پاکستانی ٹیم کی شاندار کارکردگی
پاکستان نے اپنی اصل قوت کو نظرانداز کر کے اسپنرز کے لیے ساز گار وکٹ بنائی
پاکستان میں شارجہ میں کھیلے گئے 5ویں ون ڈے میچ میں سری لنکن کی ٹیم کو شکست دے کر ون ڈے کی سیریز 5-0سے جیت لی تھی۔ یوں پاکستان نے سری لنکا کو وائٹ واش کر دیا۔ ون ڈے سیریز میں پاکستان کے کھلاڑیوں نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا جس کا نتیجہ فتح کی صورت میں نکلا۔ گو اس فتح کے باوجود عالمی رینکنگ میں پاکستان کی پوزیشن میں کوئی فرق نہیں آیا اور وہ بدستور چھٹے نمبر پر ہے لیکن اس سیریز سے پاکستان کے کھلاڑیوں کو خاصا حوصلہ ملا ہے اور وہ مستقبل میں اچھے کھیل کا مظاہرہ کریں گے۔ ون ڈے سیریز میں پاکستان کے بلے بازوں اور باؤلروں نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا اور سری لنکا کو کسی بھی میچ میں اپنے پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ پاکستان کے نوجوان فاسٹ باؤلر حسن علی کو سیریز کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا ہے۔
حسن علی پاکستانی کرکٹ کا روشن ستارہ ہے اور آنے والے وقت میں وہ مزید بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا۔اس سیریز میں محمد عامر فٹ نہ ہونے کی بنا پر کھیل نہیں سکے تھے لیکن ان کی کمی رومان رئیس اور عثمان شنواری نے بہترین انداز میں پر کی ہے۔ دیکھا جائے تو پاکستان کا اصل ٹیلنگ فاسٹ باؤلنگ ہے ۔پاکستان کرکٹ کے پالیسی سازوں کو فاسٹ باؤلنگ کو سامنے رکھ کر ہی اپنی حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے ۔سری لنکا کے خلاف پاکستان کو ٹیسٹ میچوں میں جو شکست ہوئی ہے۔
اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ پاکستان نے اپنی اصل قوت کو نظرانداز کر کے اسپنرز کے لیے ساز گار وکٹ بنائی ۔اس کے بعد حکمت عملی یہ اختیار کی گئی کہ ٹیم میں صرف ایک لیگ اسپنر یاسر شاہ کو کھیلایا گیا۔ٹیسٹ میچوں میں اگر حکمت عملی وکٹ کی صورت حال کو دیکھ کر ترتیب دی جاتی تو پاکستان ٹیسٹ سیریز بھی با آسانی جیت سکتا تھا۔ اگر وکٹ اسپنرز کے لیے ساز گار تھی تو یاسر شاہ کے ساتھ دوسرا ریگولر اسپنر بھی کھیلایا جانا چاہیے تھا لیکن پاکستان نے ایک اسپنر اور تین فاسٹ باؤلر کھیلائے۔ ایک سست وکٹ پر فاسٹ باؤلر کو کھیلانا دراصل ان کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ اگر ٹیسٹ میچ میں سپوٹنگ وکٹ بنائی جاتی تو اس پر پاکستان کے فاسٹ باؤلر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے اور ٹیسٹ میچوں کا نتیجہ مختلف نکلتا۔
حالیہ ون ڈے سیریز میں پاکستان کی حکمت عملی بہترین رہی ہے۔ کپتان سرفراز احمد نے اچھے فیصلے کیے اور ٹیم یکجان ہوکر کھیلی۔بلے بازوں نے بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور جس کا نتیجہ فتح کی صورت میں نکلا۔ ون ڈے سیریز میں بابر اعظم نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا ۔انھوں نے 101رنز کی اوسط سے 303رنز اسکور کیے۔ بابر اعظم ایک اچھا بلے باز ہے' اگر اس نے اپنی فال اور ٹکنیک کو بہتر بنانے کی جدوجہد جاری رکھی تو وہ لمبے عرصے تک پاکستان کی نمایندگی کر سکتا ہے۔ فاسٹ باؤلر حسن علی کے بعد شاداب خان نے اچھی باؤلنگ کی اور انھوں نے سیریز میں دس کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ شاداب خان اچھا اسپنر باؤلر ہے ' اگر ٹیسٹ میچوں میں اسے یاسر شاہ کے ساتھ کھیلایا جاتا تو وہ زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا اور پاکستان کی فتح کا راستہ ہموار ہو سکتا تھا۔ بہرحال جو کچھ ہو گیا ہے وہ ماضی کی داستان بن گیا اب پاکستان کو مستقبل کے لیے فکر کرنی چاہیے۔
