، بچے صرف گھر میں رہ سکتے ہیں اثاثے کوفروخت نہیں کرسکتے، یہ ساری باتیں سرکے اوپرسے گزررہی ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کمپنی کے لیے رقم کیسے اور کب بھیجی گئی، جس پرسکندر بشیرنے کہا کہ یہ ایون فیلڈزکے اپارٹمنٹ نہیں ہیں، ایون فیلڈ کی کوئی منی ٹریل نہیں آئی، جہانگیرترین نے اپنی قانونی آمدن باہربھجوائی اورساری منی ٹریل دی ہے۔ بچوں کے گوشواروں میں ٹرسٹ اور کمپنی کو ظاہرکیا گیا۔
چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ جہانگیرترین نے کتنی رقم باہربھیجی اوررہائشی اراضی کا رقبہ کتنا ہے، جس پر وکیل سکندر بشیر نے بتایا کہ رہائشی پلاٹ کا رقبہ 12 ایکڑ ہے اوریہ پلاٹ 21 لاکھ پاؤنڈ میں خریدا گیا، گھرکی تعمیر کے لیے 25 لاکھ پاؤنڈ کا معاہدہ کیاگیا، 2011 میں جہانگیرترین نے 25 لاکھ پاؤنڈ بینکنگ چینل سے باہر بھیجے، جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا ٹیکس حکام کو رقم منتقلی تک رسائی تھی، جس کے جواب میں جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ فارن کرنسی اکاؤنٹ کوقانون کے تحت مکمل تحفظ حاصل ہے۔ جہانگیر ترین کے وکیل کے دلائل جاری ہیں تاہم کیس کی مزید سماعت بدھ کو ہوگی۔