کرکٹ کی رونقیں بحال کرنے کے لیے پاکستان میں کرکٹ کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ سری لنکا اور پاکستان کے درمیان ٹی ٹوئنٹی میچ لاہور میں ہو رہا ہے۔ اس طرح پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے کھل رہے ہیں۔ سری لنکا پاکستان کا ایسا دوست ہے جس نے نامساعد حالات میں اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو اس معاملے میں بھرپور محنت کرنی چاہیے۔پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کا بحال ہونا انتہائی ضروری ہے 'اس سلسلے میں کرکٹ کھیلنے والے اہم ممالک کو بھی اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے' اگر بھارت 'ویسٹ انڈیز'ساؤتھ افریقہ اور دیگر ممالک بھی پاکستان میں آ کر کرکٹ کھیلیں تو اس سے کرکٹ کا کھیل عالمی سطح پر مقبول ہو گا۔
حسن علی پاکستانی کرکٹ کا روشن ستارہ ہے اور آنے والے وقت میں وہ مزید بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا۔اس سیریز میں محمد عامر فٹ نہ ہونے کی بنا پر کھیل نہیں سکے تھے لیکن ان کی کمی رومان رئیس اور عثمان شنواری نے بہترین انداز میں پر کی ہے۔ دیکھا جائے تو پاکستان کا اصل ٹیلنگ فاسٹ باؤلنگ ہے ۔پاکستان کرکٹ کے پالیسی سازوں کو فاسٹ باؤلنگ کو سامنے رکھ کر ہی اپنی حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے ۔سری لنکا کے خلاف پاکستان کو ٹیسٹ میچوں میں جو شکست ہوئی ہے۔
اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ پاکستان نے اپنی اصل قوت کو نظرانداز کر کے اسپنرز کے لیے ساز گار وکٹ بنائی ۔اس کے بعد حکمت عملی یہ اختیار کی گئی کہ ٹیم میں صرف ایک لیگ اسپنر یاسر شاہ کو کھیلایا گیا۔ٹیسٹ میچوں میں اگر حکمت عملی وکٹ کی صورت حال کو دیکھ کر ترتیب دی جاتی تو پاکستان ٹیسٹ سیریز بھی با آسانی جیت سکتا تھا۔ اگر وکٹ اسپنرز کے لیے ساز گار تھی تو یاسر شاہ کے ساتھ دوسرا ریگولر اسپنر بھی کھیلایا جانا چاہیے تھا لیکن پاکستان نے ایک اسپنر اور تین فاسٹ باؤلر کھیلائے۔ ایک سست وکٹ پر فاسٹ باؤلر کو کھیلانا دراصل ان کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ اگر ٹیسٹ میچ میں سپوٹنگ وکٹ بنائی جاتی تو اس پر پاکستان کے فاسٹ باؤلر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے اور ٹیسٹ میچوں کا نتیجہ مختلف نکلتا۔
حالیہ ون ڈے سیریز میں پاکستان کی حکمت عملی بہترین رہی ہے۔ کپتان سرفراز احمد نے اچھے فیصلے کیے اور ٹیم یکجان ہوکر کھیلی۔بلے بازوں نے بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور جس کا نتیجہ فتح کی صورت میں نکلا۔ ون ڈے سیریز میں بابر اعظم نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا ۔انھوں نے 101رنز کی اوسط سے 303رنز اسکور کیے۔ بابر اعظم ایک اچھا بلے باز ہے' اگر اس نے اپنی فال اور ٹکنیک کو بہتر بنانے کی جدوجہد جاری رکھی تو وہ لمبے عرصے تک پاکستان کی نمایندگی کر سکتا ہے۔ فاسٹ باؤلر حسن علی کے بعد شاداب خان نے اچھی باؤلنگ کی اور انھوں نے سیریز میں دس کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ شاداب خان اچھا اسپنر باؤلر ہے ' اگر ٹیسٹ میچوں میں اسے یاسر شاہ کے ساتھ کھیلایا جاتا تو وہ زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا اور پاکستان کی فتح کا راستہ ہموار ہو سکتا تھا۔ بہرحال جو کچھ ہو گیا ہے وہ ماضی کی داستان بن گیا اب پاکستان کو مستقبل کے لیے فکر کرنی چاہیے۔
کرکٹ کی رونقیں بحال کرنے کے لیے پاکستان میں کرکٹ کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ سری لنکا اور پاکستان کے درمیان ٹی ٹوئنٹی میچ لاہور میں ہو رہا ہے۔ اس طرح پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے کھل رہے ہیں۔ سری لنکا پاکستان کا ایسا دوست ہے جس نے نامساعد حالات میں اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو اس معاملے میں بھرپور محنت کرنی چاہیے۔پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کا بحال ہونا انتہائی ضروری ہے 'اس سلسلے میں کرکٹ کھیلنے والے اہم ممالک کو بھی اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے' اگر بھارت 'ویسٹ انڈیز'ساؤتھ افریقہ اور دیگر ممالک بھی پاکستان میں آ کر کرکٹ کھیلیں تو اس سے کرکٹ کا کھیل عالمی سطح پر مقبول ہو گا۔